فہرست

الصلواۃ علی النبی صلی اللہ علیہ و سلم

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

إِنَّ الْحَمْدَ لِلَّهِ، نَحْمَدُهُ وَنَسْتَعِينُهُ، مَنْ يَهْدِهِ اللهُ فَلَا مُضِلَّ لَهُ، وَمَنْ يُضْلِلْ فَلَا هَادِيَ لَهُ، وَأَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ، وَأَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ، أَمَّا بَعْدُ

اما بعد

اِنَّ اللّٰهَ وَ مَلٰٓىِٕكَتَهٗ يُصَلُّوْنَ عَلَى النَّبِيِّ١ؕ يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَيْهِ وَ سَلِّمُوْا تَسْلِيْمًا

[الأحزاب: 56]
’’ اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتے نبی پر رحمت کرتے ہیں۔ اے ایمان والو! تم (بھی) ان کے لئے رحمت کی دعا کرو اور خوب سلام‘‘۔


اس آیت میں کہیں بھی ’’ درود ‘‘ کا لفظ استعمال نہیں ہوا لیکن ترجمہ کرنے والے اس کا ترجمہ ’’ درود بھیجو ‘‘ کرتے ہیں۔ ’’درود‘‘نہ عربی کا لفظ سے اور نہ ہی اردو کا بلکہ یہ فارسی کا لفظ ہے۔’’ صلی ‘‘ عربی کا لفظ ہے جس کے معنی ’’ رحمت ‘‘ اور ’’ دعا ‘‘ ہیں۔اسی سورہ الاحزاب میں جہاں نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے لئے ’’ صلی ‘‘ کا لفظ آیا ہے وہاں دوسرے ایمان والوں کے لئے بھی یہی لفظ استعمال ہوا ہے، ملاحظہ فرمائے: 

هُوَ الَّذِيْ يُصَلِّيْ عَلَيْكُمْ وَ مَلٰٓىِٕكَتُهٗ لِيُخْرِجَكُمْ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَى النُّوْرِ١ؕ وَ كَانَ بِالْمُؤْمِنِيْنَ رَحِيْمًا۰۰۴۳

[الأحزاب: 43]

’’ وہی تو ہے  جو تم پر رحمت کرتا ہے اور اس کے فرشتے، تاکہ تمہیں نکال دیں اندھیروں ( جہالت ) سے اجالے ( اسلام ) کی طرف،اور اللہ مومنوں پر بہت مہربان ہے۔‘‘

هُوَ الَّذِيْ ( وہی ہے) يُصَلِّيْ ( وہ رحمت کرتا ہے ) عَلَيْكُمْ ( تمہارے اوپر ) وَمَلٰۗىِٕكَتُهٗ ( اور اس کے فرشتے) لِيُخْرِجَكُمْ ( تاکہ نکال دے تم کو ) مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَى النُّوْرِ ( اندھیروں سے اجالے میں ) وَكَانَ بِالْمُؤْمِنِيْنَ رَحِيْمًا  ( اور اللہ تعالی مومنوں پر بہت ہی مہربان ہے )۔ 


اللہ تعالی کا مومنوں پر رحمت کرنا  یہی کہ ہے کہ وہ  انہیں ہدایت بخشتا، انہیں دنیا کی آفات و مصیبتوں سے بچاتا ہے، اور فرشتوں کا مومنوں پر رحمت کرنے کی تشریح قرآن و حدیث سے یہ ملتی ہے کہ وہ ان کے لئے اللہ سے دعا کرتے ہیں۔ 

 اس آیت میں بھی وہی ’’ صلی ‘‘           کا لفظ  بیان ہوا ہے لیکن  کوئی بھی مترجم یہاں اس لفظ کے معنی ’’ درود ‘‘ نہیں کرتا بلکہ ’’ رحمت ‘‘ کرتے ہیں۔ لفظ ایک ہی لیکن معنی میں یہ فرق کیوں ؟ اس کی وجہ محض ایک گھڑا ہوا عقیدہ ہے کہ یہ ’’ درود ‘‘ نبی صلی اللہ علیہ و سلم پر پیش ہوتا ہے۔

 اگر احادیث کا مطالعہ کریں تو وہاں بھی ’’ صلی ‘‘ کے معنی ’’ درود ‘‘ نہیں بنتے۔

جب کوئی صحابی ؓ نبی ﷺ کے پاس زکوٰۃ لیکر آتا تو نبی ﷺ اس اس طرح دعا دیتے:

اللهم صل علی آل فلان  ’’ اے اللہ فلاں پر رحمت فرما ۔‘‘

ایک صحابی ؓ کےلئے دعا فرمائی:

اللهم صل علی آل أبي أوفی   ’’ اےاللہ آل ابی اوفٰی پر رحمت فرما ‘‘ ( بخاری، کتاب الزکوٰۃ، بَابُ صَلاَةِ الإِمَامِ، وَدُعَائِهِ لِصَاحِبِ الصَّدَقَةِ)

واضح ہوا کہ ’’ صلی ‘‘ کے معنی ’’ درود ‘‘ نہیں ’’ رحمت ‘‘ ہیں۔

صل اللہ
اب  اس آیت کو بغور سمجھیں :


اِنَّ اللّٰهَ وَ مَلٰٓىِٕكَتَهٗ يُصَلُّوْنَ عَلَى النَّبِيِّ١ؕ يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَيْهِ وَ سَلِّمُوْا تَسْلِيْمًا۰۰۵۶

[الأحزاب: 56]
’’ اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتے نبی پر رحمت کرتے ہیں۔ اے ایمان والو! تم (بھی) ان کے لئے رحمت کی دعا کرو اور خوب سلام‘‘۔


اِنَّ اللّٰهَ ( بے شک اللہ ) وَمَلٰىِٕكَتَهٗ (اور اس کے فرشتے) يُصَلُّوْنَ ( رحمت کرتے ہیں ) عَلَي النَّبِيِّ ( نبی پر ) يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا ( اے ایمان والو) صَلُّوْا عَلَيْهِ (رحمت کی دعا کرو ان پر)۔ 

بخاری میں روایت بیان کی گئی ہے:
عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ أَبِي لَيْلَى، قَالَ: لَقِيَنِي كَعْبُ بْنُ عُجْرَةَ، فَقَالَ: أَلاَ أُهْدِي لَكَ هَدِيَّةً سَمِعْتُهَا مِنَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ فَقُلْتُ: بَلَى، فَأَهْدِهَا لِي، فَقَالَ: سَأَلْنَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقُلْنَا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، كَيْفَ الصَّلاَةُ عَلَيْكُمْ أَهْلَ البَيْتِ، فَإِنَّ اللَّهَ قَدْ عَلَّمَنَا كَيْفَ نُسَلِّمُ عَلَيْكُمْ؟ قَالَ: ” قُولُوا: اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ، كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ، وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ، إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ، اللَّهُمَّ بَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ، كَمَا بَارَكْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ، وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ “

( بخاری ، کتاب الانبیاء ، باب 🙂

’’عبدالرحمن کہتے ہیں کہ مجھ سے کعب بن عجرہ ملے تو فرمایا کیا میں تمہیں ایسا تحفہ نہ دوں جسے میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا ہے میں نے عرض کیا ضرور دیجئے انہوں نے کہا ہم نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر اہل بیت پر ہم کس طرح رحمت بھیجیں؟ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ تو بتا دیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر کیسے سلامتی بھیجیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس طرح پڑھو :

اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ، كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ، وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ، إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ، اللَّهُمَّ بَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ، كَمَا بَارَكْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ، وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ
’’ اے میرے اللہ رحمت فرما محمد پر اور ان کی آل پر جیسا کہ تو نے رحمت فرمائی ابراہیم پر اور آل ابراہیم پر ، بے شک تو تعریف کیا گیا ہے۔ اے اللہ برکت فرما محمد پر اور آل محمد پر جیسا کہ تو نے برکت فرمائی ابراہیم پر اور آل ابراہیم پر، بے شک تو تعریف کیا گیا ہے۔‘‘

اللهم( اے میرے اللہ ) صل  ( رحمت فرما ) علی ( پر ) محمد ( محمد ﷺ ) و ( اور )علی ( پر ) آل محمد ( محمد ﷺ کی آل ) کما ( جیسا کہ ) صليت (آپ نے رحمت فرمائی ) علی ( پر ) إبراهيم ( ابراہیم ؑ)  و ( اور )

علی ( پر ) آل إبراهيم ( ابراہیم کی آل ) إنک ( بے شک تو ) حميد مجيد ( تعریف کیا گیا )  اللهم ( اے میرے اللہ ) بارک  ( برکت عطا فرما )علی محمد وعلی آل محمد کما بارکت علی إبراهيم وعلی آل إبراهيم إنک حميد مجيد 

