بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
إِنَّ الْحَمْدَ لِلَّهِ، نَحْمَدُهُ وَنَسْتَعِينُهُ، مَنْ يَهْدِهِ اللهُ فَلَا مُضِلَّ لَهُ، وَمَنْ يُضْلِلْ فَلَا هَادِيَ لَهُ، وَأَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ، وَأَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ، أَمَّا بَعْدُ
ٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ حَقَّ تُقٰتِهٖ وَ لَا تَمُوْتُنَّ اِلَّا وَ اَنْتُمْ مُّسْلِمُوْنَ۰۰۱۰۲وَ اعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللّٰهِ جَمِيْعًا وَّ لَا تَفَرَّقُوْا ۔ ۔ ۔
[آل عمران: 102-103]
” اے ایمان والو اللہ سے ڈرو جیسا کہ اس سے ڈرنے کا حق ہے ، اور تمہیں موت نہ آئے مگر یہ کہ تم مسلم ہو ۔اور تم سب اللہ کی رسی (کتاب اللہ ) کو مضبوطی سے تھا م لو اور فرقہ فرقہ نہ ہوجاؤ ۔”
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے ایمان دارو ں کو تین باتوں کا حکم دیا گیا ہے۔
- کہ تمہیں ایسی حالت میں موت نہ آئے کہ تم اللہ کے مسلم ( فرمانبردار ) نہ ہو، یعنی ساری زندگی تمہاری پہچان مسلم ہو اور تمہارا عمل تابعداری کا ہونا چاہئیے۔
- کہ تم اللہ کی رسی یعنی قرآن مجید سے لازمی وابستہ ہو ، زندگی ان ہی اصولوں ا ور قوانین کے مطابق گزارو کہ جو قرآن مجید میں بیان کئے گئے ہیں اور جن کی تشریح احادیث صحیحہ کی صورت میں موجود ہے۔ یعنی عقیدہ عمل لازمی طور پر قرآن کے مطابق ہونا چاہئیے۔
- تیسرا حکم یہ ہے کہ تم فرقوں میں نہ بٹ جاؤ۔
فرقہ لفظ “فرق” سے مشتق ہے، جس کے معنی الگ کرنا/جدا ہونا ہے۔ دوسرے الفاظ میں فرقہ جماعت سے اختلاف کرتے ہوئے الگ جانے والے گروہ کو کہتے ہیں۔ فرقہ فرقہ ہو جانا کے معنی جدا جدا علیحدہ علیحدہ ہو جانا ہوتے ہیں۔ فرقہ کیوں بنتا ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :
وَ لَا تَكُوْنُوْا كَالَّذِيْنَ تَفَرَّقُوْا وَ اخْتَلَفُوْا مِنْۢ بَعْدِ مَا جَآءَهُمُ الْبَيِّنٰتُ١ؕ وَ اُولٰٓىِٕكَ لَهُمْ عَذَابٌ عَظِيْمٌۙ۰۰۱۰۵
[آل عمران: 105]
’’ اور نہ ہو جانا ان لوگوں کی طرح جو فرقہ فرقہ ہوگئے اور اختلاف کیا (باوجود کہ ) ان کے پاس کھلی نشانیاں آگئی تھیں، اور ان کے لئے دردناک عذاب ہے‘‘۔
وَ مَا تَفَرَّقُوْۤا اِلَّا مِنْۢ بَعْدِ مَا جَآءَهُمُ الْعِلْمُ بَغْيًۢا بَيْنَهُمْ
[الشورى: 14]
” یہ فرقہ فرقہ نہیں ہوئے لیکن اس کے بعد کہ ان کے پاس ( ان کے رب کی طرف سے)علم آچکا تھا ، آپس میں بغض و عناد کے سبب ،”
واضح ہوا کہ علیحدہ علیحدہ ( فرقہ فرقہ )ہو جانے کی وجہ لا علمی نہیں بلکہ علم آ جانے کے بعد آپس کی ضد اور اختلاف کی وجہ سے فرقوں میں تقسیم ہو گئے۔ قرآن مجید میں مزید فرمایا گیا :
كَانَ النَّاسُ اُمَّةً وَّاحِدَةً١۫ فَبَعَثَ اللّٰهُ النَّبِيّٖنَ مُبَشِّرِيْنَ وَ مُنْذِرِيْنَ١۪ وَ اَنْزَلَ مَعَهُمُ الْكِتٰبَ بِالْحَقِّ لِيَحْكُمَ بَيْنَ النَّاسِ فِيْمَا اخْتَلَفُوْا فِيْهِ١ؕ وَ مَا اخْتَلَفَ فِيْهِ اِلَّا الَّذِيْنَ اُوْتُوْهُ مِنْۢ بَعْدِ مَا جَآءَتْهُمُ الْبَيِّنٰتُ بَغْيًۢا بَيْنَهُمْ١ۚ فَهَدَى اللّٰهُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لِمَا اخْتَلَفُوْا فِيْهِ مِنَ الْحَقِّ بِاِذْنِهٖ١ؕ وَ اللّٰهُ يَهْدِيْ مَنْ يَّشَآءُ اِلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَقِيْمٍ۰۰۲۱۳
[البقرة: 213]
’’لوگ ایک ہی امت تھے ، پھر اللہ تعالیٰ نے انبیاؑء کو خوشخبری سنانے اور ڈرانے والا بناکر بھیجااوران کے ساتھ کتاب حق نازل فرمائی تاکہ وہ لوگوں کے اختلافات کا فیصلہ کردیں۔جن کو کتاب دی گئی تھی انہوں نے واضح دلائل آجانے کے بعد بھی ، آپس میں ضد کی وجہ سے باہم اختلاف کیا ،لہذا اﷲ نے ایمان والوں کوان کے اختلافی معاملات میں اپنے اذن سے حق کے مطابق ہدایت عطا فرمادی اور اللہ جس کو چاہتا ہے سیدھی راہ دکھا دیتاہے۔‘‘
یعنی واضح دلائل آ جانے کے بعد اختلاف کیا، دراصل یہ اختلاف اللہ کے نازل کردہ سے تھا۔ دلائل آ چکے تھے لیکن ایک نے مانا دوسرے نے نہیں مانا اور اس سے اختلاف کیا، اس پر ضد بازی ہوئی اور وہ جماعت سے نکل کر ایک جدا گروپ بن گئے اسے ہی فرقہ کہتے ہیں۔ وہ لوگ جو ایمان والے تھے انہوں نے اس سے اختلاف نہیں کیا یعنی اللہ کے نازل کردہ سے اختلاف نہیں کیا بلکہ اسی کے مطابق ہی اپنا عقیدہ بنایا اور اعمال کئے۔
سورہ آل عمران کی آیت میں اللہ تعالیٰ نے اس کا بھی حکم دیا تھا کہ وَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنْتُمْ مُسْلِمُونَ’’ اور تمہیں موت نہ آئے مگر یہ کہ تم مسلم ہو ‘‘۔ اللہ اور رسول ﷺ کو ماننے والوں اور قرآن و حدیث کو ماننے والوں کو اللہ تعالیٰ نے بحیثیت قوم و بحیثیت ایک جماعت ’’مسلمین ‘‘ کا نام دیا :
هُوَ سَمّٰىكُمُ الْمُسْلِمِيْنَ١ۙ۬ مِنْ قَبْلُ وَ فِيْ هٰذَا
[الحج: 78]
” اس (اللہ تعالیٰ ) نے تمہارا نام مسلمین رکھا ہے ، اس سے پہلے اورا س ( قرآن) میں بھی ۔”
قرآن کی ان آیات سے واضح ہوا کہ اللہ تعالیٰ نےدین اسلام اپنانے والوں کا نام ہر دور میں ایک ہی رکھا ہے یعنی ’’ مسلمین ‘‘،جس کا واحد’’ مسلم ‘‘ ہے۔ حکم دیا ہے کہ اے ایمان والو ! تمہیں ایسی حالت میں موت نہ آئے کہ تم مسلم نہ ہو۔ نبی ﷺ نے فرمایا :
قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «كُلُّ مَوْلُودٍ يُولَدُ عَلَى الفِطْرَةِ، فَأَبَوَاهُ يُهَوِّدَانِهِ، أَوْ يُنَصِّرَانِهِ، أَوْ يُمَجِّسَانِهِ،
( بخاری، کتاب الجنائز، بَابُ مَا قِيلَ فِي أَوْلاَدِ المُشْرِكِينَ )
