فہرست

عقیدہ عذاب قبر اور مسلک پرستوں کی مغالطہ آرائیاں۔موضوع : ’’ قبر ‘‘

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

إِنَّ الْحَمْدَ لِلَّهِ، نَحْمَدُهُ وَنَسْتَعِينُهُ، مَنْ يَهْدِهِ اللهُ فَلَا مُضِلَّ لَهُ، وَمَنْ يُضْلِلْ فَلَا هَادِيَ لَهُ، وَأَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ، وَأَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ، أَمَّا بَعْدُ

یہ فرقہ پرست اسی دنیاوی قبر کو مرنے کے بعدملنے والے عذاب یا راحت کا مقام قرار دیتے ہیں،اور کہتے ہیں کہ اسے عذاب قبر کہا ہی اس وجہ سے جاتا ہے کہ یہ اسی قبر میں ہوتا ہے،مردہ تودفن ہی یہاں کیا جاتا ہے اور یہی دنیاوی قبر اس کا ٹھکانہ ہے قیامت تک ۔۔۔۔۔۔

اس بات سے توکسی کو انکار نہیں کہ انسانی مدفن کو قبرکہتے ہیں۔جہاں ایک انسان دفنایا جاتا ہے، وہ اس کی قبر ہی کہلاتی ہے۔ لیکن یہ عرفی قبر عذاب و راحت کا مقام نہیں بلکہ یہ توعالم بالا  کا معاملہ ہے جو کہ قرآن و حدیث سے واضح ہے ۔

اس بات کی وضاحت کردینا ضروری ہے کہ ان فرقہ پرستوں کا یہ بھی ایک پُرفریب انداز ہے کہ یہ لوگ ’’ قبر‘‘ کے لغوی معانی پر اصرار کرتے ہیں تاکہ بھولے بھالے لوگوں کو دھوکہ دے سکیں اور اِس طرح اِن کو اپنے عقائدبرقرار رکھنی کی امید ہوتی ہے جس طرح برزخ کے لغوی معنی بیان کر کے انہوں نے لوگوں کو بے وقوف بنایا ہوا تھا لیکن جب قرآن و حدیث سے اس کے معنی بیان کیے گئے تو اصل حقیقت سامنے آگئی۔مگر دورخی دیکھیے کہ جب منکرین حدیث صوم وصلوٰۃ،حج و زکوٰۃ وغیرہ کے لغوی معنی سے اپنا باطل عقیدہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو یہی لوگ ان کی تردید میں اصطلاحی و شرعی معنی پر اصرار کرتے ہیں۔ طرفہ تماشہ دیکھیے کہ جو چیز ’’قبر‘‘ اور ’’برزخ‘ ‘ کی بحث میں ان کی اپنی دلیل بنتی ہے وہی صوم و صلوٰۃ،حج و زکوٰۃ کی بحث میں اپنے حریف کے حق میں باطل ہوجاتی ہے! پہلے لغت حق اور اصطلاح باطل تھی ، اب پرویزیوں کے سامنے اصطلاح حق اور لغت باطل قرار پائی!ایسے دوہرے معیار سے اﷲتعالیٰ نے یہ کہہ کر منع فرمایا ہے کہ

الَّذِيْنَ اِذَا اكْتَالُوْا عَلَى النَّاسِ يَسْتَوْفُوْنَٞۖ۰۰۲وَ اِذَا كَالُوْهُمْ اَوْ وَّ زَنُوْهُمْ يُخْسِرُوْنَؕ۰۰۳اَلَا يَظُنُّ اُولٰٓىِٕكَ اَنَّهُمْ مَّبْعُوْثُوْنَۙ۰۰۴

 [المطففين: 1/4]
’’تباہی ان لوگوں کے لیے جو ناپ تول میں کمی کرتے ہیں؛ جو لوگوں سے ناپ کر لیں تو پورا لیں اور جب اُن کو ناپ کر یا تول کر دیں تو کم دیں۔ کیا یہ لوگ نہیں جانتے کہ اٹھائے بھی جائیں گے (یعنی) ایک بڑے (سخت) دن میں۔‘‘

صحیح بات یہ ہے کہ چاہے قبر ہو یا برزخ، صلوٰۃ ہو یا زکوٰۃ، ان کے جو معنی قرآن و حدیث کے مطابق ہوں، تو وہی ان کے اصطلاحی اور شرعی معنی قرار دئیے جائیں گے اور ماسوا کی کوئی حیثیت نہ ہوگی۔ جس طرح منکرین حدیث نے ان الفاظ کے لغوی معنی بیان کرکے گمراہی پھیلائی ہے ،اسی طرح یہ فرقہ پرست قبر کے لغوی معنی بیان کرکے شدید گمراہی پھیلارہے ہیں اور قبرِ ارضی کو ’’آخری آرامگاہ‘‘ قرار دے کر شرک کی بنیاد فراہم کررہے ہیں۔
صلوٰۃ کے متعدد لغوی معنی ہیں، مثلاً دعا، رحمت، برکت، تعریف، دوڑ میں دوسرے نمبر پر آنے والا گھوڑا،کولھے ہلانا۔ بعض’’ آزاد پسندوں‘‘ نے آخرالذکر معنی لے کر ورزش اور اچھل کودکرنے کو صلوٰۃ کا نام دے دیا ہے۔ کچھ منکرین حدیث اس کے لغوی معنی تسبیح اور دعا مانتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اﷲ سے مانگنے اور صرف اس کی تسبیح بیان کرنے سے ہی صلوٰۃ ادا ہوجاتی ہے۔ پرویز نے اس کے معنی ’’دوڑ میں دوسرے نمبر پر آنے والا گھوڑا ‘‘ لیے ہیں اور اپنے انداز میں اس کی تشریح کی ہے کہ صلوٰۃ دراصل اسلامی نظام کا نام ہے، جس طرح دوسرے نمبر والا گھوڑا پہلے نمبر والے گھوڑے کے پیچھے ہوتا ہے ،اسی طرح انسان کو ریاستی نظام اور حکومت کے احکام کا تابع ہونا چاہیے اور جس نے ان قوانین کی تابعداری کی، اس نے صلوٰۃ ادا کر لی اوراس طرح حکمِ ربی اقیموا الصلوٰۃ کا مطلب ہوا کہ اس طرح کانظام قائم کرو۔کیااہلحدیث یہاں صلوٰۃ کے ان لغوی معانی پر اصرار کریں گے؟ آپ اندازہ لگائیں کہ صلوٰۃ کے اصطلاحی معنی ( کہ یہ ایک مخصوص عبادت ہے جو مسلمین پر فرض ہے اور اس کا ایک مخصوص طریقہ ہے) سے صرف نظر کر کے لوگ کس طرح لغت کی بھول بھلیوں میں گم ہوگئے اور خود بھی گمراہ ہوئے اور نہ جانے کتنوں کو گمراہ کیا۔یہ ساری بحث اس لیے پیش کی گئی ہے تاکہ یہ بات سمجھ میں آجائے کہ دین اسلام میں کسی بھی بات کی تشریح و تفسیر وہ مانی جائے گی جو قرآن و حدیث کے دیئے ہوئے متفقہ عقیدے کے مطابق ہو نہ کہ صرف اس کے لغوی معنی۔ہم صلوٰۃ کے وہی معنی کریں گے جو قرآن و حدیث سے ملتے ہیں کہ’’ فرض طریقہ عبادت‘‘ ،

’’رحمت‘‘، ’’ رحمت کی دعا‘‘۔ بالکل اسی طرح قبر کے بھی وہی معنی لیے جائیں گے جو قرآن و حدیث سے ملتے ہوں۔حدیث میں آتا ہے:

اِنَّمَا مَرَّ رَسُوْلُ اﷲِ ا عَلٰی یَھُوْدِیَّۃٍ یَبْکِی عَلَیْھَا اَھْلُھَا فَقَالَ اِنَّھُمْ لَیَبْکُوْنَ عَلَیْھَا وَ اِنَّھَا لَتُعَذَّبُ فِیْ قَبْرِھَا
(بخاری:کتاب الجنائز،باب قول یعذب المیت ببعض بکاء اھلہ علیہ)


’’نبی ﷺ ایک (فوت شدہ) یہودی عورت کے پاس سے گذرے اس کے گھر والے اس پر رو رہے تھے۔نبیﷺ نے فرمایا کہ یہ لوگ اس پر رو رہے ہیں اور اسے اس کی قبر میں عذاب دیا جارہا ہے‘‘۔

سوچنے کی بات ہے کہ ابھی وہ یہودی عورت اس زمینی،لغوی و عرفی قبر میں دفن بھی نہیں ہوئی اور اس پر عذاب ہونے کا مژدہ سنایا جارہا ہے، اوراس عذاب دیئے جانے کے مقام کا نام ’’ قبر‘‘ بتایاجارہا ہے۔

اس سے ثابت ہوا کہ جہاں کہیں مردے کے دفن کا ذکر ہو تو وہاں اس سے مراد یہی زمینی ، لغوی وعرفی قبر ہے،لیکن جہاں کہیں میت کوجزا و سزادیئے جانے کا بیان ہوتو وہاں ’’ قبر‘‘ کے اصطلاحی و شرعی معنی لیے جائیں گے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ زمینی قبر ہر مرنے والے کو نہیں ملتی لیکن قرآن ہر مرنے والے کو قبردیئے جانے کا اعلان فرماتا ہے۔اﷲتعالیٰ انسان کی تخلیق کو بیان کرنے کے بعد فرماتا ہے:

ثُمَّ اَمَاتَهٗ فَاَقْبَرَهٗۙ

(عبس : 21)

 ’’ پھر اس کو موت دی اور قبر دی‘‘


یعنی جس انسان کوبھی موت ملی ،اس کو قبر ملی۔

اب ذرا غور فرمایئے کہ یہ ارضی، لغوی وعرف عام والی قبر تو بدھ مت و ہندومت کے پیروکارکروڑہا انسانوں،آتش پرست مجوسی و پارسی مذاہب کے ماننے والوں، کمیونسٹ اور سوشلسٹ نظریات کی حامل قوموں کوتوملتی ہی نہیں کیونکہ ان میں مردے دفنانے کے بجائے اپنے اپنے طریقے کے مطابق ٹھکانے لگانے کا رواج ہے۔مختلف عذابات کا شکار ہوجانے والی قوموں کو بھی یہ ارضی قبر نصیب نہیں ہوئی مثلاًنوح علیہ السلام کی قوم کو یہ زمینی قبر نہیں مل سکی کہ طوفان میں ڈوب کرمر گئے(سورۃ نوح:۲۵)۔ لوط علیہ السلام  کی قوم کو بھی نہیں ملی کہ ان پر آسمان سے پتھربرسے اور ہلاک کردیئے گئے (الشعراء: ۱۷۰۔۱۷۳،وغیرہ)۔ موسیٰ علیہ السلام  کے زمانے میں تباہ ہونے والی قوم فرعون کو بھی نہ مل سکی کہ دریا برد ہوگئی (الذٰریٰت:۴۰ وغیرہ)۔ مدین والوں کو اس ارضی قبر میں نہیں دفن کیا گیا بلکہ زلزلے نے ان سب کو ہلاک کرڈالا ( الاعراف:۹۱، وغیرہ)۔ ہودعلیہ السلام کی قوم عاد اس قبر میں دفن نہیں ہوئی بلکہ زوردار آندھیوں نے ان کو نیست ونابودکردیا( احقاف:۲۴،وغیرہ)۔ صالح علیہ السلام کی قومِ ثمود کو یہ قبریں نصیب نہیں ہوئیں بلکہ ایک زوردار چنگھاڑنے انہیں مارڈالا (ھود:۶۷،وغیرہ)۔۔۔نہ جانے کتنی ہی قومیں اس لغوی و عرفی ارضی قبر سے محروم رہیں تو کیا اﷲ کے قانون ثُمَّ أَمَاتَهُ فَأَقْبَرَهُ  کاان قوموں پر اطلاق نہ ہوا؟

 آیئے اس بارے میں ان فرقہ پرستوں کے عقائد کا جائزہ لیتے ہیں۔’’حضرت علامہ مفتی‘‘ جابر دامانوی صاحب قبر کی تعریف بیان کرتے ہیں:

’’وہ گڑھا جس میں مردے کو دفن کرتے ہیں‘‘، ’’ دفن کرنے کی جگہ‘‘ 
(خلاصہ الدین الخالص:صفحہ۴۵)

عذاب القبر کی تشریح اس طرح فرماتے ہیں:

’’عذاب القبر مرکب اضافی ہے، عذاب مضاف اور القبر مضاف الیہ جس کا مطلب ہے ’’قبر کا عذاب‘‘۔یعنی وہ عذاب جو قبر میں ہوتا ہے، اس مرکب ہی سے معلوم ہوتا ہے کہ عذاب قبر میں ہوتا ہے‘‘۔ (ایضاً، صفحہ ۲۱)
’’ میت کو قبر میں دفن کیا جاتا ہے اور یہاں وہ عذاب سے دوچار ہوتی ہے‘‘۔(ایضاً،صفحہ ۳۶) 

انہوں نے قبر کی تشریح وہ جگہ کی ہے جہاں مردے کو دفن کیا جائے۔ ان کے بقول یہی وہ جگہ ہے جہاں مرنے والے کو عذاب دیا جاتا ہے یا وہ راحت سے مستفیض ہوتا ہے۔ان کے عقیدے کے مطابق چونکہ یہ عذاب اسی دنیاوی قبر میں ہوتا ہے اسی لیے اسے عذاب قبر کہا جاتا ہے۔ان اہلحدیثوں کا عقیدہ چونکہ قرآن و حدیث کے مطابق نہیں ،اس لیے حالات کے حوالے سے لمحہ لمحہ میں تبدیل ہوتا رہتاہے جس کی نشاندہی آگے کی جائے گی ۔ مزیدفرماتے ہیں:

’’موت کے بعد سے قیامت کے دن تک جو عذاب اﷲ کے نافرمان بندوں کو دیا جائے گا اسی کا نام عذاب القبر ہے‘‘۔ ( ایضاً،صفحہ ۲۱)

مفتی صاحب نے اس سے قبل فرمایا تھا:

’’یعنی وہ عذاب جو قبر میں ہوتا ہے‘‘اب کہتے ہیں ’’جو موت کے بعد سے دیا جاتا ہے وہ عذاب قبر ہے‘‘ (ملخص)

ان کے دونوں بیان آپ کے سامنے ہیں: ایک طرف کہتے ہیں کہ ’’قبر کا عذاب‘‘ ( یعنی اس زمینی قبر میں دفن ہوجانے کے بعد کا عذاب )،دوسری طرف کہتے ہیں کہ عذاب قبر مرتے ہی شروع ہو جاتا ہے۔ اب کوئی ان سے پوچھے کہ’’ حضرت‘‘ وہ کونسا مردہ ہے جو مرنے کے اگلے لمحے قبر میں اتار دیا جاتا ہو؟

مزید رقم طراز ہیں:

’’ حالانکہ عذاب کا یہ سلسلہ حالت نزع ہی سے جب کہ میت ابھی چارپائی پر ہی ہوتی ہے شروع ہوجاتا ہے‘‘۔ (ایضاً صفحہ ۲۲)

ان کی یہ بات بالکل غلط ہے کہ عذاب کا یہ سلسلہ حالت نزع سے ہی شروع ہو جاتا ہے، اس لیے کہ حالت نزع کی مار پیٹ روح نکالے جانے سے پہلے کی جاتی ہے اور وہ اسی دنیاوی جسم کے ساتھ ہوتی ہے یعنی زندہ کو مارا جاتا ہے جبکہ عذاب قبر صرف مردے کو ہوتا ہے۔حالت نزع روح قبض ہوتے ہی ختم ہوجاتی ہے ،اس کے بعد اس دنیاوی مردہ جسم کو مارنے کا کوئی عقیدہ کتاب اﷲ سے ثابت نہیں۔ قرآن و حدیث کا دیا ہوا عقیدہ یہی ہے کہ عذاب قبر یا راحت قبر کا سلسلہ روح نکلتے ہی عالم برزخ ( جہنم یاجنت)میں شروع ہوتاہے۔یہ قرآن کے اس عقیدے کو کہاں لے جاتے ،اسی لیے مجبوراً قبول تو کرلیا کہ عذاب مرتے ہی شروع ہو جاتا ہے لیکن اس کو اسی دنیاوی جسم سےمنسوب کردیا!بایں ہمہ ان کا عقیدہ ثابت نہیں ہوتا کیونکہ ان کے بقول یہ’’قبر کا عذاب‘‘ہے،’’یعنی وہ عذاب جو قبر میں ہوتا ہے ‘‘، جبکہ مردہ تو ابھی ان کی اصطلاحی معروف قبر میں داخل ہی نہیں ہوا توپھر یہ عذاب قبر کیسے بن گیا؟ 

انہوں نے بڑے ’’عالمانہ‘‘ انداز میں عربی گرائمرکے ابتدائی قواعد کے سہارے اپنے زعم میں بڑا تیر مارا کہ ’’عذاب القبر مرکب اضافی ہے، عذاب مضاف اور القبر مضاف الیہ جس کا مطلب ہے قبر کا عذاب‘‘۔

آئیے ان کے اسی فارمولے کی بنیاد پر ان کے اپنے بیانات سے اس عذاب کی انواع کا تعین کرتے ہیں: ’’عذاب‘‘ مضاف، ’’سریر(چارپائی)‘‘ مضاف الیہ یہ بنا ’’عذاب السریر‘‘ یعنی ’’چار پائی پر ہونے والاعذاب‘‘؛ کوئی ڈوب کے مراتواس کے لیے ہے ’’ عذاب البحر‘‘یعنی ’’ سمندر میں ہونے والا عذاب‘‘؛ کسی کو شیر کھا گیا، اب شیر کے پیٹ میں ہوا ’’ عذاب الاسد‘‘۔۔۔۔۔۔ اپنی جھوٹی بات ثابت کرنے کے لیے کس طرح بچگانہ انداز میں عربی گرائمر کا سہارا لیا گیا تھا، لیکن ان کے اپنے لکھے نے ان کے جھوٹ  کا پول کھول دیا!

اہلحدیث قبر کی ایک نئی تشریح کرتے ہیں :


اہلحدیثوں کا ہر ہر مفتی اور عالم انوکھا ہی ملے گا، اس سے قبل آپ  مفتی جابر دامانوی کی قبر  کے بارے میں پوسٹ پڑھ چکے ہوں گے کہ قبر سے مراد  کھودا ہواگڑھا ہے ، اب ملاحظہ فرمائیے کہ اہلحدیث مفتی دامانوی صاحب اب کس طرح قلابازی کھاتے ہیں:

’’ ۔۔۔لیکن ظاہر ہے کہ اس انسان نے اسی زمین میں رہنا ہے اور قیامت کے دن بھی اسی زمین سے اس نے نکلنا ہے لہذا یہی زمین اس کی قبر اور مستقر ٹھہری۔قرآن کریم میں دو مقامات پر مستودع ( جہاں وہ سونپا جائے گا یعنی قبر) کے الفاظ بھی آئے ہیں۔دیکھئے(الانعام:۹۹اور ھود :۶)بلکہ ایک مقام پر دوٹوک الفاظ میں فرمایا گیا ہے: الم نجعل الارض کفا تا() احیاء و امواتا (مرسلات:۲۵،۲۶) ’’کیا ہم نے زمین کو سمیٹ کر رکھنے والی نہیں بنایا۔ زندوں کے لیے بھی اور مردوں کیلئے بھی۔‘‘ معلوم ہوا کہ انسان زندہ ہو یا مردہ اس نے زمین ہی میں رہنا ہے زندہ اس کی پیٹھ پر زندگی گذارتے ہیں اور مردہ اس کے پیٹ میں رہتے ہیں۔قبر کی اب اس سے زیادہ وضاحت اور تشریح ممکن نہیں ہے‘‘۔ ( عقیدہ عذاب قبر:صفحہ ۶۴،۶۵) 

دیکھیے یہ اہلحدیث ہر ہر بات میں کس کس طرح کروٹ بدلتے ہیں ،اس کی مثال شاید ہی کہیں ملے۔انہی موصوف نے اپنی اسی کتاب میں قبر کی تشریح فرمائی تھی: 

’’وہ گڑھا جس میں مردے کو دفن کرتے ہیں‘‘ ، ’’ دفن کرنے کی جگہ‘‘

اور اب فر ما رہے ہیں کہ

’’قبر کی اب اس سے زیادہ وضاحت اور تشریح ممکن نہیں ہے‘‘۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کسی عذاب سے ہلاک ہونے والی قوم جس کے لیے کسی نے بھی اس عرفی گڑھے کو نہیں کھودا، تو یہ زمین ان کی قبر کیسے بن گئی کیونکہ ان کی اپنی تشریح کے مطابق قبر صرف اس گڑھے کا نام ہے جسے کھود کرکسی کو اس میں دفنایا جاتا ہے؟ اپنی اسی کتاب میں انہوں نے علمی اردو لغت جامع، فیروز اللغات اردو عربی،سورۃ التوبہ:۸۴،فاطر:۲۲،الحج:۷الانفطار:۴،العادیات: ۹،الممتحنہ: ۱۳، عبس :۱ ۲،۲۲،التکاثر:۲، یٰس:۵۱، کے حوالے سے بیان فرمایا تھا: 

’’ اس آیت کے علاوہ سورۃ القمر آیت نمبر ۷ اور سورۃ المعارج آیت نمبر ۴۳ میں بھی اجداث کا لفظ آیا ہے۔اس طرح ان گیارہ مقامات پر قبر کا لفظ اسی معروف قبر کے لیے استعمال ہوا ہے کہ جو زمین میں بنائی جاتی ہے‘‘۔ (عقیدہ عذاب قبر،صفحہ ۴۶)

پھر نبی ﷺکی احادیث پیش کیں کہ: ان کو سجدہ گاہ نہ بنایا جائے، قبر پر کوئی عمارت نہ بنائی جائے اور ان کوزمین کے برابر کردیا جائے۔ ان احادیث کو بنیاد بناتے ہوئے تحریر کیا تھا:

’’ ان احادیث کے مطالعے سے معلوم ہوا کہ قبروں سے مراد یہی ارضی قبریں ہیں ‘‘۔ (ایضاً صفحہ ۴۹)

اب کوئی ان موصوف سے پوچھے کہ’’ حضرت‘‘ اس بات کی وضاحت ضرور فرمادیں کہ’’ قبر‘‘ کی جو تعریف آپ نے پہلے فرمائی تھی وہ جھوٹ تھی یا اس ’’آٹومیٹک قبر‘‘ کا جو بیان اب داغا گیا ہے، یہ جھوٹ ہے؟
جیسا کہ اس سے قبل وضاحت کی جاچکی ہے کہ اس بات سے کسی کو انکار نہیں کہ یہ عرفی ارضی قبریں قبریں ہی ہیں کچھ اورنہیں۔ قرآن و حدیث کے بیان کے مطابق ہم ان کو قبر ہی مانتے ہیں۔ یہ قبرمحض ایک مردہ انسان کی لاش کو چھپانے کے لیے ہے اور اس کا طریقہ خود اﷲ تعالیٰ کا ہی بتایا ہوا ہے :

فَطَوَّعَتْ لَهٗ نَفْسُهٗ قَتْلَ اَخِيْهِ فَقَتَلَهٗ فَاَصْبَحَ مِنَ الْخٰسِرِيْنَ۰۰۳۰فَبَعَثَ اللّٰهُ غُرَابًا يَّبْحَثُ فِي الْاَرْضِ لِيُرِيَهٗ كَيْفَ يُوَارِيْ سَوْءَةَ اَخِيْهِ١ؕ قَالَ يٰوَيْلَتٰۤى اَعَجَزْتُ اَنْ اَكُوْنَ مِثْلَ هٰذَا الْغُرَابِ فَاُوَارِيَ سَوْءَةَ اَخِيْ١ۚ فَاَصْبَحَ مِنَ النّٰدِمِيْنَ

[المائدة: 30-31]
’’ آخر کار اس (قابیل)کے نفس نے اپنے بھائی(ہابیل) کا قتل اس کے لیے آسان کر دیا اور وہ اسے قتل کرکے ان لوگوں میں شامل ہوگیا جو نقصان اٹھانے والے ہیں۔پھر اﷲ نے ایک کوّا بھیجا جو زمین کھودنے لگا تاکہ اسے بتائے کہ اپنے بھائی کی لاش کیسے چھپائے، یہ دیکھ کر وہ کہنے لگا:افسوس مجھ پر، میں اس کوّے جیسا بھی نہ ہوسکا کہ اپنے بھائی کی لاش چھپانے کی تدبیر نکال لیتا، اس کے بعد وہ بہت نادم ہوا‘‘۔


