فہرست

کیا انبیاء علیہم السلام اپنی قبروں میں زندہ ہیں

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

إِنَّ الْحَمْدَ لِلَّهِ، نَحْمَدُهُ وَنَسْتَعِينُهُ، مَنْ يَهْدِهِ اللهُ فَلَا مُضِلَّ لَهُ، وَمَنْ يُضْلِلْ فَلَا هَادِيَ لَهُ، وَأَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ، وَأَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ، أَمَّا بَعْدُ

            آج امت ٹوٹی پڑی ہے ان  مزاروں پے جس کے متعلق اللہ کی کتاب فرماتی ہے کہ مردہ ہیں ان میں زندگی کی کوئی رمق نہیں۔ لیکن یہ علماء فرقہ ہیں کہ جنہوں نے انہیں زندہ بتایا ہے۔ یہ معاملہ آج کا نہیں بلکہ  نبیﷺ کی بعثت سے قبل بھی یہود و نصاریٰ اپنے انبیاء اور نیک لوگوں کی قبروںکو عبادت گاہ بنا لیا کرتے تھے، اسی پر نبی ﷺ نے اپنی زندگی کے آخری  ایام میں  اللہ تعالیٰ  کی لعنت کا ذکر کیا تھا اور مسلمین کو ہدایت کی تھی کہ تم ایسا نہ کرنا۔

            لیکن امت میں جب بگاڑ پیدا ہوا اور مرنے کے بعد روح کا قبر میں پلٹا ئےجانے کا عقیدہ   دیا گیا تو مردےکو زندہ ثابت کرنے کی  ہر ممکن کوشش کی گئی۔ اسی کوشش میں  نبیﷺ اور دیگر انبیاء کے بارے میں قبر میں زندہ ہونے کی  روایات گھڑی گئیں۔اللہ تعالی نے انسانیت کے   لئے دو موتوں اور دو زندگیوں کا جو قانون بیان فرمایا ہے وہ انبیاء علیہ السلام کے لئے بھی پوری  طرح نافذ عمل ہے۔ قرآن و حدیث میں انبیاء علیہ السلام کی وفات کا ذکر موجود ہے تو اسی طرح احادیث میں ان کا بعد الوفات جنت میں ہونا بھی ثابت ہے۔ فرقہ پرستی کے شکار مفتیان و علمائے فرقہ  جو کہ اس زمینی قبر میں زندگی کا عقیدہ دیتے ہیں اپنے باطل عقیدے  کی دلیل میں  یہ بات بھی بیان کرتے ہیں کہ انبیاء علیہ ولسلام اپنی اپنی قبروں میں زندہ ہیں اور عبادات کرتے ہیں۔ ان کا یہ عقیدہ واضح طور پر قرآن کا انکار ہے، ملاحظہ فرمائیں :

یحییٰ علیہ السلام کے لئے فرمایا گیا :

وَ سَلٰمٌ عَلَيْهِ يَوْمَ وُلِدَ وَ يَوْمَ يَمُوْتُ وَ يَوْمَ يُبْعَثُ حَيًّاؒ۰۰۱۵

[مريم: 15]

’’ اور سلامتی ہو اس پر جس نے وہ پیدا ہوا ، جس دن وہ فوت ہوا اور جس دن وہ زندہ کرکے اٹھایا جائے گا۔‘‘

عیسیٰ علیہ السلام کے لئے فرمایا گیا :

وَ السَّلٰمُ عَلَيَّ يَوْمَ وُلِدْتُّ وَ يَوْمَ اَمُوْتُ وَ يَوْمَ اُبْعَثُ حَيًّا۰۰۳۳

[مريم: 33]

’’ اور سلامتی ہو اس دن پر کہ جس دن میں پیدا ہوا ، جس میں مروں گا، اور جس دن میں زندہ کرکے اٹھایا جاؤں گا ۔‘‘

قرآن مجید سے ثابت ہو گیا کہ انبیاء علیہ السلام  کو دوبارہ زندہ کر کے اٹھایا جائے گا۔

