إِنَّ الْحَمْدَ لِلَّهِ، نَحْمَدُهُ وَنَسْتَعِينُهُ، مَنْ يَهْدِهِ اللهُ فَلَا مُضِلَّ لَهُ، وَمَنْ يُضْلِلْ فَلَا هَادِيَ لَهُ، وَأَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ، وَأَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ، أَمَّا بَعْدُ
اعوذوباللہ
وَ اِلٰهُكُمْ اِلٰهٌ وَّاحِدٌ١ۚ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ الرَّحْمٰنُ الرَّحِيْمُؒ۰۰۱۶۳
’’اور اور تمہارا الٰہ تو وہی اکیلا الٰہ ہے اس کے علاوہ کوئی الٰہ نہیں، وہ بہت ہی مہربان، رحم کرنے والا ہے‘‘
قارئین / سامعین گرامی
ہر نبی نے اپنی قوم کے سامنے یہی ایک دعوت رکھی ہے کہ اے میری قوم لوگوں تمہارا الٰہ ، اکیلا اللہ ہے اس کے علاوہ کوئی الٰہ نہیں۔
وہ اللہ تعالیٰ کو کائنات کا اکیلا خالق مانتے تھے:
﴿وَلَىِٕنْ سَاَلْتَهُمْ مَّنْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ لَيَقُوْلُنَّ اللّٰهُ ۭ قُلِ الْحَمْدُ لِلّٰهِ ۭ بَلْ اَكْثَرُهُمْ لَا يَعْلَمُوْنَ﴾ [لقمان: 25]
’’اور اگر تم پوچھو ان سے کہ کس نے پیدا کیا ہے آسمانوں کو اور زمین کو تو وہ ضرور کہیں گے کہ اللہ نے۔ کہو ! ” الحمد للہ “۔ اصل بات یہ ہے کہ ان کی اکثریت بےسمجھ ہے۔‘‘
﴿وَلَىِٕنْ سَاَلْتَهُمْ مَّنْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ لَيَقُوْلُنَّ خَلَقَهُنَّ الْعَزِيْزُ الْعَلِيْمُ﴾ [الزخرف: 9]
اور اگر پوچھو تم ان سے کہ کس نے پیدا کیا ہے آسمانوں کو اور زمین کو تو یہ ضرور جواب دیں گے کہ پیدا کیا ہے انہیں اس نے جو زبردست ہے اور سب کچھ جاننے والا ہے۔
اللہ تعالیٰ کو ’’ داتا ‘‘ (دینے والا ) مانتے اور اسی طرح مختار کل بھی مانتے تھے:
﴿قُلْ مَنْ يَّرْزُقُكُمْ مِّنَ السَّمَاۗءِ وَالْاَرْضِ اَمَّنْ يَّمْلِكُ السَّمْعَ وَالْاَبْصَارَ وَمَنْ يُّخْرِجُ الْـحَيَّ مِنَ الْمَيِّتِ وَيُخْرِجُ الْمَيِّتَ مِنَ الْحَيِّ وَمَنْ يُّدَبِّرُ الْاَمْرَ ۭ فَسَيَقُوْلُوْنَ اللّٰهُ ۚ فَقُلْ اَفَلَا تَتَّقُوْنَ﴾ [يونس: 31]
’’(ان سے) پوچھو کون رزق دیتا ہے تم کو آسمان سے اور زمین سے یا کون مالک ہے تمہارے سننے اور دیکھنے (کی قوتوں) کا اور کون نکالتا ہے جاندار کو بےجان سے اور (کون) نکالتا ہے بےجان کو جاندار سے اور کون انتظام کرتا ہے تمام امور کا ؟ تو وہ ضرور کہیں گے۔ اللہ۔ سو کہو ! پھر تم کیوں نہیں ڈرتے ؟۔‘‘