معلوم ہو کہ ’’ صلی ‘‘ سے مراد اللہ تعالی سے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے لئے رحمت کی دعا کرنا ہے۔ ہر دعا اللہ کی بارگاہ میں پیش ہوتی ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی کے لئے کی گئی رحمت کی دعا کرنے والے کے لئے بھی بڑا اجر ہے: 

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «مَنْ صَلَّى عَلَيَّ وَاحِدَةً صَلَّى الله عَلَيْهِ عَشْرًا»

( مسلم ،  کتاب الصلوٰۃ، باب : تشہد  ۔ ۔ ۔)
’’ ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا جو شخص ایک بارمیرے لئے رحمت کی دعا کرے اللہ اس پر دس رحمیتں نازل کرے گا۔‘‘ 

جب یہ ایک دعا ہے تو اس بات کا تصور کہاں رہ جاتا ہے کہ یہ اللہ کے علاوہ کسی اور پر پیش ہو سکتی ہے، دعائیں اسی کی بارگاہ میں پیش ہوتی ہیں اور وہی دعاوں کا قبول کرنے والا ہے۔  اب کوئی انسان اللہ تعالیٰ سے اپنے لئے  یا نبیﷺ کے لئے دعا کرے گا تو وہ کس کے سامنے پیش کی جائے گی؟ دوسری بات یہ ہے  کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم اپنی وفات کے بعد اس دنیا میں نہیں بلکہ  جنت  الفردوس میں اعلی ترین مقام میں ہیں۔

عَنْ أَنَسٍ قَالَ لَمَّا ثَقُلَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَعَلَ يَتَغَشَّاهُ فَقَالَتْ فَاطِمَةُ ؓ وَا کَرْبَ أَبَاهُ فَقَالَ لَهَا لَيْسَ عَلَی أَبِيکِ کَرْبٌ بَعْدَ الْيَوْمِ فَلَمَّا مَاتَ قَالَتْ يَا أَبَتَاهُ أَجَابَ رَبًّا دَعَاهُ يَا أَبَتَاهْ مَنْ جَنَّةُ الْفِرْدَوْسِ مَأْوَاهْ يَا أَبَتَاهْ إِلَی جِبْرِيلَ نَنْعَاهْ فَلَمَّا دُفِنَ قَالَتْ فَاطِمَةُ  ؓ يَا أَنَسُ أَطَابَتْ أَنْفُسُکُمْ أَنْ تَحْثُوا عَلَی رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ التُّرَابَ

’’انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم مرض کی شدت کی وجہ سے بیہوش ہو گئے ۔ فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کہنے لگیں،  افسوس میرے والد کو کتنی تکلیف ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ آج کے بعد نہیں ہو گی۔ پھر جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہو گئی تو فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے کہا  اے ابا جان آپ اپنے رب کے پاس اس کے بلاوے پر چلے گئے ۔ اے ابا جان آپ  ہی کا ٹھکانہ جنت الفردوس ہے ۔ ہم  جبریل کو آپ کی وفات کی خبر سناتے ہیں۔ اور جب تدفین ہو گئی تو انہوں نے کہا اے انس تم نے کیسے گوارا کر لیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو مٹی میں چھپا دو۔‘‘

(صحیح البخاری: کتاب المغازی؛ بَابُ مَرَضِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَوَفَاتِهِ )

اب یہ دونوں باتیں سامنے رکھیں کہ دعا صرف اللہ تعالیٰ کے سامنے پیش ہوتی ہے اور یہ کہ نبی ﷺ اس دنیا میں نہیں جنت الفردوس میں اعلیٰ ترین مقام میں زندہ ہیں تو کیا پھر کوئی یہ عقیدہ رکھ سکتا ہے کہ ہماری یہ دعا نبی ﷺ پر پیش ہوتی ہے ۔


اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم خود یہ دعا پڑھا کرتے تھے، وہ کیا ان کے اوپر پیش ہوتی تھی؟ کیا کسی حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ صحابہ رضی اللہ عنہم کی طرف سے کی گئی یہ دعا نبی صلی اللہ علیہ و سلم پر پیش ہوا کرتی تھی؟ صلح حدیبیہ کے مقام پر یہ افواہ پھیل گئی کہ عثمان رضی اللہ عنہ شہید کردئے گئے ہیں اور نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے بیعت کے وقت اپنا ہاتھ یہ کہہ کر رکھا کہ یہ عثمان کی طرف سے ہے۔ حالانکہ عثمان رضی اللہ عنہ زندہ تھے اور یقینا صلواۃ بھی ادا کرتے ہوں گے، اورکم ازکم صلواۃ میں تو وہ یہ دعا لازمی پڑھتے ہوں گے، تو پھر نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے کیوں نہیں فرمایا کہ نہیں عثمان زندہ ہیں اور ا ن کی طرف سے کی گئی رحمت کی دعا مجھ پر پیش ہو رہی ہے۔ 