قرآن کی اس آیت سے بالکل واضح ہے کہ یہ زمینی قبر صرف مردہ لاش کو چھپانے کے لیے ہے۔قرآن مجید و احادیث صحیحہ میں کہیں بھی اس دنیاوی زمینی عرفی قبر کو جزا و سزا کا مقام نہیں بیان کیا گیا۔ وہ تو یہ مسلک پرست ہیں کہ قرآن کی معنوی تحریف اور احادیث کی غیر شرعی تاویلات سے اسی کو یہ مقام ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ جزا و سزا کا تعلق صرف جنت  اور جہنم سے ہے جس کے لیے عالم برزخ میں ملنے والے مقام کو’’ قبر‘‘ کے نام سے تعبیر کیا گیا ہے ۔چونکہ سورہ عبس کی مذکورہ آیت کا یہ کھلا انکارتو نہیں کرسکتے تھے ،لہٰذا ماننا پڑا کہ ہر انسان کے لیے قبرکا ملنا لازمی ہے۔ دوسری طرف واضح طور پر دکھائی دیتا ہے کہ یہ ارضی قبر ہر انسان کو نہیں ملتی۔اب ایک یہ صورت تھی کہ کسی طرح یہ ارضی قبر ہرانسان کو ملنا دکھادیا جائے۔ اس کے لیے منطقی چالوں اور جس فنی مہارت کی ضرورت تھی وہ ان اہلحدیثوں میں بدرجہ اتم موجود ہے ،لہٰذا اب قبر کی کچھ نئی تعریفیں بھی بیان کی جانے لگیں جو اس سے قبل بیان کی گئی قبر کی تعریفوں سے بالکل مختلف ہیں۔ پہلے کھودے جانے والی جگہ قبر تھی، اب اس کے لیے کھودنے کی شرط بھی ختم کردی گئی۔ یہ کارنامہ بھی’’حضرت علامہ خاکی جان دامانوی صاحب‘‘ کے حصے میں آیا :

’’ اقبرہ کا مطلب ’’اس کو قبر میں رکھوادیا‘‘ اقبر اقبار سے جس کے معنی قبر میں رکھنے اور رکھوانے کے ہیں۔ماضی کا صیغہ واحد مذکر غائب ہ ضمیر واحد مذکر غائب ہے( لغات القرآن ج ۱ ص ۱۸۳)۔( عقیدہ عذاب قبر،صفحہ ۴۷)

اب غالباً اقبرہ کے معنی بھی بدل گئے اور قبر میں رکھوائے جانے کی یہ شرط بھی ختم ہوگئی!الغرض قرآن کی آیات اور احادیث صحیحہ سے جس قبر کی وضاحت کی جارہی تھی، کیاوہ یہی قبر ہے جو انہوں نے گھڑی ہے؟ کس نے کھودیں یہ قبریں اور کون ان میں دفنایا گیا؟ فرشتے ان سے سوال کرنے کس وقت آئے ؟۔۔۔۔۔۔ان کے عقیدے کے مطابق تو یہ مردہ لاشیں جوتیوں کی آواز بھی سنتی ہیں تو ان میں دفن ہونے والوں نے کب اورکن کی جوتیوں کی آواز سنی ؟ ان کی روحیں کب لوٹائی جاتی ہیں؟عذاب دینے والا فرشتہ تو گرز لیے کھڑا رہا ہوگا کہ کب یہ مٹی میں مل کر مٹی بنیں ،کب           ان کی’’آٹو میٹک قبر‘‘ بنے اور کب میں ان کو عذاب دوں! یہ سب کچھ ہوجانے کے باوجود وہ مردے تو پھر بھی بچ نکلے جن کے جسم اس زمین میں گئے ہی نہیں جیسے آل فرعون کیونکہ ان کے دنیاوی جسم تو حنوط کرکے عجائب گھر کی زینت بنادئیے گئے ہیں! اہلحدیث مسلک پرست یقیناًاس بات کی وضاحت فرمائیں گے کہ ان فرعونیوں کی قبریں کہاں بنی ہیں؟ کیا ثم اماتہ فاقبرہ کے قانونِ الٰہی کا ان پراطلاق نہیں ہوا؟ اس حکم کے نفاذ میں کیا

کسی ایک کا بھی کوئی استثناء ہے؟ 
واضح ہوا کہ ان کے اس خود ساختہ عقیدے کی بنیاد محض منطق ہی ہے ،ورنہ خود ان کا اپنا لکھا ہوا اس کے برعکس ہے۔ہم نے ابتداء ہی میں اس بات کو واضح کردیا تھا کہ قبر کے بارے میں ان اہلحدیثوں کے عقائد بار بار بدلتے رہتے ہیں جس کی صرف ایک ہی وجہ ہے، وہ یہ کہ اگر ایک بات قرآن سے ثابت ہوگی تو وہ کبھی بھی نہیں تبدیل ہوگی ،لیکن وہ عقائد جن کی بنیاد محض مسلک پرستی ہوتواسی طرح لمحہ بہ لمحہ تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔ 
ان کا یہ کہنا کہ سورہ الانعام اور ھود میں مستودع آیا ہے جس کا مطلب ہے سونپے جانے والی جگہ، اسی طرح سورۂ مرسلات میں فرمایا گیا ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے اس زمین کو زندوں اور مردوں کو سمیٹنے والا بنایا ہے، تو یہ سورہ طٰہٰ کی آیت کی ہی تشریح ہے کہ

مِنْهَا خَلَقْنٰكُمْ وَ فِيْهَا نُعِيْدُكُمْ وَ مِنْهَا نُخْرِجُكُمْ تَارَةً اُخْرٰى۰۰۵۵

 [طه: 55]
’’اسی سے ہم نے تم کو پیدا کیا ہے،اسی میں ہم تم کولوٹائیں گے اور اسی سے ہم تم کو نکالیں گے‘‘

مذکورہ آیات میں کسی قبر اور اس میں ملنے والے کسی عذاب یا راحت کا توکوئی ذکر ہی نہیں۔
موصوف کی مزید خامہ فرسائی ملاحظہ فرمائیں:

’’ البتہ جو لوگ جل کر راکھ ہوگئے یا فضلہ بن گئے تو وہ بھی آخر کار اپنی زمین والی قبر میں داخل ہو کر رہیں گے۔جیسا کہ قرآن کریم سے ثابت ہوچکا ہے‘‘۔ (عقیدہ عذاب قبر،صفحہ ۷۸)

کیسا کھلا دھوکہ دیا ہے کہ’’ قرآن سے ثابت ہو چکا ہے‘‘

حالانکہ قرآن میں ہر گز اس طرح کے کسی مقام کو قبر نہیں کہاگیابلکہ یہ صرف شیطان کا بہکاوا ہے کہ ان کو ہر چیز قبر دکھائی دے رہی ہے اور وہ بھی قرآن سے ’’ثابت‘‘! ذرا ہمیں بھی تو جل کر راکھ بنی  ہوئی یا فضلہ بنی ہوئی  لاش کی’’زمین والی قبر‘‘ دکھلائیں۔

ھاتوبرھانکم ان کنتم صادقین


ایک طرف تو ان مفتی صاحب نے ایک نئی قسم کی قبر کا عقیدہ دیا اور دوسری طرف ایک دوسرے مفتی صاحب یوں فرماتے ہیں:

’’ قاعدہ کلیہ کے طور پر یہی بات کہی جاسکتی ہے کہ انسان مرنے کے بعد قبر میں دفن ہوتا ہے۔ اگر آل فرعون یا قومِ نوح غرق ہو گئے یا اہل سبا پر سیلاب آیا یا دنیا بھر سے ایک قوم(ہندو) اپنے مردے کو دفن کرنے کے بجائے جلادیتی ہے تو یہ سب باتیں مستثنیات میں شمار ہوں گی، اور آج اگر کوئی چاہے توخود یہ اندازہ کرسکتا ہے کہ قبر میں دفن ہونے والوں کی تعداد ڈوبنے یا جلنے والوں کی تعداد سے بہت زیادہ ہے۔ لہٰذا عام قاعدہ کے طور پر جو بات کہی جاسکتی ہے وہ یہی ہے کہ’’ ثمّ اماتہ فاقبرہ‘‘ باقی سب استثناء کی صورتیں ہیں‘‘۔(روح،عذاب قبراور سماع موتیٰ،از عبد الرحمن کیلانی، صفحہ ۷۳) 

ملاحظہ فرمایا کہ ایک اہلحدیث آٹومیٹک قبریں بنوا کر اس آیت کی تشریح کررہا ہے اور دوسرا اہلحدیث اس قبر کے نہ ملنے والے معاملے کو استثنائی صورت بیان کرتا ہے! کاش یہ دونوں اہلحدیث قرآن و حدیث کے دئیے ہوئے متفقہ عقیدے کو مان لیتے تو نہ ان کا آپس میں اس طرح تضادواختلاف ہوتا اور نہ ہی رسوائی ان کے فرقے کی مقدر بنتی۔ بل کذّبوا با لحقّ لمّا جاءھم فھم فی امر مریج


سابقہ پوسٹ کے حوالے سے ان کا یہ کہنا کہ یہ استثنائی معاملہ ہے ،کھلا دھوکہ ہے۔ مرنے کے بعد کی جزا و سزا کے جتنے بھی واقعا ت قرآن مجید میں بیان کیے گئے ہیں ،ان میں سے کسی میں بھی اس ارضی قبر میں جزا و سزا کا تصور نہیں ملتا۔حیرت کی بات ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے قرآن کریم میں سارے کے سارے استثنائی معاملات بیان فرما دئیے مگر وہ قاعدہ کلیہ کہیں بھی بیان نہ فرمایا جو آج ان اہلحدیثوں کے ایمان کی بنیاد بنا ہوا ہے!

قاعدہ کلیہ اس بات کو کہتے ہیں جو تمام انسانوں کے لیے یکساں ہو اور استثناء اسے کہا جاتا ہے جو اس قانون سے ہٹ کر قرآن و حدیث میں بیان کیا گیا ہو۔ اگر قرآن مجید میں مرنے کے بعد کی جزا و سزا کے بے شمار واقعات بیان کیے گئے ہوتے اور ان میں اسی ارضی قبر میں جزا وسزا کا تصور دیا گیا ہوتا تو وہ ایک قاعدہ کلیہ سمجھا جاتا ،اورفی الحال بیان کیے گئے متعدد قوموں کے واقعات پھر استثناء قرار پاتے،لیکن حیرت علم کے ان نام نہاد پہاڑوں اور سمندروں پر ہے کہ صرف یہی چند واقعات ہی توقرآن میں ملتے ہیں اور انہی کوانہوں نے استثناء قرار دے ڈالا! اس کا مطلب ہوا کہ قرآن میں مرنے کے بعد کی جزا و سزا کا قانون بیان ہی نہیں کیا گیا، جو کچھ ہے وہ محض استثنائی ہے!


مزید فرماتے ہیں کہ دنیا بھر سے ایک قوم ہندو اپنے مردے جلادیتی ہے، اور یہ استثناء ہے، یہ بھی فرماتے ہیں کہ گنتی کر لی جائے کہ کس کی تعداد زیادہ ہے۔ دراصل یہ فرقہ وارانہ تعصب ہے ورنہ اﷲ نے تو ہر چیز کھول کھول کر بیان کردی ہے۔اگر یہ قرآن کا کلیہ مان لیں کہ مرنے والے کی روح (عالم برزخ میں) روک لی گئی ہے، اب عذاب و راحت کا معاملہ قیامت تک وہیں ہوگا، تو انہیں اِدھراُدھر بھٹکنے، متضاد باتیں بنانے اور مستثنیات کے چکر میں پھنسنے کی ضرورت نہ پڑے۔ان کی علمیت کے دعوے تو بڑے ہیں لیکن نام نہاد اہلحدیث علماء یہ بھی نہیں جانتے کہ اسلام میں کسی بھی چیز کی بنیاد اکثریت و جمہوریت نہیں بلکہ اﷲ تعالیٰ کی طرف سے نازل کردہ طریقہ کار ہے۔ ہمارا ایمان تواسی پر ہے۔ لیکن پھر بھی اگر بات شماریات کی ہی ہے تو دنیاکا سب سے بڑا ملک چین ہے جہاں مردوں کودفنایا نہیں جاتا؛ دوسرے نمبر پر بھارت کی اکثریت ہندؤں پر مشتمل ہے جو اپنے مردوں کو  نذرآتش کردیتے ہیں؛ سری لنکا ،جاپان اور مشرق بعید کے کروڑوں افراد جو بدھ مت کے ماننے والے ہیں،اپنے مردے دفنائے بغیر ٹھکانے لگادیتے ہیں؛پھر کمیونسٹ وسوشلسٹ ممالک کے کروڑوں افراد میں بھی تدفین کا طریقہ نہیں ۔۔۔۔۔۔ کیا اتنی بڑی تعداد بھی استثنائی کہلائےگی؟کیا ان قوموں کے لیے عذاب قبر مؤخر کردیا گیا ہے؟ گویا کہ پھنسے تو بے چارے وہی پھنسے جو اﷲ تعالیٰ کے سکھائے ہوئے طریقے کے مطابق اپنے مردے دفناتے رہے اور وہ صاف چھوٹ گئے جوقبروں سے دور رہے! 


کیا نبی ﷺنے اسی قبر کے لیے واضح یقین دہانی فرمائی ہے؟

رجسٹرڈجماعت المسلمین والے فرماتے ہیں:
’’غور فرمائیے کہ اﷲ کے رسول ؐ نے صحابہ سے ارشاد نہیں فرمایا’’ تم دفن تو اس ارضی قبرمیں کرنا، مردوں کو عذاب کسی فرضی قبر میں ہوتا ہے۔‘‘ بلکہ واضح طور پر یقین دہانی کرادی کہ عذاب اسی قبر میں ہوتا ہے جس میں مردوں کو دفنایا جاتا ہے لیکن ساری زندگی رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ و سلم نے کبھی کسی اور قبر کا ذکر ہی کیا اشارہ تک نہیں کیا اور نہ ہی صحابہؓ میں سے کسی ایک نے پوچھا کہ ان مردوں کا کیا بنے گا جو دفن نہیں کئے جاتے درندے جنکو لقمہ تر بنالیتے ہیں یا جن کو جلا دیا جاتا ہے‘‘۔ ( ارضی قبر یا فرضی قبر)


ایسی باتوں کی بنیاد محض جہالت اور قرآن فہمی کی بصیرت سے محرومی ہے۔ کتاب اﷲ میں رحمت، دعا اور ادائیگی صلوٰۃ کے لیے ایک ہی لفظ ’’ صلوٰۃ‘‘ استعمال ہوا ہے؛ کبھی کسی صحابی ؓ نے یہ نہیں پوچھا کہ یہاں صلوٰۃ کے کونسے معنی ہیں ؟ بلکہ قرآن وحدیث میں جہاں بھی لفظ صلوٰۃ آتا ہے، اس کے نفس مضمون سے اس کے معنی خود واضح ہوجاتے ہیں۔اسی طرح جہاں کہیں کسی کی تدفین یاقبر پر کسی کام کے منع کرنے کا حکم آتا ہے ،تو وہاں اس سے مراد یہ دنیاوی قبریں ہی ہیں، لیکن جہاں کہیں جزا وسزا کی بات بیان کی جاتی ہے تو اس سے مراد عالم برزخ ہی ہوتا ہے جس کی تفصیل بیان کی جاچکی ہے۔اب صحابہؓ نعوذباﷲان رجسٹرڈ جماعت المسلمین والوں کی طرح دین کی بصیرت سے محروم تو نہ تھے کہ قبر کے ہر ہر تذکرے پر سوال کرتے کہ یا رسول اﷲا یہ کونسی قبر ہے؟ ان کے سامنے تو قرآن کے بیان کردہ واضح ثبوت موجود تھے، یہی وجہ ہے کہ جب نبیﷺ نے وفات پا جانے والی یہودی عورت پر سے گذرتے ہوئے فرمایا :

’’یہ اس پر رو رہے ہیں اور یہ اپنی قبر میں عذاب دی جارہی ہے‘‘


تو صحابہ ؓ میں سے کسی نے بھی سوال نہیں کیا کہ یہ کونسی قبر ہے کہ ابھی تو یہ دفن بھی نہیں ہوئی اور آپ فرمارہے ہیں کہ یہ اپنی قبر میں عذاب دی جارہی ہے؟نبی ﷺنے اپنے صاحبزادے کے لیے فرمایا :

’’جنت میں اس کے لیے دودھ پلانے والی ہے‘‘


صحابہؓ  میں سے کسی نے نہیں پوچھا کہ یا رسول اﷲصلی اللہ علیہ و سلم آپ نے تو انہیں یہاں زمین میں دفن کیا تھا، پھر انہیں جنت میں کیسے جزا دی جارہی ہے؟ ثابت ہوا کہ ان کا یہ کہنا کہ

’’تم دفن تو اس ارضی قبرمیں کرنا ،مردوں کو عذاب کسی فرضی قبر میں ہوتا ہے‘‘


قرآن و حدیث کے بتائے ہوئے طریقے کا انکار اور اپنے خود ساختہ عقیدے کا دفاع ہے۔اور صحابہ ؓ کے طرزعمل سے بظاہر استدلال کرنا اور اس کو بطور بنیاد پیش کرنا بھی ان کا ایک فریب ہے ورنہ انہیں صحابہ ؓ سے کیا نسبت؟صحابہ حقیقی مسلم تھے، ان کی طرح محض نام کے نہیں؛ جو اﷲکی بارگاہ میں مسلم رجسٹرڈ ہوئے تھے ، مشرکانہ عقائد رکھنے والے طواغیت کے یہاں نہیں ۔۔۔۔۔۔پھرنبی ﷺسے جھوٹ منسوب کرنے کی جسارت کرتے ہیں کہ:

’’بلکہ واضح طور پر یقین دہانی کرادی کہ عذاب اسی قبر میں ہوتا ہے جس میں مردوں کو دفنایا جاتا ہے‘‘۔ 


اب کوئی ان سے پوچھے کہ اس دنیاوی قبرمیں عذاب و راحت کی یقین دہانی ہے کہاں؟ذرا کوئی حوالہ تو دیں۔البتہ جنت  اور جہنم  میں اس جزا یا سزا کی زبانِ نبوت نے بارہا یقین دہانی کرائی۔ ملاحظہ فرمایئے کہ درج ذیل احادیث میں نبی ﷺ نے کتنے واضح انداز میں یہ’’ یقین دہانیاں‘‘ کرائی ہیں:


* مسجد نبوی کی تعمیر کے موقع پر وہاں موجود مشرکین کی قبریں نبیﷺ کے حکم پر کھود دی گئیں۔

(بخاری:کتاب الصلوٰۃ، باب ھل ینبش قبورمشرکی الجاہلیۃ۔۔۔)

کیا رسول اﷲا اس سے بھی بڑھ کر کوئی’’ یقین دہانی‘‘ کراسکتے تھے؟


 اﷲ و رسول ﷺکے دشمن امیہ بن خلف کی لاش جس کے ٹکڑے ہوگئے تھے، یوں ہی زمین پر چھوڑ دی گئی اور اسے قبر میں دفن نہیں کیا۔
(بخاری:کتاب مناقب الانصار، باب ما لقی النبی ا و اصحابہ من المشرکین بمکۃ)


 مرتد کاتب وحی کی لاش زمین نے دوبار دفن کرنے کے باوجود اگل دی، لیکن نبی ﷺ نے دوبارہ اسے قبر میں دفن کرنے کا حکم نہیں دیا۔
(بخاری:کتاب المناقب، علامات النبوۃ فی الاسلام، عن انس ؓ)


یہودی عورت اس زمینی قبر میں دفن نہیں ہوئی لیکن نبی ﷺ اس کے لیے قبر میں عذاب میں ہونے کا بیان فرماتے ہیں۔
(بخاری:کتاب الجنائز، باب قول النبی یعذب المیت ببعض بکاء اھلہ علیہ)

نبی ﷺ نے اپنے صاحب زادے کو زمینی قبر میں دفن کیا اور جنت میں ان کی جزا کا بیان فرمایا۔ 
(بخاری:کتاب الجنائز، باب ما قیل فی اولاد المسلمین)


بتایئے اور کتنی ’’یقین دہانیاں ‘‘کراتے نبی ﷺ!قرآن وحدیث کی اتنی صریح وضاحت کے بعد تو کسی بھی شک کی گنجائش نہیں رہتی۔

فبای حدیث بعدہ یومنون 
کاش کہ یہ فرقہ پرست اپنی آنکھوں سے فرقہ اور مسلک پرستی کی عینک اتار دیں تاکہ راہ راست پاسکیں۔ سب کچھ دیکھ لینے اور پڑھ لینے کے بعد بھی اگر کوئی اندھا بنا رہے اور یہی کہتا رہے کہ

’’ساری زندگی رسول اﷲﷺنے کبھی کسی اورقبر کا ذکرہی کیا اشارہ تک نہیں کیا‘‘


تو اس میں عذاب دینے والے فرشتے کا کیا قصور۔ یہ لوگ اپنے دل کو مطمئن انہی جھوٹی تسلیوں پر کیے ہوئے ہیں کہ نبی ﷺ نے کسی اور قبر کی طرف اشارہ بھی نہیں کیا، حالانکہ قرآن و حدیث کا بیان واضح ہے۔ یہ نبی ﷺکی تعلیمات ہی تھیں کہ صحابہ کرام  ؓاپنے مُردوں کو دفناتے اسی دنیاوی ارضی قبر میں تھے لیکن اسے عذاب و راحت کا مقام نہیں سمجھتے تھے۔ملاحظہ فرمائیے:


عَنْ اَنَسٍ قَالَ لَمَّا ثَقُلَ النَّبِیُّ ﷺ جَعَلَ یَتَغَشَّاہُ فَقَالَتْ فَاطِمَۃُ رَضِیَ اﷲُ عَنْھَا وَاکَرْبَ اَبَاہُ فَقَالَ لَھَا لَیْسَ عَلٰی اَبِیْکِ کَرْبٌ بَعْدَ الْیَوْمِ فَلَمَّا مَاتَ قَالَتْ یَا اَبَتَاہُ اَجَابَ رَبًّا دَعَاہُ یَااَبَتَاہُ مَنْ جَنَّۃُ الْفِرْدَوْسِ مَاْوَاہُ یَا اَبَتَاہُ اِلٰی جِبْرَءِیْلَ نَنْعَاہُ فَلَمَّا دُفِنَ قَالَتْ فَاطِمَۃُ رَضِیَ اﷲُ عَنَھَا یَا اَنَسُ اَطَابَتْ اَنْفُسُکُمْ اَنْ تَحْثُوْا عَلٰی رَسُوْلِ اﷲِ ا التُّرَابَ
(بخاری:کتاب المغازی، باب مرض النبی صلی اللہ علیہ و سلم و و فاتہ) 
’’ انس بن مالک ؓ سے روایت ہے کہ نبیﷺ مرض کی شدت کی وجہ سے بیہوش ہو گئے۔فاطمہ ؓ کہنے لگیں افسوس میرے والد کو کتنی تکلیف ہے۔ نبیﷺنے فرمایا آج کے بعد نہیں ہو گی۔ پھر جب نبی ﷺ کی وفات ہو ئی تو فاطمہؓ نے کہا: اے ابا جان! آپ اپنے رب کے بلاوے پر چلے گئے، اے ابا جان! جنت الفردوس  ہی آپ کا مقام ہے۔ ، ہم جبریل کو آپ کی وفات کی خبر سناتے ہیں۔ اور جب تدفین ہوگئی تو انہوں نے کہا اے انس! تم نے کیسے گوارا کر لیا کہ نبی ﷺ کو مٹی میں چھپا دو‘‘۔


