فہرست

جادو کی حقیقت قرآن و حدیث کی روشنی میں

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

            إِنَّ الْحَمْدَ لِلَّهِ، نَحْمَدُهُ وَنَسْتَعِينُهُ، مَنْ يَهْدِهِ اللهُ فَلَا مُضِلَّ لَهُ، وَمَنْ يُضْلِلْ فَلَا هَادِيَ لَهُ، وَأَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ، وَأَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ، أَمَّا بَعْدُ

            جب کوئی قوم قرآن و حدیث سے دور ہو جائے تو اس میں دوسرے باطل عقائد  کا زور بڑھ جاتا ہے۔ آج اس  کلمہ گو امت  میں بھی  بہت سے ایسے عقائد آگئے ہیں جو قرآن و حدیث کے صریحاً خلاف  ہیں، جیسا کہ  یہ عقیدہ کہ جادو کے زور سے کوئی جادوگر کسی کا ہونے والا رشتہ ختم کرا سکتا ہے، کسی کا کاروبار ختم کرسکتا ہے، کوئی اس کی وجہ سے  بیمار ہوسکتا ہے وغیرہ وغیرہ۔

            اس کے برعکس ایسے بھی لوگ  ہیں کہ جواحادیث کا انکار کرتے کرتے قرآن مجید کی آیات تک کا انکار کرجاتے ہیں۔ دراصل یہ سب  وہی گمراہی ہے جو کتاب  اللہ کی دوری کے باعث پیدا ہوئی ہے۔ذیل میں ہم کتاب اللہ سے اس موضوع پر دلائل دیتے ہیں :

قرآن مجید میں جادو کا ذکر :

وَ اتَّبَعُوْا مَا تَتْلُوا الشَّيٰطِيْنُ عَلٰى مُلْكِ سُلَيْمٰنَ١ۚ وَ مَا كَفَرَ سُلَيْمٰنُ وَ لٰكِنَّ الشَّيٰطِيْنَ كَفَرُوْا يُعَلِّمُوْنَ النَّاسَ السِّحْرَ١ۗ وَ مَاۤ اُنْزِلَ عَلَى الْمَلَكَيْنِ بِبَابِلَ هَارُوْتَ وَ مَارُوْتَ١ؕ وَ مَا يُعَلِّمٰنِ مِنْ اَحَدٍ حَتّٰى يَقُوْلَاۤ اِنَّمَا نَحْنُ فِتْنَةٌ فَلَا تَكْفُرْ١ؕ فَيَتَعَلَّمُوْنَ مِنْهُمَا مَا يُفَرِّقُوْنَ بِهٖ بَيْنَ الْمَرْءِ وَ زَوْجِهٖ١ؕ وَ مَا هُمْ بِضَآرِّيْنَ بِهٖ مِنْ اَحَدٍ اِلَّا بِاِذْنِ اللّٰهِ١ؕ وَ يَتَعَلَّمُوْنَ مَا يَضُرُّهُمْ وَ لَا يَنْفَعُهُمْ١ؕ وَ لَقَدْ عَلِمُوْا لَمَنِ اشْتَرٰىهُ مَا لَهٗ فِي الْاٰخِرَةِ مِنْ خَلَاقٍ١ؕ۫ وَ لَبِئْسَ مَا شَرَوْا بِهٖۤ اَنْفُسَهُمْ١ؕ لَوْ كَانُوْا يَعْلَمُوْنَ۰۰۱۰۲

 [البقرة: 102] 

’’ اور وہ ان چیزوں کی پیروی کرنے لگے جو شیاطین سلیمان کی مملکت کا نام لے کر پڑھا کرتے تھے، حالانکہ سلیمان نے کفر نہیں کیا بلکہ شیاطین نے ہی کفر کیا تھا جو لوگوں کو جادو سکھاتے تھے، اور (وہ اس کے بھی پیچھے لگ گئے) جو بابل میں دو فرشتوں ہاروت وماروت پر اترا تھا۔ حالانکہ وہ دونوں کسی کو نہ سکھاتے تھے جب تک اسکو یہ نہ بتا دیتے کہ ہم تو محض آزمائش ہیں، لہذا تم (یہ سیکھ کر) کفر نہ کرو۔ پھر بھی لوگ ان سے وہ سیکھتے تھے جس کے ذریعے شوہر اور اس کی بیوی کے درمیان جدائی ڈال دیں، (حالانکہ) وہ اس سے کسی کو بھی بغیر اللہ کے حکم کے نقصان پہنچا ہی نہیں سکتے تھے۔ اور وہ ایسی چیز سیکھتے تھے جو انہیں نقصان ہی پہنچاتی، نفع نہ دیتی۔ اور وہ خوب جانتے تھے کہ جو اس کا خریدار بنا اس کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں، اور بہت ہی بری چیز ہے وہ جس کے بدلے انہوں نے خود کو بیچ ڈالا کاش وہ اس بات کو جان لیتے‘‘۔