’’ نبی ﷺ نے فرمایا: ہر بچہ فطرت ( اسلام، مسلم ) پر پیدا ہوتا ہے ، پھر اس کے ماں باپ اسے یہودی، نصرانی یا مجوسی بنا لیتے ہیں ۔ ۔‘‘
یعنی ہر ہر بچہ مسلم ہی پیدا ہوتا ہے ، لیکن اس کے ماں باپ جس مذہب سے ہوتے ہیں اسے اسی مذہب کی طرف پھر دیتے ہیں ۔ اور آج بھی یہی ہوتا ہے کہ بچہ دین طفرت یعنی اسلام پر پیدا ہوتا ہے لیکن ماں باپ اسے سنی، شیعہ، حنفی، مالکی ، شافعی ، حنبلی ، دیوبندی، بریلوی، اہلحدیث، سلفی، آغاخانی ، بوہری اور نجانے کیا کیا بنا دیتے ہیں۔
فرقہ پرستی اللہ کی طرف سے عذاب کی ایک کیفیت ہے:
قُلْ هُوَ الْقَادِرُ عَلٰۤى اَنْ يَّبْعَثَ عَلَيْكُمْ عَذَابًا مِّنْ فَوْقِكُمْ اَوْ مِنْ تَحْتِ اَرْجُلِكُمْ اَوْ يَلْبِسَكُمْ شِيَعًا وَّ يُذِيْقَ بَعْضَكُمْ بَاْسَ بَعْضٍ١ؕ اُنْظُرْ كَيْفَ نُصَرِّفُ الْاٰيٰتِ لَعَلَّهُمْ يَفْقَهُوْنَ۰۰۶۵
[الأنعام: 65]
” کہہ دو کہ وہ اس بات پر قادر ہے کہ تم کو کوئی عذاب اوپر سے بھیج دے ، یا تمہارے پاؤں کے نیچے سے ، یا تم کو گروہوں میں تقسیم کر دے اور تمہیں ایک دوسرے کی لڑائی کا مزہ چکھا دے دیکھو ہم کیسے کھول کھول کر اپنی آیات پیش کرتے ہیں تاکہ یہ سمجھ جائیں۔”
آج یہی ہو رہا ہے کہ کلمہ گو فرقوں میں تقسیم ہو چکے ہیں اور آپس میں ایک دوسرے کی گردنیں مار رہے ہیں جس کی کھلی مثال شام میں سنی و شیعہ کے درمیان ہونے والی جنگ ہے جس میں روس نے بھی کھل کر سنیوں پر بمباری کی ہے۔ پاکستان میں بھی کتنے ہی واقعات ہو چکے ہیں جس میں کہیں کسی فرقے کی عبادت گاہ جلا دی گئی کہیں ایک دوسرے کو قتل کردیا گیا۔ یہ اللہ کا عذاب ہے کہ فرقوں کو ایک دوسرے کی طاقت کا مزہ چکھا رہا ہے۔
فرقہ پرستی کرنے والوں کا نبیﷺ سے کوئی تعلق نہیں :
اِنَّ الَّذِيْنَ فَرَّقُوْا دِيْنَهُمْ وَ كَانُوْا شِيَعًا لَّسْتَ مِنْهُمْ فِيْ شَيْءٍ١ؕ اِنَّمَاۤ اَمْرُهُمْ اِلَى اللّٰهِ ثُمَّ يُنَبِّئُهُمْ بِمَا كَانُوْا يَفْعَلُوْنَ۰۰۱۵۹
[الأنعام: 159]
” بے شک جن لوگوں نے اپنے دین میں فرقے بنائے اور گروہوں میں بٹ گئے آپ (ﷺ) کا ان سے کوئی تعلق نہیں ہے ان کا معاملہ اللہ کے سپر د ہے پھر وہ ان کو بتا دے گا کہ وہ کیا کرتے رہے ۔”
اللہ تعالیٰ نے بتا دیا کہ جو لوگ فرقوں یا گروہوں سے تعلق رکھتے ہوں ، ان کا نبی ﷺ سے کوئی تعلق نہیں۔ سوچیں کیا حال ہوگا کہ جب ایسے لوگ قیامت میں نبی ﷺ کی طرف سے سفارش کے متمنی ہوں گے تو اللہ کی طرف سے اعلان کردیا جائے گا کہ ان لوگوں کو نبیﷺ سے کوئی تعلق نہیں۔ یاد رہے کہ جس کا نبیﷺ سے کوئی تعلق نہ ہوگا وہ جنت میں نہیں جا سکے گا۔
فرقہ پرستی مشرکانہ عمل ہے :
مُنِيْبِيْنَ اِلَيْهِ وَ اتَّقُوْهُ وَ اَقِيْمُوا الصَّلٰوةَ وَ لَا تَكُوْنُوْا مِنَ الْمُشْرِكِيْنَۙ۰۰۳۱مِنَ الَّذِيْنَ فَرَّقُوْا دِيْنَهُمْ وَ كَانُوْا شِيَعًا١ؕ كُلُّ حِزْبٍۭ بِمَا لَدَيْهِمْ فَرِحُوْنَ۰۰۳۲
[الروم: 31-32]
’’اللہ کی طرف رجوع کرتے رہو اور اسی سے ڈرو اور صلوٰۃ قائم کرو اور مشرکوں میں سے نہ ہو جانا۔ ان لوگوں میں سے جنہوں نے اپنے دین میں فرقے بنالئے اور گروہوں میں بٹ گئے ، ہر گروہ ااسی چیز میں مگن ہے جو اس کے پاس ہے‘‘۔
قرآن و حدیث میں واضح ہے کہ جس کی موت شرک پر ہوئی اللہ تعالیٰ کے یہاں اس کی مغفرت ممکن ہی نہیں، اس پر جنت ہمیشہ کے لئے حرام ہے اور اس کا ہمیشہ ہمیشہ کا ٹھکانہ جہنم ہے۔ استغفر اللہ من ذالک
اس سے قبل ہم نے قرآن کے دلائل پیش کئے تھے کہ فرقہ پرستی اللہ تعالیٰ کے حکم کا انکار او ر ایک مشرکانہ عمل ہے۔ اس عمل میں ملوث افراد کا نبی ﷺ سے کوئی تعلق نہیں، اب ہم اس بارے میں نبی ﷺ کے فرامین پیش کرتے ہیں۔نبی ﷺ نے فرمایا:
حَدَّثَنِي أَبُو إِدْرِيسَ الْخَوْلَانِيُّ أَنَّهُ سَمِعَ حُذَيْفَةَ بْنَ الْيَمَانِ يَقُولُ کَانَ النَّاسُ يَسْأَلُونَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ الْخَيْرِ وَکُنْتُ أَسْأَلُهُ عَنْ الشَّرِّ مَخَافَةَ أَنْ يُدْرِکَنِي
’’ابوادریس بیان کرتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ میں نے حذیفہؓ بن یمان کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ لوگ (اکثر) رسول اللہ ﷺ سے خیر کی بابت دریافت کرتے رہتے تھے اور میں آپ سے شر اور فتنوں کی بابت پوچھا کرتا تھا اس خیال سے کہ کہیں میں کسی شر و فتنہ میں مبتلا نہ ہوجاؤں۔
فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّا کُنَّا فِي جَاهِلِيَّةٍ وَشَرٍّ فَجَائَنَا اللَّهُ بِهَذَا الْخَيْرِ فَهَلْ بَعْدَ هَذَا الْخَيْرِ مِنْ شَرٍّ
(ایک روز) میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! ہم جاہلیت میں گرفتار اور شر میں مبتلا تھے پھراللہ تعالیٰ نے ہم کو اس بھلائی (یعنی اسلام) سے سرفراز کیا کیا اس بھلائی کے بعد بھی کوئی برائی پیش آنے والی ہے ؟
قَالَ نَعَمْ قُلْتُ وَهَلْ بَعْدَ ذَلِکَ الشَّرِّ مِنْ خَيْرٍ
فرمایا ہاں ! میں نے عرض کیا اس بدی و برائی کے بعد بھلائی ہوگی ؟
قَالَ نَعَمْ وَفِيهِ دَخَنٌ قُلْتُ وَمَا دَخَنُهُ قَالَ قَوْمٌ يَهْدُونَ بِغَيْرِ هَدْيِي تَعْرِفُ مِنْهُمْ وَتُنْکِرُ
فرمایا ہاں ! لیکن اس میں کدورتیں ہوں گی۔ میں نے عرض کیا وہ کدورت کیا ہوگی ؟ فرمایا کدورت سے مراد وہ لوگ ہیں جوایسی راہ کی طرف دعوت دیں گے جس کی میں نے ہدایت نہیں دی، تو ان میں دین بھی دیکھے گا اور دین کے خلاف امور بھی ۔
قُلْتُ فَهَلْ بَعْدَ ذَلِکَ الْخَيْرِ مِنْ شَرٍّ قَالَ نَعَمْ دُعَاةٌ إِلَی أَبْوَابِ جَهَنَّمَ مَنْ أَجَابَهُمْ إِلَيْهَا قَذَفُوهُ فِيهَا
