فہرست

واقعہ قلیب بدر قرآن و حدیث کی روشنی میں

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

            کتاب اللہ کا واضح اعلان ہے کہ وفات پا جانے والا قیامت تک کے لئے مردہ ہے،  کسی بھی قسم کا کوئی شعور نہیں رکھتا۔ اس کا جسم سڑگل جاتا ہے۔ اب نہ یہ سنتا ہے اور نہ دیکھتا ہے اور نہ ہی کوئی کام کرسکتا ہے۔ قرآن و حدیث میں بیان کردہ اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ ﷺ کے فرامین کے خلاف عقائد بنانے والے وہی ہیں جو فرقہ فرقہ ہو گئے۔ اب ان فرقوں کا کام کلمہ گو میں شکوک و شبہات پیدا کرکے اپنے فرقے کے مذہب کو سچ ثابت کرنا ہوتا ہے۔

            غزوہ بدر کے بعد  تیسرے دن نبی ﷺ نے مشرکین مکہ کے مقتولین سے خطاب کیا۔ فرقہ پرست اس معاملے کو خوب اچھالتے اور اس سے سماع موتیٰ ( مردوں کا سننا ) ثابت کرتے ہیں۔لہذا اس معاملے  کو کتاب اللہ کی رو سے سمجھتے ہیں۔

مردے کے سننے کے بارے میں قرآن کا بیان :

﴿إِنَّكَ لَا تُسۡمِعُ ٱلۡمَوۡتَىٰ وَلَا تُسۡمِعُ ٱلصُّمَّ ٱلدُّعَآءَ إِذَا وَلَّوۡاْ مُدۡبِرِينَ﴾ [النمل: 80]

’’ بیشک آپ نہ مردوں کو سنا سکتے ہیں اور نہ بہروں کو اپنی پکار سنا سکتے ہیں جبکہ پیٹھ پھیرے روگرداں جا رہے ہوں۔‘‘

﴿وَمَا يَسۡتَوِي ٱلۡأَحۡيَآءُ وَلَا ٱلۡأَمۡوَٰتُۚ إِنَّ ٱللَّهَ يُسۡمِعُ مَن يَشَآءُۖ وَمَآ أَنتَ بِمُسۡمِعٖ مَّن فِي ٱلۡقُبُورِ﴾ [فاطر: 22]

’’ اور زندہ اور مردے برابر نہیں، اللہ تعالیٰ جس کو چاہتا ہے سنا تاہے اور آپ ان کو نہیں سنا سکتے جو قبروں میں ہیں۔‘‘

ان آیات میں اللہ تعالی نے ایک اصول بیان فرما دیا ہے مردے نہیں سنتے۔ اب ہم آتے ہیں واقعہ قلیب بدر کی طرف۔

واقعہ قلیب بدر

عن أبي طلحة أن نبي الله صلی الله عليه وسلم أمر يوم بدر بأربعة وعشرين رجلا من صناديد قريش فقذفوا في طوي من أطوائ بدر خبيث مخبث وکان إذا ظهر علی قوم أقام بالعرصة ثلاث ليال فلما کان ببدر اليوم الثالث أمر براحلته فشد عليها رحلها ثم مشی واتبعه أصحابه وقالوا ما نری ينطلق إلا لبعض حاجته حتی قام علی شفة الرکي فجعل يناديهم بأسمائهم وأسمائ آبائهم يا فلان بن فلان ويا فلان بن فلان أيسرکم أنکم أطعتم الله ورسوله فإنا قد وجدنا ما وعدنا ربنا حقا فهل وجدتم ما وعد ربکم حقا قال فقال عمر يا رسول الله ما تکلم من أجساد لا أرواح لها فقال رسول الله صلی الله عليه وسلم والذي نفس محمد بيده ما أنتم بأسمع لما أقول منهم قال قتادة أحياهم الله حتی أسمعهم قوله توبيخا وتصغيرا ونقيمة وحسرة وندما

( عن ابی طلحہ ؓ ، بخاری،  کتاب المغازی ،باب : قتل ابی جھل )

’’ انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ابوطلحہ سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بدر کے دن چوبیس مردار ان مکہ کی لاشوں کو بدر کے ایک گندے کنویں میں پھینکنے کا حکم دیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی عادت تھی کہ جب وہ کسی قوم پر غالب آتے تھے تو تین راتیں اسی جگہ قیام فرماتے تھے لہذا بدر میں بھی تین دن قیام فرمایا تیسرے دن آپ کے حکم سے اونٹنی پر زین کسی گئی پھر آپ چلے صحابہ کرام نے خیال کیا کہ آپ کسی حاجت کے لئے جا رہے ہیں اصحاب ساتھ ہو لئے آپ چلتے چلتے اس کوئیں کی منڈھیر پر تشریف لے گئے اور کھڑے ہو کر مقتولین قریش کا نام بنام آواز دینے لگے اور اس طرح فرمانے لگے اے فلاں بن فلاں اور اے فلاں بن فلاں اب تم کو یہ اچھا معلوم ہوتا ہے کہ تم اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کا حکم مان لیتے ہم سے تو ہمارے رب نے جو وعدہ کیا تھا وہ ہم نے پا لیا کیا تم نے اس وعدے کو پورا پا لیا جو تم سے تمہارے رب نے کیا تھا ؟ طلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ یہ سن کر عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا یا رسول اللہ! آپ ایسی لاشوں سے خطاب فرما رہے ہیں جن میں روح نہیں ہے آپ نے فرمایا قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں محمد کی جان ہے میں جو باتیں کر رہا ہوں تم ان کو ان سے زیادہ نہیں سن سکتے قتادہ نے کہا کہ اللہ نے اس وقت ان کو زندہ فرمادیا تھا وہ اس بات کو سن لیں تاکہ ان کو اپنی ذلت و رسوائی اور اس سزا سے شرمندگی حاصل ہو‘‘۔