قرآن مجید کی مندرجہ بالا آیت میں یہ بات بیان کی گئی ہے کہ بنی اسرائیل پہلے ہی ایک ایسی  قوم کا روپ دھار چکے تھے جو مکمل طور پر  دنیا پرست اور آخرت سے غافل ہو چکی تھی اور  دوسری طرف ان کے علماء و مشائخ اس صورتحال سے پورا فائدہ اٹھا رہے تھے۔لوگوں کو یہ پٹی پڑھاتے کہ سلیمان علیہ السلام کی شان و شوکت کا دارومدار جادو ٹونے وغیرہ ہی پر تھا(مَعَاذَ اللہِ) ، اور یہ اس کے ماہر ہیں۔ان کے اس باطل پروپیگنڈے کی قطعاً تردید کر دی گئی کہ سلیمان علیہ السلام نے یہ کفر نہیں کیا تم اس اتہام طرازی میں بالکل جھوٹے ہو کفر تو ان شیاطین نے کیا جو لوگوں کو سحر سکھاتے تھے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ان پر اتمام حجت کے لیے اور ان کی مغالعہ آرائیوں اور باطل پروپیگنڈوں کا مطلق ازالہ کر دینے کے مقصد سے دو فرشتوں ہاروت و ماروت کو بابل کے شہر میں بھیجا،اور وہ اس فن کے ماہر کی حیثیت سے ان کے گروہ میں شامل ہو گئے۔لیکن ان کا طریقہ کار ان پیشہ وروں سے بالکل ہی مختلف تھا، جو بھی ان کے پاس جادو سیکھنے آتا، وہ پہلے اس کو یہ بتاتے کہ ہم تمہارے لیے آزمائش ہیں، جادو کفر ہے تم اس کو سیکھ کر کفر نہ کرو۔ لیکن جب یہودی سیکھنے پر اصرار کرتے تو وہ ان کو سکھا دیتے۔قرآن بتاتا ہے کہ یہودی ان دونوں سے وہ جادو سیکھتے تھے جس کے ذریعے شوہر و بیوی میں تفرقہ ڈال دیں۔ لیکن یہ حقیقت بھی واضح کردی گئی کہ وہ اس کے ذریعے اللہ کے حکم کے بغیر کسی کو نقصان نہ پہنچا سکتے تھے، کیونکہ اسباب میں اثر تو بہرحال اللہ کے حکم ہی پر منحصر ہے۔اور وہ اس بات کو بھی خوب جان گئے تھے کہ اس(جادو) کو حاصل کرنے والے کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں، اور بہت ہی بری کمائی ہے جو انہوں نے اپنی جانوں کے لئے کی ہے،کاش وہ اس بات کو سمجھ لیتے!

یہاں اس بات کی وضاحت بھی ضروری ہے کہ قرآن نے جادو کا ذکر ایک شیطانی عمل کے طور پر کیا ہے۔اور احادیث سے اس کی وضاحت ہوتی ہے۔اس میں تو شک و شبہ کی کوئی گنجائش نہیں کہ یہ شیطانی عمل ہے، اس کا کرنا ،کرانا،اس کا ذوق رکھنا گناہ کبیرہ بلکہ کفر و شرک ہے۔البتہ سحر کے محدود،وقتی اور تخیلاتی اثر کا ذکر قرآن و حدیث میں ملتا ہے،جو بہرحال اللہ کے اذن و مشیت ہی کے تابع ہے ۔اس کا مطلق انکار کرنا یا اس کے اثرات کو حد سے بڑھانا ،یہ دونوں انداز قرآن و حدیث کے انکار کے مترادف ہیں۔افسوس کی بات ہے کہ بعض مفسرین نے ایک طرف تو اسرائیلی روایات کی بنیاد پر جادو کے بارے میں بے شمار من گھڑت خرافات پیش کر دی ہیں، تو دوسری طرف منکرین قرآن و حدیث نے سحر کا مطلق انکار ہی  کر دیا ہے۔ہمیں اس کو اسی حد تک ماننا چاہئے جہاں تک قرآن و حدیث نے بیان کیا ہے۔

موسیٰ علیہ السلام اور جادوگروں کا واقعہ

قَالُوْا يٰمُوْسٰۤى اِمَّاۤ اَنْ تُلْقِيَ وَ اِمَّاۤ اَنْ نَّكُوْنَ نَحْنُ الْمُلْقِيْنَ۰۰۱۱۵قَالَ اَلْقُوْا١ۚ فَلَمَّاۤ اَلْقَوْا سَحَرُوْۤا اَعْيُنَ النَّاسِ وَ اسْتَرْهَبُوْهُمْ وَ جَآءُوْ بِسِحْرٍ عَظِيْمٍ۰۰۱۱۶وَ اَوْحَيْنَاۤ اِلٰى مُوْسٰۤى اَنْ اَلْقِ عَصَاكَ١ۚ فَاِذَا هِيَ تَلْقَفُ مَا يَاْفِكُوْنَۚ۰۰۱۱۷

 [الأعراف: 115-118]

’’ ( جادوگر ) کہنے لگے: اے موسیٰ ؑ تم ڈالتے  ہو یا ہم ( پہلے ) ڈالیں۔( موسی ٰ ؑ ) نے کہا  ( تم ) ڈالو، پھر جب انہوں نے ڈالیں ( لاٹھیاں اور رسیاں  ) تو لوگوں کی آنکھوں پر جادو کردیا اور انہیں خوب ڈرایا،اور ( وہ ) زبردست جادو لائے تھے۔ اور ہم نے موسیٰؑ کی طرف وحی کی کہ اپنا عصا ڈالو ، تو ایکدم وہ نگلنے لگا ان کے جھوٹ کو جو وہ لیکر آئے تھے،۔ پس حق ثابت ہوگیا اور باطل ہوگئے ان کے اعمال‘‘۔

سورہ یونس میں اس موقع کے لئے بیان کیا گیا :

وَ قَالَ فِرْعَوْنُ ائْتُوْنِيْ بِكُلِّ سٰحِرٍ عَلِيْمٍ۰۰۷۹فَلَمَّا جَآءَ السَّحَرَةُ قَالَ لَهُمْ مُّوْسٰۤى اَلْقُوْا مَاۤ اَنْتُمْ مُّلْقُوْنَ۰۰۸۰

[يونس: 79-81]

’’  اور کہا فرعون نے، ہر ماہر جادوگر کو میرے پاس لے آؤ،  جب آگئے جادو گر تو موسیٰ ؑ نے ( ان سے ) کہا ڈالو جو کچھ تم نے ڈالنا ہے۔ جب انہوں نے ڈالا تو موسیٰ ؑ نےکہا جو کچھ ( جادو ) جو تم لائے ہو  اللہ اسے عنقریب باطل کردے گا ، اللہ تعالیٰ مفسدین کے کام کو سنوارتا نہیں ‘‘۔

سورہ طٰہٰ میں فرمایا گیا :