کس قدر وضاحت موجود ہے اس روایت میں کہ ابھی نبی ﷺ کی وفات ہوئی ہے، آپ کی میت ابھی سامنے ہی موجود ہے ، فاطمہ ؓ گمان کر تی ہیں کہ ابھی جبریل کو بھی نبیﷺکی وفات کا علم نہ ہوا ہوگا اور عقیدہ یہ ہے کہ آپ ا اﷲ کے بلاوے پر اﷲ تعالیٰ کے پاس چلے گئے،جنت الفردوس میں اپنے مقام پر چلے گئے۔ یعنی صحابہؓ کا یہ عقیدہ تھا کہ نبی ﷺ کو وفات کے بعد ملنے والی جزا کا مقام یہ دنیاوی ارضی قبر نہیں بلکہ جنت الفردوس ہے۔ لہٰذا وہ لوگ غلطی پر ہیں جو یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ نبی ﷺوفات کے بعداپنی مدینے والی قبر میں ہی قیام پذیرہیں اور وہاں پر پڑھا جانے والا درود خود سنتے ہیں، سلام سنتے ہیں، جواب دیتے ہیں، مصافحہ کرتے ہیں ۔۔۔۔۔۔


مزید یہ کہ نبیﷺ نے وفات سے قبل فاطمہ ؓسے فرمایا:


۔۔۔اَنِّیْ اَوَّلُ اَھْلِہٖ یَتْبَعُہٗ


’’۔۔۔ کہ میرے گھر والوں میں سے سب سے پہلے تم مجھ سے ملوگی‘‘۔
(بخاری۔کتاب المغازی۔باب مرض النبی ﷺ و وفاتہ)


اپنی ازواج سے فرمایا :


اَسْرَعُکُنَّ لَحَاقًا بِیَ اَطْوَلُکُنَّ یَدًا
(مسلم:کتاب الفضائل،فضائل زینب رضی اﷲ)
’’۔۔۔ تم میں سب سے پہلے مجھ سے وہ ملے گی جس کے ہاتھ زیادہ لمبے ہیں (یعنی جوصدقہ و خیرات زیادہ کرنے والی ہو جو کہ زینبؓ ثابت ہوئیں)‘‘۔


بتائیے کہ کیا فاطمہ و زینب رضی اللہ عنہما ،نبیﷺ کی اس مدینہ والی قبر میں دفن کی گئی ہیں یا وہ جنت میں نبیﷺسے ملی ہوں گی۔اب یہ مسلک پرست جواب دیں کہ اس بارے میں صحابہ کرام ؓ کا کیا عقیدہ تھا؟ صحابہ کرام ؓ جنہوں نے نبی ﷺکے اس فرمان کو روایت کیاہے،کو کیا معلوم نہیں تھا کہ نبیﷺ نے فاطمہؓ کہ لیے فرمایا ہے کہ گھر والوں میں سب سے پہلے وہ ان سے ملیں گی ؟اسی طرح زینبؓ کے متعلق مذکورہ فرمان کا بھی ان کو علم تھا۔ اگر (نعوذباﷲ من ذالک) ان کا عقیدہ یہ ہوتا کہ اسی دنیاوی ارضی قبر میں ہی میت کا قیام ہمیشہ رہتاہے اور یہیں اسے سب کچھ ملتا ہے توکیا و ہ ان کی تدفین نبی ﷺسے دورکرکے فرمانِ رسالت کی خلاف ورزی کرنے کی جسارت کرتے؟قرآن و حدیث کا علم تو ان مسلک پرستوں کو چھو کر

 نہیں گزرا ،محض لوگوں کو گمراہ کرنے کے لیے ہانک لگا دی کہ

’’غور فرمائیے کہ اﷲ کے رسول ؐ نے صحابہ سے ارشاد نہیں فرمایا’’ تم دفن تو اس ارضی قبرمیں کرنا، مردوں کو عذاب کسی فرضی قبر میں ہوتا ہے‘‘۔ 

یخٰدعون (یہ فریب دیتے ہیں ):

عقیدہ عذاب قبر کے بارے میں  اب تک آپ فرقہ پرستوں کے قرآن میں معنوی تحریف کے انداز تو دیکھتے ہی چلے آئے ہیں اب ذرا دھوکہ دہی کا یہ انداز بھی دیکھیں۔فرقہ اہلحدیث کے معروف عالم قاری  خلیل الرحمن صاحب فرماتے ہیں :

’’ الیوم تجزون عذاب الھون ( آج کے دن تم توہین آمیز عذاب کی طرف دھکیلے جاؤگے) کے الفاظ اس بات کا واضح ثبوت ہیں کہ جزا و سزا کا سلسلہ مرتے ہی قبر میں شروع ہوجاتا ہے چونکہ جنت اور دوزخ میں داخلہ قیامت کے دن حساب و کتاب کے بعد ہوگا اس لیے کافر میت سے روح نکالنے والے فرشتوں کا یہ کہنا کہ آج ہی ذلت والے عذاب کی طرف منتقل کیے جاؤگے عذاب قبر پر واضح دلیل ہے‘‘۔ ( پہلا زینہ، از قاری خلیل الرحمن، صفحہ ۳۷)

خود ہی لکھا ،خود ہی پڑھا، خود ہی سمجھا ،اور خود ہی اسے دلیل بھی بنالیا۔ قرآن کی اس آیت کی یہ تشریح انہوں نے کس بنیاد پر کی ہے؟اپنے اکابرین کے لکھے کو چاٹتے رہیں گے تو قرآنی آیات کی اس سے بھی زیادہ گمراہ کن تشریح کریں گے ۔اگرچہ اس آیت میں قبر کا کوئی لفظ ہی نہیں ، لیکن کس انداز میں اس کی تشریح فرمادی کہ’’۔۔۔الفاظ اس بات کا واضح ثبوت ہیں کہ جزا و سزا کا سلسلہ مرتے ہی قبر میں شروع ہوجاتا ہے ‘‘۔بہت اچھا استعمال کیا ہے انہوں نے قرآنی آیات کا! موصوف نے پوری بات بیان نہیں فرمائی،اس لیے کہ اگر بات پوری بیان کردی جائے تو پھر دجل و فریب کی گنجائش نہیں رہتی۔ ملاحظہ فرمائیں سورہ انعام کی یہ آیات:

ؕ وَ لَوْ تَرٰۤى اِذِ الظّٰلِمُوْنَ فِيْ غَمَرٰتِ الْمَوْتِ وَ الْمَلٰٓىِٕكَةُ بَاسِطُوْۤا اَيْدِيْهِمْ١ۚ اَخْرِجُوْۤا اَنْفُسَكُمْ١ؕ اَلْيَوْمَ تُجْزَوْنَ عَذَابَ الْهُوْنِ بِمَا كُنْتُمْ تَقُوْلُوْنَ عَلَى اللّٰهِ غَيْرَ الْحَقِّ وَ كُنْتُمْ عَنْ اٰيٰتِهٖ تَسْتَكْبِرُوْنَ۠۝وَ لَقَدْ جِئْتُمُوْنَا فُرَادٰى كَمَا خَلَقْنٰكُمْ اَوَّلَ مَرَّةٍ وَّ تَرَكْتُمْ مَّا خَوَّلْنٰكُمْ وَرَآءَ ظُهُوْرِكُمْ١ۚ وَ مَا نَرٰى مَعَكُمْ شُفَعَآءَكُمُ الَّذِيْنَ زَعَمْتُمْ اَنَّهُمْ فِيْكُمْ شُرَكٰٓؤُا١ؕ لَقَدْ تَّقَطَّعَ بَيْنَكُمْ وَ ضَلَّ عَنْكُمْ مَّا كُنْتُمْ تَزْعُمُوْنَؒ۰۰۹۴

(الانعام: 93/94)

’’کاش تم ظالموں کواس حالت میں دیکھ سکو جب کہ وہ سکرات موت میں ہوتے ہیں اور فرشتے ہاتھ بڑھا بڑھا کر کہہ رہے ہوتے ہیں نکالو اپنی جانوں کو،آج تمہیں ان باتوں کی پاداش میں ذلت کا عذاب دیا جائے گا جو تم اﷲپرتہمت رکھ کر ناحق کہا کرتے تھے اور اس کی آیات کے مقابلے میں سرکشی دکھاتے تھے۔اور تم تن تنہا پہنچ گئے ہمارے پاس جیسا کہ ہم نے تمہیں پہلی بار پیدا کیا تھا اور چھوڑ آئے ہو اپنی پیٹھ پیچھے جو کچھ ہم نے تم کو عطاکیا تھا‘‘۔

پہلی آیت میں بتایا گیا کہ فرشتے روح قبض کرتے وقت ہی کافروں کو، اس فوری ملنے والے عذاب کا مژدہ سنادیتے ہیں۔ یہ مردہ اب قیامت تک کا یہ دور کہاں گذارے گااور کہاں اسے عذاب ہوگا ،اگلی ہی آیت میں اس کی تشریح ملتی ہے ۔ ربِ کائنات فرماتا ہے کہ تم تنہا اس ساری دنیا کو اپنی پیٹھ پیچھے چھوڑ کر ہمارے پاس پہنچ گئے۔یہ مردہ اب اﷲ کے پاس پہنچ گیا ہے، اس دنیا سے دور  ایک دوسرے عالم میں جہاں اب اس کو قیامت تک رہنا ہے۔ اب معاملہ راحت کا ہو یا عذاب کاوہاں ہی سب کچھ ملے گا۔ انسان کی روح قبض ہوتے ہی اسکی آخرت شروع ہو جاتی ہے اور آخرت کے معاملہ کا تعلق اس زمین سے نہیں بلکہ آسمانوں سے  ہے۔ 

قرآن کے اس فیصلے کے برخلاف اہلحدیث عقیدہ دیتے ہیں کہ

’’(آج کے دن تم توہین آمیز عذاب کی طرف دھکیلے جاؤگے) کے الفاظ اس بات کا واضح ثبوت ہیں کہ جزا و سزا کا سلسلہ مرتے ہی قبر میں شروع ہوجاتا ہے‘‘۔


انہوں نے سورہ انعام کی آیت ۹۳ پیش کرکے اس کی من مانی تشریح تو بیان کردی لیکن انہیں آیت ۹۴ نہیں دکھائی دی جس میں انہیں اس بات کی مکمل وضاحت مل جاتی کہ مرنے کے بعد یہ مردہ کہاں پہنچ جاتا ہے؟

مرتے ساتھ ہی انسان اﷲ کے پاس جاتا ہے یا اس دنیاوی قبر میں دفنادیا جاتا ہے؟

اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے تم ہمارے پاس پہنچ گئے۔ یہ کہتے ہیں کہ قبر میں دھکیل دیا جاتا ہے۔کہاں لکھا ہے قرآن میں کہ ’’ تم دھکیلے جاؤگے‘‘؟ قرآن کی آیات سے کھیلتے ہیں اور اس کے مفہوم کو یکسر بد ل ڈالتے ہیں !

یخٰدعون  ( فریب دیتے ہیں )

قرآن کی آیت میں زبردستی قبر کا لفظ شامل کرنا

اہلحدیثوں کے’’ نامور مفتی‘‘ خاکی جان دامانوی کا ایک اور عظیم کارنا مہ ملاحظہ فرمائیں ۔ موصوف ثم اماتہ فاقبرہ سے اپنا باطل عقیدہ ثابت کرنے کے لیے بیان کرتے ہیں:

’’ان آیات میں سے صرف ایک آیت سے برزخی قبر کا مفہوم کشید کیا گیا ہے۔اور وہ آیت یہ ہے: ثم اماتہ فاقبرہ ۔ ثم اذا شاء انشرہ (عبس:۲۱،۲۲)
’’پھر اسے موت دی اور قبر دی پھر جب چاہے گا اسے اٹھا کھڑے گا‘‘۔
اس سے یہ مفہوم اخذ کیا گیا ہے کہ ہر انسان کو اﷲ تعالی موت دیتا ہے اور پھر اسے قبر دیتا ہے اور چونکہ ہر انسان کو یہ معروف قبر نہیں ملتی کیونکہ کوئی جل کر راکھ بن جاتا ہے اور کسی کو جانور کھا کر فضلہ بنادیتا ہے لہٰذا ثابت ہوا کی ہر انسان کو برزخ میں قبر ملتی ہے اور یہی اس کی اصلی قبر ہے جسے برزخی قبر کہا جاتا ہے۔ لیکن یہ بات اس آیت کے سیاق کے خلاف ہے کیونکہ اگلی ہی آیت میں بتادیا گیا ہے کہ اﷲجب چاہے گا اس قبر سے اٹھائے گا اور ظاہر ہے کہ یہ انسان قیامت کے دن اس زمین والی قبر ہی سے اٹھایا جائے گا۔ قرآن کریم میں ایک دوسرے مقام پر ارشاد ہے:
و ان اﷲ یبعث من فی القبور ( الحج:۷)
’’ اور بے شک اﷲ ان لوگوں کو جو قبروں میں ہیں(قیامت کے دن) اٹھائے گا‘‘۔ 
(عقیدہ عذاب قبر،صفحہ ۴۶،۴۷)


قرآن مجید میں اﷲ تعالیٰ نے یہودی علماء کا ذکر فرمایا ہے کہ 

وَ اِنَّ مِنْهُمْ لَفَرِيْقًا يَّلْوٗنَ اَلْسِنَتَهُمْ بِالْكِتٰبِ لِتَحْسَبُوْهُ مِنَ الْكِتٰبِ وَ مَا هُوَ مِنَ الْكِتٰبِ١ۚ وَ يَقُوْلُوْنَ هُوَ مِنْ عِنْدِ اللّٰهِ وَ مَا هُوَ مِنْ عِنْدِ اللّٰهِ١ۚ وَ يَقُوْلُوْنَ عَلَى اللّٰهِ الْكَذِبَ وَ هُمْ يَعْلَمُوْنَ۰۰۷۸

[آل عمران: 78]
’’ ان میں کچھ لوگ ایسے ہیں جو کتاب پڑھتے ہوئے اس طرح زبان کا الٹ پھیر کرتے ہیں کہ تم سمجھو کہ جو کچھ پڑھ رہے ہیں وہ کتاب ہی کی عبارت ہے،حالانکہ وہ کتاب کی عبارت نہیں ہوتی۔وہ کہتے ہیں کہ جو کچھ ہم پڑھ رہے ہیں یہ اﷲ کی طرف سے ہے، حالانکہ وہ اﷲ کی طرف سے نہیں ہوتا ، وہ جان بوجھ کر جھوٹی بات اﷲ کی طرف منسوب کردیتے ہیں‘‘۔


ثُمَّ اَمَاتَهٗ فَاَقْبَرَهٗۙ۰۰۲۱

کی اگلی آیت جس کامفتی موصوف نے حوالہ دیا ، وہ  یہ ہے:

ثُمَّ اِذَا شَآءَ اَنْشَرَهٗؕ۰۰۲۲

’’ پھر جب چاہے گا اسے اٹھا کھڑا کرے گا‘‘


جس کو اپنی استدلال کی خراد پرچڑھاکرموصوف یہ عقیدہ کشیدکرتے ہیں کہ:

’’اگلی ہی آیت میں بتادیا گیا ہے کہ اﷲجب چاہے گا اس قبر سے اٹھائے گا‘‘

قارئین!مذکورہ آیت آپ کے سامنے ہے۔ آپ نے ملاحظہ فرمایا ہوگا کہ اس میں یہ الفاظ ’’ اس قبر سے اٹھائے گا‘‘ تو سِرے سے ہیں ہی نہیں۔ ثُمَّ اَمَاتَهٗ فَاَقْبَرَهٗۙمراد یہ ہے کہ یہ اﷲ تعالیٰ کے اختیار میں ہے کہ جب چاہے گا  (قیامت برپا فرما کر)  اسے اٹھادے گا۔ لیکن صرف اپنے باطل عقیدے کے لیے کس عیاری کے ساتھ ’’قبر‘‘ کا لفظ آیت کی تشریح میں شامل کردیا۔ ملاحظہ فرمایاان نام نہاد اہلحدیثوں کا طرز عمل ! اس سے قبل ایک دوسرے اہلحدیث خلیل الرحمن کی کتاب’’ پہلا زینہ‘‘ کا بھی ہم نے حوالہ دیا تھا کہ کس طرح سورہ انعام کی آیت میں انہوں نے ’’قبر‘‘ کا اضافہ کردیا تھا۔یہود کی اسی طرح کی حرکتوں کوقرآن میں یہ کہہ کر بتایا گیا ہے کہ  ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یحرفون الکلمہ عن مواضعہ!
بایں ہمہ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا صرف وہی مردے زندہ کیے جائیں گے جو اس زمینی قبر میں دفن کیے جائیں؟ وہ جو اس قبر میں دفن ہی نہیں کیے گئے، کیا وہ نہیں اٹھائے جائیں گے؟ کیاآل فرعون و دیگر عذاب شدہ قومیں نہیں اٹھائی جائیں گی؟ اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے:

وَ الْمَوْتٰى يَبْعَثُهُمُ اللّٰهُ ثُمَّ اِلَيْهِ يُرْجَعُوْنَؐ

[الأنعام: 36]

’’رہے مردے، تو اﷲ ان کو اٹھائے گا پھر وہ اس کی ہی طرف پلٹائے جائیں گے‘‘۔

یعنی ہر مردہ اٹھا یا جائے گا، چاہے اسے یہ زمینی قبر ملے یا نہ ملے، سمندر میں ڈوب کر مرے یا جلا دیا جائے۔مگر یہ کہنا کہ ’’اس قبر سے اٹھائے گا‘‘ محض عیاری و دھوکہ دینا ہے۔

عذاب قبر کی تفصیل؛

اس سے قبل ہم نے فرقہ پرستوں کا عقیدہ بیان کیا تھا کہ وہ  اسی زمینی قبرکو مرنے کے بعد  جزا و سزا کا مقام قرار دیتے ہیں اور بقول ان کے اسی وجہ سے اسے عذاب قبر کہا جاتا ہے۔یہ سراسر جھوٹ ہے کیونکہ دنیا کی ایک بڑی اکثریت کو زمینی قبر نصیب ہی نہیں ہوتی، تو انہیں عذاب قبر کہاں ہوتا ہے؟مفتی دامانوی صاحب اپنی کتاب میں لکھتے ہیں:

’’ ان مختلف احادیث کا خلاصہ یہ ہے کہ عائشہؓ کو پہلی مرتبہ ایک یہودی عورت نے عذاب قبر کے متعلق بتایا لیکن انہوں نے اس کی تصدیق نہ کی۔ نبی صلی اﷲ علیہ و سلم نے بھی یہود کو جھوٹا قرار دیا بعد میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم پر وحی بھیجی گئی اور آپﷺ کو عذاب القبر کے بارے میں بتایا گیا۔ اسی دن سورج گرہن لگ گیا اور آپ اکے بیٹے جناب ابراہیم رضی اﷲ عنہ کا انتقال بھی ہوگیا چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اسی دن سورج گہن کی نماز صلوٰۃ الکسوف پڑھائی۔اور خطبہ دیا۔اور اسی خطبہ میں صحابہ کرا م ؓ کو عذاب القبر کی تفصیلات سے آگاہ کیا‘‘ (عقیدہ عذاب قبر،صفحہ ۳۶) 

اہلحدیثوں کے بیان کے مطابق صلوٰۃ الکسوف کی روایات میں نبی ﷺ  نے عذاب قبر کی تفصیلات سے پہلی مرتبہ آگاہ کیا، لہٰذا ضروری ہے کہ ان روایات کابھی جائزہ لے لیا جائے۔
صلوٰۃ الکسوف کی احادیث

۔۔۔ فَقُمْتُ حَتّٰی تَجَلاَّنِی الْغَشْیُ وَجَعَلْتُ اَصُبُّ فَوْقَ رَاْسِیْ مَاءً، فَلَمَّا انْصَرَفَ رَسُوْلُ اﷲِ ا حَمِدَاﷲَ وَاَثْنٰی عَلَیْہِ، ثُمَّ قَالَ مَامِنْ شَیْءٍ کُنْتُ لَمْ اَرَہُ اِلاَّ قَدْ رَایْتُہُ فِیْ مَقَامِیْ ھٰذَا حَتَّی الْجَنَّۃَ وَالنَّارَ وَلَقَدْ اُوْحِیَ اِلَیَّ اَنَّکُمْ تُفْتَنُوْنَ فِی الْقُبُوْرِ مِثْلَ اَوْ قَرِیْبًا مِّنْ فِتْنَۃِ الدَّجَّالِ لَآ اَدْرِیْ اَیَّ ذٰلِکَ قَالَتْ اَسْمَآءُ یُؤْتٰی اَحَدُکُمْ فَیُقَالُ لَہٗ مَاعِلْمُکَ بِھٰذَالرَّجُلِ فَاَمّا المُؤْمِنُ اَوِ الْمُوْقِنُ لَآ اَدْرِیْ اَیَّ ذٰلِکَ قَالَتْ اَسْمَآءُ فَیَقُوْلُ ھُوَ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اﷲِ جَآءَ نَا بِالْبَیِّنَاتِ وَالْھُدٰی فَاَجَبْنَا وَ اٰمَنَّا وَاتَّبَعْنَا فَیُقَالُ نَمْ صَالِحًا فَقَدْ عَلِمْنَا اِنْ کُنْتَ لَمُؤْمِنًا وَ اَمَّا الْمُنَافِقُ اَوِ الْمُرْتَابُ لَآاَدْرِیْ اَیَّ ذٰلِکَ قَالَتْ اَسْمَآءُ فَیَقُوْلُ لَآاَدْرِیْ سَمِعْتُ النَّاسَ یَقُوْلُوْنَ شَیْءًا فَقُلْتُہٗ
(بخاری:کتاب الوضوء۔باب من لم یتوضا الا من الغشی المثقل)

’’ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ (اسماء ؓ سورج گرہن کی صلوٰۃ ادا کرنے کا واقعہ روایت کرتی ہیں کہ) ۔۔۔میں بھی کھڑی ہوگئی یہاں تک کہ(صلوٰۃ کی طوالت سے) مجھ پر غشی طاری ہونے لگی اورمیں اپنے سر پر پانی ڈالنے لگی۔جب رسول اﷲ ﷺ (صلوٰۃ سے) فارغ ہوئے تو اﷲ کی حمد و ثناء فرمائی، اس کے بعد فرمایا کہ جس چیز کو میں نے کبھی نہیں دیکھا تھا اس کو آج اسی جگہ دیکھ لیا یہاں تک کہ جنت و جہنم کوبھی۔ اور میری طرف وحی کی گئی کہ تم اپنی قبروں میں آزمائے جاؤگے دجال کے فتنے کی طرح یا اس کے قریب قریب۔۔۔ تم میں سے ہر ایک کولایا جائے گا اور اس سے کہا جائے گا کہ اس مرد کے متعلق کیا علم رکھتے ہو۔ مومن یا موقن( وہ کہتی ہیں)مجھے یاد نہیں، کہے گا وہ اﷲ کے رسول محمدﷺہیں جو ہمارے پاس کھلی نشانیاں اور ہدایت لے کر آئے ،ہم نے ان کی بات مانی اور ایمان لائے اور پیروی کی۔ا س سے کہا جائے گا سو جا ،اس لیے کہ ہم نے جان لیا ہے کہ تو مومن ہے۔ لیکن منافق یا شک کرنے والا کہے گا کہ مجھے نہیں معلوم، میں نے تو جولوگوں کو کہتے ہوئے سنا وہی میں نے کہا‘‘۔


حدیث کے الفاظ پر غور فرمائیے کہ یہ کونسا مقام ہے جس کے متعلق بتایا گیا کہ:


یوْ تٰی اَحَدُ کُمْ ’’پھر تم میں سے ہر ایک کولایا جائے گا‘‘


(یہ بات بھی قابل غور ہے کہ اہلحدیثوں نے اس حدیث کا ترجمہ بھی بدل ڈالا اور لکھا کہ’’ تم میں سے ہر ایک کے پاس پہنچیں گے‘‘!اگرچہ دیوبندی بھی ان کے ہم عقیدہ ہیں مگرکم ازکم اس علمی خیانت کی جرأت ان سے نہ ہوسکی،  یہ بھی اہلحدیثوں کا ہی خاصہ ہے) قرآن و حدیث سے اس کی تشریح یہ ملتی ہے کہ ہر مرنے والے کی روح فرشتے قبض کرکے اﷲ تعالیٰ کے پاس لے جاتے ہیں:

وَ هُوَ الْقَاهِرُ فَوْقَ عِبَادِهٖ وَ يُرْسِلُ عَلَيْكُمْ حَفَظَةً١ؕ حَتّٰۤى اِذَا جَآءَ اَحَدَكُمُ الْمَوْتُ تَوَفَّتْهُ رُسُلُنَا وَ هُمْ لَا يُفَرِّطُوْنَ۝ثُمَّ رُدُّوْۤا اِلَى اللّٰهِ مَوْلٰىهُمُ الْحَقِّ١ؕ اَلَا لَهُ الْحُكْمُ١۫ وَ هُوَ اَسْرَعُ الْحٰسِبِيْنَ۰۰۶۲

 (الانعام:61/62)

’’اور وہ اپنے بندوں پر غالب ہے اور تم پر نگہبان بھیجتا ہے۔ یہاں تک کہ جب تم میں سے کسی کی موت آتی ہے تو ہمارے بھیجے ہوئے (فرشتے) اسکی روح قبض کر لیتے ہیں اور وہ کوئی کوتاہی نہیں کرتے۔ پھر تم پلٹائے جاتے ہو اﷲکی طرف جو تمھارا حقیقی مالک ہے ۔سن لو کہ حکم اسی کا ہے اور وہ بہت جلد ساب لینے والاہے‘‘۔

ؕ وَ لَوْ تَرٰۤى اِذِ الظّٰلِمُوْنَ فِيْ غَمَرٰتِ الْمَوْتِ وَ الْمَلٰٓىِٕكَةُ بَاسِطُوْۤا اَيْدِيْهِمْ١ۚ اَخْرِجُوْۤا اَنْفُسَكُمْ١ؕ اَلْيَوْمَ تُجْزَوْنَ عَذَابَ الْهُوْنِ بِمَا كُنْتُمْ تَقُوْلُوْنَ عَلَى اللّٰهِ غَيْرَ الْحَقِّ وَ كُنْتُمْ عَنْ اٰيٰتِهٖ تَسْتَكْبِرُوْنَ۠۝وَ لَقَدْ جِئْتُمُوْنَا فُرَادٰى كَمَا خَلَقْنٰكُمْ اَوَّلَ مَرَّةٍ وَّ تَرَكْتُمْ مَّا خَوَّلْنٰكُمْ وَرَآءَ ظُهُوْرِكُمْ١ۚ وَ مَا نَرٰى مَعَكُمْ شُفَعَآءَكُمُ الَّذِيْنَ زَعَمْتُمْ اَنَّهُمْ فِيْكُمْ شُرَكٰٓؤُا١ؕ لَقَدْ تَّقَطَّعَ بَيْنَكُمْ وَ ضَلَّ عَنْكُمْ مَّا كُنْتُمْ تَزْعُمُوْنَؒ۰۰۹۴

(الانعام: 93/94)

’’کاش تم ظالموں کواس حالت میں دیکھ سکو جب کہ وہ سکرات موت میں ہوتے ہیں اور فرشتے ہاتھ بڑھا بڑھا کر کہہ رہے ہوتے ہیں نکالو اپنی جانوں کو،آج تمہیں ان باتوں کی پاداش میں ذلت کا عذاب دیا جائے گا جو تم اﷲپرتہمت رکھ کر ناحق کہا کرتے تھے اور اس کی آیات کے مقابلے میں سرکشی دکھاتے تھے۔اور تم تن تنہا پہنچ گئے ہمارے پاس جیسا کہ ہم نے تمہیں پہلی بار پیدا کیا تھا اور چھوڑ آئے ہو اپنی پیٹھ پیچھے جو کچھ ہم نے تم کو عطاکیا تھا‘‘۔


عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَص قَالَ اِذَا خَرَجَتْ رُوْحُ الْمُؤْمِنِ تَلَقَّاھَا مَلَکَانِ یُصْعِدَانِھَا قَالَ حَمَّادٌ فَذَکَرَ مِنْ طِیْبِ رِیْحِھَا وَ ذَکَرَ الْمِسْکَ قَالَ وَ یَقُوْلُ اَھْلُ السَّمَآءِ رُوْحٌ طَیِّبَۃٌ جَآءَ تْ مِنْ قِبَلِ الْاَرْضِ صَلّی اﷲُ عَلَیْکِ وَ عَلٰی جَسَدٍ کُنْتِ تَعْمُرِیْنَہٗ فَیُنْطَلَقُ بِہٖ اِلٰی رَبِّہٖ عَزَّ وَ جَلَّ ثُمَّ یَقُوْلُ انْطَلِقُوْا بِہٖ اِلآی اٰخِرِ الْاَجَلِ قَالَ وَ اِنَّ الْکَافِرَ اِذَا خَرَجَتْ رُوْحُہٗ قَالَ حَمَّادٌ وَّ ذَکَرَ مِنْ نَتْنِھَا وَ ذَکَرَ لَعْنًا وَّ تَقُوْلُ اَھْلُ السَّمَآءِ رُوْحٌ خَبِیْثَۃٌ جَآءَ تْ مِنْ قِبَلِ الْاَرْضِ قَالَ فَیُقَالُ انْطَلِقُوْا بِہٖ اِلٰی اٰخِرِ الْاَجَلِ 
(مسلم:کتاب الجنۃ و صفۃ نعیمھا، باب عرض المقعد علی المیت و عذاب القبر)
’’جب مومن کی روح اس کے بدن سے نکلتی ہے تو اس کے آگے آگے دو فرشتے جاتے ہیں ا س کو آسمان پر چڑھاتے ہیں۔ابوہریرۃ ؓ نے اس کی خوشبو اور مشک کا ذکر کیا اور کہا کہ آسمان والے ( فرشتے ) کہتے ہیں کوئی پاک روح ہے جو زمین سے آئی ہے۔ اﷲ تعالی تجھ پر رحمت کرے اور تیرے جسم پرجس کو تو نے آباد رکھا۔ پھر اس کو اس کے رب کے پاس لیجاتے ہیں وہ فرماتا ہے لے جاؤ اس کو آخری وقت تک کے لیے ۔اور جب کافر کی روح نکلتی ہے تو ابوہریرۃ ؓ نے اس پر لعنت کا ذکر کیا اور کہا کہ آسمان والے ( فرشتے ) کہتے ہیں کہ ناپاک روح ہے جو زمین سے آئی ہے پھر حکم ہوتا ہے لے جاؤ اس کو آخری وقت تک کے لیے‘‘۔ 

تویہ ہے وہ مقام کہ جہاں سارے کے سارے انسان مرنے کے بعدلے جائے جاتے ہیں۔اسماء رضی اﷲ کی بیان کردہ صلوٰۃ الکسوف کی حدیث، جس کے بارے میں اہلحدیثوں نے انکشاف فرمایا ہے کہ اس میں نبی صلی اﷲ علیہ و سلم نے پہلی دفعہ عذاب قبر کی تفصیلات سے آگاہ فرمایا،کا متن بھی اسی بات کو ثابت کرتا ہے۔


نبی ﷺ پر وحی نازل ہونے کے مختلف انداز تھے:کبھی فرشتے کے ذریعے پیغام آتا، کبھی دل میں القا کی جاتی ، کبھی خواب کے ذریعے اور کبھی وہ مناظر نبی  ﷺکو دکھادیئے جاتے جن کے متعلق کچھ بتانا مقصودہوتا ۔چنانچہ اس حدیث میں وحی کایہی مؤخرالذکرانداز تھاکہ عذاب قبر کے مناظرنبی ﷺکو دکھائے گئے جس کا ثبوت قَدْ رَایْتُہُ( میں نے اسے دیکھا) کے الفاظ ہیں ۔عائشہ رضی اﷲ فرماتی ہیں:


۔۔۔فَقَالَ انِّیْ قَدْ رَأےْتُکُمْ تُفْتَنُوْنَ فِی اْلقُبُوْرِکَفِتْنَۃِ الدَّجَّالِ ۔۔۔ فَکُنْتُ اَسْمَعُ رَسُوْلَ اﷲِ بَعْدَ ذٰلِکَ یَتَعَوَّذُ مِنْ عَذَابِ النَّارِ وَ عَذَابِ الْقَبْرِ 
(مسلم:کتاب الکسوف، باب ذکرعذاب القبر فی صلاۃ الخسوف)
۔۔۔ (نبی  ﷺ نے صلوٰۃ الکسوف ادا فرمائی )پھر فرمایا:’’ میں نے یقیناًتم کو دیکھا کہ تم آزمائے جاتے ہو قبروں میں دجال کے فتنہ کی طرح‘‘ اس کے بعدمیں رسول اﷲﷺکوجہنم کے عذاب اور قبر کے عذاب سے پناہ مانگتے ہوئے سناکرتی‘‘۔

نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے کیا دیکھا :


اِنَّہُ عُرِضَ عَلَیَّ کُلُّ شَیْءٍ تُوْلَجُوْنَہُ، فَعُرِضَتْ عَلَیَّ الْجَنَّۃُ، حَتّٰی لَوْ تَنَاوَلْتُ مِنْھَا قِطْفًا اَخَذْتُہُ اَوْ قَالَ تَنَاوَلْتُ مِنْھَا قِطْفًا فَقَصُرَتْ یَدِیْ عَنْہُ وَعُرِضَتْ عَلَیَّ النَّارُ فَرَأیْتُ فِیْھَا امْرَأَۃً مِّنْ بَنِیْ اِسْرَاءِیْلَ تُعَذَّبُ فِیْ ھِرَّۃٍ لَّھَا، رَبَطَتْھَا فَلَمْ تُطْعِمْھَا وَلَمْ تَدَعْھَا تَأْکُلُ مِنْ خَشَشِ الْاَرْضِ وَ رَأْیْتُ اَبَا ثُمَامَۃَ عَمْرَوبْنَ مَالِکٍ یَجُرُّ قُصْبَہُ فِیْ النَّارِ ۔۔۔
(مسلم:کتاب ا لکسوف، باب ما عرض علی النبیافی صلاۃ الکسوف من امرالجنۃ والنار)
’’ ۔۔۔ پھر فرمایا کہ جتنی بھی چیزیں جن میں تم جاؤگے میرے سامنے آئیں، اور جنت تو ایسی آئی کہ اگر میں اس میں سے ایک گچھا لینا چاہتا تو ضرور ہی لے لیتا؛ یا فرمایا کہ میں نے اس میں سے ایک گچھا لینا چاہا تو میرا ہاتھ نہ پہنچا۔اور جہنم میرے آگے آئی اور میں نے بنی اسرائیل کی ایک عورت کو دیکھا کہ ایک بلی کی وجہ سے اس کو عذاب ہورہا ہے کہ اس نے بلی کو باندھا ہوا تھا ،اسے نہ تو کھانے کو دیتی اور نہ اسے کھولتی کہ وہ زمین کے کیڑے مکوڑے کھالیتی۔اور جہنم میں ابو ثمامہ عمرو بن مالک کو دیکھا کہ جہنم میں اپنی آنتیں کھینچ رہا تھا۔۔۔۔۔۔‘‘ 


۔۔۔رَاَیْتُ جَھَنَّمَ یَحْطِمُ بَعْضُھَا بَعْضًا ۔۔۔وَ رَاَیْتُ عَمْرَوبْنَ عَامِرِ الْخُزَاعِیِّ یَجُرُّ قُصْبَہٗ فِی النَّارِ کاَنَ اَوَّلُ مَنْ سَیَّبَ السَّوَآءِبَ 
)بخاری:کتاب التفسیر،تفسیرسورۃ المائدۃ، باب قولہ ماجعل اﷲ من بحیرۃ ولا سائبۃ ولاوصیلۃ ولاحام،عن عائشۃ وابی ھریرۃ رضی اﷲ(
’’ میں نے جہنم کو دیکھا ،اس کا ایک حصہ دوسرے کو تباہ کر رہا تھا اور اس میں عمرو بن عامرلحی الخزاعی کو دیکھا، وہ ا پنی آنتیں کھینچ رہا تھا۔یہ وہ پہلا شخص تھا جس نے بتوں کے نام پر جانورچھوڑنے کی رسم ایجاد کی‘‘۔

بتائیے کہ یہ کونسی قبریں تھیں کہ جن میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے عذاب ہو تے ہوئے دیکھ کر عذاب قبر سے پناہ مانگی؟

 یہ زمین میں بنی ہوئی قبریں تھیں یایہ جہنم میں ملنے والے وہ مقام ہیں جن میں ایک مرنے والا قیامت تک حسب انجام عذاب پائے گا۔

نبی ﷺنے جب غزوہ بدر میں مرنے والوں کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا: 

هَلْ وَجَدْتُمْ وَجَدْتُمْ مَا وَعَدَ رَبُّكُمْ حَقًّا

’’کیا تم نے پالیا اپنے رب کاوعدہ‘‘


تو عائشہ رضی اﷲ نے اس کی تشریح فرمائی، راوی کہتے ہیں کہ اس کا مطلب یہ تھا  کہ 

حِیْنَ تَبَوّءُ وْا مَقَاعِدَھُمْ مِّنَ النَّارِ

 ’’ جب جہنم میں ان کو ٹھکانہ مل گیا ہوگا‘‘
)بخاری: کتاب المغازی،باب قتل ابی جہل، عن ھشام عن ابیہ(


نبی ﷺ کے اس فرمان سے اس بات کی یقینی وضاحت ہوگئی کہ وہ مقام جہاں مرنے والا قیامت تک عذاب یا راحت پاتاہے، وہی وہ مقام ہے جس کے لیے اﷲ تعالیٰ فرماتا ہی ثُمَّ اَمَاتَهٗ فَاَقْبَرَهٗۙ’’ پھر اسے موت دی قبر دی ‘‘۔


جیسا کہ قرآن مجید میں مرتے ہی قومِ نوح وازواجِ نوح و لوط علیہماالسلام کے جہنم میں دا خلے، اورآل فرعون کے جہنم پر پیش کیے جانے کا ذکر فرمایا گیا ہے،تو وہی تسلسل رسول اﷲا کی حدیث میں بھی پایا جاتا ہے۔ جہنم (آسمانوں) میں ہونے والے اس عذاب کو دیکھ کرنبی ﷺنے’’ عذاب قبر‘‘ سے پناہ مانگی ۔ یہی ہمارا ایمان ہے کہ عذاب قبر اس دنیاوی قبر میں نہیں بلکہ جہنم  میں ہوتا ہے۔ یہی تشریح ہے نبیﷺ کی اس حدیث کی جس میں یہودی عورت کے متعلق بتایا گیاکہ

’’یہ لوگ اس پر رو رہے ہیں اور اسے اس کی قبر میں عذاب دیا جارہا ہے‘‘


چونکہ یہ سب آسمانوں  میں ہوتا ہے اس لیے اﷲکی طرف سے دی جانے والی اس قبر کوبطور امتیاز اصطلا حاً اکثر مفسرین نے’’ برزخی قبر‘‘ کہہ دیا ہے ۔ 
صلوٰۃ الکسوف کی یہی وہ روایات ہیں جن کے متعلق خاکی جان دامانوی نے کہا تھا کہ ان میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے عذاب قبر کی تفصیلات بتائیں ۔ انہی روایات میں نبی ﷺکا یہ فرمان بھی نقل کیا گیا کہ: 


’’ جتنی بھی چیزیں جن میں تم جاؤگے میرے سامنے آئیں، اور جنت تو ایسی آئی۔۔۔۔۔۔اور جہنم میرے آگے آئی ۔۔۔‘‘


لیکن نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے کسی طور بھی اس دنیاوی زمینی قبر کا ذکر نہیں فرمایا ،بلکہ جہنم میں ہونے والے عذاب دیکھ کر فرمایا:


’’ اور میں نے یقیناًتم کو دیکھا کہ تم آزمائے جاتے ہو قبروں میں دجال کے فتنے کی طرح‘‘


اور پھر عذاب قبر سے پناہ مانگی!


اسی طرح بخاری کی سمرہ بن جندب ؓ والی حدیث میں فرشتے رسول اﷲﷺسے کہتے ہیں :


یُفْعَلُ بِہٖ اِلٰیوْمِ الْقِیَامَۃِ       ’’ یہ اس کے ساتھ قیامت تک ہوتا رہے گا‘‘

اوریہی بات نبی ﷺ صحابہؓ                                     کو بتا تے ہیں ،لیکن یہ اہلحدیث اسے بھی عذاب قبر ماننے کو تیار نہیں ۔اب رسول اﷲﷺکی بات سے جن کے دلوں کو تکلیف پہنچ رہی ہو اورجوان کی کہی ہوئی بات کو ماننے کے لیے تیار نہیں، وہ کون ہیں؟

اب چاہے اپنا نام کوئی’’ حزب اﷲ‘‘ رکھے یا اپنے آپ کو اہلسنت و الجماعت کہلوائے، کوئی اپنا نام جماعت المسلمین (بھلے سے گول ۃ والی ’’جماعۃ المسلمین) رکھے یاتنظیم المسلمین،اپنے آپ کو توحیدی کہلوائے یا لاکھ اپنے آپ کو اہلحدیث کہتا پھرے،سب کے لیے اﷲ تعالیٰ کا ایک ہی فیصلہ ہے کہ

فَلَا وَ رَبِّكَ لَا يُؤْمِنُوْنَ حَتّٰى يُحَكِّمُوْكَ فِيْمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ ثُمَّ لَا يَجِدُوْا فِيْۤ اَنْفُسِهِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَيْتَ وَ يُسَلِّمُوْا تَسْلِيْمًا۰۰۶۵

[النساء: 65]

’’ نہیں اے نبی (ﷺ) ! آپ کے رب کی قسم یہ کبھی مومن نہیں ہوسکتے جب تک کہ اپنے باہمی اختلافات میں یہ آپ کو اپنا فیصلہ کرنے والا نہ مان لیں، پھر جو کچھ آپ فیصلہ کریں اس پر اپنے دلوں میں بھی کوئی تنگی محسوس نہ کریں، بلکہ خوشی سے مان لیں۔ ‘‘


قارئین / سامعین ،  ہم عالم  برزخ میں ملنے والے اس مقام جسے نبی ﷺ نے ’’ قبر ‘‘ کا نام دیا ہے اصطلاحاً ’’ برزخی قبر ‘‘ کہتے ہیں،اس پر یہ فرقہ پرست کہتے ہیں کہ یہ نام تم نے  خود گھڑا ہے۔ اگلی پوسٹ میں ہم ان شاء اللہ اس بات کو واضح کریں گے کہ ان فرقوں میں  پہلے سے اس   قبر کا  عقیدہ موجود ہے۔

برزخی  قبر اور اکابرین مسلک:

اکثر اہلحدیث اور دیوبندی بڑی شدومد کے ساتھ اس بات کو بیان کرتے ہیں کہ ’’ برزخی قبر ‘‘ کا کوئی وجود نہیں بلکہ یہ محض آپ لوگوں کی گھڑی ہوئی ایک بات ہے۔جدید فرقۂ اہلحدیث بنام جماعت المسلمین رجسٹرڈ والوں نے تو اس موضوع پر’’ارضی قبر و فرضی قبر‘‘ کے نام سے ایک کتاب بھی لکھ ڈالی ہے۔برزخی قبر کیا ہے، اس کی تفصیل اس سے قبل بیان کی جاچکی ہے۔ہم نے قرآن و حدیث کے بیان کے مطابق ہی اس کو اصطلاحاً برزخی قبر کہا ہے ورنہ یہ ہماری اختراع نہیں ہے بلکہ اس حقیقت کا اعتراف تومسلکی اکابرین بھی کرتے ہیں۔ اس حوالے سے ہم کچھ اقتباسات پیش کرتے ہیں، ملاحظہ فرمائیے:

محمد اسماعیل سلفی الحدیث فرماتے ہیں :

’’ اس قسم کی اور بہت سی آیات ہیں جن میں اس عذاب اور برزخ کا ثبوت ملتا ہے اور احادیث میں تو یہ موضوع اس کثرت اور صراحت سے آیا ہے کہ کسی دیانتدار آدمی کے لیے اس سے انکار کی گنجائش نہیں۔ قبر سے مراد برزخ ہے اس میں مجرموں کو عذاب ہوگا۔وہ قبر کے گڑھے میں دفن ہوں یا اسے کوئی جانور کھا جائے وہ ہی اسکی قبر ہوگی جس صورت میں بھی وہ عذاب یا خوشی محسوس کرے گا۔ قبر سے مراد گڑھا ہی نہیں بلکہ موت کے بعد جو ٹھکانہ ملا ہے وہ قبر ہے اور وہیں انسان کو عذاب یا خوشی کا احساس ہوگا۔ اسکو عذاب قبر یا برزخی زندگی سے تعبیر کیا گیا ہے‘‘۔
( تبلیغی نصاب،از محمد اسماعیل سلفی ، صفحہ۴۱)

فضل الرحمن کلیم اہلحدیث نے لکھا ہے :

’’ عام لوگ صرف زمین کے گڑھے اور مٹی کے ڈھیر کو قبر سمجھتے ہیں لیکن یہ بات غلط ہے ورنہ کہنا پڑیگا کہ جن لوگوں کو زمین میں دفن ہونا نصیب نہیں ہوا وہ قبروں میں نہیں گئے‘‘۔ ( دعا کرنے کا اسلامی تصور، از فضل الرحمن کلیم اہلحدیث، صفحہ ۱۰۹)
’’ الغرض بہت سی لاشوں کو وہ جگہ نہیں ملتی جس کو ہمارے عرف میں قبر کہا جاتاہے۔ تو کیا یہ لوگ قبروں میں نہیں پہنچے اور ان کی کوئی قبر نہیں؟ ایسا کہنا غلط ہے کیونکہ مرنے والے ہر شخص کی نئی منزل قبر ہوتی ہے اور ہر شخص قبر میں جاتا ہے۔بات دراصل یہ ہے کہ قرآن مجید حدیث پاک میں جب لفظ قبر استعمال کیا جاتا ہے تو اس سے مراد صرف زمین کا گڑھا اور مٹی کا ڈھیر نہیں ہوتا بلکہ قبر سے مراد وہ مقام ہے جہاں مرنے کے بعد انسان کو ٹھہرنا نصیب ہوتا ہے لیکن اس مقام کی حقیقت انسان کی عقل و فکر سے باہر ہے۔اﷲ پاک نے اسکو انسان کے دنیوی حواس سے پوشیدہ رکھا ہے، چنانچہ جن لوگوں کو زمین میں دفن کیا جاتا ہے اور جن کی لاشیں دنیا میں ضائع ہوجاتی ہیں ان سب کو اﷲ پاک کسی جگہ ٹھہراتا ہے اور جس جگہ ٹہراتا ہے وہ ہی ان کی قبر ہے کیونکہ قبر کے معنی زمین کا گڑھا اور مٹی کا ڈھیر نہیں بلکہ عربی زبان میں میت کے ٹہرنے کی جگہ کا نام قبرہے۔مفردات امام راغب میں ہے ’’ القبر مقر المیت‘‘ مرنے والے کی رہائش گاہ کا نام قبر ہے۔اگر قبر سے مراد صرف زمین کا گڑھا اور مٹی کا ڈھیر ہو تو قرآن مجید کی بہت سی آیات کا مفہوم بیان کرنا مشکل ہوجائے گا‘‘۔(ایضاً،صفحہ۱۱۰)

 شبلی نعمانی صاحب نے لکھا ہے :

’’لیکن اس لفظ ’’ قبر‘‘ سے درحقیقت مقصود وہ خاک کا تودہ نہیں جس کے نیچے کسی مردہ کی ہڈیاں پڑی رہتی ہیں بلکہ وہ عالم ہے جس میں یہ مناظر پیش آتے ہیں اور وہ ارواح و نفوس کی دنیا ہے ماد ی عنا صر کی نہیں ہے‘‘۔(سیرۃ النبی ا، از علامہ شبلی نعمانی وعلامہ سید سلیمان ندوی،جلد۴، صفحہ ۳۶۰)
’’ بعض حدیثوں میں آنحضرت صلعم سے ان مٹی کی قبروں میں عذاب کے مشاہدات و مسموعات کا تذکرہ ہے تو ظاہر ہے کہ مادی زبان و منظر میں ان قوموں کے نزدیک جو مردوں کو گاڑتی ہیں اس میت کی یادگار اس دنیا میں اس کے اس مٹی کے ڈھیر کے سوا اور کیا ہے جس کی طرف اشارہ کیا جاسکے‘‘۔ ( ایضاً، صفحہ ۳۶۲)

ادریس کاندھلوی صاحب کا عقیدہ :

’’قبر میں مومنوں اور کافروں سے منکر و نکیر کا سوال حق ہے۔قبر سے وہ گڑھا مرادنہیں جس میں مردہ جسم دفن کیا جاتا ہے بلکہ عالم برزخ مراد ہے‘‘ ۔