دعا تو صرف اللہ تعالیٰ کے سامنے ہی پیش ہوتی ہے  لیکن ثواب ان سب بندوں کو ملتا ہے جن کے لئے دعا کی جاتی ہے۔ ملاحظہ کریں یہ حدیث:

قَالَ عَبْدُ اللَّهِ: كُنَّا إِذَا صَلَّيْنَا خَلْفَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قُلْنَا: السَّلاَمُ عَلَى جِبْرِيلَ وَمِيكَائِيلَ السَّلاَمُ عَلَى فُلاَنٍ وَفُلاَنٍ، فَالْتَفَتَ إِلَيْنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: ” إِنَّ اللَّهَ هُوَ السَّلاَمُ، فَإِذَا صَلَّى أَحَدُكُمْ، فَلْيَقُلْ: التَّحِيَّاتُ لِلَّهِ وَالصَّلَوَاتُ وَالطَّيِّبَاتُ، السَّلاَمُ عَلَيْكَ أَيُّهَا النَّبِيُّ وَرَحْمَةُ اللَّهِ وَبَرَكَاتُهُ، السَّلاَمُ عَلَيْنَا وَعَلَى عِبَادِ اللَّهِ الصَّالِحِينَ، فَإِنَّكُمْ إِذَا قُلْتُمُوهَا أَصَابَتْ كُلَّ عَبْدٍ لِلَّهِ صَالِحٍ فِي السَّمَاءِ وَالأَرْضِ، أَشْهَدُ أَنْ لاَ إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ

( بخاری، کتاب الاذان ، بَابُ التَّشَهُّدِ فِي الآخِرَةِ )

’’عبداللہ ؓ بن مسعود سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا کہ ہم نبیﷺکے پیچھے صلاہ کے (قعدہ میں) یہ پڑھا کرتے تھے السلام علیٰ جبرائیل (علیہ السلام) و میکائیل السلام علیٰ فلاں وفلاں تو (ایک مرتبہ) رسول اللہ ﷺنے ہماری طرف دیکھا اور فرمایا کہ اللہ تو خود ہی سلام ہے (اس پر سلام بھیجنے کی کیا ضرورت) لہذا جب کوئی تم میں سےصلاۃ ادا کرے  تو کہے التَّحِيَّاتُ لِلَّهِ وَالصَّلَوَاتُ وَالطَّيِّبَاتُ السَّلَامُ عَلَيْکَ أَيُّهَا النَّبِيُّ وَرَحْمَةُ اللَّهِ وَبَرَکَاتُهُ السَّلَامُ عَلَيْنَا وَعَلَی عِبَادِ اللَّهِ الصَّالِحِينَ کیونکہ جس وقت تم یہ کہوگے تو (یہ دعا) اللہ کے ہر نیک بندے کو پہنچ جائے گی خواہ وہ آسمان میں ہو یا زمین میں۔ أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ ۔ ‘‘

واضح ہوا کہ دعا کےپہنچ جا نے سے مراد اس کا ثواب پہنچ جانا ہے۔ یعنی اس کا ثواب ہر نیک بندے کو پہنچ جاتا ہے خواہ وہ  اسی زمین پر زندہ ہو یا وفات پا کر آسمانوں میں چلا گیا ہو۔ یہ بھی واضح ہوا کہ یہ عقیدہ منگھڑت اور خلاف قرآن  و حدیث ہے۔

پہلی روایت 

اِنَّ لِلہ مَلٰٓئِکَۃً سَیَّاحِیْنَ فِی الْاَرْضِ یُبَلِّغُوْنِیْ مِنْ اُمَّتِیَ السَّلاَمَ (نسائی :کتاب السھو،صفحہ۱۸۹/مشکوٰۃ:صفحہ۸۶)

یہ روایت  ناقابل اعتبار ہے۔

1۔ عبد اللہ ابن مسعود ؓ کے ہزاروں شاگردوں میں سے اسکو سوائے  “زاذان ” کے اور کوئی روایت نہیں کرتا یعنی یہ زاذان کا تفرد ہے۔