عرض کیا کیا اس بھلائی کے بعد بھی برائی ہوگی ؟ فرمایا ہاں ! کچھ لوگ ایسے ہوں گے جو جہنم کے دروازوں پر کھڑے ہو کر لوگوں کو بلائیں گے جو ان کی بات مان لیں گے وہ ان کوجہنم میں دھکیل دیں گے۔
قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ صِفْهُمْ لَنَا فَقَالَ هُمْ مِنْ جِلْدَتِنَا وَيَتَکَلَّمُونَ بِأَلْسِنَتِنَا
میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! ان کا حال مجھ سے بیان فرمائیے فرمایا وہ ہماری قوم سے ہوں گے اور ہماری زبان میں گفتگو کریں گے۔
قُلْتُ فَمَا تَأْمُرُنِي إِنْ أَدْرَکَنِي ذَلِکَ قَالَ تَلْزَمُ جَمَاعَةَ الْمُسْلِمِينَ وَإِمَامَهُمْ
میں نے عرض کیا اگر میں وہ زمانہ پاؤں تو آپ مجھ کو کیا حکم دیتے ہیں فرمایا مسلمین کی جماعت کو لازم پکڑو اور ان کے امام (کی اطاعت کرو)،
قُلْتُ فَإِنْ لَمْ يَکُنْ لَهُمْ جَمَاعَةٌ وَلَا إِمَامٌ
میں نے عرض کیا کہ اگر اس وقت مسلمین کی جماعت نہ ہو اور امام بھی نہ ہو ( تو کیا کروں )۔
قَالَ فَاعْتَزِلْ تِلْکَ الْفِرَقَ کُلَّهَا وَلَوْ أَنْ تَعَضَّ بِأَصْلِ شَجَرَةٍ حَتَّی يُدْرِکَکَ الْمَوْتُ وَأَنْتَ عَلَی ذَلِکَ
فرمایا تو ان تمام فرقوں سے علیحدہ ہوجاناگرچہ تجھے درخت کی جڑچبانی پڑے یہاں تک کہ اسی حالت میں تجھ کو موت آجائے۔ ‘‘
( بخاری ۔ کتاب الفتن ، باب الامر اذالم تکن جماعۃ )
اس حدیث سے واضح ہے کہ شر کا ایسا دور آئے گا کہ جس میں ایسے لوگ ہوں گے جو ہمارے ہی دین سے ہوں گے ہماری طرح بظاہر دین کی باتیں کرنے والے ہوں گے، لیکن جو ان کی باتوں پر لبیک کہے گا تو وہ اسےجہنم میں لے جائیں گے۔ ایسے حالات میں نبی ﷺ نے اپنی امت کو حکم فرمایا کہ ایسی جماعت اور ان کے امام کیساتھ وابستگی اختیار کی جائے جو ’’ مسلم ‘‘ ہوں۔ یہ جماعت کا نام نہیں بلکہ اس کی صفت بتائی گئی ہے کہ وہ مسلمین کی جماعت ہو۔ اور جب صحابی ؓ نے پوچھا کہ اے نبی ﷺ اگر نہ کوئی ایسی جماعت ہو اور نہ ہی کوئی ایسا امام تو کیا کریں ؟ فرمایا :
’’ تو ان تمام فرقوں سے علیحدہ ہوجانا اگرچہ تجھے درخت کی جڑ چبانی پڑے یہاں تک کہ اسی حالت میں تجھ کو موت آجائے‘‘۔
نبی ﷺ کا فرمان کتنا واضح ہے کہ کسی فرقے سے قطعاً کوئی تعلق نہ رکھا جائے، چاہے دنیا چھوڑ دینے پر کھانے پینے کو کچھ نہ ملے اور زندہ رہنے کے لئے درختوں کی جڑیں چبانی پڑیں لیکن کسی فرقے سے کوئی تعلق نہ رکھا جائے۔نبی ﷺ نے مزید فرمایا :
لَتَتَّبِعُنَّ سَنَنَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِکُمْ شِبْرًا بِشِبْرٍ وَذِرَاعًا بِذِرَاعٍ حَتَّی لَوْ دَخَلُوا فِي جُحْرِ ضَبٍّ لَاتَّبَعْتُمُوهُمْ قُلْنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ آلْيَهُودَ وَالنَّصَارَی قَالَ فَمَنْ
( بخاری ، کتاب الاحادیث الانبیاء ، بَابُ مَا ذُكِرَ عَنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ )
’’تم ضرور سابقہ لوگوں کی پیروی کرو گے بالشت بالشت اور ہاتھ ہاتھ چلیں گے یہاں تک کہ اگر وہ گوہ کے سوارخ میں داخل ہوئے تو بھی تم ان کی پیروی کرو گے ہم نے عرض کیا اے اللہ کے رسول یہود و نصاری (کے طریقے پر) ؟ آپ نے فرمایا اور کون ‘‘۔
افترقت اليهود على إحدى أو ثنتين وسبعين فرقة، وتفرقت النصارى على إحدى أو ثنتين وسبعين فرقة، وتفترق أمتي على ثلاث وسبعين فرقة
( سنن ابی داؤد، کتاب السنۃ ، باب شرح السنة ۔ ۔ روایت حسن / صحیح )
’’ یہود متفرق ہوگئے بہتر فرقوں میں، عیسائی تقسیم ہوگئے بہتر فرقوں میں اور میری امت تقسیم ہو جائے گی تہتر فرقوں میں ‘‘۔
ألا إن من قبلكم من أهل الكتاب افترقوا على ثنتين وسبعين ملة، وإن هذه الملة ستفترق على ثلاث وسبعين: ثنتان وسبعون في النار، وواحدة في الجنة، وهي الجماعة
( سنن ابی داؤد، کتاب السنۃ ، باب شرح السنة ۔ ۔ روایت حسن )
’’کہ تم سے پہلے جو لوگ تھے اہل کتاب میں سے وہ بہتر فرقوں میں تقسیم ہوگئے تھے اور بیشک یہ امت عنقریب 73 فرقوں میں منتشر ہوجائے گی ان میں سے 72 آگ میں داخل ہوں گے اور ایک جنت میں جائے گا اور وہ ( فرقہ ) جماعت کا ہوگا‘‘۔
اسی بات سے اللہ تعالیٰ نے سورہ الروم میں منع فرمایا : وَلَا تَكُونُواْ مِنَ ٱلۡمُشۡرِكِينَ ’’ نہ ہو جاو مشرکوں میں سے‘‘ ، مِنَ ٱلَّذِينَ فَرَّقُواْ دِينَهُمۡ وَكَانُواْ شِيَعٗاۖ’’ ان لوگوں میں سے جنہوں نے اپنے دین میں فرقے بنا لئے اور گروہوں میں تقسیم ہو گئے‘‘۔ یعنی یہ وہی کام مشرکانہ کام ہے جو یہود و نصاریٰ نے کیا تھا سو اب جو اس طرز عمل کو اپنائے گا وہ بھی مشرکوں میں سے ہو جائے گا۔حدیث میں یہی بتایا گیا کہ یہ سارے جہنمی ہیں سوائے ایک کے، وہ ایک کون ہے فرمایا ؒ ’’ الجماعۃ ‘‘، یعنی مسلمین کی جماعت جیسا کہ نبیﷺ نے حکم فرمایا کہ مسلمین کی جماعت اور اس کے امام سے وابستہ ہوجاو۔
یعنی تفرقہ پردازی کے دور میں جو مسلمین کی جماعت ہے وہی جنت میں جانے والی ہے اور اسے ’’ الجماعۃ ‘‘ کہہ کر پکارا گیا۔ یہ وہی جماعت ہوتی ہے کہ جن کے عقائد و اعمال صرف اور صرف اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ ﷺ کے احکامات کے مطابق ہوتے ہیں۔ نبی ﷺ نے فرمایا :
لاَ يَزَالُ مِنْ أُمَّتِي أُمَّةٌ قَائِمَةٌ بِأَمْرِ اللَّهِ، لاَ يَضُرُّهُمْ مَنْ خَذَلَهُمْ، وَلاَ مَنْ خَالَفَهُمْ، حَتَّى يَأْتِيَهُمْ أَمْرُ اللَّهِ وَهُمْ عَلَى ذَلِكَ
( بخاری کتاب المناقب )
’’میری امت میں سے ایک گروہ ہمیشہ اللہ کے حکم پر قائم رہے گا اور ان کو جھٹلانے اور مخالفت کرنے والے نقصان نہیں پہنچائیں گے، یہاں تک کہ اللہ کا حکم آجائے گا (یعنی قیامت آجائے گی) اور وہ لوگ اسی حال میں ہوں گے‘‘،