( عقائد الاسلام ،از محمد ادریس کاندھلوی ،حصہ۱،صفحہ۵۸)

عبد الحق دہلوی صاحب  فرماتے ہیں :

’’ان احادیث میں،اور جن میں کہ قبر کے اندر ثواب وعذاب ثابت ہے کچھ مخالفت نہیں،کیونکہ جب ثابت ہوا کہ قبر سے خاص وہ گڑھا مراد نہیں کہ جس میں جسم دفن کیا جاتا ہے بلکہ عالم برزخ مراد ہے۔خواہ کوئی پانی میں غرق ہو خواہ آگ میں جل جاوے تو اس کی وہی قبر ہے‘‘۔ (حقانی عقائد الاسلام ،از عبد الحق دہلوی،صفحہ۱۶۹)

اشرف علی تھانوی صاحب بیان کر گئے ہیں :

’’ کیا معنی کہ قبر سے مراد یہ محسوس گڑھا نہیں ہے۔کیونکہ کسی کو بھیڑیا کھا گیا،یا کوئی سمندر میں غرق ہوگیا یوں اس صورت میں چونکہ وہ زمین میں دفن نہیں ہوا اس لیے اس کو چاہیے کہ قبر کا عذاب نہ ہو،لیکن اب اشکال نہ رہا۔کیونکہ جو عالم مثال ہے وہیں اس کو عذاب قبر بھی ہوجائے گا۔ اشکال تو جب ہوتا جب قبر سے مراد یہ گڑھا ہوتا جس میں لاش دفن کی جاتی ہے ۔حالانکہ اصطلاح شریعت میں قبر گڑھے کو کہتے ہی نہیں بلکہ عالم مثال کو کہتے ہیں قبر‘‘۔

 (اشرف الجواب ،از اشرف علی تھانوی ،صفحہ ۱۵۸)

اشاعت التوحید و السنۃ دیوبندی کا عقیدہ :

’’ نیز اگر قبر کے معنی گڑھے کے کریں تو بہت سی احادیث صحیحہ کا انکار لازم آئے گا یا کہنا پڑے گا کہ کافر اور مرتد بھی عذاب قبر سے محفوظ ہیں۔لاحول ولاقوۃ الا باﷲ ۔۔۔ اس تقریر سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ قبر اس گڑھے کا نام نہیں جسے لوگ اپنے ہاتھوں سے کسیوں کے ذریعے کھودکر اس میں میت کو دفن کرتے ہیں بلکہ قبر کسی اور چیز کا نام ہے جہاں جزا و سزا ہوتی ہے۔ہاں اس گڑھے کو عرفی قبر کہتے ہیں‘‘۔(الاقول المرضیہ فی الاحوال البرزخیہ،از محمد حسین نیلوی اشاعتی،صفحہ ۸۵)

بریلوی عالم شبیر حسن چشتی نے لکھا:

’’ قبر نام صرف اس گڑھے کا ہی نہیں ہے جس میں جسمِ میت دفن کردیا جاتا ہے۔ بلکہ قبر اس عالم کا نام ہے جہاں مرنے کے بعد انسان کا قیام قیامت تک رہے گا۔ اس لیے کوئی میت خواہ قبر میں دفن کردی جائے یا پانی میں غرق کردی جائے یا آگ میں جلا کر اس کے اجزاء منتشر کردئیے جائیں یا صلیب پر لٹکادیا جائے۔ ہم خواہ اپنی آنکھوں سے عذاب یا ثواب برزخ کا مشاہدہ نہ کرسکیں مگر حقیقت یہ ہے کہ میت مرنے کے بعد خواہ کسی حالت میں کیوں نہ ہو۔ عذاب ثواب میں ضرور مبتلا ہوگی۔ جب ہم اپنے عالم شہادت کی بہت سی چیزیں اپنی آنکھوں سے مشاہدہ نہیں کرسکتے اور مشاہدہ نہ کرسکنے کے باوجود اس کے وجود کے قائل ہیں تو برزخ تو ایک عالم ہی دوسرا ہے۔ اس کا حال اگر ہمیں نظر نہ آئے تو اس سے یہ لازم نہیں کہ ہم اس عالم کے وجود سے ہی سراسر انکار کردیں یا اس کے عذاب و ثواب سے منکر بن جائیں‘‘۔(موت کے بعد کیا ہوگا؟ از علامہ شبیر حسن چشتی بریلوی، صفحہ۹۲،۹۳)

اہل تشیع  عالم آیت اللہ العظمیٰ سید عبد الحسین کا  بیان:

’’ مرحوم علامہ مجلسی فرمایا کرتے تھے احادیث کی ایک قسم ہے جس میں قبر کا نام لیا گیا ہے وہاں قبر سے مراد عالم برزخ ہے نہ کہ قبر جسمانی۔ اور یہ کہ جو روایت میں آیا ہے کہ خداوند عالم قبر مومن کو وسعت دیتا ہے اس سے برزخ کا عالم روحانی مراد ہے۔ قبر کی تاریکی و روشنی جسمانی نہیں ہے‘‘۔(برزخ،ازآیت اﷲ العظمیٰ سیدعبد الحسین اہل تشیع،صفحہ ۱۱۶)

مروجہ مسالک کے کچھ افراد کی کتابوں کے چنداقباسات صرف حوالتاً پیش کیے گئے ہیں تاکہ یہ بات واضح ہوجائے کہ ’’برزخی قبر‘‘ ہماری اختراع نہیں  بلکہ  ان کے بہت سے مفسرین کی اصطلاح ہے  جو کہ بہت پہلے  ہی اپنائی جا چکی ہے۔ ہماری ساری بحث تو محض کتاب اﷲ کی بنیاد پر ہے۔

جوتوں کی چاپ سننے والے روایت؛

قرآن و حدیث کا واضح بیان  ہےکہ مرنے کے بعد ملنے والے عذاب قبر یا راحت قبر کا اس دنیا، اس مٹی کے جسم سے کوئی تعلق نہیں، جس کی تفصیل ہم پیش کر چکے ہیں لیکن مسلک پرست اپنے باطل عقیدے کے لیے بخاری کی یہ حدیث برھان قاطعہ کے طور پر پیش کرتے ہیں:

عَنِ النَّبِیِّ ا قَالَ الْعَبْدُ اِذَا وُضِعَ فِیْ قَبْرِہٖ وَ تُوُلِّیَ وَ ذَھَبَ اَصْحَابُہٗ حَتّٰی اَنَّہٗ لَیَسْمَعُ قَرْعَ نِعَالِھِمْ اَتَاہُ مَلَکَانِ فَاَقْعَدَاہُ فَیَقُوْلاَنِ لَہٗ مَاکُنْتَ تَقُوْلُ فِیْ ھٰذَا الرَّجُلِ مُحَمَّدٍ فَیَقُوْلُ اَشْھَدُ اَنَّہٗ عَبْدُاﷲِ وَ رَسُوْلُہٗ فَیُقَالُ انْظُرْ اِلیٰ مَقْعَدِکَ مِنَ النَّارِ اَبْدَلَکَ اﷲُ بِہٖ مَقْعَدًا مِّنَ الْجَنَّۃِ قَالَ النِّبِیُّ ا فَیَرَاھُمَا جَمِیْعًا وَّ اَمَّا الْکَافِرُ وَالْمُنَافِقُ  فَيَقُولُ لَا أَدْرِي کُنْتُ أَقُولُ مَا يَقُولُ النَّاسُفَیْقَالُ لاَ دَرَیْتَ وَ لاَ تَلَیْتَ ثُمَّ یُضْرَبُ بِمِطْرَقَۃٍ مِّنْ حَدِیْدٍ ضَرْبَۃً بَیْنَ اُذُنَیْہِ فَیُصِیْحُ صَیْحَۃً یَّسْمَعُھَا مَنْ یَّلِیْہِ اِلاَّ الثَّقَلَیْنِ

(بخاری:کتاب الجنائز، باب المیت یسمع خفق النعال)

’’نبی ﷺ نے فرمایا: بندہ جب اپنی قبر میں رکھ دیا گیا اور اس کا معاملہ اختتام کو پہنچ گیا اور اس کے ساتھی چلے گئے۔ یہاں تک کہ وہ یقینی طور ان(فرشتوں) کی جوتیوں کی آواز سنتا ہے کہ دو فرشتے آجاتے ہیں اس کو بٹھاتے ہیں اور وہ دونوں اس سے کہتے ہیں کہ تو کیا کہتا تھا اس شخص محمد ﷺکے بارے میں؟ وہ کہتا ہے کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ وہ ﷲ کے بندے اور اس کے رسول ہیں۔ تو اس سے کہا جاتا ہے کہ تو جہنم میں اپنے ٹھکانے کی طرف دیکھ ﷲ تعالی نے اس کے بدلہ میں تجھے جنت کا ٹھکانہ عطا کیا ہے۔ نبی ﷺ نے فرمایا کہ پھر وہ ان دونوں چیزوں کو دیکھتا ہے اور کافر یا منافق کہتا ہے کہ مجھے کچھ نہیں معلوم، میں تو وہی کہتا تھا جو لوگ کہتے تھے، اس سے کہا جاتا ہے کہ تو نے سچی بات نہ جانی اور نہ جاننے والوں کی پیروی کی پھر اس کے دونوں کانوں کے درمیان لوہے کے ہتھوڑے سے ایسی ضرب لگائی جاتی ہے اور وہ چیخ مارتا ہے کہ جن و انس کے علاوہ ہر کوئی سنتا ہے‘‘۔

دراصل یہ حدیث صرف اس حد تک بیان کرتی ہے کہ  مرنے کے بعد انسان سے سوال و جواب اور اس کی سزا و جزا کس قدر جلد شروع ہو جاتی ہے۔ رہا ان کا یہ کہنا کہ یہ زمینی قبر میں عذاب قبر پر دلیل ہے بالکل غلط بات ہے، ورنہ انہیں چند باتوں کا جواب دینا ہوگا۔

۱)         کیا مرنے کے بعد سوال و جواب صرف انہی سے ہوتے ہیں جو اس زمینی قبر میں دفنائے جاتے ہیں؟

2)        کیا مٹی سے بنا یہ مردہ جسم سنتا اور بولتا ہے؟

ان معاملات کے لئے ہم کتاب اللہ سے رجوع کرتے ہیں :

کیا مرنے کے بعد سوال و جواب صرف انہی سے ہوتے ہیں جو اس زمینی قبر میں دفنائے جاتے ہیں؟

ایک طویل حدیث میں نبیﷺ نے عذاب قبر کا آنکھوں دیکھا حال بیان کیا اور فرمایا:

۔ ۔ ۔ ۔ وَالنَّارَ وَلَقَدْ اُوْحِیَ اِلَیَّ اَنَّکُمْ تُفْتَنُوْنَ فِی الْقُبُوْرِ مِثْلَ اَوْ قَرِیْبًامِّنْ فِتْنَۃِ الدَّجَّالِ لَآ اَدْرِیْ اَیَّ ذٰلِکَ قَالَتْ اَسْمَآءُ یُؤْتٰی اَحَدُکُمْ فَیُقَالُ لَہٗ مَاعِلْمُکَ بِھٰذَالرَّجُلِ فَاَمّا المُؤْمِنُ اَوِ الْمُوْقِنُ لَآ اَدْرِیْ اَیَّ ذٰلِکَ قَالَتْ اَسْمَآءُ فَیَقُوْلُ ھُوَ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اﷲ جَآءَ نَا بِالْبَیِّنَاتِ وَالْھُدٰی فَاَجَبْنَا وَ اٰمَنَّا وَاتَّبَعْنَا فَیُقَالُ نَمْ صَالِحًا فَقَدْ عَلِمْنَااِنْ کُنْتَ لَمُؤْمِنًا وَ اَمَّا الْمُنَافِقُ اَوِ الْمُرْتَابُ لَآاَدْرِیْ اَیَّ ذٰلِکَ قَالَتْ اَسْمَآءُ فَیَقُوْلُ لَآاَدْرِیْ سَمِعْتُ النَّاسَ یَقُوْلُوْنَ شَیْءًا فَقُلْتُہٗ

(بخاری:کتاب الوضوء۔باب من لم یتوضا الا من الغشی المثقل)

’’ ( نبی ﷺ نے طویل صلاۃ ادا کی اور فرمایا ) جو چیزیں میں نے نہیں دیکھی تھیں ابھی اسی جگہ دیکھ لیں ( نبی ﷺ نے فرمایا ): اور میری طرف وحی کی گئی کہ تم اپنی قبروں میں آزمائے جاؤگے دجال کے فتنے کی طرح یا اس کے قریب قریب۔۔۔  یُؤْتٰی اَحَدُکُمْ فَیُقَالُ تم میں سے ہر ایک کو لایا جائے گا اور اس سے کہا جائے گا کہ اس مرد کے متعلق کیا علم رکھتے ہو۔ مومن یا موقن(کہتی ہیں) مجھے یاد نہیں، کہے گا وہ ﷲ کے رسول محمدﷺ ہیں جو ہمارے پاس کھلی نشانیاں اور ہدایت لے کر آئے ،ہم نے ان کی بات مانی اور ایمان لائے اور پیروی کی۔ اس سے کہا جائے گا سو جا ،اس لیے کہ ہم نے جان لیا ہے کہ تو مومن ہے۔ لیکن منافق یا شک کرنے والا کہے گا کہ مجھے نہیں معلوم، میں نے تو جو لوگوں کو کہتے ہوئے سنا وہی میں نے کہا‘‘۔

واضح ہوا کہ سوال ہر ایک سے ہوتا ہے کوئی اس سے نہیں بچتا اور سوال وہی ہے جو پہلی اور دوسری حدیث میں بیان کیا گیا ہے کہ

’’ تم اس شخص ( محمد ﷺ ) بارے میں کیا کہتے ہو‘‘ یعنی دونوں احادیث ایک ہی معاملہ بیان کر رہی ہیں۔ عذاب قبر کی مفصل پوسٹ نمبر 7 میں ہم نے قرآن و حدیث دلائل پیش کردئیے ہیں کہ سوال و جواب روح سے ہوتا ہے اور ہر ایک سے ہوتا ہے جیسا کہ فرمایا گیا : تم میں سے ہر ایک کولایا جائے گا اور اس سے کہا جائے گا کہ اس مرد کے متعلق کیا علم رکھتے ہو۔

میت کا اٹھانا بٹھانا اس زمین کا معاملہ نہیں ، یہ سوال اس سے بھی ہوگا جو قبر میں دفنایا گیا ہو اور اس سے بھی جس کا جسم جل کر راکھ ہو گیا ہو۔ عالم برزخ میں سب کو اٹھایا بٹھایا جائے گا اور ، پھر جو اس حدیث میں کہا گیا کہ  ’’ اور وہ چیخ مارتا ہے کہ جن و انس کے علاوہ ہر کوئی سنتا ہے ‘‘، یہ بھی بالکل صحیح بات ہے عالم برزخ میں زندہ جن و انس تو ہوتے ہی نہیں کہ وہ اس چیخ کو سن سکیں۔

کیا مٹی سے بنا یہ مردہ جسم سنتا اور بولتا ہے؟

اگر یہ فرقہ پرست کہتے ہیں کہ نہیں یہ یہاں ہی کا معاملہ ہے اس زمین میں اسی جسم سے حساب لیا جاتا ہے تو پھر سوال یہ اٹھتا ہے کہ قرآن نے واضح انداز میں فرما دیا کہ مردے نہیں سنتے اس کا کیا ہوگا ؟ کیا قرآن کا انکار کردیا جائے !

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :

اِنَّمَا يَسْتَجِيْبُ الَّذِيْنَ يَسْمَعُوْنَ١ؔؕ وَ الْمَوْتٰى يَبْعَثُهُمُ اللّٰهُ ثُمَّ اِلَيْهِ يُرْجَعُوْنَؐ

[الأنعام: 36]

’’بات تو وہی مانیں گے جو سنتے سمجھتے ہیں رہے یہ مردے تو اللہ ان کو اٹھائے گا پھر یہ اسی کی طرف لوٹائے جائیں گے ‘‘۔

يُوْلِجُ الَّيْلَ فِي النَّهَارِ وَ يُوْلِجُ النَّهَارَ فِي الَّيْلِ١ۙ وَ سَخَّرَ الشَّمْسَ وَ الْقَمَرَ١ۖٞ كُلٌّ يَّجْرِيْ لِاَجَلٍ مُّسَمًّى١ؕ ذٰلِكُمُ اللّٰهُ رَبُّكُمْ لَهُ الْمُلْكُ١ؕ وَ الَّذِيْنَ تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِهٖ مَا يَمْلِكُوْنَ مِنْ قِطْمِيْرٍؕ۰۰۱۳اِنْ تَدْعُوْهُمْ لَا يَسْمَعُوْا دُعَآءَكُمْ١ۚ وَ لَوْ سَمِعُوْا مَا اسْتَجَابُوْا لَكُمْ١ؕ وَ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ يَكْفُرُوْنَ بِشِرْكِكُمْ١ؕ وَ لَا يُنَبِّئُكَ مِثْلُ خَبِيْرٍؒ۰۰۱۴

[فاطر: 13-14]

’’ اور لوگ جنہیں پکارتے ہیں اللہ کے علاوہ ( وہ ) ایک قطمیر ( کھجور کی گھٹلی پر چڑھا ہوا غلاف ) کے بھی مالک نہیں، اگر تم انہیں پکارو یہ تمہاری پکار نہیں سنتے، اور اگر کہیں سن بھی لیں تو تمہارے کسی کام نہیں آ سکتے، اور قیامت کے دن تمہارے شرک کا انکار کریں گے، اور تمہیں اس کی خبر دینے والا کوئی نہیں سوا ( اللہ ) سب کچھ جاننے والے کے۔‘‘

اللہ تعالیٰ نے اس فعل کو گمراہ ترین فعل فرمایا :

وَ مَنْ اَضَلُّ مِمَّنْ يَّدْعُوْا مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ مَنْ لَّا يَسْتَجِيْبُ لَهٗۤ اِلٰى يَوْمِ الْقِيٰمَةِ وَ هُمْ عَنْ دُعَآىِٕهِمْ غٰفِلُوْنَ۰۰۵

[الأحقاف: 5]

’’ اور اس شخص سے بڑھ کر گمراہ کون ہو سکتا ہے جو اللہ کے سوا ان لوگوں کو پکارتا ہے جو قیامت تک اس کی داد رسی نہیں کر سکتے۔ وہ تو ان کی پکار ہی سے غافل ہیں۔‘‘

سننے کی نفی  کے ساتھ ساتھ قرآن مردے کے بولنے کی بھی نفی کرتا ہے، ملاحظہ فرمائیں :

وَ لَوْ اَنَّنَا نَزَّلْنَاۤ اِلَيْهِمُ الْمَلٰٓىِٕكَةَ وَ كَلَّمَهُمُ الْمَوْتٰى وَ حَشَرْنَا عَلَيْهِمْ كُلَّ شَيْءٍ قُبُلًا مَّا كَانُوْا لِيُؤْمِنُوْۤا اِلَّاۤ اَنْ يَّشَآءَ اللّٰهُ وَ لٰكِنَّ اَكْثَرَهُمْ يَجْهَلُوْنَ۰۰۱۱۱

[الأنعام: 111]

’’اور اگر ہم ان کے پاس فرشتوں کو بھیج دیتے اور ان سے مردے باتیں کرنے لگتے اور ہم تمام موجودات کو ان کے پاس ان کی آنکھوں کے روبرو ﻻ کر جمع کر دیتے ہیں تب بھی یہ لوگ ہرگز ایمان نہ ﻻتے ہاں اگر اللہ ہی چاہے تو اور بات ہے لیکن ان میں زیاده لوگ جہالت کی باتیں کرتے ہیں۔‘‘

وَ لَوْ اَنَّ قُرْاٰنًا سُيِّرَتْ بِهِ الْجِبَالُ اَوْ قُطِّعَتْ بِهِ الْاَرْضُ اَوْ كُلِّمَ بِهِ الْمَوْتٰى ١ؕ بَلْ لِّلّٰهِ الْاَمْرُ جَمِيْعًا١ؕ اَفَلَمْ يَايْـَٔسِ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْۤا اَنْ لَّوْ يَشَآءُ اللّٰهُ لَهَدَى النَّاسَ جَمِيْعًا١ؕ وَ لَا يَزَالُ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا تُصِيْبُهُمْ بِمَا صَنَعُوْا قَارِعَةٌ اَوْ تَحُلُّ قَرِيْبًا مِّنْ دَارِهِمْ حَتّٰى يَاْتِيَ وَعْدُ اللّٰهِ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ لَا يُخْلِفُ الْمِيْعَادَؒ۰۰۳۱

[الرعد: 31]

’’اگر (بالفرض) کسی قرآن (آسمانی کتاب) کے ذریعے پہاڑ چلا دیئے جاتے یا زمین ٹکڑے ٹکڑے کر دی جاتی یا مردوں سے باتیں کرا دی جاتیں (پھر بھی وه ایمان نہ ﻻتے)، بات یہ ہے کہ سب کام اللہ کے ہاتھ میں ہے، تو کیا ایمان والوں کو اس بات پر دل جمعی نہیں کہ اگر اللہ تعالیٰ چاہے تو تمام لوگوں کو ہدایت دے دے۔ کفار کو تو ان کے کفر کے بدلے ہمیشہ ہی کوئی نہ کوئی سخت سزا پہنچتی رہے گی یا ان کے مکانوں کے قریب نازل ہوتی رہے گی تاوقتیکہ وعدہٴ الٰہی آپہنچے۔ یقیناً اللہ تعالیٰ وعده خلافی نہیں کرتا۔‘‘

سننے اور بولنے کے بعد دیکھیں قرآن بتاتا ہے کہ مردہ کسی قسم کا کوئی شعور ہی نہیں رکھتا :

اَوْ كَالَّذِيْ مَرَّ عَلٰى قَرْيَةٍ وَّ هِيَ خَاوِيَةٌ عَلٰى عُرُوْشِهَا١ۚ قَالَ اَنّٰى يُحْيٖ هٰذِهِ اللّٰهُ بَعْدَ مَوْتِهَا١ۚ فَاَمَاتَهُ اللّٰهُ مِائَةَ عَامٍ ثُمَّ بَعَثَهٗ١ؕ قَالَ كَمْ لَبِثْتَ١ؕ قَالَ لَبِثْتُ يَوْمًا اَوْ بَعْضَ يَوْمٍ١ؕ قَالَ بَلْ لَّبِثْتَ مِائَةَ عَامٍ فَانْظُرْ اِلٰى طَعَامِكَ وَ شَرَابِكَ لَمْ يَتَسَنَّهْ١ۚ وَ انْظُرْ اِلٰى حِمَارِكَ وَ لِنَجْعَلَكَ اٰيَةً لِّلنَّاسِ وَ انْظُرْ اِلَى الْعِظَامِ كَيْفَ نُنْشِزُهَا ثُمَّ نَكْسُوْهَا لَحْمًا١ؕ فَلَمَّا تَبَيَّنَ لَهٗ١ۙ قَالَ اَعْلَمُ اَنَّ اللّٰهَ عَلٰى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ۰۰۲۵۹

 [البقرة: 259]

’’یا اس شخص کے مانند کہ جس کا گزر اس بستی پر ہوا جو چھت کے بل اوندھی پڑی ہوئی تھی، وه کہنے لگا اس کی موت کے بعد اللہ تعالیٰ اسے کس طرح زنده کرے گا؟ تو اللہ تعالی نے اسے  سو سال کے لئے موت دے دی، پھر اسے اٹھایا، پوچھا کتنی مدت تجھ پر گزری؟ کہنے لگا ایک دن یا دن کا کچھ حصہ، فرمایا بلکہ تو سو سال تک رہا، پھر اب تو اپنے کھانے پینے کو دیکھ کہ بالکل خراب نہیں ہوا اور اپنے گدھے کو بھی دیکھ، ہم تجھے لوگوں کے لئے ایک نشانی بناتے ہیں تو دیکھ کہ ہم ہڈیوں کو کس طرح اٹھاتے ہیں، پھر ان پر گوشت چڑھاتے ہیں، جب یہ سب ظاہر ہو چکا تو کہنے لگا میں جانتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے۔‘‘

سورہ نحل میں فرمایا :