قَالَ بَلْ اَلْقُوْا١ۚ فَاِذَا حِبَالُهُمْ وَ عِصِيُّهُمْ يُخَيَّلُ اِلَيْهِ مِنْ سِحْرِهِمْ اَنَّهَا تَسْعٰى۰۰۶۶فَاَوْجَسَ فِيْ نَفْسِهٖ خِيْفَةً مُّوْسٰى۰۰۶۷قُلْنَا لَا تَخَفْ اِنَّكَ اَنْتَ الْاَعْلٰى ۰۰۶۸وَ اَلْقِ مَا فِيْ يَمِيْنِكَ تَلْقَفْ مَا صَنَعُوْا١ؕ اِنَّمَا صَنَعُوْا كَيْدُ سٰحِرٍ١ؕ وَ لَا يُفْلِحُ السَّاحِرُ حَيْثُ اَتٰى ۰۰۶۹

 [طه: 66-69]

 ’’  ( موسیٰؑ  نے ) کہا  بلکہ تم ڈالو ، پھر  ان ( جادوگروں ) کے جادو کے اثرسے ان کی رسیاں اور لاٹھیاں  ( موسیٰ ؑ ) کے خیال میں آیا کہ  جیسے وہ دوڑ رہی ہوں۔ پس موسیٰ ؑ اپنے دل میں ڈر گیا۔ ہم ( اللہ ) نے فرمایا  ! ڈرو نہیں، تم ہی کامیاب ہوگے۔ اور پھینکو جو تمہارے  دائیں ہاتھ میں ہے یہ نگل جائے گا  جو انہوں نے بنایا ہے، یہ تو  جادوگروں کی ایک چال ہے، اور نہیں کامیاب ہوتا جادو گر جہاں بھی وہ آئے ‘‘۔

 پیش کردہ آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ موسیٰ علیہ السلام اور جادو گروں کے مقابلے میں جادوگروں نے  ابتداء کی اور لوگوں کی آنکھوں پر جادو کردیا۔ اس جادو کی وجہ سے موسیٰ علیہ السلام اور لوگوں کو ایسا محسوس ہوا کہ گویا وہ لاٹھیاں اور رسیاں دوڑ رہی ہوں۔ یعنی وہ دوڑ نہیں رہی تھیں بلکہ صرف ایسا محسوس ہورہا تھا ۔( گویا ) جادو ان چیزوں پر نہیں  بلکہ لوگوں کی آنکھوں پر ہوا تھا۔ ان کے اس جادو کیوجہ سے خود موسیٰ ؑ السلام پر بھی اس کا اثر ہوا اور وہ ڈر گئے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ موسیٰ ؑ یہ سب جادوگروں کی چالیں ہیں اپنا عصا پھینکو، اور جب اسے پھینکا تو ان کی ساری بناوٹی  چیزوں  کو نگل گیا، اللہ تعالیٰ نے حقیقت بتا دی کہ ان لاٹھیوں اور رسیوں کی حیثیت کچرے کی ہے، انہوں نے جو انسانوں کی آنکھوں پر جادو کیا تھا صرف اس کی وجہ سے لوگ ڈر گئے تھے۔

کیا جادو گر ان لاٹھیوں اور رسیوں پر کیمیکل لگا کر لائے تھے :

            منکریں حدیث  لوگوں کو گمراہ کرتے ہیں کہ جادو کوئی چیز نہیں ہے بلکہ جادوگر ان لاٹھیوں اور رسیوں پرکیمیکل لگا کر لے آئے تھے جس کی وجہ سے انہوں نے  بھاگنا  شروع کردیا۔ یہاں وہ  سورہ طٰہٰ کی  آیت میں بیان کردہ ٹکڑا بھی پیش کرتے ہیں : إِنَّمَا صَنَعُواْ كَيۡدُ سَٰحِرٖۖ  ’’ جو انہوں نے بنایا ہے، یہ تو  جادوگروں کی ایک چال ہے ‘‘۔

  حقیقت  تو اللہ تعالیٰ نے اسی آیت میں بتا دی ہے :  فَإِذَا حِبَالُهُمۡ وَعِصِيُّهُمۡ يُخَيَّلُ إِلَيۡهِ مِن سِحۡرِهِمۡ أَنَّهَا تَسۡعَىٰ  ’’ پھر  ان ( جادوگروں ) کی رسیاں اور لاٹھیاں  جادو کے اثرسے ( موسیٰ ؑ ) کے خیال میں آیا کہ  جیسے وہ دوڑ رہی ہوں‘‘۔ یعنی وہ دوڑ نہیں رہی تھیں بلکہ لوگوں کو ایسا لگا کہ جیسے وہ دوڑ رہی ہوں۔واضح ہوا کہ ان لاٹھیوں اور رسیوں پر کوئی کیمیکل نہیں تھا اور نہ  ہی وہ دوڑ رہی تھیں۔ بلکہ  جادو تو لوگوں کی آنکھوں پر ہوا تھا: فَلَمَّآ أَلۡقَوۡاْ سَحَرُوٓاْ أَعۡيُنَ ٱلنَّاسِ وَٱسۡتَرۡهَبُوهُمۡ وَجَآءُو بِسِحۡرٍ عَظِيمٖ ’’ پھر جب انہوں نے ڈالیں ( لاٹھیاں ) تو لوگوں کی آنکھوں پر جادو کردیا اور انہیں خوب ڈرایا،اور ( وہ ) زبردست جادو لائے تھے‘‘۔ یعنی  جادو کسی چیز پر نہیں بلکہ انسانوں کی آنکھوں پر کیا گیا تھا۔نیز قرآن  جادو کا جو طریقہ بتاتا ہے   وہ اس طرح ہے:

وَ اتَّبَعُوْا مَا تَتْلُوا الشَّيٰطِيْنُ عَلٰى مُلْكِ سُلَيْمٰنَ

 ( سورہ البقرہ : 102 )

’’ اور وہ ان چیزوں کی پیروی کرنے لگے جو شیاطین سلیمان کی مملکت کا نام لے کر پڑھا کرتے تھے‘‘

 واضح ہوا کہ جادو کیمیکل لگانے کا نام نہیں بلکہ یہ ایک پڑھا جانے والا عمل ہے۔ یعنی جادوگروں نے کچھ پڑھ کر لوگوں کی آنکھوں پر جادو کردیا۔