یعنی جہاں امت تفریق کا شکار ہوگی وہیں ان میں سے بالکل جدا ایک جماعت ہوگی جو ہمیشہ اللہ کے حکم یعنی قرآن و احادیث صحیحہ پر قائم ہوگی، یہاں تک قیامت برپا ہو جائے گی۔ یعنی قرب قیامت تک ایک ایسا گروہ اس دنیا میں ہمیشہ رہے گا جو صحیح العقیدہ ہوگا۔ اس کی کوئی وضاحت نہیں کہ یہ گروہ کس دور میں کہاں ہوگا اور کس دور میں کہاں۔ معاذ ؓ اس گروہ کو شام میں گمان کرتے تھے، یعنی یہ کوئی تسلسل سے چلنے والا ایک ہی گروہ نہیں کہ صرف مکہ یا مدینے میں ہی ہوگا بلکہ دنیا میں کہیں بھی ہو سکتا ہے ۔
فرقہ بندی اللہ کے حکم کا انکار یعنی کفر ہے۔ سورہ روم آیت 31/32 میں اللہ تعالیٰ نے اسے شرک قرار دیا ہے۔ یہ شرک فی الحکم ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے ایمانداروں کو ‘‘ مسلمین ‘‘ کا نام دیا تھا اور فرمایا تھا کہ تمہیں موت نہ آئے لیکن یہ کہ تم مسلم ہو، لیکن اس کے برعکس لوگوں نے فرقے بنا کر اپنے جدا جدا نام رکھے اور جدا جدا پہچانیں بنالیں، جیسے پہلےشیعہ، مالکی، حنفی ، شافعی ور حنبلی فرقے بنے پھر ان فرقوں کے مزید فرقے بن گئے۔ حنفی میں دیوبندی اور بریلوی اور پھر آج دیوبندی میں حیاتی اور مماتی اور گروہ در گروہ بن گئے اسی طرح بریلوی میں بھی۔ایک فرقہ اہلحدیث کے نام سے بنا اور آج اُس ایک فرقے میں بھی کافی فرقے بن گئے اور سب اپنے آپ کو اہلحدیث کہلواتے ہیں۔ الغرض اللہ کے حکم کا انکار ہی نہیں کیا بلکہ اپنے اپنے فرقوں اور گروہوں کے علماء و مفتیان کی اطاعت ہوئی اور اللہ کے دئیے ہوئے نام ’’ مسلمین ‘‘ کے علاوہ اپنے دوسرے نام رکھ لئے گئے اسی بات کو اللہ تعالیٰ نے شرک قرار دیا ہے۔
اِتَّخَذُوْۤا اَحْبَارَهُمْ وَ رُهْبَانَهُمْ اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ وَ الْمَسِيْحَ ابْنَ مَرْيَمَ١ۚ وَ مَاۤ اُمِرُوْۤا اِلَّا لِيَعْبُدُوْۤا اِلٰهًا وَّاحِدًا١ۚ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ١ؕ سُبْحٰنَهٗ عَمَّا يُشْرِكُوْنَ۰۰۳۱
[التوبة: 31]
’’ انہوں نے اپنے عالموں اور پیروں کو اپنا رب لیا اللہ کے سواء اور عیسیٰ ابن مریم کو بھی ، حالانکہ انہیں جوحکم دیا گیا تھا ( یہ تھا ) کہ نہیں عبادت کریں کسی کی بھی سوائے الٰہ واحد کے، کوئی نہیں ہے الٰہ سوائے اس ( اللہ ) کے، پاک ہے اس سے وہ جو شریک بناےہیں ‘‘۔
سورہ الشوریٰ میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :
اَمْ لَهُمْ شُرَكٰٓؤُا شَرَعُوْا لَهُمْ مِّنَ الدِّيْنِ مَا لَمْ يَاْذَنْۢ بِهِ اللّٰهُ١ؕ وَ لَوْ لَا كَلِمَةُ الْفَصْلِ لَقُضِيَ بَيْنَهُمْ١ؕ وَ اِنَّ الظّٰلِمِيْنَ لَهُمْ عَذَابٌ اَلِيْمٌ۰۰۲۱
[الشورى: 21]
’’ کیا ان کے ایسے بھی شریک ہیں کہ جنہوں نے ان کے لئے دین ( کا ایسا طریقہ) مقرر کیا ہو کہ جس کی اللہ نے اجازت نہیں دی اور اگر فیصلے کی بات طے شدہ نہ ہوتی تو ان کا فیصلہ ( ابھی ہی ) کردیا گیا ہوتا۔ اور یقینا ً ایسے ظالموں کے لئے درد ناک عذاب ہے ‘‘۔
قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے جو یہ فرمایا ہے کہ انہوں اپنے علماء اور پیروں کو رب بنا لیا تو یہی حقیقت ہے کہ اللہ کی بات چھوڑ کر ان فرقوں کے مفتیان کی بات مانی گئی۔ جو انہوں نے کہا اندھا بن کر مان لیا کسی نے نہیں پوچھا کہ تم ہمارا نام اہلحدیث، سلفی، اشاعتی،چکرالوی رکھوا رہے ہو اللہ نے تو ایمانداروں کا نام ’’ مسلمین ‘‘ رکھا ہے۔ مفتی صاحب نے کہا ’’ اہلحدیث ‘‘ ایک صفاتی نام ہے، اور اس کی دلیل یہ دی کہ قرآن و حدیث میں مسلم کے علاوہ اور بھی نام دئیے گئے ہیں جیسے مہاجر، انصار، اصحاب الصفہ، اہل بدر، اہل احد، مجاہدین، حزب اللہ،مومنین، اہل القرآن وغیرہ وغیرہ۔
وضاحت :
مجاہدین :
مجاہدین ، مسلمین کی کسی دوسری جماعت کا نام نہیں ہے، بلکہ یہ مسلمین کی صفت ہے، جہد کے معنی کوشش کرنے والے ، اللہ کی راہ میں لڑنے والے ہیں، تمام صحابہؓ ہی مجاہد تھے، یہ کوئی علیحدہ فرقہ یا جماعت نہیں۔ کسی صحابی نے اپنے نام کے ساتھ مجاہد، یا سپاہ اللہ ،سپاہ اسلام، سپاہ محمد رکھا ہوا تھا تو بتائیں، اس بات کو دلیل بنا کر کیسے کوئی اپنے آپ کو اہلحدیث کہلوا سکتا ہے؟
مہاجر :
مہاجر ،ان افراد کو کہا گیا ہے جنہوں نے دین اسلام کو اپنا لینے کے بعد مصیبت و مصائب کی بنا پر اپنا گھر بار چھوڑ کر اللہ کی راہ میں ہجرت کی تھی، یہ کوئی ایک گروہ تھا نہ ہی کوئی ایک خاص جماعت، مختلف مواقع پر یہ ہجرت ہوئی ہے۔اللہ تعالی نے ان افراد کو مہاجر کہا ہے۔لیکن ان میں سے کسی نے بھی اپنے نام کیساتھ ’’ مہاجر ‘‘ کا لقب نہیں لگایا اور نہ اسے اپنی پہچان بنایا۔
انصار:
انصار، ان لوگوں کو کہا گیا جنہوں نے ان مہاجرین کی میزبانی کی، یہ ان کا ایک فعل تھا، ان کے اس عمل کی وجہ سے انہیں ‘‘ انصار’’ کہا گیا۔ لیکن کسی طرح ثابت نہیں ہوتا کہ اس لقب کو کس کس صحابی نے اپنے نام کے ساتھ لگایا ؟ جس طرح آج مختلف عبادت گاہوں کے باہر ’’ مسلک اہلحدیث‘‘، ’’ مسلک بریلوی ‘‘ یا کسی اور مسلک کا لکھا ہوتا ہے کیا ’’ انصار ‘‘ کی مساجد بھی اسی طرح علیحدہ تھیں ؟
حزب اللہ :
سور ہ مجادلۃ میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
