بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
دیوبند ی مسلک کا یہ عقیدہ ہے کہ
’’.وہ حصہ زمین جو جناب رسول اﷲﷺ کے اعضاء مبارکہ کومَس کیے ہوئے ہے علی الاطلاق افضل ہے۔ یہاں تک کہ کعبہ اور عرش وکرسی سے بھی افضل ہے۔‘‘
یہ عقیدہ ان کی کتاب ‘‘اَلْمُھَنَّدُ عَلَی الْمُفَنَّدِ ’’میں بیان کیا گیا ہے ۔ یہ وہ کتاب ہے جو احمدرضاخاں بریلوی کی کتاب ‘‘حُسّامُ الحَرَمَیْن علی منحر الکفر والمین’’ کے جواب میں لکھی گئی، جس میں دیوبندی عقائد لکھے گئے ہیں، اور ان پر اس وقت کے بڑے بڑے تمام دیوبندی علماء مثلاً خلیل احمدسہارنپوری (مصنف کتاب) ، اشرف علی تھانوی، مفتی کفایت اﷲ، وغیرہ نے مہر تصدیق ثبت کی ہے ۔
جس کسی کے دل میں اﷲ کا ذرہ برابر بھی وقار ہوگا وہ اس باطل عقیدے کا فوراً رد کردے گا، لیکن توحید کے بلند بانگ دعوے کرنے والے ان مسلک پرستوں کے دل میں اﷲ کا کوئی وقار نہیں۔ کیا یہ لوگ اﷲ کے اس فرمان سے ناآشنا ہیں :
مَا لَكُمْ لَا تَرْجُوْنَ لِلّٰهِ وَقَارًاۚ۰۰۱۳
(نوح: 13)
’’تمہیں کیا ہوگیا ہے ، تمہارے نزدیک اﷲ کا کوئی وقار نہیں ‘‘
اس عقیدے میں اﷲتعالیٰ کی عظمت و کبریائی کی تنقیص کرتے ہوئے رسول اﷲﷺ کو فوقیت دی گئی ہے ۔ عبد کو معبود سے ، مخلوق کو خالق سے بڑھاکر پیش کیا گیا ہے ۔ اﷲ تعالیٰ سے منسوب چیزوں کے مقابلے میں رسول ﷺ سے منسوب چیز کو افضل قرار دیا گیا ہے ، حالانکہ جس طرح اﷲ سے افضل تو کیا اس کے برابر بھی کوئی چیز نہیں، اسی طرح دوسروں سے منسوب کوئی شے بھی منسوب الیٰ اﷲسے افضل و اعلیٰ بلکہ برابر بھی نہیں ہوسکتی کہ یہی توحید باری تعالیٰ کا تقاضہ ہے:
لِلَّذِيْنَ لَا يُؤْمِنُوْنَ بِالْاٰخِرَةِ مَثَلُ السَّوْءِ١ۚ وَ لِلّٰهِ الْمَثَلُ الْاَعْلٰى ١ؕ وَ هُوَ الْعَزِيْزُ الْحَكِيْمُؒ۰۰۶۰
(النحل: 60)
’’ ان لوگوں کے لیے جو ایمان نہیں رکھتے آخرت پر ، بری مثال ہے اور اللہ کے لیے سب سے اعلی مثال ہے اور وہی بہت غالب ، خوب حکمت والا ہے‘‘۔
وَ لَمْ يَكُنْ لَّهٗ كُفُوًا اَحَدٌؒ۰۰۴
(الاخلاص :4)
’’ اس کا کوئی کفو (برابر و ہمسر) نہیں ‘‘۔
هَلْ تَعْلَمُ لَهٗ سَمِيًّاؒ
(مریم :65)
’’ کیا تو جانتا ہے کسی کو اس کے نام کا ( اس کے جیسا)‘‘
لَيْسَ كَمِثْلِهٖ شَيْءٌ
(الشوریٰ :11)
’’ اس کی مثال جیسی (کائنات) میں کوئی چیز نہیں ‘‘
خانہ کعبہ کا کیا مقام ہے، اس بارے میں اللہ تعالیٰ کا بیان ملاحظہ فرمائیں :