جادوگر کبھی کامیاب نہیں ہوتا :

            وَلَا يُفۡلِحُ ٱلسَّاحِرُ حَيۡثُ أَتَىٰ ، ’’اور نہیں کامیاب ہوتا جادو گر جہاں بھی وہ آئے ‘‘۔ منکرین حدیث یہ پیش کرکے کہتے ہیں کہ قرآن میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جادوگر کامیاب نہیں ہوتا اور تم کہتے ہو کہ نبی ﷺ پر  جادو ہوگیا ! انہی آیات میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : فَأَوۡجَسَ فِي نَفۡسِهِۦ خِيفَةٗ مُّوسَىٰ ’’پس موسیٰ ؑ اپنے دل میں ڈر گیا‘‘۔ یعنی موسیٰ علیہ السلام پر ان کے جادو کا اثر ہوا اور وہ ڈر گئے۔ کیا موسیٰ علیہ السلام کا کچھ وقت کے لئے ڈر جانا جادوگروں کی کامیابی تھی؟ سوچیں ، موسیٰ علیہ السلام کا عصا ان کا سب کچھ نگل گیا، کون کامیاب ہوا جادو گر یا موسیٰ علیہ السلام۔

جس آیت کا یہ ذکر کر رہے ہیں عین اس سے اگلی آیت میں فرمایا گیا :

فَاُلْقِيَ السَّحَرَةُ سُجَّدًا قَالُوْۤا اٰمَنَّا بِرَبِّ هٰرُوْنَ وَ مُوْسٰى۰۰۷۰

 [طه: 70]

 ’’  پس جادو گر سجدے میں گر گئے ، کہنے لگے ہم ایمان  لائے ہارون ؑ و موسیٰ ؑ کے رب پر‘‘۔

تو واضح ہوا کہ یہ  منکر حدیث نہیں بلکہ منکر قرآن بھی ہیں۔ کیونکہ وقتی طور پر جادو کا اثر ہونا  یہ ثابت کرتا ہے  کہ جادو  میں ( کچھ ) حقیقت ہے۔

اب ہم آتے ہیں نبیﷺ پر ہونے والے جادو کی طرف۔

عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، ‏‏‏‏‏‏قَالَتْ:‏‏‏‏ مَكَثَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَذَا وَكَذَا يُخَيَّلُ إِلَيْهِ أَنَّهُ يَأْتِي أَهْلَهُ وَلَا يَأْتِي، ‏‏‏‏‏‏قَالَتْ عَائِشَةُ:‏‏‏‏ فَقَالَ لِي ذَاتَ يَوْمٍ:‏‏‏‏ “يَا عَائِشَةُ إِنَّ اللَّهَ أَفْتَانِي فِي أَمْرٍ اسْتَفْتَيْتُهُ فِيهِ، ‏‏‏‏‏‏أَتَانِي رَجُلَانِ فَجَلَسَ أَحَدُهُمَا عِنْدَ رِجْلَيَّ وَالْآخَرُ عِنْدَ رَأْسِي، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ الَّذِي عِنْدَ رِجْلَيَّ لِلَّذِي عِنْدَ رَأْسِي، ‏‏‏‏‏‏مَا بَالُ الرَّجُلِ قَالَ:‏‏‏‏ مَطْبُوبٌ، ‏‏‏‏‏‏يَعْنِي مَسْحُورًا قَالَ:‏‏‏‏ وَمَنْ طَبَّهُ ؟ قَالَ:‏‏‏‏ لَبِيدُ بْنُ أَعْصَمَ قَالَ:‏‏‏‏ وَفِيمَ ؟ قَالَ:‏‏‏‏ فِي جُفِّ طَلْعَةٍ ذَكَرٍ فِي مُشْطٍ وَمُشَاقَةٍ تَحْتَ رَعُوفَةٍ فِي بِئْرِ ذَرْوَانَ”، ‏‏‏‏‏‏فَجَاءَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ “هَذِهِ الْبِئْرُ الَّتِي أُرِيتُهَا كَأَنَّ رُءُوسَ نَخْلِهَا رُءُوسُ الشَّيَاطِينِ وَكَأَنَّ مَاءَهَا نُقَاعَةُ الْحِنَّاءِ”، ‏‏‏‏‏‏فَأَمَرَ بِهِ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأُخْرِجَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَتْ عَائِشَةُ:‏‏‏‏ فَقُلْتُ:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏فَهَلَّا تَعْنِي تَنَشَّرْتَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ “أَمَّا اللَّهُ فَقَدْ شَفَانِي، ‏‏‏‏‏‏وَأَمَّا أَنَا فَأَكْرَهُ أَنْ أُثِيرَ عَلَى النَّاسِ شَرًّا”قَالَتْ:‏‏‏‏ وَلَبِيدُ بْنُ أَعْصَمَ رَجُلٌ مِنْ بَنِي زُرَيْقٍ حَلِيفٌ لِيَهُودَ.

(صحیح البخاری: کتاب الادب، بَابُ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: {إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُ بِالعَدْلِ وَالإِحْسَانِ، ۔ ۔ ۔ )