لَا تَجِدُ قَوْمًا يُّؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَ الْيَوْمِ الْاٰخِرِ يُوَآدُّوْنَ مَنْ حَآدَّ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ وَ لَوْ كَانُوْۤا اٰبَآءَهُمْ اَوْ اَبْنَآءَهُمْ اَوْ اِخْوَانَهُمْ اَوْ عَشِيْرَتَهُمْ١ؕ اُولٰٓىِٕكَ كَتَبَ فِيْ قُلُوْبِهِمُ الْاِيْمَانَ وَ اَيَّدَهُمْ بِرُوْحٍ مِّنْهُ١ؕ وَ يُدْخِلُهُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِيْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُ خٰلِدِيْنَ فِيْهَا١ؕ رَضِيَ اللّٰهُ عَنْهُمْ وَ رَضُوْا عَنْهُ١ؕ اُولٰٓىِٕكَ حِزْبُ اللّٰهِ١ؕ اَلَاۤ اِنَّ حِزْبَ اللّٰهِ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَؒ۰۰۲۲
( مجادلہ : 22 )
’’اللہ تعالیٰ پر اور قیامت کے دن پر ایمان رکھنے والوں کو تم اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت کرنے والوں سے دوستی رکھتے ہوئے ہرگز نہ پاو گے،چاہے وہ ان کے باپ یا ان کے بیٹے یا ان کے بھائی یا ان کے عزیز ہی کیوں نہ ہوں۔ یہی لوگ ہیں جن کے دلوں میں اللہ تعالیٰ نے ایمان کو لکھ دیاہے اور جن کی تائید اپنی روح سے کی ہے اور جنہیں ان جنتوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں جہاں یہ ہمیشہ رہیں گے، اللہ ان سے راضی ہے اور یہ اللہ سے خوش ہیں، یہ اللہ کا گروہ ہے آگاہ رہو بیشک اللہ کے گروہ والے ہی کامیاب لوگ ہیں‘‘۔
اسی سورہ میں اللہ تعالیٰ نے اس سے قبل شیطان کے گروہ کا بھی ذکر کیا:
اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِيْنَ تَوَلَّوْا قَوْمًا غَضِبَ اللّٰهُ عَلَيْهِمْ١ؕ مَا هُمْ مِّنْكُمْ وَ لَا مِنْهُمْ١ۙ وَ يَحْلِفُوْنَ عَلَى الْكَذِبِ وَ هُمْ يَعْلَمُوْنَ۰۰۱۴
( مجادلہ : 14 )
’’ کیا تو نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا؟ جنہوں نے اس سے دوستی کی جن پر اللہ غضبناک ہو چکا ہے، نہ یہ تمہارے ہی ہیں نہ ان کے ہیں ، باوجود علم کے پھر بھی جھوٹی قسمیں کھا رہے ہیں۔‘‘
اَعَدَّ اللّٰهُ لَهُمْ عَذَابًا شَدِيْدًا١ؕ اِنَّهُمْ سَآءَ مَا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ۰۰۱۵
( آیت : 15 )
’’اللہ تعالیٰ نے ان کے لئے سخت عذاب تیار کر رکھا ہے،جو کچھ یہ کر رہے ہیں برا کر رہے ہیں‘‘۔
اِتَّخَذُوْۤا اَيْمَانَهُمْ جُنَّةً فَصَدُّوْا عَنْ سَبِيْلِ اللّٰهِ فَلَهُمْ عَذَابٌ مُّهِيْنٌ۰۰۱۶
( آیت : 16 )
’’انہوں نے اپنی قسموں کو (اپنے بچاؤ کے لئے) ایک ڈھال بنا رکھا ہے پھر وہ (دوسروں کو بھی) روکتے ہیں اللہ کی راہ سے سو ان کے لئے ایک بڑا ہی رسوا کن عذاب ہے‘‘۔
لَنْ تُغْنِيَ عَنْهُمْ اَمْوَالُهُمْ وَ لَاۤ اَوْلَادُهُمْ مِّنَ اللّٰهِ شَيْـًٔا١ؕ اُولٰٓىِٕكَ اَصْحٰبُ النَّارِ١ؕ هُمْ فِيْهَا خٰلِدُوْنَ۰۰۱۷
( آیت : 17 )
’’اللہ کے مقابلے میں نہ تو ان کے مال ان کے کچھ کام آسکیں گے اور نہ ہی ان کی اولادیں یہ جہنمی ہیں انہیں ہمیشہ اسی میں رہنا ہوگا‘‘۔
يَوْمَ يَبْعَثُهُمُ اللّٰهُ جَمِيْعًا فَيَحْلِفُوْنَ لَهٗ كَمَا يَحْلِفُوْنَ لَكُمْ وَ يَحْسَبُوْنَ اَنَّهُمْ عَلٰى شَيْءٍ١ؕ اَلَاۤ اِنَّهُمْ هُمُ الْكٰذِبُوْنَ۰۰۱۸
( آ یت : 18 )
’’جس دن اللہ ان سب کو دوبارہ اٹھا کھڑا کرے گا تو یہ اس کے سامنے بھی اس طرح قسمیں کھائیں گے جس طرح آج تمہارے سامنے کھاتے ہیں اور یہ اپنے طور پر سمجھیں گے کہ یہ کسی بنیاد پر ہیں آگاہ رہو کہ یہ پرلے درجے کے جھوٹے ہیں‘‘۔
اِسْتَحْوَذَ عَلَيْهِمُ الشَّيْطٰنُ فَاَنْسٰىهُمْ ذِكْرَ اللّٰهِ١ؕ اُولٰٓىِٕكَ حِزْبُ الشَّيْطٰنِ١ؕ اَلَاۤ اِنَّ حِزْبَ الشَّيْطٰنِ هُمُ الْخٰسِرُوْنَ۰۰۱۹
( آ یت : 19 )
’’ان پر شیطان نے غلبہ حاصل کرلیا ہے ،اور انہیں اللہ کا ذکر بھلا دیا ہے یہ شیطان کا گروہ ہے۔ کوئی شک نہیں کہ شیطان کا گروہ ہی خسارے والا ہے‘‘۔
معلوم ہوا کہ وہ سارے لوگ جو ایمان دار ہوتے ہیں وہ’’ اللہ کا گروہ ( حزب اللہ) ‘‘ ہیں، اور وہ سارے جو ایمان دار نہیں ہوتے ’’ شیطان کا گروہ ( حزب الشیطان) ‘‘ ہیں۔یعنی حزب اللہ مسلمین کا کوئی صفاتی نام نہیں بلکہ ہر مومن حزب اللہ یعنی اللہ کے گروہ سے تعلق رکھتا ہے۔
مومنین:
سورہ الحجرات میں اللہ تعالٰ فرماتا ہے:
قَالَتِ الْاَعْرَابُ اٰمَنَّا١ؕ قُلْ لَّمْ تُؤْمِنُوْا وَ لٰكِنْ قُوْلُوْۤا اَسْلَمْنَا وَ لَمَّا يَدْخُلِ الْاِيْمَانُ فِيْ قُلُوْبِكُمْ١ؕ وَ اِنْ تُطِيْعُوا اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ لَا يَلِتْكُمْ مِّنْ اَعْمَالِكُمْ شَيْـًٔا١ؕ اِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ۰۰۱۴
( الحجرات : 14 )
’’یہ بدوی لوگ کہتے ہیں کہ ہم ایمان لے آئے (ان سے) کہو کہ تم ایمان نہیں لائے ہاں یوں کہو کہ ہم مسلم ہوگئے ، ایمان تو ابھی تمہارے دلوں میں داخل نہیں ہوا اور اگر تم نے (صدق دل سے) اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت و فرمانبرداری کی تو اللہ تمہارے اعمال میں سے کچھ بھی کم نہیں کرے گا بلاشبہ اللہ بڑا ہی درگزر فرمانے والا انتہائی مہربان ہے‘‘۔
مومن ، مسلم کی ایک صفت ہے، یہ کوئی علیحدہ جماعت یا گروہ نہیں جسے بنیاد بنا کر اسلام میں کوئی علیحدہ فرقہ بنا لیا جائے، اور اس کا کوئی اور نام رکھ دیا جائے۔ جو مومن ہوگا وہ مسلم ہی کہلائے گا۔
اہل بدر، اہل احد ، ان صحابہ کرام ؓ کو کہا گیا جنہوں نے ان غزوات میں شرکت کی تھی ۔ اس بنیاد پر ان کا علیحدہ مسلک یا مساجد نہیں تھیں۔
اہل الصفہ:
عن أبي هريرة قال کان أهل الصفة أضياف أهل الإسلام لا يأوون علی أهل ولا مال والله الذي لا إله إلا هو إن کنت لأعتمد بکبدي علی الأرض من الجوع وأشد الحجر علی بطني من الجوع۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
( ترمذی ، أبواب صفة القيامة والرقائق والورع عن رسول اللهﷺ )