اِنَّ اَوَّلَ بَيْتٍ وُّضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِيْ بِبَكَّةَ مُبٰرَكًا وَّ هُدًى لِّلْعٰلَمِيْنَۚ۰۰۹۶
(آل عمران :96)
’’بے شک پہلا گھر جو لوگوں کے لیے (بغرض عبادت) بنایا گیا وہی ہے جو مکہ میں ہے، بابرکت ہے اور جہانوں کے لیے موجب ہدایت ہے۔‘‘
جَعَلَ اللّٰهُ الْكَعْبَةَ الْبَيْتَ الْحَرَامَ قِيٰمًا لِّلنَّاسِ
(المائدۃ :97)
’’اﷲ نے لوگوں کے قیام کے واسطے کعبہ کو حرمت والا گھر بنایا ۔‘‘
یہی وہ عزت وشرف والا گھر ہے جسے آدم نے بنایا ، پھر نبی ﷺ کے جد امجد ابراہیم و اسماعیل علیہما السلامنے تعمیر کیا۔ یہی وہ گھر ہے جس کی طرف منہ کرکے فریضۂ صلوٰۃ ادا کرنے کا حکم دیا گیا اور اس کا استقبال ادائیگی صلوٰۃ کی شرط لازم قرار دیا گیا ۔ یہی وہ مقام ہے جس کے طواف کے بغیر حج جیسی افضل ترین عبادت نہیں ہوتی ۔ نبیﷺاور ان سے پہلے انبیاءعلیہم السلام نے اس کا طواف کیا، جہاں ادا کی جانے والی صلوٰۃ (اجروثواب میں) مسجد نبوی کی سوصلوٰۃ اور دوسری مساجد کی ایک لاکھ صلوٰۃ سے افضل ہے ۔لیکن مسلک پرستوں کی نظر میں شاید اس کی کوئی اہمیت نہیں ۔ کعبہ شعائراﷲ میں سے ہے جس کی توہین کفر اورتعظیم تقویٰ ہے:
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تُحِلُّوۡا شَعَآئِرَ اللہِ
(المائدۃ:2)
’’ مومنو! شعائر اﷲ کو حلال نہ سمجھو (ان کی بے حرمتی نہ کرو)۔‘‘
يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تُحِلُّوْا شَعَآىِٕرَ اللّٰهِ
(الحج :32)
’’اور جو شعائر اﷲ کی تعظیم کرتا ہے تو یہ دل کے تقویٰ کی بات ہے‘‘
اوپر دی گئی آیات و احادیث کی روشنی میں قبرنبوی کوخانہ کعبہ سے افضل جاننے کا عقیدہ ،کیا کعبے کی تنقیص و توہین نہیں کرتا ؟
انہوں نے نبی ﷺ کی قبر کی مٹی کو اللہ کے عرش سے بھی افضل بیان کیا ہے ( استغفر اللہ )۔ قرآن مجید میں عرش الہی کے بارے میں بیان کیا گیا:
اِنَّ رَبَّكُمُ اللّٰهُ الَّذِيْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ فِيْ سِتَّةِ اَيَّامٍ ثُمَّ اسْتَوٰى عَلَى الْعَرْشِ
(الاعراف : 54/یونس :3)
’’بیشک تمہارا رب اﷲ ہے جس نے چھ دن میں آسمانوں اورزمین کو بنایا ، پھر عرش پر مستوی ہوگیا‘‘
ا سی طرح کا مضمون قرآن میں دوسری جگہوں پر بھی ہے :
اَلرَّحْمٰنُ عَلَى الْعَرْشِ اسْتَوٰى ۰۰۵
(طٰہٰ :5)
’’وہ بڑا مہربان عرش پر مستوی ہوا ‘‘۔
هُوَ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِيْمِؒ
(التوبہ :129)