قرآن کے اس لاریب کے بیان کے باوجود انبیاء علیہم السلام کے بارے میں ان قبروں میں زندہ ہونے کا عقیدہ رکھنا یقیناقرآن کا انکار ہے ۔ لیکن یہ جانتے بوجھتے یہی عقیدہ رکھتے ہیں کیونکہ انہوں نے امت میں عقیدہ پھیلایا ہے کہ اولیا اللہ قبروں میں زندہ ہوتے ہین اور لوگوں کی سنتے اور انہیں نوازتے ہیں۔ انہیں زندہ ثابت کرنے کے لئے پہلے جھوٹی روایات کے ذریعے نبی ﷺ کو قبر میں زندہ ثابت کرنے کی کوشش کی اور پھر اس سے ایک ہاتھ آگے بڑھ کر تمام انبیاء کو ان قبروں میں زندہ ثابت کرنے کی کوشش کی۔

اس بارے میں پیش کی جانے  والی روایات کی حقیقت آپ کے سامنے  بیان کی جا رہی جن کے ذریعے یہ جھوٹا  عقیدہ کشید کیا گیا ہے۔

(1)

حدثنا هارون بن عبد الله حدثنا حسين بن علي عن عبد الرحمن بن يزيد بن جابر عن أبي الأشعث الصنعاني عن أوس بن أوس قال قال رسول الله صلی الله عليه وسلم إن من أفضل أيامکم يوم الجمعة فيه خلق آدم وفيه قبض وفيه النفخة وفيه الصعقة فأکثروا علي من الصلاة فيه فإن صلاتکم معروضة علي قال قالوا يا رسول الله وکيف تعرض صلاتنا عليک وقد أرمت يقولون بليت فقال إن الله عز وجل حرم علی الأرض أجساد الأنبيا

( ابو داوٌد، نسائی ، مسند احمد )
’’ اوس بن اوس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول ﷺ نے فرمایا! تمہارے بہتر دنوں میں سے ایک جمعہ کا دن ہے اسی دن آدم علیہ السلام پیدا ہوئے اسی دن ان کی وفات ہوئی اسی دن صور پھونکا جائے گا اور اس دن سب لوگ بیہوش ہوں گے اس لئے اس دن مجھ پر کثرت سے درود بھیجا کرو کیونکہ تمہارا درود میرے سامنے پیش کیا جاتا ہے لوگوں نے عرض کیا یا رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! ہمارا درود آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر کس طرح پیش کیا جائے گا جب کہ (وفات کے بعد) آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا جسم (اولوں کی طرح) گل کر مٹی ہوجائے گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے انبیاء کے جسموں کو زمین پر حرام قرار دیدیا ہے (یعنی زمین باقی تمام لوگوں کی طرح انبیاء کے اجسام کو نہیں کھاتی اور وہ محفوظ رہتے ہیں۔

اس روایت کے راوی حسین بن علی الجعفی دھوکہ کھا گئے ہیں اور انہوں نے راوی کا نام عبد الرحمن بن یزید   بن جابرکے نام سے اسے روایت کیا ہے جو کہ ایک ثقہ راوی ہیں، لیکن دراصل یہ عبد الرحمن بن یزید بن جابر نہین عبد الرحمن بن یزید بن تمیم ہے جو منکر الحدیث ہے۔ اما م بخاری فرماتے ہیں 

’’ عبد الرحمن بن یزید بن تمیم السلمی الشامی نے مکحول سے روایت کی ہے اور اس سے سنا الولید بن مسلم نے اس کی روایتوں  میں منکر روایات پائی جاتی ہیں، کہا جاتا ہے کہ یہی وہ شخص ہے جس سے  اہل کوفہ ابو اسامہ  اور حسین بن علی الجعفی  اور اس کا نام عبد الرحمن بن یزید بن تمیم کہنے کے بجائے عبد الرحمن بن یزید بن جابر کہہ گئے ہیں۔‘‘ (  ترجمہ : صفحہ نمبر ۳۶۵،  التاریخ الکبیر ، قم : ۱ ،  کلد : ۳ ، منصف امام بخاری )

’’ الولید نے کہا ( عبد الرحمن بن ےزید بن جابر ) کی ایک کتاب تھی  جسے انہوں سن کر لکھا تھا اور ایک دوسری کتاب تھی  جس کی روایتوں کو انہوں نے خود نہین سنا تھا  (اہل کوفہ ابو اسامہ  اور حسین بن علی الجعفی  )  نے اپنی روایتوں میں عبد الرحمن بن  یزید بن جابر کہا ہے  حالانکہ جس سے انہوں نے یہ روایتیں سنی ہیں وہ ( عبد الرحمن ) بن یزید بن تمیم  تھا عبد الرحمن بن یزید بن جابر نہین تھا۔ اور ابن تمیم والا عبد الرحمن منکر الحدیث ہے ۔‘‘ (  صفحہ : ۱۷۵، تاریخ الصغیر ، مطبوعہ الاثریہ، مصنف امام بخاری )