اَمْوَاتٌ غَيْرُ اَحْيَآءٍ١ۚ وَ مَا يَشْعُرُوْنَ١ۙ اَيَّانَ يُبْعَثُوْنَؒ۰۰۲۱

 [النحل: 21]

’’مردہ ہیں، زندگی کی رمق نہیں،  اور نہیں شعور رکھتے کہ کب اٹھائے جائیں گے‘‘۔

معلوم ہوا کہ مردہ جسم نہ سنتا ہے ، نہ بولتا ہے اور نہ ہی کسی قسم کا شعور رکھتا ہے تو اس سے سوال و جواب کیسے ؟اسے جزا و عذاب دینا کیسا  ؟ یہ سارا معاملہ جنت و جہنم کا ہے جہاں ہر ایک کی روح جاتی ہے اور اسے ایک جسم دیا جاتا ہے اسی مجموعے سے سوال و جواب  ہوتا اور اسی کو راحت قبر یا عذاب  قبر کا نام دیا جاتا ہے۔

ہندو، کمیونسٹ، سوشلسٹ اپنے مردے جلا دیتے ہیں؟ پارسی مجوسی اپنے مردے پرندوں کو کھلا دیتے ہیں سوچیں اگر اسی زمین پر سوال و جواب اور عذاب و راحت ملتا ہے تو یہ سب تو اس سے بچ گئے، مارے تو وہ بیچارے گئے جو اپنے مردے  اس زمین میں دفن کرتے ہیں۔ البتہ اس بات کی  بھی کوئی ضمانت  نہیں ہے کہ  جس مردہ جسم کو یہ چھ فٹ  کی قبر  ملتی بھی ہے  اس کا مردہ جسم قیامت تک اس قبر  تک محدود رہے ۔ کیڑے مکوڑے کھا کھا کر اسے اس قبر سے دور نہیں لے جائیں گے۔

 جیسا کہ  پہلے بتایا کہ مسلک پرست اس  حدیث کو کس طرح برہان قاطعہ کے طور پیش کرتے ہیں لیکن حقیقت کیا ہے وہ آپ کو پچھلی پوسٹ میں اندازہ ہوگیا ہوگا۔  اس پوسٹ میں ہم آپ کو یہ دکھانا چاہتے ہیں کہ حقیقت میں ان کا قرآن و حدیث سے کتنا تعلق ہے اور ان کے کتنے منہ ہیں۔قرآن و حدیث مردے کے سماع کی مکمل نفی کرتے ہیں لیکن یہ مسلک پرست جوتیوں کی چاپ سننے کی جو توجیہات اس موقف کے خلاف پیش کرتے ہیں ،وہ اس طرح ہیں:

’’۔۔۔ان آیات مذکورہ کے سوا اور بھی آیات ہیں جن سے مردوں کا عدم سماع ثابت ہوتاہے اور بجز حدیث قرع نعال سے مردوں کا ایک خاص وقت میں سننا ثابت ہوتا ہے جس وقت مردہ قبر میں نکیرین کے سوال کے جواب دینے کے لیے زندہ کردیا جاتا ہے اور اس وقت مردہ مردہ نہیں رہتا‘‘۔ (فتاوئے نذیریہ،ازمیاں نذیر حسین، بانی فرقہ اہلحدیث، حصہ اوّل، صفحہ ۶۷۰)

’’البتہ اس حدیث کے جواب میں اشکال واقع ہوتا ہے کہ مردہ واپس جانے والوں کی جوتیوں کی آواز بھی سنتا ہے تو اس کو بھی اوّل وقت کے ساتھ مخصوص کیا گیا ہے کہ جب منکر و نکیر قبر میں سوال کرنے کے لیے آتے ہیں اس وقت روح لوٹائی جاتی ہے اس وقت سن بھی لیتا ہے‘‘۔

( ایضاً صفحہ ۶۷۲)

دوسرا اہلحدیث مفتی کہتا ہے:

’’سوال و جواب کے وقت روح کو بھی قبر کی طرف لوٹایا جاتا ہے‘‘۔ 
(عقیدہ عذاب قبر،از ابو جابر عبد اﷲ دامانوی ، صفحہ ۲۷)

عالم فرقہ  عبد الرحمن کیلانی فرماتے ہیں:

’’اب مشکل یہ ہے کہ مردہ کے جوتوں کی چاپ سننے کا واقعہ بخاری کے علاوہ بھی دوسری کتب صحاح میں جہاں بھی مذکور ہے تو ساتھ ہی منکر نکیر کے آنے اور سوال و جواب کا ذکر شروع ہوجاتا ہے۔گویا منکر و نکیر کے آنے سے تھوڑی دیر پہلے اس کی روح علیّن یا سجّین سے لوٹا کر اسے ہوش میں لایا جاتا ہے،تاکہ سوالوں کا جواب دے سکے‘‘۔ ( روح،عذاب قبر اور سماع موتیٰ، از عبد الرحمن کیلانی، صفحہ ۵۱)

اس مسئلے پر اہل تشیع بھی ان کے ہم عقیدہ ہیں:

’’۔۔۔ احادیث معتبرہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ قبر میں سوال و جواب اور فشارِ قبر اسی بدن اصلی سے جو دنیا میں تھا متعلق ہوگا اور روح تمام بدن یا جسم کے کچھ حصے میں ( یعنی سینے تک، یا کمر تک جیسا کہ احادیث میں ہے) پلٹائی جاتی ہے تاکہ میت کو خطاب سوال کے سمجھنے اور جواب دینے پر قدرت حاصل ہوجائے‘‘۔ (معاد،ازآیت اﷲ عبد الحسین، صفحہ ۴۰،۴۱)

بحیثیت ایک مومن ہمارا عقیدہ ہے کہ اﷲ کے سچے رسول محمدﷺ  کسی صورت میں بھی قرآن کے بیان کردہ عقیدے کے انکار میں کوئی بات کہہ ہی نہیں سکتے تھے۔ لیکن بانی فرقہ اہلحدیث ، فرماتے ہیں:

’’ان آیات مذکورہ کے سوا اور بھی آیات ہیں جن سے مردوں کا عدم سماع ثابت ہوتاہے اور بجز حدیث قرع نعال سے مردوں کا ایک خاص وقت میں سننا ثابت ہوتا ہے‘‘

غورکیجیے !خود تسلیم کرتے ہیں کہ قرآن سے مردے کا عدم سماع ثابت ہے۔ جب قرآن سے مردے کا عدم سماع ثابت ہے تو پھر کیسے یہ عقیدہ رکھا جا سکتا ہے کہ نبیﷺ  کی حدیث سے مردے کا سماع ثابت ہو جائے گا! سوال جواب ،اٹھانا بٹھانا یہ سارا معاملہ عالم برزخ کا ہے، اس زمینی قبر سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔قرآن و حدیث کے دلائل پر تو ان کا دل مطمئن ہوتا ہی نہیں ،لیکن کیا اپنے ہی فرقے کے ’’عالم‘‘ کے اس اعترافِ حقیقت کو بھی جھٹلا دیں گے۔ ملاحظہ فرمایئے:

’’میت کے لئے قدموں کی آواز اپنے اندر یہ عبرت ناک حکمت لئے ہوئے ہے کہ ہائے اس بے چارے کو یکہ و تنہا چھوڑ کر سب چلے گئے ۔۔۔اتنا خیال رہنا چاہیے کہ اس سماع کا مردے کے دفن شدہ جسم سے کوئی تعلق نہیں جیسا کہ اکثر اہل دیوبند کاخیال ہے۔ ورنہ اسکو بٹھانے، قبر کو کشادہ کرنے یا پسلیوں کے آرپار ہونے ننانوے سانپوں کے ڈسنے اور عذاب و ثواب کے دیگر احوال کو بھی جسمانی حقیقت پر معمول کرنا پڑیگا مگر اس کا قائل ہونا مشکل ہے۔ روزمرہ کا تجربہ اسکی تغلیط کرتا ہے جیسا کہ آگے چل کر واضح ہوگا‘‘۔( قبر پرستی اور سماع موتیٰ،از محمد قاسم خواجہ،صفحہ ۷۲)
’’ جہاں تک قبر میں فرشتوں کے آنے، روح کو لوٹانے ،میت کو بٹھانے ،سوال و جواب کرنے، قبر کو کشادہ یا تنگ یا عذاب و ثواب کا تعلق ہے، تو گذارش ہے کہ یہاں قبر سے مراد یہ مٹی کی قبر نہیں ،یہ کوئی اور جہاں ہے جسے آپ عالم ارواح یا عالم مثال یا عالم برزخ کہہ سکتے ہیں‘‘۔ (کراچی کا عثمانی مذہب، از محمد قاسم خواجہ ، اہلحدیث صفحہ ۸۷)

’’یہ ساری مصیبت اس لئے کھڑی ہوئی ہے کہ برزخی احوال کے بارے میں بیان شدہ احادیث کو دنیوی احوال پر منطبق کر لیا گیا ہے‘‘۔ (ایضاً صفحہ ۸۹)

دیکھیں ،اﷲ تعالیٰ نے کس انداز میں خود انہی کے قلم سے قرآن و حدیث کی سچی بات نکلوادی، لیکن یہ ان کے چہرے کا دوسرارخ ہے۔

اپنی دوسری کتاب میں یہی موصوف فتعاد روحہ فی جسد اور انہ یسمع قرع نعالھم کی روایات کو بنیاد بناتے ہوئے اپنا دوسرا رخ دکھاتے ہیں:

’’۔۔۔ یہ دونوں حدیثیں یکساں طور پر بظاہر قبر کی زندگی پر دلالت کرتی ہیں۔‘‘ (کراچی کا عثمانی مذہب:صفحہ ۴۶)

نبی ﷺکے خچرکے بدکنے والی روایت کی بنیاد پر لکھتے ہیں:

’’اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان قبروں کے بیچ میں ضرور کچھ ہوتا ہے۔۔۔‘‘(ایضاًصفحہ ۵۶)

مزید فرماتے ہیں:

’’ ابو سعید خدریؓ کی جنازہ والی روایت مذکورہ بالاسے یہ بھی معلوم ہوا کہ مٹی کی قبر کے ساتھ میت کا گہرا تعلق ہے‘‘۔( ایضاًصفحہ ۵۷)

دو ٹہنیوں والی حدیث کی بناء پر انہوں نے استخراج کیا ہے کہ

’’ اس سے معلوم ہوا کہ حضورؐ نے مٹی کی قبروں سے عذاب محسوس فرمایا اور تخفیف کے لیے مٹی کی قبروں پر ہی شاخیں گاڑدیں‘‘۔ (ایضاً)

ایک اور روایت لکھ کر کہتے ہیں:

’’ معلوم ہوا زمین کو جزا و سزا میں کچھ دخل ہے‘‘۔(ایضاً)

بریلویانہ انداز میں مزید خامہ فرسائی فرماتے ہیں:

’’ میں پوچھتا ہوں قبرستان میں کچھ نہیں ہوتا تو وہاں جاکر دعا اور استغفار کا کیا مطلب؟‘‘ (صفحہ ۵۸)

ع بدلتا ہے رنگ آسمان کیسے کیسے!

ملاحظہ فرمائی ان کی ذو الوجہین شخصیت! کیسے دورخے ہیں! زبان کی ایک کروٹ سے کچھ کہتے ہیں اوردوسری سے کچھ! ایک طرف جوتیوں کی چاپ سننے والی روایت کے بارے میں کہتے ہیں کہ یہاں قبر سے مراد مٹی کی قبر نہیں،یہ کوئی اور جہاں ہے ۔دوسری طرف کہتے ہیں کہ’’ یہ قبر میں زندگی پر دلالت کرتی ہے‘‘!ایک طرف کہتے ہیں :’’ معلوم ہوا زمین کو جزا و سزا میں کچھ دخل ہے‘‘، دوسری طرف ان کا بیان ہے کہ ’’یہ ساری مصیبت اس لئے کھڑی ہوئی ہے کہ برزخی احوال کے بارے میں بیان شدہ احادیث کو دنیوی احوال پر منطبق کر لیا گیا ہے‘‘۔ اس موقع پر قرآن کی یہ آیت ان پرپوری طرح صادق آتی ہے کہ

يُخٰدِعُوْنَ اللّٰهَ وَ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا١ۚ وَ مَا يَخْدَعُوْنَ اِلَّاۤ اَنْفُسَهُمْ وَ مَا يَشْعُرُوْنَؕ۰۰۹

 [البقرة: 9]

’’اللہ کو اور ایمان والوں کو دھوکا دیتے ہیں، حالانکہ وہ خود اپنے آپ کو دھوکہ دے رہے ہیں اور وہ اس کا شعور نہیں رکھتے ‘‘


دراصل پہلے ڈاکٹر عثمانی رحمہ اللہ کے قرآن و حدیث پر مبنی دلائل کو رد کرنا تھا کیونکہ وہ ان کے فرقے کوباطل پرست ثابت کر رہے تھے،اس لیے لفاظی کرتے ہوئے زبانِ مسموم سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ اسی زمینی قبر میں سب کچھ ہوتا ہے۔ پھرجب بات ہوئی اپنے حریف حنفیوں کو ہرانے کی، تو خود وہی سب کچھ لکھ ڈالاجو ڈاکٹر صاحب رحمۃ اﷲعلیہ نے قرآن و حدیث سے ثابت کیا تھا۔شاید یہ لوگ دوغلا پن کسی اور چیز کو کہتے ہیں؟

یہ سب قبر کے اس مردے کو لازمی زندہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کیونکہ احمد بن حنبل نے لکھ دیا کہ روح لوٹا دی جاتی ہے، ابن تیمیہ  اور ابن قیم نے اس کوشعور و ادراک والا بیان کردیا اسی لئے تو بانی فرقہ اہلحدیث فرماتے ہیں :’’۔۔۔ اس وقت مردہ مردہ نہیں رہتا‘‘اس پر ہم صرف قرآن کی یہ آیت ہی پڑھ سکتے ہیں کہ:

قُلْ بِئْسَمَا يَاْمُرُكُمْ بِهٖۤ اِيْمَانُكُمْ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِيْنَ

 [البقرة: 93]
)’’ ان سے) کہو کہ تمہارا ایمان تو تمہیں بہت ہی برا حکم دے رہا ہے،اگر تم (واقعی) مومن ہو‘‘ 

جانور عذاب قبر سنتے ہیں :

الحمد للہ اس مالک کا صد لاکھ کرم کہ جس نے اپنے نازل کردہ  کے ذریعے بات کو واضح کردیا  کہ انسان کی وفات کے  اگلے لمحے ہی اس کی آخرت شروع اور  اس کی روح کوجنت میں راحت ملنا یا جہنم میں  عذاب شروع ہوجاتا ہے۔  لیکن افسوس کہ فرقوں سے وابستہ ان مسلک پرستوں نے  قرآن و حدیث کے خلاف عقائد دے کر اس معاملے کو مشتبہ بنانے کی کوشش کی اور مختلف احادیث کے غلط معنی  بیان کرکے اس دنیاوی قبر میں عذاب ثابت کرنے  کی کوشش کی۔

            اسی کوشش میں احادیث کے مختلف الفاظ کو پکڑ کر اپنے فرقے کے عقیدے کو ثابت کرنے کی کوشش کی، جیسا کہ بیان کیا جاتا ہے کہ عذاب اسی زمینی قبر میں ہوتا ہے اور اسے چوپائے بھی سنتے ہیں۔ لہذا ضرورت ہے کہ ان معاملات کی حقیقت لوگوں کے سامنے واضح کی جائے۔

اس بارے میں حدیث پیش کی جاتی ہے:

عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: دَخَلَتْ عَلَيَّ عَجُوزَانِ مِنْ عُجُزِ يَهُودِ المَدِينَةِ، فَقَالَتَا لِي: إِنَّ أَهْلَ القُبُورِ يُعَذَّبُونَ فِي قُبُورِهِمْ، فَكَذَّبْتُهُمَا، وَلَمْ أُنْعِمْ أَنْ أُصَدِّقَهُمَا، فَخَرَجَتَا، وَدَخَلَ عَلَيَّ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقُلْتُ لَهُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ عَجُوزَيْنِ، وَذَكَرْتُ لَهُ، فَقَالَ: «صَدَقَتَا، إِنَّهُمْ يُعَذَّبُونَ عَذَابًا تَسْمَعُهُ البَهَائِمُ كُلُّهَا» فَمَا رَأَيْتُهُ بَعْدُ فِي صَلاَةٍ إِلَّا تَعَوَّذَ مِنْ عَذَابِ القَبْرِ

( بخاری ، کتاب الدعوات ، بَابُ التَّعَوُّذِ مِنْ عَذَابِ القَبْرِ )

’’عائشہ ؓ  کہتی ہیں، کہ میرے پاس یہود مدینہ کی دو بوڑھی عورتیں آئیں ان دونوں نے مجھ سے کہا، کہ قبر والے اپنی قبروں میں عذاب دیئے جاتے ہیں تو میں نے ان کی تکذیب کی اور اچھا نہیں سمجھا کہ ان کی تصدیق کروں، چنانچہ وہ دونوں چلی گئیں، پھر میرے پاس نبی ﷺتشریف لائے، میں نے آپ سے عرض کیا کہ یا رسول اللہ دو بوڑھی عورتیں آئی تھیں اور آپ سے سارا واقعہ بیان کیا۔ آپ نے فرمایا ان دونوں نے ٹھیک کہا، بیشک (لوگ) قبروں میں عذاب دیئے جاتے ہیں جنہیں تمام چوپائے سنتے ہیں، چنانچہ اس کے بعد میں نے آپ کو ہر صلاۃ میں عذاب قبر سے پناہ مانگتے ہوئے دیکھا۔‘‘

انس ؓ بیان کرتے ہیں :

عَنْ أَنَسٍ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ عَلَى بَغْلَةٍ شَهْبَاءَ، فَمَرَّ عَلَى حَائِطٍ لِبَنِي النَّجَّارِ، فَإِذَا هُوَ بِقَبْرٍ يُعَذَّبُ صَاحِبُهُ، فَحَاصَتِ الْبَغْلَةُ، فَقَالَ: ” لَوْلَا أَنْ لَا تَدَافَنُوا، لَدَعَوْتُ اللهَ أَنْ يُسْمِعَكُمْ عَذَابَ الْقَبْرِ “

 ( مسند احمد، مسند المکثرین من الصحابہ، مسند انس بن مالک ؓ )

’’انس بن مالکؓ سے مروی کہ ایک مرتبہ نبیﷺ اپنے سفید خچر پر سوار مدینہ منورہ میں بنو نجار کے کسی باغ سے گذرے، وہاں کوئی قبر تھی ، قبر والے کو عذاب ہو رہا تھا ، ، چنانچہ خچر بدک گیا، نبیﷺ نے فرمایا اگر تم لوگ اپنے مردوں کو دفن کرنا چھوڑ نہ دیتے تو میں اللہ سے یہ دعاء کرتا کہ وہ تمہیں بھی عذاب قبر کی آواز سنادے۔‘‘

اسی حوالے سے  مختلف الفاظ کیساتھ  انس ؓ یہ حدیث بھی بیان کرتے ہیں:

أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ قَالَ: مَرَّ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِحَائِطٍ لِبَنِي النَّجَّارِ، فَسَمِعَ صَوْتًا مِنْ قَبْرٍ فَقَالَ: ” مَتَى مَاتَ صَاحِبُ هَذَا الْقَبْرِ؟ ” قَالُوا: مَاتَ فِي الْجَاهِلِيَّةِ. فَقَالَ: ” لَوْلَا أَنْ لَا تَدَافَنُوا، لَدَعَوْتُ اللهَ أَنْ يُسْمِعَكُمْ عَذَابَ الْقَبْرِ “

  ( مسند احمد، مسند المکثرین من الصحابہ، مسند انس بن مالک ؓ )

’’ انس ؓ سے روایت ہے کہ  ہم گزرے بنو نجار کے باغ سے، ایک آواز سنی، نبیﷺ نے فرمایا یہ کیا؟ ، ہم نے جواب دیا  ایک شخص  کی قبر ہے جو جاہلیت میں مرا، نبی ﷺ نے فرمایا: اگر تم لوگ اپنے مردوں کو دفن کرنا چھوڑ نہ دیتے تو میں اللہ سے یہ دعاء کرتا کہ وہ تمہیں بھی عذاب قبر کی آواز سنادے۔‘‘

ان روایات سے دو باتیں سامنے آتی ہیں :

 یہ فرقہ پرست۔ ۔ ۔   ’’قبر والے اپنی قبروں میں عذاب دئیے جاتے ہیں ،ایسا عذاب جسے جانور سنتے ہیں ‘‘۔ ۔ ۔ پیش کرکے یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ عذاب قبر اسی دنیاوی زمینی قبر میں ہوتا ہے ۔ بخاری کی روایت میں یہ الفاظ پڑھ کر تو یہ گویا پاگل ہی ہو جاتے ہیں کہ ان کا جھوٹا عقیدہ تو اب ثابت ہوہی ہوگیا۔ حقیقت یہ ہے کہ یہودی عورتوں کی آمد اور صلوٰۃ الکسوف کی روایات عائشہ رضی اﷲسے چارطرق سے آئی ہیں۔ تین طرق سے آنی والی روایات میں یہ الفاظ نہیں ملتے۔ البتہ مسروق رحمۃ اﷲعلیہ کے طرق سے آنے والی بعض روایات میں مختلف تبدیلیوں کے ساتھ یہ الفاظ ملتے ہیں۔ اس واقعہ کی تمام تر روایات جمع کر لی جائیں تو بھی کسی ایک سے یہ ثابت نہ ہوگا کہ نبی ﷺ کا اشارہ اسی زمینی قبر کی طرف ہے۔ اگرعذاباً تسمعہ البھآئم ’’ ایسا عذاب جو چوپائے بھی سنتے ہیں ‘‘ کی بنیاد پر کوئی عقیدہ بنایا جائے گا تو اس کا تعلق اسی دنیاوی زمینی قبر سے ہوگا یا پھراس مقام سے جہاں نبیﷺ نے یہ عذاب ہوتے ہوئے خوددیکھے؟

یہاں ہم  دو طویل احادیث  سے چند حوالے پیش کر رہے ہیں کہ نبیﷺ نے تو خود عذاب قبر ہوتے دیکھا، کیا دیکھا اور کہاں دیکھا، ملاحظہ فرمائیں :

عمرو بن لحی وہ شخص تھا کہ جس نے عرب میں بتوں کے نام پر جانور چھوڑنے کی رسم رائج کی تھی، نبی ﷺ نے اسکے متعلق فرمایا:

 رَأَيْتُ جَهَنَّمَ يَحْطِمُ بَعْضُهَا بَعْضًا وَرَأَيْتُ عَمْرًا يَجُرُّ قُصْبَهُ وَهْوَ أَوَّلُ مَنْ سَيَّبَ السَّوَائِبَ

( عن عائشہ ؓ ، بخاری، کتاب العمل فی الصلاۃ ، بَابُ إِذَا انْفَلَتَتْ الدَّابَّةُ فِي الصَّلاَةِ)

”میں نے جہنم کو دیکھا کہ اسکا ایک حصہ دوسرے کو برباد کر رہا تھا اور اس میں عمرو بن لحی کو دیکھا وہ اپنی آنتیں کھینچ رہا تھا۔“

ابو ثمامۃ عمرو بن دینار کیلئے فرمایا

وَرَأَيْتُ أَبَا ثُمَامَةَ عَمْرَو بْنَ مَالِکٍ يَجُرُّ قُصْبَهُ فِي النَّارِ

( عن جابر بن عبد اللہ ؓ ، مسلم ، کتاب الکسوف ، باب ما عرض على النبي صلى الله عليه وسلم في صلاة الكسوف من أمر الجنة والنار)

”اور میں نے دیکھا ابو ثمامۃ کو جہنم میں اپنی آنتیں کھینچ رہا تھا۔“

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «عُذِّبَتِ امْرَأَةٌ فِي هِرَّةٍ حَبَسَتْهَا حَتَّى مَاتَتْ جُوعًا، فَدَخَلَتْ فِيهَا النَّارَ» قَالَ: فَقَالَ: وَاللَّهُ أَعْلَمُ: «لاَ أَنْتِ أَطْعَمْتِهَا وَلاَ سَقَيْتِهَا حِينَ حَبَسْتِيهَا، وَلاَ أَنْتِ أَرْسَلْتِهَا، فَأَكَلَتْ مِنْ خَشَاشِ الأَرْضِ»