 وهذا الحديث لا نعلمه يروى عن عبد الله إلا من هذا الوجه بهذا الإسناد 

(البحر الزخار مسند البزار  – زاذان   حديث:‏1695‏)

غريب من حديث الثوري وعبد الله بن السائب لا يعرف له راو غير زاذان إلا عبد الله بن السائب وهو كوفي سمع منه الأعمش  (حُلْيَة الَأولِيَاء  – الفضيل بن عياض  حديث:‏11809‏)

2۔  ابن حجر لکھتے ہیں  کہ اس میں شیعیت ہے۔   فيه شيعية   (تقریب التہذیب  1976)

قال ابن حبان : يخطىء كثيرا   (الثقات 4/265)  “ابن حبان نے کہا کہ غلطیان بہت کرتا ہے”۔

اعمال کا علی ؓ                                 کی   اور اماموں پر پیش ہونے کا عقیدہ خالص شیعی ہے۔ اور اصول حدیث کا فیصلہ ہے کہ جب کوئی راوی کسی فاسد عقیدہ کی تائید میں روایت لائے تو وہ رد کردی جائے گی۔

 أنْ يَروي ما يُقَوِّي بدعته فَيُرَدُّ، على المذهب المختار (نزھۃ النظر 1/128)

 زاذان اگرچہ ثقہ ہے لیکن یہ روایت کے ایک بدعی عقیدہ کی تائید کرتی ہے کہ اعمال جن کا لوٹنا خالصتاً اللہ کی طرف ہے وہ آپﷺ پر پیش ہوتا ہے۔ آپ ﷺ پر صلوۃ و سلام اعمال میں سے ہیں اور تمام امور کا لوٹنا اللہ ہی کی طرف ہے ۔

3۔ یہ بات اللہ کی نبیﷺ کی زندگی سے متعلق ہے یا وفات کے بعد سے اسکا تعلق ہے؟؟

اگر زندگی میں آپﷺ کو فرشتے امتیوں کا سلام پہنچاتے تھے  تو  یہ صریح منکر بات ہے کیونکہ  صلح حدیبیہ کے موقع پر عثمان غنی  جب مشرکین کے پاس تھے اور افواہ اڑا دی گئی کہ آپ    کو شہید کر دیا گیا ہے تو آپ ﷺ عثمان   کی شہادت کا بدلہ لینے کے لئے بیعت لے رہے ہیں اگر فرشتے آپﷺ تک سلام پہنچاتے ہوتے تو کیا عثمان   کا سلام آپ تک نہ پہنچا کیونکہ عثمان   بہت دیر وہاں رکے اور وہ صلوٰۃ کو ترک کرنے والے ہرگز نہ تھے۔

اگر اس کا تعلق نبی ﷺ کی وفات کے بعد کا ہے تو  پھر پہلے یہ ثابت کرنا ہوگا کہ نبی ﷺ اس ،دینے والی قبر میں زندہ ہیں۔

ایک روایت میں ہے کہ نبی صلّی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب کوئی شخص مجھ پر سلام بھیجتا ہے تو اللہ تعالیٰ میری روح واپس لوٹا دیتا ہے اور میں سلام کا جواب دیتا ہوں (ابو داوٗد والبہیقی بحوالہ مشکوٰۃ:صفحہ۸۶)

اس کی سند یوں ہے:

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَوْفٍ نَا الْمُقْرِیُّ نَاحَیٰوۃٌ عَنْ اَبِیْ صَخْرٍ حُمَیْدٍ بْنِ زِیَادٍ عَنْ یَزِیْدٍ بْنِ عَبْدِاللہِ بْنِ قُسَیْطٍ عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ

٭ اس روایت میں ابوصخرحمید بن زیادہے جس سے حاتم بن اسماعیل روایت کرتا ہے۔ اس کو سیوطی،نسائی ،ابن حماد اور احمد بن حنبل نے ضعیف بتا یاہے۔ (تہذیب التہذیب:جلد ۳، صفحات۴۲،۴۱)

٭ دوسرا راوی ابو صخرکا استاد یزید بن عبداللہ بن قسیط بھی ضعیف ہے۔ ابن حبان کہتے ہیں کہ رُبَّمَااَخْطَاْءَ(کبھی کبھی خطا کرتا ہے) ؛امام مالک کہتے ہیں: لَیْسَ ھُنَا کَ (یعنی ضعیف ہے)