سورہ المومنون میں فرمایا:
﴿قُلْ لِّمَنِ الْاَرْضُ وَمَنْ فِيْهَآ اِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ ٨٤ سَيَقُوْلُوْنَ لِلّٰهِ ۭ قُلْ اَفَلَا تَذَكَّرُوْنَ٨٥قُلْ مَنْ رَّبُّ السَّمٰوٰتِ السَّبْعِ وَرَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِيْمِ ٨٦ سَيَقُوْلُوْنَ لِلّٰهِ ۭ قُلْ اَفَلَا تَتَّقُوْنَ ٨٧ قُلْ مَنْۢ بِيَدِهٖ مَلَكُوْتُ كُلِّ شَيْءٍ وَّهُوَ يُجِيْرُ وَلَا يُجَارُ عَلَيْهِ اِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ٨٨ سَيَقُوْلُوْنَ لِلّٰهِ ۭ قُلْ فَاَنّٰى تُسْحَرُوْنَ٨٩﴾ [المؤمنون: 84-89]
’’ ان سے پوچھو کس کی ہے یہ زمین اور جو بستے ہیں اس میں اگر تم جانتے ہو ؟تو وہ ضرور کہیں گے اللہ کی۔ کہو پھر تم سوچتے کیوں نہیں ؟ان سے پوچھو کون ہے مالک سات آسمانوں کا اور مالک ہے عرش عظیم کا ؟وہ ضرور کہیں گے، اللہ۔ کہو پھر، تم کیوں نہیں ڈرتے ؟ ان سے پوچھو کون ہے وہ جس کے ہاتھ میں ہے اقتدار ہر چیز کا اور وہ پناہ دیتا ہے اور کوئی پناہ نہیں دے سکتا اس کے مقابلے میں اگر تم جانتے ہو ؟ وہ ضرور کہیں گے کہ اللہ۔ کہو پھر کہاں سے دھوکہ کھا رہے ہو تم ؟
اتنی زبردست توحید کے اقرار کے بعد دیکھیں ان کا یہ عقیدہ بھی تھا:
﴿ وَلَىِٕنْ سَاَلْتَهُمْ مَّنْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ وَسَخَّــرَ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ لَيَقُوْلُنَّ اللّٰهُ فَاَنّٰى يُؤْفَكُوْنَ اَللّٰهُ يَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ يَّشَاۗءُ مِنْ عِبَادِهٖ وَيَقْدِرُ لَهٗ ۭ اِنَّ اللّٰهَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيْمٌ ٦٢ وَلَىِٕنْ سَاَلْتَهُمْ مَّنْ نَّزَّلَ مِنَ السَّمَاۗءِ مَاۗءً فَاَحْيَا بِهِ الْاَرْضَ مِنْۢ بَعْدِ مَوْتِهَا لَيَقُوْلُنَّ اللّٰهُ ۭ قُلِ الْحَمْدُ لِلّٰهِ ۭ بَلْ اَكْثَرُهُمْ لَا يَعْقِلُوْنَ ٦٣﴾ [العنكبوت: 61-63]
’’ اور اگر پوچھو تم ان سے کہ کس نے پیدا کیا ہے آسمانوں کو اور زمین کو اور مسخّر کر رکھا ہے سورج کو اور چاند کو، تو ضرور کہیں گے وہ، اللہ نے۔ پھر یہ کہاں بہکے