ابو اسامہ ( حماد بن اسامہ )  دیدہ و دانستہ تغافل برتا  یہ جانتے ہوئے کہ جس سے وہ روایت کر رہا ہے وہ عبد الرحمن بن یزید بن جابر نہیں بلکہ عبد الرحمن بن یزید بن تمیم ہے ۔ ( تہذیب التہذیب ،  جلد : ۶ ،صفحہ : ۲۹۵ ۔ ۲۹۶، ترجمہ عبد الرحمن بن یزید بن تمیم )

’’ الذ ہبی کہتے ہیں کہ  بخاری کا قول ہے کہ جس کے بارے میں ، میں یہ کہوں کہ وہ منکر الحدیث ہے  تو اس کی روایت بیان کرنا بھی جائز نہیں ۔‘‘

 (  صفحہ : ۲۱۷، سلسلہ الاحادیث  الضعیفہ و الموضوعۃ ، نا صر الدین البانی )

(2)

حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ سَوَّادٍ الْمِصْرِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ الْحَارِثِ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي هِلَالٍ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَيْمَنَ، عَنْ عُبَادَةَ بْنِ نُسَيٍّ، عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ : ” أَكْثِرُوا الصَّلَاةَ عَلَيَّ يَوْمَ الْجُمُعَةِ فَإِنَّهُ مَشْهُودٌ تَشْهَدُهُ الْمَلَائِكَةُ، وَإِنَّ أَحَدًا لَنْ يُصَلِّيَ عَلَيَّ إِلَّا عُرِضَتْ عَلَيَّ صَلَاتُهُ حَتَّى يَفْرُغَ مِنْهَا “، قَالَ: قُلْتُ: وَبَعْدَ الْمَوْتِ، قَالَ: ” وَبَعْدَ الْمَوْتِ، إِنَّ اللَّهَ حَرَّمَ عَلَى الْأَرْضِ أَنْ تَأْكُلَ أَجْسَادَ الْأَنْبِيَاءِ، فَنَبِيُّ اللَّهِ حَيٌّ يُرْزَقُ
(ابن ماجہ کتاب الجنائز)
’’ ابوالدرداء اضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا مجھ پر جمعہ کے روز بکثرت درود پڑھا کرو کیونکہ اس روز فرشتے حاضر ہوتے ہیں اور جو بھی مجھ پر درود بھیجے فرشتے اس کا درود میرے سامنے لاتے رہتے ہیں۔ یہاں تک کہ وہ درود سے فارغ ہو جائے۔ میں نے عرض کیا آپ کے وصال کے بعد بھی ؟ فرمایا موت کے بعد بھی اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے زمین پر انبیاء کے اجسام کھانا حرام کر دیا پس اللہ کا نبی زندہ ہے اور ان کو روزی دی جاتی ہے ۔‘‘

یہ روایت ‘ضعیف’ ہے

امام بخاری کے مطابق زید بن ایمن کی عبادہ بن نسی سے روایت ‘مرسل ‘ ہے۔ (تاریخ الکبیر2 جلد : ۲ ، صفحہ ۳۸۷،تہہذیب التہذیب جلد : ۳ ، صفحہ ۳۹۸)  نیز ‘زید بن ایمن ‘کا ‘عبادہ بن نسی’سے ‘سماع’ثابت نہیں (ھو عن عبادہ بن نسی مرسل۔۔مراسیل ابی زرعہ)اور ‘ عبادہ بن نسی’کا ‘ابوالدردا رضی اللہ عنہ’سے ‘سماع’ثابت نہیں(واظن روایتہ عن الکبار منقطہ۔۔کاشف الذھبی)البانی نے بھی اس کو ‘ضعیف ‘قرار دیا ہے۔(ضعیف ابن ماجہ للبانی)

(3)