 ابو حاتم کہتے ہیں قوی نہیں ہے (تہذیب التہذیب :جلد۱۱، صفحات۳۴۲،۳۴۳)۔

٭ ابن تیمیہ کہتے ہیں ضعیف بھی ہے اور ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے اس کا سماع بھی نہیں ہے۔ (القول البدیع:صفحات۱۵۶/جلاء الافہام:صفحہ۲۲)

ایک اور روایت پیش کی جاتی ہے:

عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللہ مَنْ صَلّٰی عَلَیَّ عِنْدَ قَبْرِیْ سَمِعْتُہٗ وَ مَنْ صَلّٰی عَلَیَّ نَائِیاً مِنْ قَبْرِیْ اُبْلِغْتُہٗ

(رواہ عُقیلی وقال لَا اَصْلَ لَہٗ)

’’ رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جو میری قبر کے قریب درود پڑھے تو میں سنتا ہوں اور جو قبر سے دور مجھ پر درود پڑھے وہ مجھ تک پہنچا دیا جاتا ہے۔ ‘‘

(امام عُقیلی  نے اس کو روایت کرنے کے بعد لکھا ہے کہ یہ بے ا صل ہے) اس روایت میں محمد بن مروان کا تفر د ہے اورمحمد بن مروان متروک الحدیث ہے۔

٭ جریر کا کہنا ہے کہ محمدبن مروان کذاب ہے۔(تہذیب الکمال:جلد۲۶،صفحہ۳۹۳)

٭ عقیلی کا قول ہے کہ ابن  نُمیر کہتے تھے کہ محمد بن مروان الکلبی ’’کذاب‘‘ ہے۔ (حاشیۃ تہذیب الکمال:جلد۲۶، صفحہ۳۹۵/ضعفاء الکبیرللعقیلی:جلد۴، صفحہ۱۳۶)

٭ امام نسائی اس کو متروک الحدیث کہتے ہیں ۔ (کتاب الضعفاء والمتروکین     للنسائی:صفحہ۲۱۹/الکامل فی ضعفاء الرجال:جلد7، صفحہ۵۱۲)

٭ صالح کہتے ہیں کہ وہ روایات گھڑا کرتا ہے۔ (تہذیب الکمال:جلد۲۶،صفحہ۳۹۳)

٭ ابن حبان کہتے ہیں کہ وہ ان لوگوں میں سے ہے جو ’’موضوع‘‘ روایات بیان کرتے ہیں۔ (حاشیۃ تہذیب الکمال: جلد۲۶،صفحہ۳۹۶)

اسی مضمون کی ایک دوسری روایت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بجائے عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ہے اور اس میں وہب ابن وہب ابو البختری القاضی ہے اور سارے اہل علم اس کو کذاب اور وضاع کہتے ہیں۔ (میزان الاعتدال:جلد۶،صفحہ۳۲۸/ترتیب الموضوعات:صفحہ۸۰)

اس بارے میں یہ روایت بھی پیش کی جاتی ہے:

قَالَ رَسُوْلُ اللہ مَا مِنْ عَبْدٍ یُسَلِّمُ عَلَیَّ عِنْدَ قَبْرِیْ اِلَّا وَکَّلَ اﷲُ بِھَا مَلَکاً یُّبَلِّغُنِیْ وَکُفیٰ أمْرَآخِرَتِہٖ وَ دُنْیَاہٖ وَ کُنْتُ لَہٗ شَھِیْداً اَوْ شَفِیْعاً یَّوْمًا الْقِیٰمَۃِ (رواہ البیھقی فی شعب الایمان)

’’ رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جب کوئی بندہ میری قبر کے پاس مجھ پر سلام کہتا ہے تو ایک فرشتہ جس کو اللہ تعالیٰ نے وہاں مامور کردیا ہے اس سلام کو مجھ تک پہنچا دیتا ہے اور اس بندے کے آخرت اور دنیا کے معاملات کی کفایت کی جاتی ہے اور قیامت کے دن میں اس بندے کا شہید یا شفیع ہوں گا۔ ‘‘

سند کے لحاظ سے اس میں محمد بن موسیٰ البصری کو کذاب اور وضاع (دروغ گو، اور روایتیں اپنی طرف سے بنانے والا) کہا گیا ہے۔ ابن عدی کہتے ہیں کہ محمد بن موسیٰ حدیث بناتا تھا۔ ابن حبان کہتے ہیں کہ اپنی طرف سے روایتیں بناتا ہے اور اس نے ایک ہزار سے زیادہ حدیثیں گھڑی ہیں۔ (میزان الاعتدال: جلد ۳۔ صفحہ۱۴۱)