جا رہے ہیں ؟ اللہ ہی کشادہ کرتا ہے رزق جس کے لیے چاہے اپنے بندوں میں سے اور تنگ کرتا ہے جس کے لیے (چاہے) یقیناً اللہ ہر بات سے پوری طرح باخبر ہے۔ اور اگر پوچھو تم ان سے کہ کون برساتا ہے آسمان سے پانی پھر زندہ کرتا ہے اس کے ذریعہ سے زمین کو اس کے مردہ ہوجانے کے بعد، تو ضرور کہیں گے کہ اللہ۔ کہہ دیجیے ” الحمد للہ ” مگر اکثر ان میں سے سمجھتے نہیں ہیں۔‘‘
﴿وَاِذْ قَالُوا اللّٰهُمَّ اِنْ كَانَ هٰذَا هُوَ الْحَقَّ مِنْ عِنْدِكَ فَاَمْطِرْ عَلَيْنَا حِجَارَةً مِّنَ السَّمَاۗءِ اَوِ ائْتِنَا بِعَذَابٍ اَلِيْمٍ﴾ [الأنفال: 32]
’’اور جب انہوں نے کہا اے اللہ ! اگر ہے یہ قرآن ہی حق تیری طر ف سےتو ہم پر آسمان سے پتھر برسا یا یا لے آ ہم پر کوئی درناک عذاب‘‘۔
پیش کردہ آیات سے واضح اس دور کے لوگ اللہ تعالیٰ کو خالق، رب یعنی پالنہار، ہر چیز پر قادر ، زمین و آسمان اور جو کچھ اس میں ہے اس کا مالک، سننے اور دیکھنے کی قوت عطا کرنے والا، انسانوں کو رزق دینے والے، اس میں کمی اور زیادتی کرنے والا، الغرض وہ اللہ تعالیٰ پر اس کےسارے اختیارات و صفات کیساتھ ایمان رکھتے تھے۔
دعا بھی وہ اللہ ہی سے کیا کرتے تھے، لیکن اس کے بعد وہ شرک کرنے لگتے تھے۔
﴿قُلۡ أَرَءَيۡتَكُمۡ إِنۡ أَتَىٰكُمۡ عَذَابُ ٱللَّهِ أَوۡ أَتَتۡكُمُ ٱلسَّاعَةُ أَغَيۡرَ ٱللَّهِ تَدۡعُونَ إِن كُنتُمۡ صَٰدِقِينَ٤٠ بَلۡ إِيَّاهُ تَدۡعُونَ فَيَكۡشِفُ مَا تَدۡعُونَ إِلَيۡهِ إِن شَآءَ وَتَنسَوۡنَ مَا تُشۡرِكُونَ٤١﴾ [الأنعام: 40-41]
’’کہو (اُن سے) ذرا غور کر کے بتاؤ : اگر آجائے تم پر عذاب اللہ کا یا آئے تم پر قیامت تو کیا اللہ کے سوا (کسی اور کو) پکارو گے تم ؟ اگر تم سچے ہو ، بلکہ (ایسے مواقع پر) تم اسی کو پکارتے ہو پھر دور کردیتا ہے وہ اس مصیبت کو جس کے لیے پکارتے ہو تم اسے اور اگر وہ چاہتا ہے۔ اور بھول جاتے ہو تم انہیں جن کو شریک ٹھہراتے ہو (اس کا) ۔
﴿قُلۡ مَن يُنَجِّيكُم مِّن ظُلُمَٰتِ ٱلۡبَرِّ وَٱلۡبَحۡرِ تَدۡعُونَهُۥ تَضَرُّعٗا وَخُفۡيَةٗ لَّئِنۡ أَنجَىٰنَا مِنۡ هَٰذِهِۦ لَنَكُونَنَّ مِنَ ٱلشَّٰكِرِينَ٦٣ قُلِ ٱللَّهُ يُنَجِّيكُم مِّنۡهَا وَمِن كُلِّ كَرۡبٖ ثُمَّ أَنتُمۡ تُشۡرِكُونَ﴾ [الأنعام: 63-64]
’’پوچھو (ان سے) ! کون بچاتا ہے تم کو صحرا اور سمندر کی تاریکیوں سے جب تم پکارتے ہو اس کو گڑ گڑا کر اور چپکے چپکے کہ اگر بچالے وہ ہم کو، اس بلا سے تو ہم ضرور ہوں گے شکر گزار۔ کہہ دو ! اللہ ہی نجات دیتا ہے تم کو اس سے اور ہر تکلیف سے پھر بھی تم شرک کرتے ہو‘‘۔