’’ابوہریرہ ؓ فرماتے ہیں کہ اصحاب صفہ مسلمین کے مہمان تھے۔ کیونکہ ان کا کوئی گھر نہیں تھا اور نہ ہی انکے پاس مال تھا۔ اس رب کی قسم جس کے سوا کوئی معبود نہیں میں بھوک کی شدت کی وجہ سے اپنا کلیجہ زمین پر ٹیک دیا کرتا تھا اور اپنے پیٹ پر پتھر باندھا کرتا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘
واضح ہوا کہ ’’ اہل الصفہ‘‘ وہ لوگ تھے جو کہ یا تو ہجرت کر کے آئے تھے یا ان کے پاس رہنے کو گھر نہیں تھا، انہوں نے ایک چبوترےپر قیام کیا ہوا تھا، اسی مناسبت سے انہیں ‘‘ اہل الصفہ’’ کہا گیا ہے۔
اہل الحجرۃ:
اس سے مراد حجرے میں رہنے والے ہیں۔
الغرض کہ یہ سب مسلمین میں سے ہی تھے انہوں نے اپنا نام وپہچان تبدیل نہیں کرلیا تھا۔ نبی ﷺ کے وفات کے بعد بھی یہ سب ایک ہی رہے کسی نے اپنا نام ’’ صدیقی ‘‘، ’’عمری ‘‘، ’’ عثمانی ‘‘ یا ’’ علوی ‘‘ نہیں رکھا۔ شیطان نے ان کی بیچ فساد برپا کروایا، یہ ایک دوسرے کے خلاف کچھ عرصہ کے لئے صف آراء بھی ہوئے لیکن یہ نہیں ہوا کہ لوگ ہمیں کیسے پہچانیں گے کہ ہم کونسے مسلم ہیں اس لئے اپنی پہچان مسلم کے بجائے کچھ اور رکھ لی ہو۔ ان صفات کے علاوہ بھی اللہ تعالیٰ نے اور بھی صفات بیان فرمائی ہیں جیسے صادق، راتوں کو جاگنے والے، اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرنے والے ،لیکن ان سب کے باوجود ’’ اہلحدیث ‘‘ جیسا صفاتی نام کہیں نہیں ملا۔ دراصل قرآن و حدیث ماننے والے ہی کو ’’ مسلمین ‘‘ کہتے ہیں۔
ایک بات اور جس سے لوگوں کو گمراہ کیا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ’’ مسلم ‘‘ جو نام رکھا ہے اس کے معنی ’’ فرمانبردار ‘‘ ہوتے ہیں اور ہم اس کے فرمانبردار ہیں لیکن ہماری پہچان اہلحدیث یا کچھ اور ہے، اور یہ اس وجہ سے ہے کہ اس قوم میں کفر و شرک آچکا ہے تو ہم کیسے پہچانیں جائیں گے۔ عرض ہے کہ کفر و شرک والے ہی اپنی پہچان علیحدہ بناتے ہیں جو اللہ اور رسول اللہ ﷺ پر ایمان واے ہوتے ہیں وہ اپنا نام وہی رکھتے ہیں جو اللہ تعالیٰ نے دیا ہے۔آپ اپنا نام و پہچان مسلم ہی رکھیں لوگ پہچان جائیں گے کہ آپ کون ہیں۔کچھ لوگ کہتے ہیں کہ ’’ مسلم ‘‘ کے معنیٰ فرماں بردار ہوتے ہیں اورہم اللہ کے فرمانبردار ہیں ، اور ہمار پہچان اہلحدیث ہے۔ان سے عرض ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فرمان کو غور سے پڑہیں :
هُوَ سَمّٰىكُمُ الْمُسْلِمِيْنَ١ۙ۬ مِنْ قَبْلُ وَ فِيْ هٰذَا
[الحج: 78]
[هُوَ سَمّٰىكُمُ : اسی نے تمہارا نام رکھا ] [الْمُسْلِـمِيْنَ: مسلمین ]
’’ اور اسی ( اللہ ) نے تمہارا نام مسلمین رکھا‘‘
یعنی بات صرف فرمانبرداری کی نہیں ہو رہے بلکہ تمہیں یہ نام دیا گیا ہے۔سو واضح ہوا کہ یہ ایک دینی ’’ نام ‘‘ ہے، جس طرح کسی شخص کا ذاتی نام ہوتا ہے جس سے وہ پہچانا جاتا ہے، بالکل اسی طرح اللہ اور رسول اللہ محمد ﷺ پر ایمان رکھنے والے کا دینی نام ’’ مسلم ‘‘ ہے۔ ایک شخص کا نام ’’ شمس ‘‘ ہے تو اسے اردو میں سورج یا انگریزی میں Sun کہہ کر نہیں پکارا جائے گا، بلکہ ہر زبان میں اسے ’’ شمس ‘‘ ہی کہا جائے گا اس طرح ’’ مسلم ‘‘ ایک دینی نام ہے، اس نام کو اپنانا لازم و ملزوم ہے۔
فرقہ وارانہ مذاہب کو قبول کرنا بھی شرک کے زمرے میں آتا ہے
اس سے قبل قرآن مجید کی دو آیات بیان کی گئی تھیں، ان کا دوبارہ مطالعہ فرمائیں :
اِتَّخَذُوْۤا اَحْبَارَهُمْ وَ رُهْبَانَهُمْ اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ وَ الْمَسِيْحَ ابْنَ مَرْيَمَ١ۚ وَ مَاۤ اُمِرُوْۤا اِلَّا لِيَعْبُدُوْۤا اِلٰهًا وَّاحِدًا١ۚ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ١ؕ سُبْحٰنَهٗ عَمَّا يُشْرِكُوْنَ۰۰۳۱
[التوبة: 31]
’’ انہوں نے اپنے عالموں اور پیروں کو اپنا رب بنالیا اللہ کے سواء اور عیسیٰ ابن مریم کو بھی ، حالانکہ انہیں جوحکم دیا گیا تھا ( یہ تھا ) کہ نہیں عبادت کریں کسی کی بھی سوائے الٰہ واحد کے، کوئی نہیں ہے الٰہ سوائے اس ( اللہ ) کے، پاک ہے اس سے وہ جو شریک بناتےہیں ‘‘۔
سورہ الشوریٰ میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :
اَمْ لَهُمْ شُرَكٰٓؤُا شَرَعُوْا لَهُمْ مِّنَ الدِّيْنِ مَا لَمْ يَاْذَنْۢ بِهِ اللّٰهُ١ؕ وَ لَوْ لَا كَلِمَةُ الْفَصْلِ لَقُضِيَ بَيْنَهُمْ١ؕ وَ اِنَّ الظّٰلِمِيْنَ لَهُمْ عَذَابٌ اَلِيْمٌ۰۰۲۱
[الشورى: 21]
’’ کیا ان کے ایسے بھی شریک ہیں کہ جنہوں نے ان کے لئے دین کا ایسا طریقہ مقرر کیا ہو کہ جس کی اللہ نے اجازت نہیں دی اور اگر فیصلے کی بات طے شدہ نہ ہوتی تو ان کا فیصلہ ( ابھی ہی ) کردیا گیا ہوتا۔ اور یقینا ً ایسے ظالموں کے لئے درد ناک عذاب ہے ‘‘۔
سورہ توبہ کی آیت کے بارے میں ایک حدیث بھی ملتی ہے :عدی بن حاتم ؓ فرمایتے ہیں :
۔ ۔ ۔ میں نےنبی ﷺ کو سورہ برأت کی یہ آیات پڑھتے ہوئے سنا (اِتَّخَذُوْ ا اَحْبَارَهُمْ وَرُهْبَانَهُمْ اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ )( التوبہ : 31) (انہوں نے اپنے عالموں اورپیروں کو اللہ کے سوا رب بنالیا ہے) ۔ پھر آپ نے فرمایا کہ وہ لوگ ان کی عبادت نہیں کرتے تھے لیکن اگر وہ (علماء اور درویش) ان کے لئے کوئی چیز حلال قرار دیتے تو وہ بھی اسے حلال سمجھتے اور اسی طرح ان کی طرف سے حرام کی گئی چیز کو حرام سمجھتے‘‘۔
( ترمذی ، ابواب تفسیر القرآن ، باب: ومن سورة التوبة ، روایتہ حسن )
فرقہ بندی کے ان مذاہب کو اپنانا بھی مشرکانہ عمل ہے کیونکہ ان مذاہب کی اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی تائید نہیں ہے۔قرآن مجید میں فرما دیا گیا کہ اللہ کے نزدیک دین صرف اسلام ہے ( سورہ آل عمران : 19 ) اور فرمایا کہ جو اس کے علاوہ کسی اور دین کو اپنائے گا تو وہ قبول نہیں کیا جائے گا ( سور ہ آل عمران : 85 )۔