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْمُفَضَّلِ الْحَرَّانِيُّ، نا الْحَسَنُ بْنُ قُتَيْبَةَ الْمَدَائِنِيُّ، نَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ عَبْدِ الْعَزِيزِ، عَنْ أَنَسٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ : الأَنْبِيَاءُ أَحْيَاءٌ يُصَلُّونَ فِي قُبُورِهِمْ وَهَذَا الْحَدِيثُ لا نَعْلَمُ أَحَدًا تَابَعَ الْحَسَنَ بْنَ قُتَيْبَةَ عَلَى رِوَايَتِهِ

  (مسند البزار)

’’ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ انبیاء اپنی قبروں میں زندہ ہیں صلوٰہ ادا کرتے ہیں ‘‘ ۔

( یہ روایت پیش کرکے امام بزار کہتے ہیں ) : کہ ‘حسن بن قتینہ’کی اس روایت کی متابعت کوئی نہیں کرتا۔ ْ


 اس روایت کا ایک راوی محمد بن عبد الرحمٰن بن المفضل: مجھول الحال ہے۔
 دوسری راوی حسن بن قتیبہ پر  شدید شدید جرح ہے۔ملاحظہ ہو:

ابو الفتح الازدی ::”واهي الحديث”، ابو جعفر العقیلی ::”كثير الوهم”، حاتم الرازی:: “ليس بقوي الحديث ، ضعيف الحديث”، الدارقطنی::”متروك الحديث ، ومرة : ضعيف الحديث” الذھبی::”هالك”
(میزان الاعتدال ، لسان المیزان وغیرہ)


(4)

حَدَّثَنَا رِزْقُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى، نَا الْحَسَنُ بْنُ قُتَيْبَةَ، نَا الْمُسْتَلِمُ بْنُ سَعِيدٍ، عَنِ الْحَجَّاجِ، يَعْنِي: الصَّوَّافَ، عَنْ ثَابِتٍ، عَنْ أَنَسٍ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ قَالَ: الأَنْبِيَاءُ أَحْيَاءٌ فِي قُبُورِهِمْ يُصَلُّونَ.

’’ نبی ﷺ نے فرمایا  کہ انبیاء  اپنی قبروں میں زندہ ہیں صلوٰہ ادا کرتے ہیں‘‘ ،

وَهَذَا الْحَدِيثُ لَا نَعْلَمُ رَوَاهُ عَنْ ثَابِتٍ، عَنْ أَنَسٍ إِلَّا الْحَجَّاجُ، وَلَا عَنِ الْحَجَّاجِ إِلَّا الْمُسْتَلِمُ بْنُ سَعِيدٍ، وَلا نَعْلَمُ رَوَى الْحَجَّاجُ، عَنْ ثَابِتٍ إِلَّا هَذَا الْحَدِيثَ

( اس روایت کے بعد امام بزار کہتے ہیں): ‘عن ثابت عن انس’سے اسکو ‘حجاج’کے علاوہ کوئی روایت نہیں کرتا اور ‘حجاج’سے ‘مستلم بن سعید ‘ کے علاوہ کوئی روایت نہیں کرتا (مسند البزار)

 اس کے پہلے راوی حسن بن قتیبہ کے بارے میں بیان کیا گیا ہے : ابو الفتح الازدی ::”واهي الحديث”، ابو جعفر العقیلی ::”كثير الوهم”، حاتم الرازی:: “ليس بقوي الحديث ، ضعيف الحديث”، الدارقطنی::”متروك الحديث ، ومرة : ضعيف الحديث” الذھبی::”هالك”

 (میزان الاعتدال ، لسان المیزان وغیرہ)


 دوسرے راوی مستلم بن سعید کے لئے ملتا ہے:

ابن حجر::قال في التقريب : صدوق عابد ربما وهم, قال شعبہ ما کنت اظن ان ذاک حدیثین
(تقریب،تہذیب)


(5)

 حَدَّثَنَا أَبُو الْجَهْمِ الأَزْرَقُ بْنُ عَلِيٍّ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ أَبِي بُكَيْرٍ، حَدَّثَنَا الْمُسْتَلِمُ بْنُ سَعِيدٍ، عَنِ الْحَجَّاجِ، عَنْ ثَابِتٍ الْبُنَانِيِّ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ : ” الأَنْبِيَاءُ أَحْيَاءٌ فِي قُبُورِهِمْ يُصَلُّونَ (مسند ابو یعلٰی)