ایک روایت پیش کی جاتی ہے:

حُسَيْنُ بْنُ عَلِيٍّ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ يَزِيدَ بْنِ جَابِرٍ، عَنْ أَبِي الْأَشْعَثِ الصَّنْعَانِيِّ، عَنْ أَوْسِ بْنِ أَوْسٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنَّ مِنْ أَفْضَلِ أَيَّامِكُمْ يَوْمَ الْجُمُعَةِ، فِيهِ خُلِقَ آدَمُ، وَفِيهِ قُبِضَ، وَفِيهِ النَّفْخَةُ، وَفِيهِ الصَّعْقَةُ، فَأَكْثِرُوا عَلَيَّ مِنَ الصَّلَاةِ فِيهِ، فَإِنَّ صَلَاتَكُمْ مَعْرُوضَةٌ عَلَيَّ» قَالَ: قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، وَكَيْفَ تُعْرَضُ صَلَاتُنَا عَلَيْكَ وَقَدْ أَرِمْتَ – يَقُولُونَ: بَلِيتَ -؟ فَقَالَ: «إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ حَرَّمَ عَلَى الْأَرْضِ أَجْسَادَ الْأَنْبِيَاءِ»

(ابوداؤد کتاب تَفْرِيعِ أَبْوَابِ الْجُمُعَةِ  بَابُ فَضْلِ يَوْمِ الْجُمُعَةِ وَلَيْلَةِ الْجُمُعَةِ ، نسائی:91/3 ح 1636 اور ابن ماجہ: 1085،والدارمي(1/369)- ، وابن حبان (550) ، والحاكم (1/278) ، والبيهقي (3/248))

یہ روایت ضعیف ہے، اس روایت میں علت قادحہ یہ ہے کہ حسین الجعفی اور ابو اسامہ کا استاذ عبد الرحمٰن بن یزید بن جابر نہیں بلکہ عبد الرحمٰن بن یزید بن تمیم  (ضعیف الحدیث ، منکر الحدیث)ہے جیسا کہ امام بخاری ، ابو زرعہ الرازی، ابو حاتم الرازی اور دیگر جلیل القدر محدثین کی تحقیق سے ثابت ہے۔

وسمِعتُ أبِي يقول : عَبد الرحمان بن يزيد بن جابر ، لا أعلمُ أحدًا من أهل العراق يُحدِّثُ عنه ، والذي عندي أن الذي يروي عنه أبو أسامة ، وحُسين الجُعفي ، واحدٌ ، وهو عَبد الرحمان بن يزيد بن تميم ، لأن أبا أسامة روى عن عَبد الرحمان بن يزيد ، عن القاسم ، عن أبي أُمامة ، خمسة أحاديث أو ستة ، أحاديث منكرة ، لا يحتمل أن يُحدِّث عَبد الرحمان بن يزيد بن جابر مثله ، ولا أعلمُ أحدًا من أهل الشام روى عن ابن جابر من هذه الأحاديث شيئًا.

وأمّا حُسينٌ الجُعفِيُّ : فإِنّهُ روى عن عَبدِ الرّحمنِ بنِ يزِيد بنِ جابِرٍ ، عن أبِي الأشعثِ ، عن أوسِ بنِ أوسٍ ، عنِ النّبِيِّ صلى الله عليه وسلم فِي يومِ الجُمُعةِ ، أنّهُ قال : أفضلُ الأيّامِ : يومُ الجُمُعةِ ، فِيهِ الصّعقةُ ، وفِيهِ النّفخةُ وفِيهِ كذا وهُو حدِيثٌ مُنكرٌ ، لا أعلمُ أحدًا رواهُ غير حُسينٍ الجُعفِيِّ وأمّا عبدُ الرّحمنِ بنُ يزِيد بنِ تمِيمٍ فهُو ضعِيفُ الحدِيثِ ، وعبدُ الرّحمن بنُ يزِيد بنِ جابِرٍ ثِقةٌ.  (علل الحدیث 1/197)

عَبد الرَّحمَن بْن يَزِيد بْن تَمِيم السُّلَمِيّ، الشامي.

عَنْ مَكحُول، سَمِعَ منه الوَلِيد بْن مُسلم. عِنْده مناكير.