اسلام اور فرقہ وارانہ مذاہب میں فرق:
- آپ دیکھیں کہ دین اسلام اور ان فرقہ وارانہ مذاہب میں سب سے پہلا فرق ’’ نام ‘‘ کا ہے۔ یعنی اللہ کےدئیے ہوئے نام کے بجائے دوسرے نام ان کے مذاہب کی نشانی ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اس چیز کی اتباع کرو جو تم پرنازل کی گئی ہے، لیکن یہ اپنے علماء فرقہ کی اطاعت و اتباع کرتے ہیں۔
- قرآن مجید سورہ زمر آیت : 46 اور سورہ مومنوں آیات: 99/100 میں اللہ تعالیٰ نے فرما دیا ہے کہ مرنے والے کی روح اس دنیا میں قیامت سے پہلے واپس نہیں آئے گی، یہی بات احادیث صحیح میں بھی بیان کردی گئی ہے۔ لیکن کثرت سے فرقہ وارانہ مذاہب کا یہ عقیدہ ہے کہ مرنے والے کی روح اس کی وفات کے بعد جسم میں لوٹا دی جاتی ہے۔( تفصیل کے لئے ہمارے مضمون ’’ عقیدہ عذاب قبر اور مسلک پرستوں کی مغالطہ آرائیاں، موضوع : روح ‘‘ کا مطالعہ کریں )۔
- قرآن مجید میں سورہ مریم آیت نمبر 15 اور 33 کے ذریعے بتا دیا گیا کہ انبیاء علیہ السلام کو بھی قیامت کے دن زندہ کرکے اٹھایا جائے گا لیکن کثرت سے فرقہ وارانہ مذاہب میں ضعیف روایات کو بنیاد بناتے ہوئے یہ عقیدہ دیا گیا ہے کہ انبیاء علیہ السلام اپنی قبروں میں زندہ ہیں اور صلوٰۃ ادا کرتے ہیں۔ ( تفصیلی مطالعہ کے لئے ہمارے مضمون ’’ کیا انبیاء علیہ السلام اپنی وفات کے بعد قبروں میں زندہ ہیں ‘‘ کا مطالعہ کریں )
- قرآن مجید میں نبی ﷺ کےلئے رحمت کی دعا ( درود ) کا ذکر کیا گیا ہے لیکن سارے فرقوں نے اس کے معنی و مطالب ہی بدل دئیے ہیں اور انہوں نے اسے ایسی چیز بنا دیا ہے کہ جو نبی ﷺ پر پیش کی جاتی ہے۔حالانکہ وہ ایک دعا ہے اور ہر دعا اللہ تعالیٰ کے سامنے پیش کی جاتی ہے۔
- اس حوالے سے چند فرقوں میں یہ بھی عقیدہ رائج ہے کہ ہمارے اعمال اللہ تعالیٰ کے ساتھ ساتھ نبی ﷺ کے سامنے بھی پیش ہوتے ہیں۔ ( نعوذوباللہ من ذالک )
- اسی عقیدے کو بنیاد بنا کر نبی ﷺ کو مدینہ والی قبر میں زندہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے حالانکہ فاطمہ ؓ اور دوسرے صحابہؓ کا عقیدہ تھا کہ نبی ﷺ اپنی وفات کے بعد جنت الفردوس میں زندہ ہیں۔ ( تفصیل کے لئے ہمارے مضمون ’’ الصلاۃ و السلام علی النبی ﷺ ‘‘ کا مطالعہ کریں۔)
- دین اسلام کےمآخذ قرآن و حدیث میں بتایا گیا ہے کہ شہداء اپنی وفات کے بعد جنتوں میں زندہ ہیں جبکہ کافی فرقہ وارانہ مذاہب میں انہیں زمینی قبر میں زندہ بیان کیا جاتا ہے۔ ( تفصیل کے لئے ہمارےمضمون ’’ شہداء اپنی وفات کے بعد کہاں زندہ ہیں ‘‘ کا مطالعہ کریں )۔
- دین اسلام بتاتا ہے کہ اللہ یکتا ہے یعنی اس جیسا کوئی نہیں۔ نہ اس کی کوئی بیوی ہے، نہ اولاد اور کائنات میں کوئی اس کی مثال جیسا بھی نہیں ۔ اس کے برعکس کچھ فرقہ وارنہ مذاہب میں یہ عقیدہ دیا گیا ہے کہ محمد ﷺ اللہ کی ذات کا ٹکڑا ہیں اور کچھ میں ایسا بھی عقیدہ ہے کہ ہمارے امام بھی اسی نور کا حصہ ہیں۔یہ شرک فی الذات ہے جسے اللہ تعالیٰ نے اللہ کو گالی دینا قرار دیا ہے۔ (تفصیل ’’ شرک فی الذات ‘‘ والے مضمون میں پڑھیں )۔
- قرآن بتاتا ہے کہ مردہ جسم سڑ گل جاتا ہے ، آخر کار مٹی میں ملکر مٹی ہو جاتا ہے۔ لیکن کچھ مذاہب میں یہ عقیدہ پھیلایا گیا ہے کہ یہ زندہ ہوتے ہیں، سنتے بھی ہیں اور لوگوں کا کام بھی بنا دیتے ہیں۔ ( تفصیل : ’’ مردے نہیں سنتے ‘‘ کا مطالعہ کریں )
- دین اسلام میں بتایا گیا ہے کہ اللہ براہ راست سنتا اور اسی کا حکم دیتا ہے کہ اسے براہ راست پکارا جائے،لیکن کثرت سے فرقہ وارانہ مذاہب میں اللہ کے واسطے اور وسیلے سے دعا کرنے کا بتایا گیا ہے۔ ( تفصیل ہمارے مضمون ’’ شرک فی الحکم ‘‘ میں پڑھی جا سکتی ہے)۔
- اسلا میں اس بات کی تعلیم ہے کہ مدد کے لئے صرف اللہ کو پکارو لیکن کافی فرقہ وارانہ مذاہب میں غیر اللہ کو غائبانہ پکارنا جائز بیان کیا جاتا ہے۔ ( تفصیل ’’ شرک فی الحکم ‘‘ میں پڑھی جا سکتی ہے )۔
- دین اسلام میں بتایا گیا ہے کہ انسان کے لئے وہی ہے جو اس نے خود کمایا ہے، اور مرنے کے بعد اسے صدقہ جاریہ،نفع دینا والا علم، نیک اولاد کی دعا اور عمل کےعلاوہ کچھ نہیں ملے گا۔ اس کے برعکس فرقہ وارانہ مذاہب میں عقیدہ ’’ ایصال ثواب ‘‘ بیان کیا جاتا ہے کہ ایک کا ثواب دوسرے کو بخشا جا سکتا ہے۔( تفصیل ہمارےمضمون ’’ عقیدہ ایصال ثواب قرآن و حدیث کی روشنی میں ‘‘ میں پڑھی جا سکتی ہے )۔
- دین اسلام میں کوئی قل نہیں، نہ ہی سوئم ، دسواں اور چالیسواں یا برسی ہے، لیکن کثرت سے فرقہ وارانہ مذاہب میں یہ افعال اہم سمجھے جاتے ہیں ۔
- دین اسلام میں ہر کام فی سبیل للہ ہے، قرآن ، اذان ، تعلیم القرآن پر تنخواہ، اجرت۔ ہدیہ سب حرام ہیں ، لیکن سارے فرقہ وارانہ مذاہب میں کنٹرول مولوی یا مفتیان کا ہے اس لئے سارے فرقہ وارانہ مذاہب میں دین پر اجرت جائز بیان کی جاتی ہے۔ ( تفصیل کے لئے ہمارا مضمون ’’ دینی امور پر اجرت ‘‘ کا مطالعہ کریں)۔
- دین اسلام میں اللہ کی توحید ہی دین کی اول ترین بنیاد ہے لیکن کافی فرقہ وارانہ مذاہب میں ’’ تصوف ‘‘ کو اہم مرتبہ حاصل ہے جس کے بنیادی عقائد میں اللہ کی ذات میں انسان کا فنا فی اللہ ہوجانا، یا اللہ کا انسان میں حلول کر جانا اور یہ کہ کائنات کی ہر چیز اللہ کی ذات کا حصہ ہے، گویا توحید کی دھجیاںبکھیر دی گئیں۔ ( تفصیل ’’ شرک فی الحکم‘‘ میں پڑھی جا سکتی ہے)