’’ عائشہ ؓ     کا بیان ہے کہ نبیﷺ اتنے اتنے دنوں اس حال میں رہے کہ آپ کو خیال ہوتا تھا کہ اپنی بیوی کے پاس  سے ہو آئے ہیں، حالانکہ وہاں نہیں جاتے تھے، عائشہ ؓ    کا بیان ہے کہ آپ نے مجھ سے ایک دن فرمایا اے عائشہ اللہ نے مجھے وہ بات بتادی جو میں دریافت کرنا چاہتا تھا، میرے پاس دو آدمی آئے، ان میں سے ایک میرے پاؤں کے اور دوسرا میرے سر کے پاس بیٹھ گیا، جو میرے سر کے پاس بیٹھا تھا اس نے پاؤں کے پاس بیٹھنے والے سے پوچھا کہ اس شخص کو کیا ہوگیا ہے ؟ اس نے کہا مطبوب ہے یعنی اس پر جادو کیا گیا ہے، پوچھا کس نے جادو کیا ہے، کہا لبید بن اعصم نے پوچھا کس چیز میں ؟ کہا بالوں کو نر کھجور کے چھلکے میں ڈال کر ذروان کے کنویں میں ایک پتھر کے نیچے رکھ کر، چنانچہ نبیﷺ اس کنویں کے پاس تشریف لائے اور فرمایا کہ یہی وہ کنواں ہے، جو مجھے خواب میں دکھلایا گیا اس کے پاس کھجوروں کے درخت شیطان کے سروں کی طرح ہیں اور اس کا پانی مہندی کے نچوڑ کی طرح سرخ ہے، نبی ﷺنے اس کے نکالنے کا حکم دیا تو وہ نکال دیا گیا، عائشہؓ کا بیان ہے کہ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! پھر کیوں نہیں ؟ یعنی آپ نے اس کو مشتہر کیوں نہیں کیا، نبیﷺنے فرمایا اللہ تعالیٰ نے مجھے شفا دی اور میں ناپسند کرتا ہوں کہ لوگوں کے سامنے کسی کے شر کو مشتہر کردوں اور بیان کیا کہ لبید بن اعصم بنی زریق کا ایک فرد تھا جو یہود کے حلیف تھے‘‘۔

عَنْ عَائِشَةَ أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ “سُحِرَ حَتَّى كَانَ يُخَيَّلُ إِلَيْهِ أَنَّهُ صَنَعَ شَيْئًا وَلَمْ يَصْنَعْهُ

(صحیح بخاری، کتاب الجزیہ، بَابٌ: هَلْ يُعْفَى عَنِ الذِّمِّيِّ إِذَا سَحَرَ )

عائشہ ؓروایت کرتے ہیں کہ آپ (ﷺ) پر جادو کیا گیا تھا اس کا اثریہ ہوا تھا کہ آپ (ﷺ) خیال فرماتے تھے کہ فلاں کام  کرچکے ہیں حالانکہ وہ کام آپ (ﷺ) نے انجام نہ دیا ہوتا۔

عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، ‏‏‏‏‏‏قَالَتْ:‏‏‏‏ “كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سُحِرَ حَتَّى كَانَ يَرَى أَنَّهُ يَأْتِي النِّسَاءَ وَلَا يَأْتِيهِنَّ

(بخاری، کتاب الطب، بَابٌ: هَلْ يَسْتَخْرِجُ السِّحْرَ؟)

’’عائشہ ؓنے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺپر جادو کردیا گیا تھا اور اس کا آپ پر یہ اثر ہوا تھا آپ کو خیال ہوتا کہ آپ ازواج مطہرات میں سے کسی کے پاس گئے تھے حالانکہ آپ  نہیں گئے ہوتے تھے ‘‘۔

سابقہ قسط میں  ہم نےاحادیث سے واضح کیا تھا  کہ نبی ﷺ پر جادو ہوا تھا، اس جادو سے نبی ﷺ کی ذات پر صرف اسقدر اثر ہوا تھا کہ نبی ﷺ یہ سمجھتے تھے کہ وہ ازواج مطہرات کے پاس ہو آئے ہیں لیکن حقیقت میں وہ گئے بھی نہیں ہوتے تھے۔ اسی طرح یہ سمجھتے تھے کہ فلاں کام کرلیا ہے لیکن حقیقت میں وہ کیا نہیں ہوتا تھا۔ یعنی یہ جادو بھی ’’ تخیلاتی ‘‘ تھا۔

نبی ﷺ کے خیال  میں ایسا آتا تھا یعنی بالکل وہی معاملہ جو موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ  ہوا تھا کہ جب جادوگروں نے اپنی لاٹھیاں اور رسیاں  پھینکیں تو    ان کے خیالات میں بھی ایسا ہی آیا۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :

يُخَيَّلُ إِلَيۡهِ مِن سِحۡرِهِمۡ أَنَّهَا تَسۡعَىٰ  ’’ان ( جادوگروں ) کے جادو کے اثرسے ( موسیٰ ؑ ) کے خیال میں آیا کہ  جیسے وہ دوڑ رہی ہوں‘‘۔

یعنی جادو کا اثر صرف خیالات تک ہے، نبی  ﷺ کا شعور ، صحیح اور غلط کے درمیان امتیاز کرنے والی قوت فیصلہ اس سے متاثر نہیں ہوئی تھی۔ گویا دین کے بارے میں قطعاً کوئی فرق نہیں پڑا تھا۔

دور سے کئے ہوئے جادو کا اثر کیسے ہوا ؟

            یہ بھی کہا جاتا ہے کہ موسیٰ علیہ السلام کو تو دھوکہ دیا گیا تھا، لیکن نبی ﷺ کے سامنے تو کوئی عمل کیا ہی نہیں گیا تو ان پر جادو کیسے ہوگیا؟ گویا یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ احادیث میں جھوٹ آیا ہے۔  سورہ فلق میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :

قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ الْفَلَقِۙ۰۰۱

’’ کہدو  کہ میں پناہ میں آتا ہوں صبح کے رب کی ‘‘۔

مِنْ شَرِّ مَا خَلَقَۙ۰۰۲

’’ ہر اس چیز کے شر سے جو اس نے پیدا کی ‘‘۔

وَ مِنْ شَرِّ غَاسِقٍ اِذَا وَقَبَۙ۰۰۳

’’  اور اندھیری رات کے شر سے  جب وہ چھا جائے ‘‘۔

وَ مِنْ شَرِّ النَّفّٰثٰتِ فِي الْعُقَدِۙ۰۰۴

’’  اورگِرہوں میں پھونکنے  والیوں کے شر سے ‘‘۔

وَ مِنْ شَرِّ حَاسِدٍ اِذَا حَسَدَؒ۰۰۵

’’  اور حسد کرنے والے کے شر سے جب وہ حسد کرے ‘‘۔

            ان آیات میں کون کون سا شر بتایا گیا ہے، کیا یہ سارے کام انسان کے سامنے کئے جاتے ہیں ؟ کیا گرہوں میں پھونکنے  والیاں سامنے آکر یہ کام کرتی ہیں یا کوئی حسد کرنے والا سامنے بیٹھ کر حسد کرتا ہے ؟ سورہ الناس میں  فرمایا گیا :