’’ نبی ﷺ نے فرمایا کہ انبیاءاپنی قبروں میں زندہ ہیں صلوٰہ ادا کرتے ہیں‘‘

 اس روایت کے راوی مستلم بن سعید::

ابن حجر::قال في التقريب : صدوق عابد ربما وهم, قال شعبہ ما کنت اظن ان ذاک حدیثین
(تقریب،تہذیب)


 اس روایت ا دوسراراوی ‘حجاج بن اسود ‘، ‘ثابت البنانی ‘ سے منکر روایات بیان کرتا ہے ۔ذہبی نے اس بات کو ثابت کرنے کے لئے دلیل کے طور پر یہ روایت پیش کی ملاحظہ ہو:

حجاج بن اسود عن ثابت البنانی نکرۃما روی عنہ فیما اعلم سوی مستلم بن سعید ؛فاتی بخنر منکر ، عنہ، عن انس فی “” الأَنْبِيَاءُ أَحْيَاءٌ فِي قُبُورِهِمْ يُصَلُّونَ ” (میزان الاعتدال)

(6)


قَالَ أَبُو يَعْلَى: ثنا أَبُو الْجَهْمِ الْأَزْرَقُ بْنُ عَلِيٍّ، ثنا يَحْيَى بْنُ أَبِي بَكِيرٍ، وَقَالَ الْبَزَّارُ: ثنا رِزْقُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى، ثنا الْحَسَنُ بْنُ قُتَيْبَةَ، قَالَا: ثنا الْمُسْتَلِمُ بْنُ سَعِيدٍ، عَنِ الْحَجَّاجِ، عَنْ ثَابِتٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ : ” الْأَنْبِيَاءُ أَحْيَاءٌ فِي قُبُورِهِمْ يُصَلُّونَ ” قَالَ الْبَزَّارُ: لَا نَعْلَمُ رَوَاهُ عَنْ ثَابِتٍ إِلَّا حَجَّاجٌ، وَلَا عَنْ حَجَّاجٍ إِلَّا الْمُسْتَلِمُ، وَلَا رَوَى الْحَجَّاجُ عَنْ ثَابِتٍ إِلَّا هَذَا : وَأَخْرَجَهُ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْحَرَّانِيِّ، عَنِ الْحَسَنِ بْنِ قُتَيْبَةَ، عَنْ حَمَّادٍ، عَنْ عَبْدِ الْعَزِيزِ، عَنِ أَنَسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، وَقَالَ: لَا نَعْلَمُ أَحَدًا تَابَعَ الْحَسَنَ بْنَ قُتَيْبَةَ فِي رِوَايَتِهِ إِيَّاهُ عَنْ حَمَّادٍ

(المطالب العالیہ بزوائد المسانید الثمانیہ لابن الحجر)

اس روایت میں بھی ‘حسن قتیبہ ‘ہے۔ سند بھی وہی ہے ۔اس کی پوری وضاحت اس سے قبل بزار والی روایت میں کردی گئی ہے۔


(7)

حَدَّثَنَا أَبُو الْجَهْمِ الأَزْرَقُ بْنُ عَلِيٍّ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ أَبِي بُكَيْرٍ، حَدَّثَنَا الْمُسْتَلِمُ بْنُ سَعِيدٍ، عَنِ الْحَجَّاجِ، عَنْ ثَابِتٍ الْبُنَانِيِّ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ : ” الأَنْبِيَاءُ أَحْيَاءٌ فِي قُبُورِهِمْ يُصَلُّونَ “(زوائد ابی یعلٰی الموصلی الھیثمی)


یہی راویت اس سے قبل بزار کے حوالے سے  بیان کی گئی ہے اور اس کی سند بھی وہی ہے ۔ اس کی تفصیل وہاں دیکھی جا سکتی ہے۔

 
(8)

 أَخْبَرَنَا أَبُو الْقَاسِمِ الْحَسَنُ بْنُ عَلِيِّ بْنِ وَثَاقٍ النَّصِيبِيُّ، قِرَاءَةً عَلَيْهِ سَنَةَ أَرْبَعٍ وَأَرْبَعِينَ وَثَلاثِ مِائَةٍ، ثنا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ نَاجِيَةَ الْبَغْدَادِيُّ، أبنا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْحُدَّانِيُّ، ثنا الْحَسَنُ بْنُ قُتَيْبَةَ، ثنا الْمُسْتَنِيرُ بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ حَجَّاجِ بْنِ الأَسْوَدِ، عَنْ ثَابِتٍ، عَنْ أَنَسٍ، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ : ” الأَنْبِيَاءُ أَحْيَاءٌ فِي قُبُورِهِمْ يُصَلُّونَ “(فوائد تمام الرازی)