﴿هُوَ الَّذِيْ خَلَقَكُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَةٍ وَّجَعَلَ مِنْهَا زَوْجَهَا لِيَسْكُنَ اِلَيْهَا ۚ فَلَمَّا تَغَشّٰىهَا حَمَلَتْ حَمْلًا خَفِيْفًا فَمَرَّتْ بِهٖ ۚ فَلَمَّآ اَثْقَلَتْ دَّعَوَا اللّٰهَ رَبَّهُمَا لَىِٕنْ اٰتَيْتَنَا صَالِحًا لَّنَكُوْنَنَّ مِنَ الشّٰكِرِيْنَ١٨٩ فَلَمَّآ اٰتٰىهُمَا صَالِحًا جَعَلَا لَهٗ شُرَكَاۗءَ فِيْمَآ اٰتٰىهُمَا ۚ فَتَعٰلَى اللّٰهُ عَمَّا يُشْرِكُوْنَ١٩٠﴾ [الأعراف: 189-190]
’’وہی تو ہے جس نے پیدا کیا تم کو ایک جان سے اور بنایا اسی میں سے اس کا جوڑا تاکہ سکون حاصل کرے وہ اس کے پاس۔ پھر جب ڈھانک لیا مرد نے عورت کو تو اٹھا لیا اس نے ہلکا سا بوجھ پھر وہ لیے پھری اسے پھر جب وہ بوجھل ہوگئی تو دونوں نے دعا کی اللہ سے جو ان کا رب ہے کہ اگر عطا فرمائے تو ہمیں اچھّا اور سالم بچّہ تو ضرور ہوں گے ہم تیرے شکر گزار۔ پھر جب دیا اللہ نے ان دونوں کو صحیح وسالم بچّہ تو ٹھہرانے لگے وہ اللہ کے شریک (دوسروں کو) اس نعمت میں جو عطا کی تھی ان کو اللہ نے پس بلندو برتر ہے اللہ کی ذات ان سے جن کو یہ اس کا شریک ٹھہراتے ہیں‘‘۔
﴿وَمَا بِكُمْ مِّنْ نِّعْمَةٍ فَمِنَ اللّٰهِ ثُمَّ اِذَا مَسَّكُمُ الضُّرُّ فَاِلَيْهِ تَجْــــَٔــرُوْنَ٥٣ ثُمَّ اِذَا كَشَفَ الضُّرَّ عَنْكُمْ اِذَا فَرِيْقٌ مِّنْكُمْ بِرَبِّهِمْ يُشْرِكُوْنَ ٥٤﴾ [النحل: 53-54]
’’اور جو تمہیں حاصل ہےہر کسی قسم کی نعمت سو وہ اللہ ہی کی عطا کردہ ہے پھر جب پہنچتی ہے تمہیں تکلیف تو اسی کے آگے فریاد کرتے ہو۔ پھر جب دور کرتا ہے وہ تکلیف تم سے تو یکایک ایک گروہ تم میں سے اپنے رب کے ساتھ شرک کرنے لگتا ہے‘‘۔
ان آیات میں ذکر ہے کہ وہ اللہ سے دعا بھی کیا کرتے تھے ، اور جب اللہ ان کا کام کر دیتا تھا، ان کی پریشانی دور کردیتا تھا تو اس کے بعد شکرگزاری دوسروں کی کرکے اللہ کیساتھ شرک کیا کرتے تھے، جیسا کہ آج ہوتا ہے کہ ہندو ان شخصیات کی شکر گزاری کرتا ہے جن کے نام کے انہوں نے بت بنا کر رکھے ہوئے ہیں۔ اسی طرح کلمہ گو بیٹا مل جانے کے بعد قبر پر جاکر چادر چڑھاتے ہیں، کھانا تقسیم کرتے ہیں کہ یہ کام اس مردہ بابا نے کیا ہے۔کوئی پیراں دتہ نام رکھتا ہے تو کوئی رسول دتہ۔