مِنْ شَرِّ الْوَسْوَاسِ١ۙ۬ الْخَنَّاسِ۪ۙ۰۰۴الَّذِيْ يُوَسْوِسُ فِيْ صُدُوْرِ النَّاسِۙ۰۰۵مِنَ الْجِنَّةِ وَ النَّاسِؒ۰۰۶

[الناس: 4-6]

 ’’  وسوسہ ڈال کر پیچھے ہٹ جانے والے کے شر سے،  جو لوگوں کے دلوں میں وسوسہ ڈالتا ہے،  جنوں اور انسانوں میں سے ‘‘۔

سوچیں کیا  شیطان سامنے آکر ، انسان کو بتا کر اس کے دل میں وسوسہ ڈالتا ہے کہ اس کا اس کے اوپر اثر ہو۔ یہ ساری باتیں محض  شیطانی وسوسے ہی ہیں۔ یہ بھی یاد رہےکہ جادو یا کوئی بھی شر اس وقت تک اثر نہیں کرتا جب تک کہ اللہ کی مرضی نہ ہو۔ سورہ البقرہ میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا :

وَ مَا هُمْ بِضَآرِّيْنَ بِهٖ مِنْ اَحَدٍ اِلَّا بِاِذْنِ اللّٰهِ

( البقرہ ؛ 102 )

’’ (حالانکہ) وہ اس سے کسی کو بھی بغیر اللہ کے حکم کے نقصان پہنچا ہی نہیں سکتے تھے‘‘۔

یعنی کوئی چاہے جو بھی کوشش کرتا رہے لیکن اللہ کی مرضی کے بغیر کوئی چیز اثر نہیں کرتی۔

کیا نبی ﷺ پر جادو ماننےوالاکافر ہو جائے گا؟

منکرین حدیث سورہ فرقان کی ایک آیت کا حصہ پیش کرتے ہیں :

وَقَالَ ٱلظَّٰلِمُونَ إِن تَتَّبِعُونَ إِلَّا رَجُلٗا مَّسۡحُورًا’’ اور ظالموں نے ( مومنوں سے ) کہا تم ایک سحر زدہ انسان کے پیچھے لگ گئے ہو ‘‘۔ اس بارے میں سیاق و سباق سے پڑھیں تو معلوم ہوتا ہے ان کافروں کا بس یہی ایک قول نہ تھا ۔ ملاحظہ فرمائیں سورہ الفرقان کی آیات۔

وَ قَالُوْا مَالِ هٰذَا الرَّسُوْلِ يَاْكُلُ الطَّعَامَ وَ يَمْشِيْ فِي الْاَسْوَاقِ١ؕ لَوْ لَاۤ اُنْزِلَ اِلَيْهِ مَلَكٌ فَيَكُوْنَ مَعَهٗ نَذِيْرًاۙ۰۰۷

 [الفرقان: 7]

 ’’ اور کہتے ہیں کہ یہ کیسا رسول ہے کہ کھانا کھاتا ہے اور بازاروں میں چلتا ہے، کیوں نہیں نازل کیا گیا  کوئی فرشتہ  جو ان کے ساتھ ڈڑانے کے لئے

ہوتا ‘‘۔

اَوْ يُلْقٰۤى اِلَيْهِ كَنْزٌ اَوْ تَكُوْنُ لَهٗ جَنَّةٌ يَّاْكُلُ مِنْهَا١ؕ وَ قَالَ الظّٰلِمُوْنَ اِنْ تَتَّبِعُوْنَ اِلَّا رَجُلًا مَّسْحُوْرًا۰۰۸

 [الفرقان: 8]

’’ یا  اس کا کوئی خزانہ ہوتا یا اس کا کوئی باغ ہوتا  اس سے وہ کھاتا  اور ظالموں نے ( مومنوں سے ) کہا تم ایک سحر زدہ انسان کے پیچھے لگ گئے ہو ‘‘

سورہ بنی اسرائیل میں فرمایا گیا :

نَحْنُ اَعْلَمُ بِمَا يَسْتَمِعُوْنَ بِهٖۤ اِذْ يَسْتَمِعُوْنَ اِلَيْكَ وَ اِذْ هُمْ نَجْوٰۤى اِذْ يَقُوْلُ الظّٰلِمُوْنَ اِنْ تَتَّبِعُوْنَ اِلَّا رَجُلًا مَّسْحُوْرًا۰۰۴۷

[الإسراء: 47]

’’  ہم خوب جانتے ہیں جب وہ آپ کی طرف کان لگاتے ہیں  توکِس بات پر لگاتے ہیں  اور جب یہ سرگوشی کرتے ہیں، جب یہ ظالم کہتے ہیں کہ   تم ایک سحر زدہ آدمی کی پیروی کر رہےہو‘‘۔

اُنْظُرْ كَيْفَ ضَرَبُوْا لَكَ الْاَمْثَالَ فَضَلُّوْا فَلَا يَسْتَطِيْعُوْنَ۠ سَبِيْلًا۰۰۴۸

 [الإسراء: 48]

’’  دیکھیں یہ آپ کے لئے کیسی مثالیں  بناتے ہیں ،  پس یہ گمراہ ہوگئے اور ہدایت نہیں پا سکتے ‘‘۔

منکرین  حدیث آیت کا ایک حصہ لیکر کہدیتے ہیں کہ جس نے نبی ﷺ پر جادو کا اثر مان لیا وہ کافر ہے، حالانکہ ان آیات میں صرف یہی معاملہ نہیں بلکہ ان کا اعتراض تو یہ بھی تھا کہ یہ نبی ﷺ کھانا بھی کھاتا ہے اور بازاروں میں چلتا پھرتا بھی ہے اور اس کے پاس کوئی خزانہ نہیں اور نہ ہی اس کے پاس کوئی باغ ہے۔ بتائیں کیا  جو یہ عقیدہ رکھے کہ نبی ﷺ انسانوں کی طرح کھاتےپیتے، چلتے تھے اور ان کے پاس نہ تو کوئی خزانہ تھا اور نہ ہی کوئی باغ تو  اس کا شمار کفار میں ہوگا؟ ہر گز  ، ہر گز نہیں ۔