 اس روایت کے راوی ابوالقاسم الحسن بن علی بن وتاق :: “مجھول الحال” ہے۔
احمد بن عبدالرحمٰن الحدانی: “مجھول الحال”
حسن بن قتیبہ: اس پر جرح پہلے گزر چکی ہے۔
المستنیر بن سعید:: “مجھول الحال”
باقی سند ‘حجاج عن ثابت عن انس’ سے ‘منکر ‘روایت ہے ملاحظہ ہو روایت نمبر 4

(9)

أَخْبَرَنَا أَبُو سَعْدٍ أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ الْخَلِيلِ الصُّوفِيُّ، رَحِمَهُ اللَّهُ، قَالَ: أنبأ أَبُو أَحْمَدَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَدِيٍّ الْحَافِظُ قَالَ: ثنا قُسْطَنْطِينُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الرُّومِيُّ، قَالَ: ثنا الْحَسَنُ بْنُ عَرَفَةَ، قَالَ: حَدَّثَنِي الْحَسَنُ بْنُ قُتَيْبَةَ الْمَدَائِنِيُّ، ثنا الْمُسْتَلِمُ بْنُ سَعِيدٍ الثَّقَفِيُّ، عَنِ الْحَجَّاجِ بْنِ الأَسْوَدِ، عَنْ ثَابِتٍ الْبُنَانِيِّ، عَنْ أَنَسٍ، رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ : ” الأَنْبِيَاءُ أَحْيَاءٌ فِي قُبُورِهِمْ يُصَلُّونَ “، هَذَا حَدِيثٌ يُعَدُّ فِي إِفْرَادِ الْحَسَنِ بْنِ قُتَيْبَةَ الْمَدَائِنِيِّ، وَقَدْ رُوِيَ عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي بُكَيْرٍ، عَنِ الْمُسْتَلِمِ بْنِ سَعِيدٍ،عَنِ الْحَجَّاجِ، عَنْ ثَابِتٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ 
(حیاۃ انبیاء فی قبورھم للبیہقی)


قسطنطین بن عبد اللہ الرومی:: “مجھول الحال”۔
حسن بن قتیبہ:: اس پر جرح پہلے گزر چکی ہے۔
“عَنِ الْحَجَّاجِ بْنِ الأَسْوَدِ، عَنْ ثَابِتٍ الْبُنَانِيِّ “سے منکر ہے ۔ تفصیل اوپر بیان کی جا چکی ہے۔


(10)

وَهُوَ فِيمَا أَخْبَرَنَا الثِّقَةُ، مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ، قَالَ: أنبأ أَبُو عَمْرِو بْنُ حَمْدَانَ، قَالَ: أنبأ أَبُو يَعْلَى الْمَوْصِلِيُّ، ثنا أَبُو الْجَهْمِ الأَزْرَقُ بْنُ عَلِيٍّ، ثنا يَحْيَى بْنُ أَبِي بُكَيْرٍ، ثنا الْمُسْتَلِمُ بْنُ سَعِيدٍ، عَنِ الْحَجَّاجِ، عَنْ ثَابِتٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ : ” الأَنْبِيَاءُ أَحْيَاءٌ فِي قُبُورِهِمْ يُصَلُّونَ “. وَقَدْ رُوِيَ مِنْ وَجْهِ آخَرَ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ مَوْقُوفًا

(حیاۃ انبیاء فی قبورھم للبیہقی)


“الثِّقَةُ”،:: یہ صاحب کون ہیں اسکا کوئی پتہ نہیں –
” عَنِ الْحَجَّاجِ بْنِ الأَسْوَدِ، عَنْ ثَابِتٍ الْبُنَانِيِّ ” سےمنکر ہے ۔ملاحظہ ہو روایت نمبر 4۔

(11)