( عن عبد اللہ بن عمر ؓ ، بخاری، کتاب المساقاۃ ، بَابُ فَضْلِ سَقْيِ المَاءِ )

”ایک عورت جہنم میں داخل کردی گئی ا س وجہ سے کہ اس نے بلی کو باندھ کے رکھا ہو ا تھا نہ اسکو کھانے کیلئے کچھ دیا اور نہ ہی اسکو کھلا چھوڑا کہ وہ کیڑے وغیرہ کھا لیتی یہاں تک کہ وہ مر گئی۔“

بخاری میں بیان کردہ سمرہ بن جندب والی طویل حدیث کاکچھ حصہ:

’’ ۔ ۔ ۔ ۔ نبی ﷺ نے  ( دونوں فرشتوں سے )فرمایا میں نے ان سے کہا تم دونوں مجھے رات بھر گھماتے رہے ہو اب بتاؤ کہ میں نے جو کچھ دیکھا  وہ سب کیا ہے؟ دونوں نے کہا بہتر وہ جس کو آپؐ نے دیکھا کہ اسکے گلپھڑے پھاڑے جارہے تھے وہ کذاب تھا جھوٹی باتیں بیان کرتا تھا اور لوگ اس بات کو لے اڑتے تھے یہاں تک کہ ہر طرف اسکا چرچا ہوتا تھا       فَيُصْنَعُ بِهِ إِلَی يَوْمِ الْقِيَامَةِ تو اسکے ساتھ جو آپ ؐ نے ہوتے دیکھا وہ قیامت تک ہوتا رہیگا

اور جسکو آ پؐ نے دیکھا کہ اسکا سر کچلا جارہا تھا یہ وہ شخص تھا کہ جسکو اللہ تعالی نے قرآن کا علم دیا تھا لیکن وہ رات کو قرآن سے غافل سوتا رہا اور دن میں اسکے مطابق عمل نہ کیا  يُفْعَلُ بِهِ إِلَی يَوْمِ الْقِيَامَةِ  یہ عمل اسکے ساتھ قیامت تک ہوتا رہیگا۔ اور جنکو آپؐ نے نقب میں دیکھا وہ زناکار تھے اور جسکو آپؐ نے نہر میں دیکھا وہ سود خور تھا ۔      ( عن سمرۃ بن جندب ؓ، بخاری، کتاب الجنائز ، بَابُ مَا قِيلَ فِي أَوْلاَدِ المُشْرِكِينَ )


ملاحظہ فرمایا : نبی ﷺ عذاب قبر تو جہنم میں ہوتے دیکھ رہے ہیں اور عقیدہ یہ دیں گے کہ اس زمینی قبر میں ہوتا ہے؟  اللہ تعالیٰ  آل فرعون، قوم نوح علیہ السلام ، ازواج لوط و نوح علیہما السلام کو قرآن میں جہنم میں عذاب ہونے کا عقیدہ بیان کر رہا ہے اور  جانوروں کو زمینی قبر کا عذاب سنوائے گا ؟

فَاِنَّهَا لَا تَعْمَى الْاَبْصَارُ وَ لٰكِنْ تَعْمَى الْقُلُوْبُ الَّتِيْ فِي الصُّدُوْرِ

 [الحج: 46]

’’بات یہ ہے کہ آنکھیں اندھی نہیں ہوتیں بلکہ وہ دل جو سینے میں ہیں وہ اندھے ہوتے ہیں‘‘۔

قرآن اور حدیث کا پورا بیان پڑھ جائیے مرنے کے بعد صرف روح کو ملنے والی جزا یا سزا کا بیان ہے کہیں بھی اس جسم کو ملنے والی جزا یا سزا کا بیان نہیں، بلکہ بتایا   گیا کہ یہ جسم تو گل سڑ جاتا ہے ، لیکن افسوس کہ  ان کے دل ہی اندھے ہوگئے اور امت  میں غلط عقائد پھیلا کر اپنے فرقے کا دفاع تو کر رہے ہیں لیکن  ساتھ ہی اپنی آخرت بھی تباہ کر رہے ہیں ۔ کیا اللہ تعالیٰ جہنم میں ہونے والا عذاب یہاں سنا نہیں سکتا ؟ یہ حدیث ملاحظہ فرمائیے۔

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: كُنَّا مَعَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، إِذْ سَمِعَ وَجْبَةً، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «تَدْرُونَ مَا هَذَا؟» قَالَ: قُلْنَا: اللهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ، قَالَ: «هَذَا حَجَرٌ رُمِيَ بِهِ فِي النَّارِ مُنْذُ سَبْعِينَ خَرِيفًا، فَهُوَ يَهْوِي فِي النَّارِ الْآنَ، حَتَّى انْتَهَى إِلَى قَعْرِهَا» 

   ( مسلم،  الجنتہ و صفۃ نعیمھا و اھلھا )

’’ ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ ہم رسول اللہ ﷺ کیساتھ تھے کہ ایک گڑگراہٹ کی آواز سنائی دی تو نبیﷺ نے فرمایا کہ تم جانتے ہو  یہ کیا ہے ؟ ہم نے عرض کیا اللہ اور اس کا رسول ہی زیادہ جانتے ہیں، نبیﷺ نے فرمایا : یہ ایک پتھر ہے جو کہ ستر سال قبل جہنم میں پھینکا گیا تھا ، وہ لگاتار جہنم میں گر رہا تھا یہاں تک اب وہ تہہ میں پہنچا ہے‘‘۔

          جس طرح جہنم میں پھینکے جانے والے پتھر کی آواز نبی ﷺ اور صحابہ ؓ کو سنوا دی گئی اسی طرح نبیﷺ کو عالم برزخ میں ہونے والے عذاب کی آواز بھی سنوادی جاتی ہوگی، جب نبی ﷺ کو  عذاب قبر دیکھایا جا سکتا ہے تو کیا سنوایا نہیں جا سکتا، اسی طرح جانوروں کو سنوایا جاتا ہوگا لیکن ان دنیاوی قبروں سے اس کا کوئی تعلق نہیں ورنہ ہم دیکھتے ہیں کہ قبرستانوں میں چوپائے چرپھر رہے ہوتے ہیں لیکن کوئی ڈرکر بھاگتا نہیں۔

            رہا خچر کا بدکناوہ بھی ایک معجزہ ہوگا ورنہ نبیﷺ کا خچر تو روز ہی وہاں سے گزرتا ہوگا اور دنیا بھر میں خچر بھی خوب گھوم پھر رہے ہوتے ہیں کوئی بدک کر بھاگتا نہیں۔ ان کی یہ بات بالکل جھوٹی ہے کہ نبیﷺ کا اشارہ ان دنیاوی قبروں کی طرف تھا، خچر کا بدکنا اور جانوروں کا عذاب قبر سننا  جو’’ بنو نجار ‘‘ کے باغ کے حوالے سے پیش کیا گیا ہے۔ فَمَرَّ عَلَى حَائِطٍ لِبَنِي النَّجَّارِ’’  پس بنو نجار کے ایک باغ سے گزرے ‘‘۔ اب اسی بنو نجار  کے باغ کا یہ واقعہ بھی پڑھیں :

عَنْ اَنَسٍ قَالَ قَدِمَ النَّبِیُّا الْمَدِیْنَۃَ ۔۔۔ وَ کَانَ یُحِبُّ اَنْ یُّصَلِّی حَیْثُ اَدْرَکَتْہُ الصَّلٰوۃُ وَ یُصَلِّی فِیْ مَرَابِضِ الْغَنَمِ وَ اَنَّہٗٓ اَمَرَ بِبِنَآءِ الْمَسْجِدِفَاَرْسَلَ اِلٰی مَلَاءِ بَنِی النَّجَّارِ فَقَالَ یَا بَنِی النَّجَّارِ ثَامِنُوْنِیْ بِحَآءِطِکُمْ ھٰذَا قَالُوْا لاَ وَاللّٰہِ لاَ نَطْلُبُ ثَمَنَہٗ اِلاَّ اِلَی اﷲِ عَزَّ وَ جَلَّ قَالَ اَنَسٌ فَکَانَ فِیْہِ مَآ اَقُوْلُ لَکُمْ قُبُوْرِ الْمُشْرِکِیْنَ وَفِیْہِ خَرِبٌ وَّ فِیْہِ نَخْلٌ فَاَمَرَ النَّبِیُّا بِقُبُوْرِ الْمُشْرِکِیْنَ فَنُبِشَتْ ثُمَّ بِالْخَرِبِ فَسُوِّیَتْ وَ بِالنَّخْلِ فَقُطِعَ فَصَفُّوْاالنَّخْلَ قِبْلَۃَ الْمَسْجِدِ وَ جَعَلُوْا عِضَادَتَیْہِ الْحِجَارَۃَ …
(بخاری:کتاب الصلوٰۃ ، باب ھل تنبش قبور مشرکی الجاھلیۃ و یتخذ مکانھا مساجد)
’’انس ؓ فرماتے ہیں کہ جب نبی ﷺ مدینہ تشریف لائے ۔۔۔۔۔۔آپ پسندکرتے کہ جس جگہ صلوٰۃ کا وقت آجائے وہیں اسے ادا فرمالیں،اور آپ بکریاں باندھنے کی جگہ بھی صلوٰۃ ادا کرلیتے تھے۔ اور ( جب) آپ نے مسجد کی تعمیر کا حکم دیاتو بنو نجار کے لوگوں کو بلوایا اور فرمایا کہ اے بنو نجار! اپنا یہ باغ تم میرے ہاتھ فروخت کردو ۔ انہوں نے عرض کیا کہ اﷲ کی قسم ہم اس کی قیمت نہیں لیں گے مگر اﷲ عزوجل سے۔انس ؓ کہتے ہیں کہ اس باغ میں یہ چیزیں تھیں جو میں تم کو بتاتا ہوں: مشرکین کی قبریں تھیں،کچھ کھنڈر تھا اور اس میں کھجور کے درخت تھے۔ پھرنبی ﷺنے حکم فرمایا تومشرکین کی قبریں کھود دی گئیں،کھنڈر کو برابر کردیا گیا اور درختوں کو کاٹ ڈالا گیا اور ان کو مسجد کے قبلے کی طرف نصب کردیا گیا اور پتھروں سے ان کی بندش کردی گئی۔۔۔‘‘۔

دیکھا آپ نے نبیﷺ اور صحابہ کا عقیدہ یہ کہ زمینی قبریں صرف جسم چھپانے کے لئے ہیں عذاب یا راحت کا مقام نہیں۔ مشرکین کی وہی قبریں کھود دی گئیں جس کی طرف اشارہ کرکے یہ مسلک پرست اسی زمینی قبر میں عذاب کا  ڈرامہ رچاتے ہیں۔

 یہ  علماء کرام و مفتیان سب کچھ جانتے ہیں کہ نبیﷺ نے اس باغ کی قبروں کیساتھ کیا عمل کیا لیکن اسے چھپاتے ہیں بیان وہ کرتے ہیں جن سے ان کا اپنا عقیدہ ثابت ہوسکے، لیکن پورے سرمایہ حدیث میں ایک بھی ایسی صحیح حدیث نہیں پیش کرسکتے جس میں یہ بتایا گیا ہو کہ اسی زمینی قبر کے اندر عذاب ہوتا ہے۔

          اب رہا معاملہ نبی ﷺ کے اس فرمان کا  کہ : ’’اگر تم لوگ اپنے مردوں کو دفن کرنا چھوڑ نہ دیتے تو میں اللہ سے یہ دعاء کرتا کہ وہ تمہیں بھی عذاب قبر کی آواز سنادے۔‘‘  تو عرض ہے کہ صحابہ ؓ  اپنے دیکھنے اور سننے سے زیادہ نبیﷺ کے بیان پر یقین رکھتے تھے۔ انہیں عذاب القبر کی ہولناکی کا  یقینا ً علم تھا اور اس سے پناہ بھی مانگا کرتے تھے لیکن  پھر بھی اپنے مردوں کو دفنانا نہیں چھوڑا تھا کیونکہ انہیں علم تھا کہ وہ قومیں جنہیں کوئی دفنانہ سکا وہ بھی عذاب القبر سے نہ بچ سکیں۔ 

واضح ہوا کہ نبیﷺ کا یہ فرمان اسی طرح جانوروں کو سنوایا جاتا ہوگا لیکن ان دنیاوی قبروں سے اس کا کوئی تعلق نہیں ورنہ ہم دیکھتے ہیں کہ قبرستانوں میں چوپائے چرپھر رہے ہوتے ہیں لیکن کوئی ڈرکر بھاگتا نہیں۔

ستر اژدھے والی روایت سے عذاب قبر ثابت کرنا:

فرقہ پرستوں کا معاملہ ہی عجیب ہے، یہ دین کو دین سمجھ کر نہیں بلکہ مقابلہ بازی کا میدان سمجھ کر لڑتے ہیں۔ کتاب اللہ سے بات واضح  ہے کہ  مرنے کے بعد سے لیکر قیامت تک کا سارا معاملہ آسمانوں پر ہوتا ہے ۔ یہ جسم تو گل سڑ جاتا ہے لہذا اس قبر سے عذاب و راحت کا کوئی تعلق نہیں۔ لیکن فرقہ پرستوں نے اب اسے قبول نہیں کرنا بلکہ فرقے کے لئے جنگ لڑنی ہے ورنہ فرقہ ہی جھوٹا قرار پائے گا لہذا ضعیف روایات کا سہارا لیتے ہیں۔ ایک روایت زیل میں پیش کی جا رہی ہے جس کی متعلق محدث بیان کرتے ہیں:

[حكم الألباني] : ضعيف جد

یعنی اس کی سند یقینی ضعیف ہے، لیکن فرقے کی عزت کی خاطر اسے بھی دلیل بنا لیا گیا، ملاحظہ فرمائیں :

عن أبي سعيد، قال: دخل رسول الله صلى الله عليه وسلم مصلاه فرأى ناسا كأنهم يكتشرون قال: أما إنكم لو أكثرتم ذكر هاذم اللذات لشغلكم عما أرى، فأكثروا من ذكر هاذم اللذات الموت، فإنه لم يأت على القبر يوم إلا تكلم فيه فيقول: أنا بيت الغربة وأنا بيت الوحدة، وأنا بيت التراب، . . . . . . . . . . فأدخل بعضها في جوف بعض قال: ويقيض الله له سبعين تنينا لو أن واحدا منها نفخ في الأرض ما أنبتت شيئا ما بقيت الدنيا فينهشنه ويخدشنه حتى يفضى به إلى الحساب قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: إنما القبر روضة من رياض الجنة أو حفرة من حفر النار.

( ترمذی،  أبواب صفة القيامة والرقائق والورع عن رسول الله ﷺ )

’’ ابوسعید ؓ  سے روایت ہے کہ نبیﷺ اپنے مصلی پر تشریف لائے تو کچھ لوگوں کو ہنستے ہوئے دیکھا تو آپ نے فرمایا اگر تم لذتوں کو ختم کرنے والی چیز کو یاد کرتے تو تمہیں اس بات کی فرصت نہ ملتی جو میں دیکھ رہا ہوں لہذا لذتوں کو قطع کرنے والی موت کو زیادہ یاد کرو کوئی قبر ایسی نہیں جو روزانہ اس طرح نہ پکارتی ہو کہ غربت کا گھر ہوں میں تنہائی کا گھر ہوں میں مٹی کا گھر ہوں اور میں کیڑوں کا گھر ہوں پھر جب اس میں کوئی مومن بندہ دفن کیا جاتا ہے تو وہ اسے ( مَرْحَبًا وَأَهْلًا) کہہ کر خوش آمدید کہتی ہے پھر کہتی ہے کہ میری پیٹھ پر جو لوگ چلتے ہیں تو مجھے ان سب میں محبوب تھا اب تجھے میرے سپرد کردیا گیا ہے تو اب تو میرے حسن سلوک دیکھے گا پھر وہ اس کے لئے حدنگاہ تک کشادہ ہوجاتی ہے اور اس کے لئے جنت کا درواز کھول دیا جاتا ہے اور جب گنہگار یا کافر آدمی دفن کیا جاتا ہے قبر اسے خوش آمدید نہیں کہتی بلکہ (لَا مَرْحَبًا وَلَا أَهْلًا) کہتی ہے پھر کہتی ہے کہ میری پیٹھ پر چلنے والوں میں تم سب سے زیادہ مغبوض شخص تھے آج جب تمہیں میرے سپرد کیا گیا ہے تو تم میری بدسلوکی بھی دیکھو گے پھر وہ اسے اس زور سے بھینچتی ہے کہ اس کی پسلیاں ایک دوسری میں گھس جاتی ہیں راوی کہتے ہیں کہ پھر رسول اللہ ﷺنے اپنی انگلیاں ایک دوسری میں داخل کر کے دکھائیں پھر آپ  نے فرمایا کہ اس کے بعد اس پر ستر اژدھے مقرر کر دئیے جاتے ہیں اگر ان میں سے ایک زمین پر ایک مرتبہ پھونک مار دے تو اس پر کبھی کوئی چیز نہ اگے پھر وہ اسے کاٹتے ہیں اور نوچتے رہتے ہیں یہاں تک کہ اسے حساب و کتاب کے لئے اٹھایا جائے گا پھر آپ نے فرمایا قبر جنت کے باغوں میں سے ایک باغ یا جہنم کے گڑھوں میں سے ایک گڑھا ہے ‘‘۔

یہ انہی فرقہ پرستوں کا دل گردہ ہے کہ  اللہ تعالیٰ کے بیان کردہ کو ضعیف روایات کے ذریعے رد کرنے کی کوشش کریں، ہم تو ایسے فعل سے اللہ کی پناہ مانگتے ہیں۔ اس روایت کے الفاظ پر غور کریں :

’’اس کے لئے حدنگاہ تک کشادہ ہوجاتی ہے ‘‘

’’پھر وہ اسے اس زور سے بھینچتی ہے کہ اس کی پسلیاں ایک دوسری میں گھس جاتی ہیں‘‘

’’اس کے بعد اس پر ستر اژدھے مقرر کر دئیے جاتے ہیں اگر ان میں سے ایک زمین پر ایک مرتبہ پھونک مار دے تو اس پر کبھی کوئی چیز نہ اگے ‘‘

کیا یہ باتیں اس زمینی قبر کے لئے ممکن دکھائی دیتی ہیں البتہ عالم برزخ میں ملنے والی قبر کے لئے یہ بات ممکن ہے۔ اس کے ان الفاظ پر غور کریں : اگر ان میں سے ایک زمین پر ایک مرتبہ پھونک مار دے تو اس پر کبھی کوئی چیز نہ اگے ‘‘

یعنی اس زمین کا معاملہ ہی نہیں ورنہ اب تک  تو بے حساب  کافر و مشرک مر چکے ہوں گے اور ایسے اژ دھوں کی بڑی تعداد ان قبروں میں ہوگی لیکن الحمد للہ چارہ،سبزیاں، فروٹ ، غلہ سب ہی کچھ اگ رہا ہے اس زمین پر، گویا بات اس زمین کی ہے ہی نہیں۔

مزید اس جملے کو پڑھیں :

إنما القبر روضة من رياض الجنة أو حفرة من حفر النار.

’’ قبر جنت کے باغوں میں سے ایک باغ یا جہنم کے گڑھوں میں سے ایک گڑھا ہے ۔‘‘

اس میں یہ نہیں کہا گیا کہ دنیاوی قبر جنت کے باغوں میں سے ایک باغ ہے یا جہنم کے گڑھوںمیں سے ایک گڑھا ہے بلکہ فرمایا گیا  قبر جنت کے باغوں میں سے ایک باغ ہے یعنی جنت میں بے حساب باغ ہیں اس بندے کی قبر جنت کے باغوں میں سے ایک باغ ہے۔ قبر جہنم کے گڑھوں میں سے ایک گڑھا ہے ، یعنی جہنم میں بے حساب گڑھے ہیں اور ان میں سے ایک گڑھا اس کی قبر ہے۔

یہی بات قرآن میں بیان کردی گئی ہے کہ مرنے والے کی روح قبض ہوتے ہی جنت یا جہنم میں داخل کردی جاتی ہے۔

الَّذِيْنَ تَتَوَفّٰىهُمُ الْمَلٰٓىِٕكَةُ ظَالِمِيْۤ اَنْفُسِهِمْ١۪ فَاَلْقَوُا السَّلَمَ مَا كُنَّا نَعْمَلُ مِنْ سُوْٓءٍ١ؕ بَلٰۤى اِنَّ اللّٰهَ عَلِيْمٌۢ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ۰۰۲۸فَادْخُلُوْۤا اَبْوَابَ جَهَنَّمَ خٰلِدِيْنَ فِيْهَا١ؕ فَلَبِئْسَ مَثْوَى الْمُتَكَبِّرِيْنَ۰۰۲۹

( النحل :28- 29 )

’’ ان نفس پر ظلم کرنے والوں کی جب فرشتے روح قبض کرتے ہیں تو اس موقع پر لوگ بڑی فرمانبرداری کے بول بولتے ہیں کہ ہم تو کوئی برا کام نہیں کرتے تھے۔،         ( فرشتے  جواب دیتے ہیں ) ، یقینا اللہ  جانتا ہے جو کچھ تم کیا کرتے تھے۔پس داخل ہو جاو جہنم کے دروازوں میں جہاں تمہیں ہمیشہ رہنا ہے، پس برا ہی ٹھکانہ ہے  متکبرین  کے لئے۔‘‘

الَّذِيْنَ تَتَوَفّٰىهُمُ الْمَلٰٓىِٕكَةُ طَيِّبِيْنَ١ۙ يَقُوْلُوْنَ سَلٰمٌ عَلَيْكُمُ١ۙ ادْخُلُوا الْجَنَّةَ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ

(  النحل :32 )

’’ جب فرشتے پاک ( نیک ) لوگوں کی روحیں قبض کرتے ہیں تو کہتے ہیں : تم پر سلامتی ہو داخل ہو جاؤ جنت میں اپنے ان اعمال کیوجہ سے جو تم کرتے تھے۔‘‘

یہی  بات نبی ﷺ نے بیان فرمائی :

إِنَّمَا مَرَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَی يَهُودِيَّةٍ يَبْکِي عَلَيْهَا أَهْلُهَا فَقَالَ إِنَّهُمْ لَيَبْکُونَ عَلَيْهَا وَإِنَّهَا لَتُعَذَّبُ فِي قَبْرِهَا

( عن عائشہ ؓ ، کتاب الجنائز ، بَابُ قَوْلِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «يُعَذَّبُ المَيِّتُ بِبَعْضِ بُكَاءِ أَهْلِهِ عَلَيْهِ» إِذَا كَانَ النَّوْحُ مِنْ سُنَّتِهِ “)

’’نبی صلی اللہ علیہ و سلم ایک (فوت شدہ)یہودی عورت کے پاس سے گذرے اسکے گھر والے اس پر رو رہے تھے۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  ”یہ لوگ اس پر رو رہے ہیں اور اسے اسکی قبر میں عذاب دیا جارہا ہے۔“

ابھی یہودی عورت  اس زمینی قبر میں دفن بھی نہیں ہوئی اس کے گھر والے اس پر رو رہے ہیں اور نبی ﷺ فرما رہے ہیں :

یہ لوگ اس پر رو رہے ہیں اور اسے اسکی قبر میں عذاب دیا جارہا ہے۔“

واضح ہوا کہ یہ سارا معاملہ اس زمینی قبر میں نہیں عالم برزخ میں ملنے والی قبر میں ہوتا ہے۔

سبز ٹہنیوں والی روایت:

مرنے کے بعد ہونے والے عذاب قبر کا معاملہ مکمل طور پر عالم بالا  سے ہے جیسا کہ ہم نے اپنی  پوسٹس میں کتاب اللہ سے دلائل دیکر ثابت کرچکے ہیں۔ فرقہ پرست اپنے فرقے کی بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں اس لئے کوشش کرتے ہیں کہ کسی بھی طرح قرآن و حدیث کے دئیے ہوئے عقیدے کے مقابلے میں ان کے فرقے کا عقیدہ ثابت ہو جائے۔لہذا ایک صحیح حدیث پیش کرکے لوگوں کو باور کراتے ہیں  ہیں کہ اس حدیث سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ عذاب قبر اسی زمینی قبر میں ہوتا ہے، لہذا ہم اس حدیث کا مطالعہ کرتے ہیں:

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، مَرَّ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى قَبْرَيْنِ فَقَالَ: «إِنَّهُمَا لَيُعَذَّبَانِ وَمَا يُعَذَّبَانِ مِنْ كَبِيرٍ» ثُمَّ قَالَ: «بَلَى أَمَّا أَحَدُهُمَا فَكَانَ يَسْعَى بِالنَّمِيمَةِ، وَأَمَّا أَحَدُهُمَا فَكَانَ لاَ يَسْتَتِرُ مِنْ بَوْلِهِ» قَالَ: ثُمَّ أَخَذَ عُودًا رَطْبًا، فَكَسَرَهُ بِاثْنَتَيْنِ، ثُمَّ غَرَزَ كُلَّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا عَلَى قَبْرٍ، ثُمَّ قَالَ: «لَعَلَّهُ يُخَفَّفُ عَنْهُمَا مَا لَمْ يَيْبَسَا»

( بخاری،  کتاب الجنائز ، بَابُ عَذَابِ القَبْرِ مِنَ الغِيبَةِ وَالبَوْلِ )

’’ابن عباس ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ دو قبروں کے پاس سے گذرے تو فرمایا کہ ان دونوں کو عذاب ہو رہا ہے اور کسی بڑے معاملہ کے سبب عذاب نہیں ہو رہا، ان میں سے ایک  تو اپنے پیشاب سے نہیں بچتا تھا اوردوسرا  چغل خوری کرتا تھا، پھر ایک تر شاخ منگوائی اور اس کے دو ٹکڑے کئے پھر  ہر قبر پر ایک گاڑ دیا ، پھر فرمایا کہ شاید کہ اللہ تعالیٰ ان کے عذاب میں تخفیف کردے، جب تک کہ یہ خشک نہ ہوں۔‘‘

اس حدیث سے یہ فرقہ پرست زمینی قبر میں عذاب بیان کرتے ہیں حالانکہ کہیں بھی اس کا ذکر نہیں۔ نبیﷺ نے فرمایا : إِنَّهُمَا لَيُعَذَّبَانِ ’’ ان دونوں کو عذاب ہو رہا ہے ‘‘۔ یعنی یہ نہیں فرمایا کہ اس قبر میں عذاب ہو رہا ہے بلکہ فرمایا کہ یہ دونوں عذاب دئیے جا رہے ہیں۔ عذاب کہاں ہوتا ہے یہ پہلے ہی ہم اپنی پوسٹس میں کتاب اللہ کے دلائل سے پیش کرچکے ہیں کہ مرتے ہی انسان کی روح کو جنت یا جہنم میں داخل کردیا جاتا ہے جہاں اسے جزا یا سزا ملنا شروع ہو جاتی ہے۔

اس حدیث میں تو دراصل یہ بتایا گیا : وَمَا يُعَذَّبَانِ مِنْ كَبِيرٍ ’’ کسی بڑے معاملے کے سبب عذاب نہیں ہو رہا  ‘‘۔  بَلَى أَمَّا أَحَدُهُمَا فَكَانَ يَسْعَى بِالنَّمِيمَةِ، وَأَمَّا أَحَدُهُمَا فَكَانَ لاَ يَسْتَتِرُ مِنْ بَوْلِهِ ’’ ان میں سے ایک  تو اپنے پیشاب سے نہیں بچتا تھا اوردوسرا  چغل خوری کرتا تھا ‘‘  یعنی اصل تعلیم تو یہ تھی کہ چھوٹے گناہ پر بھی عذاب ہوگا۔ اور یہی بات نبیﷺ نے عائشہ ؓ سے فرمائی تھی کہ اے عائشہ  کم تر گناہوں کو بھی حقیر نہ جانو۔

          اب رہا یہ سوال کہ نبی ﷺ نے ان قبروں  کے پاس سے گزرتے ہوئے یہ بات کیوں کی۔ تو اس کا جواب یہ ہے کہ نہ وہاں کسی آواز کے سنائے  جانے کا ذکر ہے اور نہ ہی دکھائےجانے کا  بلکہ یقینا ً یہ بات نبی ﷺ پر وحی ہوئی ہوگی۔ اللہ تعالیٰ نے یہ بتایا ہوگا کہ یہ وہ دو افراد ہیں جو یہ برا کام کرتے تھے اس وجہ سے انہیں عذاب قبر ہو رہا ہے۔  اب اس سے  یہ کیسے ثابت ہوا کہ ان قبروں میں عذاب ہو رہا تھا۔ رہی یہ بات کہ نبی ﷺ نے ان قبروں پر ٹہنیاں کیوں ڈالیں۔ تو عرض ہے کہ یہ دعا کا ایک انداز تھا۔ نبی ﷺ نے فرمایا :  لَعَلَّهُ يُخَفَّفُ عَنْهُمَا مَا لَمْ يَيْبَسَا، شاید کہ اللہ تعالیٰ ان کے عذاب میں تخفیف کردے، جب تک کہ یہ خشک نہ ہوں۔ یعنی  معاملہ یہ نہیں تھا کہ ان کی وجہ سے ان قبروں میں ہونے والا عذاب قبر رک جائے گا ، بلکہ یہ  شاید کا لفظ استعمال کیا گیا اور یہ انداز بھی دعائیہ ہی ہے۔

مزید اگر آپ کے محلے میں کسی کو پھانسی ہو  رہی ہو  اور آپ کا کوئی دوست آتا ہے،آپ اسے بتاتے ہیں کہ اس گھر میں رہنے والے کو آج  پھانسی ہوگی، تو وہ سمجھ جائے گا کہ  پھانسی گھر میں نہیں بلکہ جیل میں ہوئی ہوگی ،لیکن آپ اسے جیل لیجا کر نہیں دکھائیں گے بلکہ اس کے گھر کی طرف اشارہ کرکے اسے بتائیں گے کہ  اس گھر والے کو آج پھانسی دی جائے گی۔ یہی انداز اس حدیث میں نبی ﷺ کا ہے کہ یہ دونوں عذاب دئیے جا رہے ہیں اور مرنے کے بعد عذاب صرف جہنم میں ہوتا ہے جس کی تفصیل اس مضمون میں بیان کردی گئی ہے۔

کیا یہ زمینی قبر آخرت کی پہلی منزل ہے؟
اپنے اس عقیدے کو ثابت کرنے کے لیے یہ مسلک پرست ایک روایت پیش کرتے ہیں کہ عثمان    ؓنے فرمایا کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے سنا ہے کہ: 
’’ قبر آخرت کی سیڑھیوں میں سے پہلی سیڑھی ہے جو اس سے پھسل گیا وہ پھر آگے نہیں بچ سکتا اور جو یہاں کامیاب ہوگیا، پہلے زینہ پر اس نے قدم جمادیا اور ثابت قدم ہوگیا اب وہ کامیابی سے چلتا چلا جائے گا‘‘۔
( پہلا زینہ، از قاری خلیل الرحمن اہلحدیث، صفحہ ۱۹)
کتاب الزہدمیں فظاعۃ القبرکے باب کے تحت یہ روایت نقل کرکے خود امام ترمذی نے اس کی غرابت کو تسلیم کیا ہے جسے انہوں نے ہشام بن یوسف کے علاوہ کسی سے نہیں سنا۔مزید یہ کہ اس کے ایک راوی عبداﷲبن بحیرابووائل القاص الصنعانی پرمحدثین نے جرح کی ہے جو قصہ گو کے لقب سے جانا جاتا تھا اورعجیب و غریب باتیں بیان کرتاتھا۔ ابن حبان نے اس کوضعیف کہا ہے اور بتایا ہے کہ یہ عجائبات کو ایسے بیان کرتا جیسے اس کا معمول ہو ، جس سے حجت پکڑنا جائز نہیں؛ اور یہ عبداﷲبن بجیربن ریسان نہیں ہے جو ثقہ ہے(تہذیب التہذیب: جلد ۵، صفحہ ۱۵۴/میزان الاعتدال:جلد۲، صفحہ ۳۹۵)۔ مجروح راوی کی ایک غریب روایت کو قرآن و احادیثِ صحیحہ کے مقابلے میں پیش کرنا ان نام نہاد اہلحدیثوں کوہی شایاں ہے۔لیکن یہ غریب اور مجروح روایت بھی ان کے کسی کام کی نہیں بلکہ یہ خودانہی کے عقیدے کو باطل ٹھہراتی ہے۔قرآن میں ہے:
ثم اماتہ فاقبرہ ’’پھر اسے موت دی اور قبر دی‘‘
یہی بات اس روایت میں بھی ملتی ہے کہ ہر مرنے والے کی اگلی اور پہلی منزل ’’قبر‘‘ ہے۔اس’’ قبر‘‘ سے کون سا مقام مراد ہے، یہ بات قرآن و حدیث کے حوالے سے تفصیلاً بیان کی جاچکی ہے۔ اس روایت کے وہ معنی جو یہ اہلحدیث بیان کرنا چاہتے ہیں، کسی طرح بھی ثابت نہیں ہوسکتے کیونکہ اس روایت میں یہ نہیں کہا گیا کہ صرف دفن کیے جانے والوں کی پہلی منزل قبر ہے بلکہ یہ بات ہر انسان کے لیے بیان کی گئی ہے خواہ یہ ارضی عرفی قبر اسے ملے یا نہیں۔ ورنہ قوم نوح کی پہلی منزل کون سی ہے؟آل فرعون کی پہلی منزل کون سی ہے؟ ہندؤں ،پارسیوں، بدھوں، سوشلسٹوں و کمیونسٹوں کی پہلی منزل کون سی ہے؟ ۔۔۔ جو کچھ قرآن کی مذکورہ آیت میں بیان کیا گیا تھا، اسی بات کی تصدیق یہ روایت بھی کرتی ہے۔ اور یہ کونسا مقام ہے، اس کی وضاحت صلوٰۃ الکسوف والی روایت میں ہوگئی کہیُوْ تٰی اَحَدُ کُمْ ’’تم میں سے ہر ایک کولایا جائے گا‘‘
یعنی وہی مقام جہاں ہرشخص مرنے کے بعدلایاجاتا ہے یعنی عالم برزخ، کوئی زمینی گڑھا نہیں۔ ہر انسان کے لیے موت لازمی ہے اور ہر مرنے والے کے لیے قبر لازمی ہے۔

اہلحدیثوں کے نزدیک نبی ﷺ کے علم کی حیثیت :

مفتی دامانوی اہلحدیث لکھتے ہیں:

’’ان مختلف احادیث کا خلاصہ یہ ہے کہ عائشہ صدیقہؓ کوپہلی مرتبہ ایک یہودی عورت نے عذاب القبر کے متعلق بتایا لیکن انہوں نے اس کی تصدیق نہ کی۔نبی ا نے بھی یہود کو جھوٹا قرار دیا بعد میں آپ ا پر وحی بھیجی گئی اور آپ اکو عذاب القبر کے بارے میں بتایا گیا۔ اسی دوران سورج کو گہن لگ گیا اور آپ ﷺکے بیٹے ابراہیم رضی اﷲ عنہ کا انتقال بھی ہوگیا چنانچہ آپ انے اسی دن سورج گہن کی نماز صلوٰۃ الکسوف پڑھائی۔اورپھر خطبہ دیا۔اور اس خطبہ میں صحابہ کرامؓ کو عذاب القبر کی تفصیلات سے آگاہ کیا۔اور یہ دس ہجری کا واقعہ ہے گویا نبی ا کی زندگی کے واقعات میں سے آخری دنوں کا واقعہ ہے۔پھر ہر نماز کے بعد برابر عذاب القبر سے پناہ مانگنے لگے اور صحابہ کرام کو بھی اس سلسلہ کی دعا سکھائی اور انہیں حکم دیا کہ وہ بھی ہر نماز کے آخر میں عذاب القبر سے پناہ مانگا کریں۔ معراج کا واقعہ نبی صلی اﷲ علیہ و سلم کی مکی زندگی میں پیش آچکا تھا اور معراج میں آپ ا کو نافرمان انسانوں کو عذاب دینے کے کچھ مشاہدات بھی کرائے گئے تھے جیسا کہ خواب میں آپ ا نے کچھ نافرمانوں کو مبتلائے عذاب دیکھا تھا ان واقعات کا تعلق عام عذاب سے ہے خاص عذاب القبر سے نہیں اور یہ احادیث بتا رہی ہیں کہ عذاب القبر ایک بالکل الگ شے ہے۔جیسا کہ ان احادیث کے مطالعے سے یہ حقیقت الم نشرح ہوتی ہے معلوم ہوا کہ عذاب القبر اور عذاب جہنم دونوں الگ الگ حقیقتیں ہیں جن پر ایمان رکھنا ضروری ہے‘‘ ۔ (عقیدہ عذاب قبر، صفحہ۳۶)

مفتی موصوف نے اپنی اسی کتاب کے صفحہ ۲۱ سے۲۶ تک قرآن مجید کی مختلف آیات عذابِ قبر کے اثبات میں پیش کی ہیں ۔وہاں انہوں نے سورۃ الانعام، المومن، یونس،نوح،الفجر،یٰس کی آیات کا حوالہ دیا ہے۔ اس کے علاوہ قرآن کی تفاسیر لکھنے والے اہلحدیثوں نے بھی ان آیات کو عذاب قبر پر دلیل بنایا ہے۔ یہ ساری سورتیں مکی دور کی ہیں۔فرقہ اہلحدیث کے عالموں کا علم تو اتنا’’ کامل‘‘ ہے کہ انہیں پتہ ہے کہ ان آیات سے عذاب قبر ثابت ہوتا ہے، لیکن وہ ذات جس کے قلب پر قرآن نازل ہوا ، جو اس کی تشریح کے لیے بھیجے گئے تھے ،ان کو سالہا سال تک یہ نہیں معلوم تھا کہ عذاب قبر کیا ہے اور ان آیات میں کیا بیان کیاگیا ہے! کتنی بدترین گستاخی ہے شان رسالت میں کہ نبوت کے تیرہ سال مکہ میں گزر گئے لیکن نبی  ﷺکو یہ معلوم نہ ہوسکا کہ اﷲ تعالیٰ نے سورۃالانعام،المومن،یونس، نوح، الفجر، ےٰس کی آیات میں کیا بیان فرمایا ہے!سورۃ ابراہیم بھی مکی سورہ ہے اور اس کی آیت ۲۷: یثبت اﷲالذین امنو بالقول الثابت فی الحیوٰۃ الدنیا و فی الاخرۃ کے بارے میں نے فرمایا کہ یہ قبرمیں سوال و جواب ہی کے بارے میں ہے (بخاری:کتاب الجنائز، باب ماجآء فی عذاب القبر/کتاب التفسیر، سورۃ ابراہیم)۔ نبوت کے دس سال مدینہ میں گزر گئے ،لیکن (نعوذباﷲ!) عقیدہ عذاب قبر کی بابت کچھ جانتے ہی نہ تھے! بقول ان کے، دس ہجری میں، زندگی کے آخری ایام میں، اﷲ تعالیٰ نے صلوٰۃ الکسوف کے موقع پر کو عذاب قبر سے آگاہ فرمایا!اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے:

وَ اَنْزَلْنَاۤ اِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ اِلَيْهِمْ وَ لَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُوْنَ

 [النحل: 44]
’’اور ہم نے تم پر کتاب نازل کی ہے تاکہ جو (احکام) لوگوں کی طرف نازل ہوئے ہیں، ان کی ان کے لیے وضاحت کردو‘‘ ۔


اب ذرا مفتی صاحب  بتائیں کہ اس آیت کا کیا مطلب ہے؟ بقول ان کے، نبیﷺ توان فرامین کے متعلق لا علم ہی رہے جو ان مذکورہ آیات میں بیان کیے گئے تھے، تو پھر آپ اان کی تشریح وتوضیح کس طرح فرماتے ہونگے؟ کیا سالہا سال تک یہ آیات یونہی بلا معنی تلاوت کی جاتی رہیں! وہ تو بقول ان ’’کامل علم والوں ‘‘کے،

 ’’بعد میں آپؐ پر وحی بھیجی گئی اور آپ ؐ کو عذاب القبر کے بارے میں بتایا گیا‘‘!
آپ دیکھیں کہ اپنے باطل عقیدے کو ثابت کرنے کے لیے کیا کیا انداز اپنائے جا رہے ہیں! اﷲ کے عذاب سے کیسی بے خوفی ہے!  سے محبت کے دعوے کی قلعی خود ان کی تحریروں نے اتار دی ہے۔ فرماتے ہیں کہ ’’عا ئشہ صدیقہؓ کوپہلی مرتبہ ایک یہودی عورت نے عذاب القبر کے متعلق بتایا لیکن انہوں نے اس کی تصدیق نہ کی۔نبی صلی اﷲ علیہ و سلم نے بھی یہود کو جھوٹا قرار دیا‘‘یعنی (معاذاﷲ!)یہ ایک حتمی بات ہے کہ نبیﷺ عذاب قبر کا کوئی عقیدہ رکھتے ہی نہیں تھے،اسی لیے جب یہود نے عذاب قبر کی بابت بتایا تو نے ان کے اس عقیدے کی وجہ سے انہیں جھوٹا قرار دیا۔ ایک طرف تویہ انداز، دوسری طرف انہیں خیال آیا کہ نبی ا کو خواب میں بھی تو عذاب قبر کے مناظر دکھائے گئے تھے، ان کا کیا کیا جائے؟ لہٰذاہانک لگا دی کہ وہ ’’عام عذاب‘‘ ہے۔واہ خوب ایمان بنایا ہے حدیث نبوی  ﷺپر! ایسے ہی حدیث حدیث کی رٹ لگائے رکھتے ہیں۔
علامہ صاحب نے نبی ﷺ کے علم کے بارے میں جو بہتان گھڑا ہے، اس کی بنیاد مسند احمد کی یہ روایت ہے:


عَنْ عَاءِشَۃَ رَضِیَ اﷲُ عَنْھَا قَالَتْ اَنَّ یَھُوْدِیَۃَ کَانَتْ تَخْدَمُھَا فَلاَ تَصْنَعْ عَاءِشَۃُ رَضِیَ اﷲُ عَنْھَا اِلَیْھَا شَیْءًا مِّنَ الْمَعْرُوْفِ اِلاَّ قَالَتْ لَھَا الْیَھُوْدِیَۃُ:وَقَاکِ اﷲُ عَذَابَ الْقَبْرِ، قَالَتْ: فَدَخَلَ رَسُوْلُ اﷲِ ا عَلَیَّ فَقُلْتُ: یَارَسُوْلَ اﷲِ ھَلْ لِلْقَبْرِ عَذَابٌ قَبْلَ یَوْمِ الْقِیَامَۃِ؟ قَالَ: لاَ، وَ عَمَّ ذَاکَ؟ قَالَتْ: ھٰذِہِ الْیَھُوْدِیَۃُ، لاَ عَلَی اللّٰہِ عَزَّ وَ جَلَّ کَذِبَ، لاَ عَذَابَ دُوْنَ یَوْمِ الْقِیَامَۃِ ۔۔۔

 (مسنداحمد:۶/۸۱، حدیث السیدۃ عائشۃ:۲۳۹۹۹)
’’ عائشہ رضی اﷲ روایت کرتی ہیں کہ ایک یہودیہ آپ کی خدمت کیا کرتی تھی۔ انہوں نے یہودیہ سے اس کے سوا کوئی بھلائی کی بات نہیں پائی کہ اس نے(ایک دفعہ) ان سے کہا: اﷲ تجھے عذاب قبر سے بچائے۔عائشہ رضی اﷲفرماتی ہیں کہ اس کے بعد رسول اﷲﷺمیرے پاس تشریف لائے تومیں نے عرض کیا کہ اے اﷲ کے رسول! کیا قیامت سے قبل قبر میں بھی عذاب ہوگا؟ رسول اﷲ ا نے فرمایا: نہیں، تم سے کس نے کہا؟ بتایا کہ اس یہودیہ نے۔ فرمایا: اﷲعزوجل نے جھوٹ نہیں کہا، روز قیامت سے پہلے کوئی عذاب نہیں۔۔۔‘‘


ڈاکٹرعثمانی رحمۃ اﷲعلیہ نے اپنی تحریر’’موازنہ مسنداحمدبن حنبل و صحیح البخاری‘‘ میں متعدد مثالوں سے ثابت کیا کہ مسنداحمد کی روایات صحیح بخاری کی ضدہوتی ہیں۔ مذکورہ روایت بھی ایسی ہی ایک مثال ہے کیونکہ بخاری نے اس کو اس طرح روایت کیا ہے:


عَنْ عَاءِشَۃَ زَوْجِ النَّبِیِّا اَنَّ یَھُوْدِیَۃً جَآءَ تْ تَساَلُھَا فَقَالَتْ لَھَا اَعَاذَکِ اﷲُ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ فَسَالَتْ عَاءِشَۃُ رَسُوْلَ اﷲِ ا اَیُعَذَّبُ النَّاسُ فِیْ قُبُوْرِھِمْ فَقَالَ رَسُوْلُ اﷲِ ا عَآ ءِذًا بِاﷲِ مِنْ ذَالِکَ 
(بخاری:کتاب الصلٰوۃ، کتاب الکسوف،باب التعوذمن عذاب القبر فی الکسوف)
’’ام المؤمنین عائشہ رضی اﷲ روایت کرتی ہیں کہ ایک یہودیہ ان سے مانگنے آئی اور ان کو دعا دی کہ اﷲ تجھے عذاب قبر سے بچائے۔ عائشہ رضی اﷲ نے رسول اﷲ اسے پوچھا: کیا لوگوں کو ان کی قبروں میں بھی عذاب ہوتا ہے؟ تورسول اﷲ ﷺنے فرمایا:میں ا ﷲ تعالیٰ کی اس سے پناہ مانگتا ہوں‘‘۔
دیگرروایات میں فرمان رسول ا نقل کیا گیاہے کہ:
نَعَمْ عَذَابُ الْقَبْرِ: ’’ ہاں عذاب قبر ہے‘‘۔
نَعَمْ عَذَابُ قَبْرٍ حَقٌ : ’’ہاں عذاب قبربر حق ہے‘‘۔
(بخاری:کتاب الجنائز،باب ماجاء فی عذاب قبر)


موصوف نے خود اپنی ایک دوسری کتاب میں اسی سلسلے کی ایک روایت بیان کی ہے :
’’عائشہ رضی اﷲ بیان کرتی ہیں کہ مدینہ کی دو بوڑھی یہودی عورتیں میرے پاس آئیں اور انہوں نے مجھ سے کہا : ان اھل القبور یعذبون فی قبورھم (بے شک قبر والے اپنی قبروں میں عذاب دئیے جاتے ہیں) عائشہؓ نے فرمایا کہ میں نے ان کی اس بات کو جھٹلادیا اور اچھا نہیں سمجھا کہ ان کی تصدیق کروں ۔پس وہ عورتیں چلی گئیں اور نبی صلی اﷲ علیہ و سلم میرے پاس آئے، میں نے ان عورتوں کا اور ان کی گفتگو کا ذکر کیا۔ پس نبی صلی اﷲ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا:


صَدَقَتَا، إِنَّهُمْ يُعَذَّبُونَ عَذَابًا تَسْمَعُهُ البَهَائِمُ كُلُّهَا

’’ ان دونوں عورتوں نے سچ کہا بے شک وہ (قبروں میں) عذاب دیئے جاتے ہیں کہ جنہیں تمام چوپائے سنتے ہیں‘‘۔(دعوت قرآن کے نام پر قرآن و حدیث سے انحراف،صفحہ ۱۰۹)

ملا حظہ فرمایا موصوف کا دوغلا پن! جب اپنا باطل عقیدہ ثابت کرنا تھا تو کی اِس حدیث کو بنیاد بنالیا، اور جب دل نے اس بات کی ٹھانی کہ یہ ثابت کیا جائے کہ سالہا سال تک عذاب قبر کے بارے میں نبیﷺ کو کوئی علم ہی نہ تھا، تو صحیحین بلکہ صحا ح ستہ کی روایات کی مخالف روایت کو بنیاد بنا کر وہ لکھ گئے جس کا تصور یہود و نصاریٰ بھی نہیں کرسکتے!

یہ مسلمان ہیں جنہیں دیکھ کر شرمائیں یہود

ان کی ایسی باتوں سے اندازہ ہو سکتا ہے کہ ان کے نزدیک نبیﷺ کا کیا مقام تھا۔