             کوئی ان سے پوچھے کہ صرف        ایک بات کیوں لے رہے ہو، پھر ان آیات کی ساری باتیں لو اور جو یہ عقیدہ رکھے اس پر کفر کا فتویٰ لگاؤ۔

نبی ﷺ کو سحر زدہ کیوں کہتے تھے؟

احادیث سے ثابت ہے کہ کفار نبی ﷺ کو صادق و امین کہا کرتے تھے، ان کی بہت عزت کیا کرتے تھے، لیکن انہیں ’’ سحر زدہ ‘‘  اسوقت کہا گیا جب انہوں نے حق مبنی سچی اور کھری دعوت توحید پیش کی۔ گویا وہ انکی  تبلیغ کیوجہ سے انہیں سحر زدہ ( سحر میں ڈوبا ہوا ) کہا کرتے تھے۔ موسیٰ علیہ السلام جب فرعون کے پاس دعوت حق دینے گئے تو اس نےبھی کہا :

وَ لَقَدْ اٰتَيْنَا مُوْسٰى تِسْعَ اٰيٰتٍۭ بَيِّنٰتٍ فَسْـَٔلْ بَنِيْۤ اِسْرَآءِيْلَ اِذْ جَآءَهُمْ فَقَالَ لَهٗ فِرْعَوْنُ اِنِّيْ لَاَظُنُّكَ يٰمُوْسٰى مَسْحُوْرًا۰۰۱۰۱قَالَ لَقَدْ عَلِمْتَ مَاۤ اَنْزَلَ هٰۤؤُلَآءِ اِلَّا رَبُّ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ بَصَآىِٕرَ١ۚ وَ اِنِّيْ لَاَظُنُّكَ يٰفِرْعَوْنُ مَثْبُوْرًا۰۰۱۰۲

[الإسراء: 101-102]

’’اور ہم نے موسیٰ کو نو کھلی نشانیاں دیں تو بنی اسرائیل سے دریافت کرلو کہ جب وہ ان کے پاس آئے تو فرعون نے ان سے کہا کہ موسیٰ میں خیال کرتا ہوں کہ تم پر جادو کیا گیا ہے،انہوں نے کہا کہ تم یہ جانتے ہو کہ آسمانوں اور زمین کے پروردگار کے سوا ان کو کسی نے نازل نہیں کیا۔ (اور وہ بھی تم لوگوں کے) سمجھانے کو۔ اور اے فرعون میں خیال کرتا ہوں کہ تم ہلاک ہوجاؤ گے‘‘۔

موسیٰ علیہ السلام فرعون کے گھر ہی پلے بڑھے لیکن اس نے انہیں کبھی جادو زدہ نہیں سمجھا لیکن جب موسیٰ علیہ السلام نے انہیں دعوت حق دی تو اس نے کہا کہ میں سمجھتا ہوں کہ تم جادو زدہ ہو، یعنی یہ بڑی عجیب باتیں ہیں جو تم کر رہے ہو۔ بالکل یہی معاملہ نبی ﷺ کے ساتھ ہوا کہ جب دعوت حق دی تو ساری عزت چھوڑ کر انہیں جادو زدہ سمجھا گیا ۔ گویا یہ  اعتراض رسالت اور دعوت پر تھا  نہ کہ نبیﷺ کی جسمانی حالت پر۔ انہیں نبی ﷺ کی باتیں سحر زدہ لگتی تھیں  ۔یعنی منکرین  حدیث کا اعتراض بالکل غلط ہے  کفار کا وہ اعتراض نبی ﷺ کی ذات پر نہیں بلکہ ان کی رسالت پر تھا۔

            جادو زدہ کا مطلب  ہے کہ ایک ایسا انسان جو سدا سے جادو کے اثر میں ہو  اور اسے  خود یہ نہیں معلوم  ہو کہ وہ کیا بول رہا ہے جب کہ اوپر بیان کردہ احادیث سے یہ بات بالکل ثابت ہے کہ نبی ﷺ کی رسالت کے کسی کام میں کوئی فرق نہیں پڑا تھا بلکہ ان کے دماغ  میں صرف اتنا آتا تھا کہ یہ کام کرلیا ہے اور حقیقت میں وہ کیا نہ ہوتا یا نبی ﷺ خیال کرتے تھے کہ اپنی ا زواج سے ملکر آ گئے ہیں لیکن حقیقت میں وہ گئے ہی نہیں ہوتے تھے۔

اگر جادو مان لیا جائے تو پھر جادو گر نافع و ضار بن گیا :

            منکرین حدیث ایسے شوشے چھوڑتے رہتے ہیں کہ جس پر  انسان کو ہنسی آ جاتی ہے۔ ایک ڈاکٹر نے کسی مریض کو دوائی دی اور مریض اچھا ہوگیا، کیا اب ڈاکٹر ’’ نافع ‘‘ ( فائدہ دینے والا ) بن گیا ؟

ڈاکٹر نے انجکشن لگایا مریض مرگیا اب کیا ڈاکٹر کو ضا ر( نقصان پہنچانے والا ) کہیں گے ؟ کوئی بیماری انسان کی موت کا سبب بن سکتی ہے، لیکن کوئی اپنی مرضی سے کسی کو کوئی بیماری نہیں لگا سکتا۔ فرعون  موسیٰ علیہ السلام کی قوم کے بچوں کو قتل کراتا تھا ، اب کیا وہ لوگوں کو موت دینے والا کہلائے گا؟