وَرُوِيَ كَمَا، أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّهِ الْحَافِظُ، ثَنَا أَبُو حَامِدٍ أَحْمَدُ بْنُ عَلِيٍّ الْحَسْنَوِيُّ، إِمْلاءً، ثنا أَبُو عَبْدِ اللَّهِ مُحَمَّدُ بْنُ الْعَبَّاسِ الْحِمْصِيُّ، بِحِمْصَ، ثنا أَبُو الرَّبِيعِ الزَّهْرَانِيُّ، ثنا إِسْمَاعِيلُ بْنُ طَلْحَةَ بْنِ يَزِيدَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى، عَنْ ثَابِتٍ، عَنْ أَنَسٍ، رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ قَالَ: ” إِنَّ الأَنْبِيَاءَ لا يُتْرَكُونَ فِي قُبُورِهِمْ بَعْدَ أَرْبَعِينَ لَيْلَةً، وَلَكِنَّهُمْ يُصَلُّونَ بَيْنَ يَدَيِ اللَّهِ حَتَّى يُنْفَخَ فِي الصُّورِ “.

(حیاۃ انبیاء فی قبورھم للبیہقی)

ابو حامد احمد بن علی الحسنوی:

الذھبی: ذكره في المغني في الضعفاء ، ابن جوزی: اتهمه بالوضع
ابو عبداللہ محمد بن العباس الحمصی: “مجھول الحال”۔
اسماعیل بن طلحہ بن یزید:: “مجھول الحال”۔
محمد بن عبدالرحمٰن بن ابی لیلیٰٰ:
ابو بکر البیہقی: قال في السنن الكبرى : غير قوي في الحديث ، ومرة : لا يحتج به ، وفي معرفة السنن والآثار : لا حجة فيما ينفرد به لسوء حفظه وكثرة خطأه في الروايات ، وقال مرة : كثير الوهم
جوزجانی:: واهي الحديث سيئ الحفظ ، ابن عدی:: هو مع سوء حفظه يكتب حديثه ، حاتم الرازی::
محله الصدق ، كان سيئ الحفظ ، شغل بالقضاء فساء حفظه ، لا يتهم بشيء من الكذب إنما ينكر عليه كثرة الخطأ ، يكتب حديثه ولا يحتج به وابن أبي ليلى وحجاج بن أرطاة ما أقربهما ، نسائی:: أحد الفقهاء ليس بالقوي في الحديث ،، البخاری::صدوق ولا أروي عنه شيئا لأنه لا يدرى صحيح حديثه من سقيمه وضعف حديثه جدا،علی بن مدینی:: سيئ الحفظ واهي الحديث


(12)

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مَحْمُودٍ، ثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ الصَّبَّاحِ، ثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ يَحْيَى بْنِ أَبِي بُكَيْرٍ، ثَنَا يَحْيَى بْنُ أَبِي بُكَيْرٍ، ثَنَا الْمُسْتَلِمُ بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ شجاج، عَنْ ثَابِتٍ الْبُنَانِيِّ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ : ” الأَنْبِيَاءُ فِي قُبُورِهِمْ يُصَلُّونَ “(اخبار اصبھان لابی نعیم)


علی بن محمود بن مالک:: “مجھول الحال”۔
عبد اللہ بن ابراہیم بن صباح:: “مجھول الحال”۔


(13)

قَالَ: وَأَنَا تَمَّامٌ، أَنَا أَبُو الْقَاسِمِ الْحَسَنُ بْنُ عَلِيِّ بْنِ وتاقٍ النَّصِيبِيُّ، قِرَاءَةً عَلَيْهِ سَنَةَ أَرْبَعٍ وَأَرْبَعِينَ وَثَلاثِمِائَةٍ، نَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ نَاجِيَةَ الْبَغْدَادِيُّ، نَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْحَرَّانِيُّ، نَا الْحَسَنُ بْنُ قُتَيْبَةَ، نَا مستلم بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ حَجَّاجِ بْنِ الأَسْوَدِ، عَنْ ثَابِتٍ، عَنْ أَنَسٍ، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ : ” الأَنْبِيَاءُ أَحْيَاءٌ فِي قُبُورِهِمْ يُصَلُّونَ “.
(تاریخ دمشق لابن عساکر)