عن هشام عن أبيه قال ذکر عند عائشة رضي الله عنها أن ابن عمر رفع إلی النبي صلی الله عليه وسلم إن الميت يعذب في قبره ببکائ أهله فقالت وهل إنما قال رسول الله صلی الله عليه وسلم إنه ليعذب بخطيئته وذنبه وإن أهله ليبکون عليه الآن قالت وذاک مثل قوله إن رسول الله صلی الله عليه وسلم قام علی القليب وفيه قتلی بدر من المشرکين فقال لهم ما قال إنهم ليسمعون ما أقول إنما قال إنهم الآن ليعلمون أن ما کنت أقول لهم حق ثم قرأت إنک لا تسمع الموتی وما أنت بمسمع من في القبور يقول حين تبوئوا مقاعدهم من النار     

   ( عن ابی طلحہ ؓ ، بخاری،  کتاب المغازی ،باب : قتل ابی جھل )

’’عبید بن اسماعیل ابواسامہ ہشام بن عروہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں انہوں نے فرمایا کہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنا کے سامنےنبی صلی اللہ علیہ و سلم کے اس ارشاد کا ذکر آیا کہ مردے پر اس کے عزیزوں کے رونے سے عذاب ہوتا ہے اور ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس حدیث کو رسول اکرم تک پہنچی ہوئی بتاتے ہیں عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنا نے فرمایا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے تو یہ فرمایا ہے کہ مردے پر اپنی خطاؤں اور گناہوں کی وجہ سے عذاب ہوتا ہے اور اس کے عزیز روتے ہی رہتے ہیں یہ بالکل ایسا ہی مضمون ہے جیسے ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ یہ کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم مشرکین بدر کے لاشوں کے گڑھے پر کھڑے ہوئے اور آپ نے فرمایا کہ وہ میرا کہنا سن رہے ہیں حالانکہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا تھا کہ ان کو اب معلوم ہوگیا کہ میں جو کچھ ان سے کہتا تھا وہ سچ اور حق تھا اس کے بعد عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے سورت نمل کی یه آیت تلاوت فرمائی ترجمه (اے نبی، تم مردوں کو اپنی بات نہیں سنا سکتے اور اے نبی، تم قبروں کو اپنی بات نہیں سنا سکتے) عروه کهتے ہیں که عائشه کی مراد اس آیت کے پڑھنے سے یه تھی که جب ان کو جہنم میں اپنا ٹھکانه مل گیا ہوگا‘‘۔

نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے جب ان مردوں کو مخاطب کیا تو عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: ما تکلم من أجساد لا أرواح لها’’ آپ ایسی لاشوں سے خطاب فرما رہے ہیں جن میں روح نہیں ہے ‘‘ ۔ اس جملے نے صحابہ رضی اللہ عنہم کے عقیدے کی وضاحت کردی کہ صحابہ کو جو تعلیم دی گئی تھی وہ یہی تھی کہ مرنے کے بعد روح لوٹ کر نہیں آتی اور جس جسم میں روح نہ ہواس کا سننا محال ہے۔ جب اللہ کے بیان کردہ قانون سے ہٹ کر کوئی بات رونما ہو اور کسی نبی کی موگودگی میں ہو تو وہ معجزہ کہلاتا ہے۔ اللہ تعالی کا بیان کردہ قانون یہ ہے:ثُمَّ اِنَّكُمْ بَعْدَ ذٰلِكَ لَمَيِّتُوْنَ    15  ؀ۙ ثُمَّ اِنَّكُمْ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ تُبْعَثُوْنَ؀’’ پھر اس ( زندگی )کے بعد ےتمہیں موت آ جائے گی پھر تم قیامت کے دن زندہ کر کے اٹھائے جاوگے ‘‘۔ اسی لئے جب عائشہ رضی اللہ عنہا کی سامنے جب یہ معاملہ پیش ہوا تو انہوں نے قر آن کی آیات پڑھیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم مردوں کو نہیں سنا سکتے تھے یعنی قرآن کا فیصلہ لاریب ہے۔انہوں نے فرمایا کہ اس مراد یہ تھا کہ انہیں اب علم ہو گیا ہوگا۔ کس بات کا علم ہو گیا ہوگا ؟ فهل وجدتم ما وعد ربکم حقا ’’ کیا تم نے اس وعدے کو پورا پا لیا جو تم سے تمہارے رب نے کیا تھا ؟ یعنی اللہ کا وعدہ، انہیں جہنم میں داخل کرکے پورا ہوگیا، تو انہیں اس کا علم ہوگیا کہ جو بات نبی صلی اللہ علیہ و سلم فرمایا کرتے تھے وہ سچ تھی۔

قرآن و حدیث کے بیان سے بات واضح ہوگئی کہ ان کے سننے کوئی تعلق اس مردہ مٹی کے جسم سے نہیں تھا بلکہ جہنم میں داخلے بعد انہیں رسول اللہ ﷺ کا بیان یاد آگیا ہوگا۔