ایک نے دوسرے کو گولی ماری دوسرا  مر گیا اب گولی مارنے والے کو ضا رسمجھا جائے گا۔ کیساعجیب  ہے ان کا انداز۔ جناب گولی مارنے والا گولی مارتا رہے وہ بندہ اسی وقت مرے گا جب اللہ کا حکم ہوگا ۔ جادوگر نہ کسی کو نفع دے سکتا ہے اور نہ ہی کوئی نقصان پہنچا سکتا ہے یہی بات تو سورہ بقرہ میں فرمائی گئی تھی :

وَ مَا هُمْ بِضَآرِّيْنَ بِهٖ مِنْ اَحَدٍ اِلَّا بِاِذْنِ اللّٰهِ

] البقرة: 102]

’’ (حالانکہ) وہ اس سے کسی کو بھی بغیر اللہ کے حکم کے نقصان پہنچا ہی نہیں سکتے تھے‘‘۔

اللہ تعالیٰ نے کھل کر بتا دیا کہ جادو گر نہ نافع ہے اور نہ ضار بلکہ یہ صرف اللہ کی صفت ہے۔ جادوگر لاکھ عملیات کرتا رہے لیکں کسی کو نہ نفع دے سکتا ہے اور نہ نقصان۔ البتہ جادو گر نے عمل کیا اور اللہ تعالیٰ نے اس بندے کے لئے کچھ لکھ دیا ہے تو وہ اسے پہنچ کر رہے گا، اور پہنچے گا بھی  صرف  ’’ ذہن سوچ و پریشانی ‘‘ کی حد تک۔ ایسا نہیں کہ کسی کا بزنس تباہ ہو جائے گا، کسی کی شادی رک جائے گی۔ بلکہ ذہن اور اس کی وجہ سے ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ اسے بکری ہاتھی دکھائی دینے  لگے۔

قرآن و حدیث سے جادو کا وجود ثابت ہوتا ہے لہذا اسے برحق کہا جاتا ہے۔اس پر جواب ملتا ہے کہ   کیا آپ ابھی جادو کے ذریعے سے فلاں کام کرسکتے ہیں؟

اس سوال کا جواب تو یہ ہے کہ جادو اثر انداز ہوتا ہے ، اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہر وقت ، ہر جگہ ، ہر کسی پر اثر انداز ہوجاتا ہے ۔  اوپر بتا دیا گیا ہے کہ یہ  صرف اللہ ہی کے حکم سے ہوتا ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے کسی کے لئے کوئی بات لکھ دی ہو اور جادو گر بھی اسی بات کے لئے کوشش کر رہا ہو تو اس کا جادو اثر انداز ہوگا ورنہ بالکل نہیں۔ اب ہم آتے ہیں اس طرف کہ جادو کیا ہے۔

جادو کیا ہے ؟

            قرآن و حدیث سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ جادو ایک شیطانی عمل ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :

وَ لَقَدْ عَلِمُوْا لَمَنِ اشْتَرٰىهُ مَا لَهٗ فِي الْاٰخِرَةِ مِنْ خَلَاقٍ١ؕ۫ وَ لَبِئْسَ مَا شَرَوْا بِهٖۤ اَنْفُسَهُمْ١ؕ لَوْ كَانُوْا يَعْلَمُوْنَ۰۰۱۰۲

 [البقرة: 102]

’’  ۔ ۔۔ اور وہ خوب جانتے تھے کہ جو اس کا خریدار بنا اس کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں، اور بہت ہی بری چیز ہے وہ جس کے بدلے انہوں نے خود کو بیچ ڈالا کاش وہ اس بات کو جان لیتے‘‘۔

 نبی ﷺ نے فرمایا :

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ “اجْتَنِبُوا السَّبْعَ الْمُوبِقَاتِ، ‏‏‏‏‏‏قَالُوا:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏وَمَا هُنَّ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ الشِّرْكُ بِاللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏وَالسِّحْرُ، ‏‏‏‏‏‏وَقَتْلُ النَّفْسِ الَّتِي حَرَّمَ اللَّهُ إِلَّا بِالْحَقِّ، ‏‏‏‏‏‏وَأَكْلُ الرِّبَا، ‏‏‏‏‏‏وَأَكْلُ مَالِ الْيَتِيمِ، ‏‏‏‏‏‏وَالتَّوَلِّي يَوْمَ الزَّحْفِ، ‏‏‏‏‏‏وَقَذْفُ الْمُحْصَنَاتِ الْمُؤْمِنَاتِ الْغَافِلَاتِ

(صحیح البخاری: کتاب الوصایا، بَابُ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: {إِنَّ الَّذِينَ يَأْكُلُونَ أَمْوَالَ اليَتَامَى ظُلْمًا، إِنَّمَا يَأْكُلُونَ فِي بُطُونِهِمْ نَارًا وَسَيَصْلَوْنَ سَعِيرًا}

[النساء: 10])

ابوہریرہؓ نبیﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ (ﷺ) نے فرمایا سات ہلاک کرنے والی باتوں سے دور رہو۔ لوگوں نے پوچھا یا رسول اللہﷺ وہ کونسی باتیں ہیں فرمایا اللہ کے ساتھ شرک کرنا اور جادو کرنا اور اس جان کا ناحق مارنا جس کو اللہ تعالیٰ نے حرام کیا ہے اور سود کھانا اور یتیم کا مال کھانا اور جہاد سے فرار یعنی بھاگنا اور پاک دامن بھولی بھالی مومن عورتوں پر زنا کی تہمت لگانا۔

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ “مَنِ اقْتَبَسَ عِلْمًا مِنَ النُّجُومِ، ‏‏‏‏‏‏اقْتَبَسَ شُعْبَةً مِنَ السِّحْرِ زَادَ مَا زَادَ

 (سنن ابو داؤد: کتاب الطب، باب في النجوم)

’’ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺنے فرمایا کہ جس نے علم نجوم کا کچھ حصہ سیکھا اس نے جادو کا ایک حصہ سیکھا ( جو حرام ہے) اور جتنا زیادہ (علم نجوم) سیکھا اتنا ہی زیادہ (سحر) سیکھا‘‘۔

واضح ہوا کہ سحر سیکھنا، سکھانا، کرنا سب حرام ہے۔