ويُقال: هو الَّذِي رَوَى عَنه أهل الكُوفة: أَبو أُسامة، وحُسَين، فَقَالُوا: عَبد الرَّحمَن بْن يَزِيد بْن جابر.

(التاريخ الكبير للبخاری 5/365)

وَأما أهل الْكُوفَة فرووا عَن عبد الرَّحْمَن بن يزِيد بن جَابر وَهُوَ بن يزِيد بن تَمِيم لَيْسَ بِابْن جَابر وَابْن تَمِيم مُنكر الحَدِيث۔  (التاریخ الأوسط للبخاري: 2/ 117(

وإنما هو بن تميم وقد روى عنه الكوفيون أبو أسامة وحسين الجعفي وذووهما. (المجروحین  لابن حبان: 2/ 55(

روى الكوفيين أحاديث عبد الرحمن بن يزيد بن تميم، عن عبد الرحمن بن يزيد بن جابر، ووهموا في ذلك، فالحمل عليهم في تلك الأحاديث ولم يكن ابن تميم ثقة، وإلى تلك الأحاديث أشار عمرو بن علي، وأما ابن جابر فليس في حديثه منكر، والله أعلم. (تاریخ بغداد للخطيب البغدادي: 11/ 471(

أَهْلُ الْكُوفَةِ يَرْووُنَ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ يَزِيدَ بْنِ جَابِرٍ , أَحَادِيثَ مَنَاكِيرَ , وَإِنَّمَا أَرَادُوا عِنْدِي عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ يَزِيدَ بْنِ تَمِيمٍ , وَهُوَ مُنْكَرُ الْحَدِيثِ وَهُوَ بِأَحَادِيثِهِ أَشْبَهُ مِنْهُ بِأَحَادِيثِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ يَزِيدَ بْنِ جَابِرٍ

(علل الکبیر للترمذی 2/448)

عن ابن جابر عن أبي الأشعث عن أوس عن النبي صلى الله عليه وعلى آله وسلم حديث (( أكثروا علي من الصلاة يوم الجمعة … )) الحديث ، فقالت طائفة : (( هو حديث منكر ، وحسين الجعفي سمع من عبد الرحمن بن يزيد بن تميم الشامي ، وروى عه أحاديث منكرة فغلط في نسبته )) .

وممن ذكر ذلك البخاري ، وأبو زرعة ، وأبو حاتم ، وأبو داود ، وابن حبان ، وغيرهم ؛ وأنكر ذلك

(شرح علل الترمذی لابن رجب 1/398)

حاکم جیسے تصیح حدیث میں متساہل کا اس روایت کو صحیح کہنا اور متاخرین میں ذہبی کا اسکی موافقت کرنا کیسے صحیح قرار پا سکتا ہے جبکہ متقدمین میں سے بخاری ، ابو حاتم رازی ، ترمذی ، ابن حبان وغیرہ جیسے محدثین اس کا انکار کرتے ہیں۔

خلاصہ مضمون:

1.        ’’درود‘‘ نہ  عربی کا لفظ سے اور نہ ہی اردو کا بلکہ یہ فارسی کا لفظ ہے ۔’’ صلی ‘‘ عربی کا لفظ ہے جس کے معنی ’’ رحمت ‘‘ اور ’’ دعا ‘‘ ہیں۔

2.         اللہ تعالی کا مومنوں پر رحمت بھیجنا یہی کہ ہے کہ انہیں ہدایت بخشتا انہیں دنیا کی آفات و مصیبتوں سے بچاتا ہے، فرشتوں کا مومنوں پر رحمت کی تشریح قرآن و حدیث سے یہ ملتی ہے کہ وہ ان کے لئے اللہ سے دعا کرتے ہیں۔

3.        احادیث سے واضح ہے  کہ نبیﷺ اپنی وفات کے بعد جنت الفردوس میں ہیں اس مدینہ والی قبر میں زندہ نہیں اور نہ ہی قرآن و حدیث سے ایسا کچھ ثابت ہے کہ ان کی روح لوٹا دی جاتی ہے اور وہ دوبارہ زندہ ہو کر لوگوں کے سلام کا جواب دیتے ہیں۔

4.         وہ تمام روایات جن میں نبیﷺ پر صلاۃ و السلام پیش ہونے کی بات بیان کی گئی ہے خلاف قرآن و احادیث صحیحہ اور جھوٹی و منگھڑت ہیں۔