ابوالقاسم الحسن بن علی بن وتاق :: “مجھول الحال”
“، عَنِ الْحَجَّاجِ بْنِ الأَسْوَدِ، عَنْ ثَابِتٍ الْبُنَانِيِّ “سے منکر ہے ۔تفصیل اوپر بیان کردی گئی ہے۔

واضح ہوا کہ قرآن کے  بیان کردہ کے خلاف گھڑی ہوئی یہ  ساری روایت ضعیف ہیں۔

ایک حدیث پیش کی جاتی ہے کہ معراج النبی ﷺ کے موقع پر نبیﷺ نے  عیسیٰ علیہ السلام کو قبر میں صلوٰہ ادا کرتے دیکھا۔دراصل یہ ایک  معجزاتی معاملہ تھا، وہ پوری رات ہی معجزے کی رات ہے ۔ اس ایک ہی رات میں نبی ﷺ نے موسی ٰعلیہ السلام و دیگر انبیاء  علیہم السلام کو آسمانوں پر بھی دیکھا اور بیت المقدس میں انبیاء کی امامت بھی کرائی۔ تو اب موسی علیہ السلام کے بیت وقت تین جگہ زندہ ماننا جائے، صرف قبر میں ہی کیوں زندہ مانتے ہیں؟ یہ حدیث بھی ملاحظہ فرمائیں :

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ” أُرَانِي اللَّيْلَةَ عِنْدَ الكَعْبَةِ، فَرَأَيْتُ رَجُلًا آدَمَ، كَأَحْسَنِ مَا أَنْتَ رَاءٍ مِنْ أُدْمِ الرِّجَالِ، لَهُ لِمَّةٌ كَأَحْسَنِ مَا أَنْتَ رَاءٍ مِنَ اللِّمَمِ قَدْ رَجَّلَهَا، فَهِيَ تَقْطُرُ مَاءً، مُتَّكِئًا عَلَى رَجُلَيْنِ، أَوْ عَلَى عَوَاتِقِ رَجُلَيْنِ، يَطُوفُ بِالْبَيْتِ، فَسَأَلْتُ: مَنْ هَذَا؟ فَقِيلَ: المَسِيحُ ابْنُ مَرْيَمَ، وَإِذَا أَنَا بِرَجُلٍ جَعْدٍ قَطَطٍ، أَعْوَرِ العَيْنِ اليُمْنَى، كَأَنَّهَا عِنَبَةٌ طَافِيَةٌ، فَسَأَلْتُ: مَنْ هَذَا؟ فَقِيلَ: المَسِيحُ الدَّجَّالُ “

 ( بخاری ، کتاب اللباس ، بَابُ الجَعْدِ )

’’عبداللہ بن عمرؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺنے فرمایا کہ ایک رات کعبہ کے پاس میں نے خواب میں ایک گندمی خوبصورت آدمی دیکھا کہ اس جیسا خوبصورت آدمی تم نے نہ دیکھا ہوگا، اس کے بال کان کی لوتک تھے اور اتنا حسین تھا کہ اس جیسا حسین بالوں والا تم نے نہ دیکھا ہوگا، بالوں میں کنگھی کئے ہوئے تھا اور پانی ٹپک رہا تھا، دو آدمیوں کے سہارے یا یہ فرمایا کہ دو آدمیوں کے کندھے کے سہارے خانہ کعبہ کا طواف کر رہا ہے، پھر میں نے پوچھا یہ کون ہے، بتایا گیا کہ یہ عیسیٰ بن مریم ہیں، پھر میں نے ایک شخص کو دیکھا جس کے بال گھونگریالے تھے، دائیں آنکھ سے کانا تھا گویا کہ وہ انگور کی طرح ابھری ہوئی تھی، میں نے پوچھا یہ کون ہے، تو بتایا گیا کہ یہ مسیح دجال ہے۔‘‘

اس حدیث کی بناء پر  اب کوئی یہ عقیدہ بنا لے کہ عیسیٰ علیہ السلام اور دجال خانہ کعبہ میں زندہ ہیں تو یہ عقیدہ کیسا؟

الغرض کہ انبیاء علیہم السلام اپنی وفات کے بعد اللہ تعالیٰ کے پاس جنتوں میں زندہ ہیں، قیامت کے دن اللہ تعالیٰ انہیں زندہ کرکے اٹھائے گا، اللہ تعالیٰ سمجھنے اور عمل کرنے کی توفئق عطا فرمائے۔