’’وہ بڑی عظمت والے عرش کا مالک ہے ‘‘۔
لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ١ۚ رَبُّ الْعَرْشِ الْكَرِيْمِ
( توبہ : 129 )
’’ اس بڑی عظمت والے عرش کے مالک کے علاوہ کوئی الٰہ نہیں ‘‘
لَوْ كَانَ فِيْهِمَاۤ اٰلِهَةٌ اِلَّا اللّٰهُ لَفَسَدَتَا١ۚ فَسُبْحٰنَ اللّٰهِ رَبِّ الْعَرْشِ عَمَّا يَصِفُوْنَ۰۰۲۲
(الانبیاء :22)
’’اگر ان دونوں (زمین وآسمان) میں اﷲ کے علاوہ کوئی اور الٰہ ہوتا تو ضرور فساد ہوجاتا، سو اﷲ جو عرش کا مالک ہے پاک ہے اُن باتوں سے جو یہ بیان کرتے ہیں۔‘‘
ان کے علاوہ بھی قرآن میں متعدد مقامات پر عرش الٰہی کی عظمت، بزرگی، عزت، تشریف، تعظیم، تکریم، تمجید، تمکنت و توقیرکا ذکر ہے ۔ عرش الٰہی کی فضیلت بخاری کی اس روایت سے بھی واضح ہوتی ہے کہ جس دن اﷲ کے (عرش کے) سائے کے سوا کوئی سایہ نہ ہوگا تو سات قسم کے اشخاص اس کے نیچے ہوں گے ۔عرش وہ جگہ ہے جس پر تمام کائنات کا خالق و مالک مستوی[1]ہے ۔ اس کی عظمت کا کیا کہنا ،لیکن دیوبندی حضرات نبی ﷺ کی قبر کی مٹی کو اللہ کے عرش سے افضل قرار دیتے ہیں۔
زمین کے کسی ٹکڑے کی خواہ وہ قبر نبویﷺ ہی کیوں نہ ہو ،اﷲ کے عرش سے کوئی نسبت ہو ہی نہیں سکتی چہ جائیکہ اس کو افضل قرار دیا جائے ۔ اب آئیے کرسی کی طرف جس کا ذکر آیت الکرسی میں ہے:
اللہ کی کرسی کی توہین :
وَسِعَ كُرْسِيُّهُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ١ۚ وَ لَا يَـُٔوْدُهٗ حِفْظُهُمَا
(البقرۃ :255)
’’تمام زمین اور آسمانوں پر اﷲ کی کرسی چھائی ہوئی ہے جن کی حفاظت اسے ذرا بھی دشوار نہیں‘‘
کرسی سے مرادچارپایوں والی کوئی نشست ہرگز نہیں کیونکہ نعوذباﷲ اﷲ کا کوئی محدود مادّی جسم نہیں جو ایک محدود جگہ پر متمکن ہو ۔ ہم تو اس کی کرسی اور اس پر مستوی ہونے کا تصور و ادراک بھی نہیں کرسکتے ۔’کرسی‘‘سے مرادکرسی استویٰ کے ساتھ تمام کائنات کا کنٹرول ، قابو ، اختیار ، اقتدار اور نظمِ حکومت وغیرہ سب ہی کچھ ہے،کیونکہ زمین اور آسمان اور جو کچھ ان کے درمیان ہے، سب پر اس اکیلے اﷲ کی حکومت ہے ۔وہی اکیلا ان کا نظام چلارہا ہے ، اس کے امر کے سامنے ہر شے اور مخلوق عاجز ہے ، ہیچ ہے مگر ان مسلک پرستوں کے نزدیک قبر نبوی اﷲ کے اس لامحدود اختیار (یعنی کرسی) سے افضل ہے ۔ اس طرح غیراﷲ کی منسوبات کو اﷲ تعالیٰ کی منسوبات سے افضل قرار دے کر انہوں نے مخلوق کو خالق سے اور بندے کو آقا سے بڑھادیا ہے ۔