فہرست

نبیﷺ پر اعمال پیش ہونا

قال: وقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «حياتي خير لكم تحدثون ونحدث لكم، ووفاتي خير لكم تعرض علي أعمالكم [ص:309]، فما رأيت من خير حمدت الله عليه، وما رأيت من شر استغفرت الله لكم» ، وهذا الحديث آخره لا نعلمه يروى عن عبد الله إلا من هذا الوجه بهذا الإسناد

حدثنا عبد الرزاق، أخبرنا سفيان، عمن سمع أنس بن مالك يقول: قال النبي صلى الله عليه وسلم: ” إن أعمالكم تعرض على أقاربكم وعشائركم من الأموات، فإن كان خيرا استبشروا به، وإن كان غير ذلك، قالوا: اللهم لا تمتهم، حتى تهديهم كما هديتنا ” (2)

إسناده ضعيف لإبهام الواسطة بين سفيان وأنس. وهذا الحديث تفرد به الإمام أحمد.

وفي الباب عن أبي أيوب الأنصاري عند الطبراني في “الأوسط” (148) ، لكن إسناده ضعيف جدا، فيه مسلمة بن علي الخشني، وهو متروك الحديث، فلا يفرح به.

( مسند احمد ، مسند المكثرين من الصحابة،   مسند أنس بن مالك رضي الله تعالى عنه )

’’ تمہارے اعمال تمہارے عزیز و اقارب میں سے مرنے والوں پر پیش کیے جاتے ہیں۔ اگر اعمال بہتر ہوں تو وہ خوش ہوتے ہیں اور اگر بہتر نہ ہوں تو وہ کہتے ہیں : ’’ اے اللہ ! تو ان کو اتنی دیر تک موت نہ دے جب تک انہیں ہماری طرح ہدایت نہ دے دے۔

یہ روایت ضعیف ہے اس لیے کہ اس کی سند میں سفیان اور انس بن مالک رضی اللہ عنہ کے درمیان مجہول راوی ہے۔ مفتی صاحب نے مسند احمد کے ساتھ مجمع الزوائد کا بھی حوالہ دیا ہے لیکن تعجب ہے کہ مفتی صاحب نے مجمع الزوائد کا حوالہ تو ذکر کر دیا لیکن امام ہیثمی رحمہ اللہ کی اس روایت پر جرح کو ہضم کر گئے۔ امام ہیثمی رحمہ اللہ اس روایت کو نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں : رواه احمد وفيه رجل لم يسم ’’ اس کو احمد نے روایت کیا ہے اور اس سند میں ایک آدمی ہے جس کا نام نہیں لیا گیا۔ “ [مجمع الزوائد : 331، 332]

اس کے بعد امام ہیثمی رحمہ اللہ نے اس روایت کے مطابق ابوایوب رضی اللہ عنہ سے مروی ایک روایت کی طرف اشارہ کیا ہے اور ابوایوب رضی اللہ عنہ کی یہ روایت امام ہیثمی رحمہ اللہ اس باب سے پہلے والے باب میں لائے ہیں اور اس کے بعد فرمایا : [ رواه الطبراني في الكبير 194/1] [ والاوسط 72/1] وفيه مسلمة بن علي وهو ضعيف ’’ اس روایت کو امام طبرانی ’’ المعجم الکبیر “ اور ’’ المعجم الاوسط “ میں لائے ہیں۔ اس کی سند میں مسلمہ بن علی ضعیف راوی ہے۔

◈ مسلمہ بن علی کے متعلق امام بخاری، امام ابن حبان اور امام ابوزرعہ رازی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’ یہ منکر الحدیث ہے۔ “

◈ امام ذہبی رحمہ اللہ رقمطراز ہیں :

قال البخاري كل من قلت فيه منكر الحديث فلا تحل الرواية عنه

امام بخاری رحمہ اللہ نے فرمایا : ہر وہ شخص جس کے متعلق میں یہ کہوں کہ منکر الحدیث ہے اس سے روایت بیان کرنا حلال نہیں۔ “ [ ميزان الاعتدال : 6/1]

ان اعمال امتي تعرض علي في كل يوم جمعة واشتد غضب الله علي الزناة

( حلية الاولياء ، ذِكْرِ طَوَائِفَ مِنْ جَمَاهِيرِ النُّسَّاكِ وَالْعُبَّادِ ، حَبِيبٌ الْفَارِسِيُّ فَمِنْهُمْ حَبِيبٌ أَبُو مُحَمَّدٍ الْفَارِسِيُّ ۔ ۔  )

’’ ہر جمعہ کو مجھ پر میری امت کے اعمال پیش کیے جاتے ہیں، زنا کرنے والوں پر اللہ تعالیٰ کا غضب بہت سخت ہوتا ہے۔ “ [حلية الاولياء : 6/ 179، كنزالعمال : 5/ 318]

یہ روایت بھی انتہائی ضعیف ہے۔ اس کی سند میں دو راوی مجروع ہیں۔ احمد بن عیسیٰ بن ماہان الرازی، یہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی فضیلت میں جھوٹی روایتیں بیان کرتا تھا اور عجیب و غریب روایات نقل کرتا تھا۔ محدثین نے اس پر کلام کیا ہے۔ [ميزبان الاعتدال : 1/ 128، لسان الميزان : 1/ 244]

اس روایت کا دوسرا راوی عباد بن کثیر بصری بھی متکلم فیہ ہے۔ لہٰذا یہ روایت بھی قابل حجت نہیں۔

اسی مضمون کی دو اور روایتیں سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے منسوب ہیں۔ ایک روایت کو امام ابن عدی رحمہ اللہ نے نقل فرمایا ہے۔ [الكامل : 2/ 127]

اس کی سند میں فراش بن عبداللہ ساقط الاعتبار ہے اور دوسری روایت میں محمد بن عبدالملک بن زیاط ابوسلمہ انصاری ہے جو من گھڑت اور جھوٹی روایتیں بیان کرتا ہے۔ جسے امام ابن طاہر نے کذاب کہا ہے۔ [سلسلة الاحاديث الضعيفة : 975 : 2/ 404۔ 406]