أخرج الطبراني في الکبیر والأوسط:
عن أبي أیوب الأنصاري: أن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال: إن نفس المؤمن إذا قبضت تلقاہا أہل الرحمۃ من عباد اللہ، کما تلقون البشیر من أہل الدنیا، فیقولون: أنظروا صاحبکم یسترح؛ فإنہ کان في کرب شدید، ثم یسألونہ ما فعل فلان وفلانۃ؟ ہل تزوجت؟ فإذا سألوہ عن الرجل قد مات قبلہ، فیقول: أیہات أي ہیہات قد مات ذلک قبل، فیقولون: إنا ﷲ وإنا إلیہ راجعون۔ ذہب بہ إلی أمہ الہاویۃ بئست الأم وبئست المربیۃ، وقال: إن أعمالکم ترد علی أقاربکم وعشائرکم من أہل الآخرۃ، فإن کان خیرا فرحوا واستبشروا، وقالوا: اللہم ہذا فضلک ورحمتک، فأتمم نعمتک علیہ وأمتہ علیہا، ویعرض علیہم عمل المسیء، ویقولون: اللہم ألہمہ عملا صالحا ترضی بہ وتقربہ إلیک۔ (المعجم الأوسط للطبراني، جدید ۱/ ۵۶، رقم: ۱۴۸، المعجم الکبیر ۴/ ۱۲۹، رقم: ۳۸۸۷، ۳۸۸۹، مجمع الزوائد ۳/ ۳۳۰، شرح الصدور، باب ملاقات الأرواح، مطبوعہ لاہور: ۵۹)
ابو ایوب انصاری رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب مومن کی روح قبض کی جاتی ہے، تو خدا کے مرحوم بندے (جن کا پہلے انتقال ہو گیا تھا) اس سے آگے بڑھ کر اس طرح ملتے ہیں، جیسے دنیا میں کسی خوشخبری لانے والے سے ملا کرتے ہیں، پھر (ان میں سے بعض) کہتے ہیں، ذرا اس کو مہلت دو کہ دم لے لے، کیونکہ یہ (دنیا میں) بڑے کرب میں تھا، اس کے بعد اس سے پوچھنا شروع کرتے ہیں کہ فلاں شخص کا کیا حال ہے؟ کیا اس نے نکاح کرلیا ہے؟ پھر اگر ایسے شخص کا حال پوچھتے ہیں، جو اس شخص سے پہلے مر چکا ہے، اور اس نے کہہ دیا کہ وہ تو مجھ سے پہلے مر چکا ہے، تو ” انا للہ وانا الیہ راجعون” پڑھ کر کہتے ہیں کہ بس اس کو اس کے ٹھکانے یعنی دوزخ طرف لے جایا گیا ہے، وہ تو جانے کی بھی بری جگہ ہے، اور رہنے کی بھی بری جگہ ہے۔