- دین اسلام میں ’’ عرش الہی ‘‘ اس کائنات میں سب سے اعلی مرتبہ کا حامل ہے اور ’’خانہ کعبہ ‘‘ اس زمین میں سب سے زیادہ اعلی مقام رکھتا ہے، لیکن مذہب دیوبند میں ‘‘نبی ﷺ کی قبر کی مٹی ‘‘ ان سب سے زیادہ افضل ہے۔ (تفصیل ’’ حرمت خانہ کعبہ ‘‘ میں پڑھیں ‘‘)۔
- · اسلام میں تین طلاق پر بیوی اس مرد پر حرام ہو جانا بیان کیا گیاہے، لیکن فرقہ اہلحدیث نے ایک نشست کی تین کو ایک کرکے دین اسلام کو بدل دینے کی کوشش کی اور یہی اس فرقے کا مذہب ہے۔ دوسری طرف دوسروں نے اپنے مذاہب میں ’’ حلالہ ‘‘ سسٹم چلا دیا۔
- ماتم ، سینہ کوبی، نوحہ کرنے والے کا نبی ﷺ سے کوئی تعلق نہیں ( حدیث ) لیکن شیعہ مذہب میں یہ عین ثواب سمجھا جاتا ہے ۔
- دین اسلام میں غیر اللہ ( اللہ کے علاوہ ) کس دوسرے کے نام کی قربانی ، نذر و نیاز حرام قرار دی گئی ہے لیکن کافی فرقوں کے مذہب میں یہ انتہائی متبرک سمجھی اور کھائی جاتی ہے۔( تفصیل : ’’شرک فی الحکم ‘‘)
- عالم الغیب ( نہ نظر آنے والی چیزوں، یا مستقبل کا علم رکھنا )صرف اللہ تعالیٰ کی صفت ہے۔ لیکن کافی فرقہ وارانہ مذاہب میں انبیاء علیہ السلام اور خاص کر نبی ﷺ کو بھی عالم الغیب سمجھا جاتا ہے۔ ایک دو فرقوں میں تو آج کے ان دھڑنگ پیروں ، اور دیگر افراد وغیرہ کو بھی عالم الغیب سمجھا جاتا ہے۔ ( تفصیل مضمون ’’ لا الٰہ الا محمد رسول اللہ ‘‘ قسط 6 )۔
- دین اسلام میں، نبی ﷺ نے قبر پر عبادت گاہ بنانے والوں پر اللہ تعالیٰ کی لعنت کا ذکر فرمایا اور اپنی امت کو اس فعل سے منع فرمایا۔ لیکن فرقہ وارانہ مذاہب میں ’’ روضہ ‘‘ ،’’ مزار ‘‘ کو بڑی اہمت حاصل ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے قبر کو زمین کے برابر رکھنے کا حکم دیا دیا تمام فرقہ وارانہ مذاہب میں الا ماشاء اللہ یہ کام عام ہے۔
- نبی ﷺ اور صحابہ ؓ نے ساری زندگی صلوٰۃ کے بعد، کسی میت پر، یا کسی درس کے بعد ہاتھ اٹھا کر اجتماعی دعا نہیں لیکن آج اسے کثرت سے فرقہ وارنہ مذہب میں اہم مقام حاصل ہے۔ ( تفصیل ’’ ہاتھ اٹھا کر دعا کرنا ‘‘)
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :
يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا ادْخُلُوْا فِي السِّلْمِ كَآفَّةً١۪ وَّ لَا تَتَّبِعُوْا خُطُوٰتِ الشَّيْطٰنِ١ؕ اِنَّهٗ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِيْنٌ۰۰۲۰۸
[البقرة: 208]
’’اے ایمان والو! اسلام میں پوری طرح داخل ہو جاؤ ، اور شیطان کی پیروی نہ کرو، وہ تو تمہارا کھلا دشمن ہے‘‘۔
ایمان کا اقرار دراصل اللہ تعالیٰ کی اطاعت و فرمانبرادی قبول کر کے پوری طرح “مسلم” بن جانے کا عہد ہے۔اس کا بنیادی تقاضہ یہ ہے کہ سب سے پہلے ایمان کو ہر قسم کے شرک،باطل نظریات و توہمات سے پاک کیا جائے اور طاغوت کا کفر اور اس سے مکمل برات کا اظہار و اعلان کر کے ایمان میں یکسوئی پیدا کی جائے،اور پھر یہ تقاضے پورے کرتے ہوئے زندگی گزاریں،ہر قسم کی بدعات و رسومات سے بچیں اور معاشرے کے ساتھ انہی معاملات میں تعاون و شمولیت ہو جو شرک و بدعات اور رسومات اور ہر قسم کے فسق و فجور سے پاک ہوں۔
اسلام اللہ کی اطاعت اور فرمانبرادی کا ایک مکمل نظام حیات ہے۔لہٰذا ایمان والوں پر زور دیا گیا ہے کہ وہ “اسلام میں پورے پورے داخل ہوں” یعنی وہ پوری سنجیدگی سے انفرادی اور اجتماعی سطح پر زندگی کے تمام گوشوں کو اسلام کے سانچے میں ڈھال لیں،پھر سارے معاملات مثلاً شادی،بیاہ، وفات یا کاروبار اور رشتے داروں اور دوستوں کے ساتھ تعلقات اسلامی قوانین کے مطابق چلیں۔شریعت کے نفاذ میں کوئی دباؤ قبول نہ کیا جائے اور نہ دوست احباب اور رشتےداروں کو خوش کرنے کے لیے معاشرتی معاملات میں یا دنیاوی مفادات کی خاطر بعض شرعی حدود و قیود اور اللہ اور اس کے رسولﷺ کے احکامات سے بے اعتنائی برتی جائے!
اَلْيَوْمَ اَكْمَلْتُ لَكُمْ دِيْنَكُمْ وَ اَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِيْ وَ رَضِيْتُ لَكُمُ الْاِسْلَامَ دِيْنًا١ؕ ۔ ۔ ۔
[المائدة: 3]
’’ ۔ ۔ ۔ آج کے دن میں نے تمہارا دین تمہارے لیے مکمل کر دیا اور تم پر اپنی نعمت پوری کر دی اور تمہارے لیے دین اسلام کو پسند کیا۔۔ ‘‘
یعنی وہ دین اسلام جو کہ رسول اللہ ﷺ لیکر آئے تھے، وہ اللہ تعالیٰ نے مکمل کردیا۔ اب نہ کوئی چیز اس میں داخل ہو سکتی ہے اور نہ ہی کوئی چیز اس سے کم ہو سکتی ہے۔ اسی دین اسلام کے لئے فرمایا گیا کہ تم پورے پورے اس میں داخل ہو جاو یعنی اب کوئی بھی معاملہ ہوگا تمہیں صرف وہی اپنانا اور اس کے مطابق عمل کرنا ہوگا۔ اب اس میں کسی اور مذہب کی شراکت داری نہیں ہوگی۔ ایسا نہیں ہوگا کہ جس چیز کو اللہ تعالیٰ نے حرام قرار دیا ہو اسے شیر مادر سمجھ کر قبول کرلیا جائے جیسے غیراللہ کے نام کی نذر و نیاز۔ اللہ تعالیٰ فرمائے کہ مرنے والے کی روح قیامت سے قبل اس دنیا و جسم میں نہیں لوٹائے جائے گی لیکن فرقہ بندی کےمذاہب قبول کرلیا جائے کہ روح لوٹا دی جاتی ہے۔ یہ خالص دین نہ رہا ملاوٹ ہوگئی اور ایسا دین اللہ کے یہاں قابل قبول نہیں ۔
[آل عمران: 85]
’’ اور جس نے اسلام کے علاوہ کسی اور دین کی اتباع کی، وہ اس سے قبول نہیں کیا جائے گا اور وہ آخرت کی زندی میں خسارہ پانے والوں میں ہوگا‘‘۔
لہذا اس آیت کو ایک مرتبہ پھر پڑھ لیں :
’’ کیا ان کے ایسے بھی شریک ہیں کہ جنہوں نے ان کے لئے دین کا ایسا طریقہ مقرر کیا ہو کہ جس کی اللہ نے اجازت نہیں دی اور اگر فیصلے کی بات طے شدہ نہ ہوتی تو ان کا فیصلہ ( ابھی ہی ) کردیا گیا ہوتا۔ اور یقینا ً ایسے ظالموں کے لئے درد ناک عذاب ہے ‘‘۔ ( سورہ شوریٰ : 21 )