بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
فرقہ اہلحدیث نےامام کے پیچھے صلوٰۃ ادا کرتے ہوئے امام کے پیچھے سورہ فاتحہ کی تلاوت لازمی قرار دی ہے خواہ امام خفیہ یا باآواز بلند تلاوت کر رہا ہو۔اس بارے میں قرآن سے یہ بات ملتی ہے :
﴿وَإِذَا قُرِئَ ٱلۡقُرۡءَانُ فَٱسۡتَمِعُواْ لَهُۥ وَأَنصِتُواْ لَعَلَّكُمۡ تُرۡحَمُونَ﴾ [الأعراف: 204]
’’ اور جب قرآن پڑھا جائے تو توجہ سے سنو اور خاموش رہو تاکہ تم پر رحم کیا جائے‘‘۔
قرآن کی اس آیت سے ایک واضح حکم سامنے آیا کہ قرآت قرآن کے وقت سامع خاموش رہے گا۔ اگر کوئی حدیث بظاہر کلام اللہ سے ٹکراتی محسوس ہو لیکن تو اس کی تطبیق اللہ کے لاریب حکم کے تحت کی جائے گی۔ اللہ کے اس حکم کے جب قرآن پڑھا جائے تو خاموش رہو کوفرقہ اہلحدیث مشکوک بنانے کی کوشش کرتا ہے اور قرآن کی یہ آیت پیش کرتا ہے :
﴿وَقَالَ ٱلَّذِينَ كَفَرُواْ لَا تَسۡمَعُواْ لِهَٰذَا ٱلۡقُرۡءَانِ وَٱلۡغَوۡاْ فِيهِ لَعَلَّكُمۡ تَغۡلِبُونَ﴾ [فصلت: 26]
’’ اور کافر کہتے ہیں کہ قرآن کو سنا ہی نہ کرو اور شور مچایا کرو شاید کہ تم غالب آجاو ٔ ‘‘۔
کسی بھی حدیث میں اس بات کی کوئی وضاحت نہیں ملتی کہ یہ آیت اس کے جواب میں نازل ہوئی ہے۔ لیکن اگر یہ آیت اس کے جواب میں بھی نازل ہوئی ہوتی جب بھی یہی قانون مانا جائے گا کہ جب بھی قرآن پڑھا جائے تو اسے توجہ سے یا غور سے سنا جائے اور خاموش رہا جائے۔یہی بات اللہ کے رسول اللہ محمد ﷺ نے بھی فرمائی :
۔ ۔ ۔ ۔ وَإِذَا قَرَأَ فَأَنْصِتُوا’’ ۔۔۔ اور جب امام قرآت کرے تو تم خاموش رہو ‘‘
( عن قتادہ ؓ ، مسلم ، کتاب الصلوٰۃ ، باب تشہد فی الصلوٰۃ )
حدیث سے یہ واضح طور پر ثابت ہو گیا کہ کہ صلوٰۃ میں بھی یہی معاملہ ہے کہ جب امام قرآت کرے تو مقتدی خاموش رہے۔ یہاں اہلحدیث اپنا موقف بدل ڈالتے ہیں اور کہتے ہیں کہ سورہ فاتحہ قرآن کے علاوہ ہے۔ حیرت کی بات ہے قرآن کے علاوہ کیا ہے؟ قرآن کے علاوہ کوئی کتاب نازل ہوئی ہے کوئی صحیفہ ہے؟ لیکن ان کے بیان کے بر خلاف حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ قرآن ہی کا حصہ ہے۔نبیﷺ نے فرمایا:
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أُمُّ القُرْآنِ هِيَ السَّبْعُ المَثَانِي وَالقُرْآنُ العَظِيمُ»
( بخاری، کتاب التفاسیر ، بَابُ قَوْلِهِ: {وَلَقَدْ آتَيْنَاكَ سَبْعًا مِنَ المَثَانِي وَالقُرْآنَ العَظِيمَ})
’’ ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا: القرآن جو کہ سورہ فاتحہ ہے اسی کو سبع مثانی اور قرآن عظیم کہتے ہیں۔‘‘
عَنْ أَبِي سَعِيدِ بْنِ الْمُعَلَّی قَالَ کُنْتُ أُصَلِّي فَدَعَانِي النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَمْ أُجِبْهُ قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنِّي کُنْتُ أُصَلِّي قَالَ أَلَمْ يَقُلْ اللَّهُ اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذَا دَعَاکُمْ ثُمَّ قَالَ أَلَا أُعَلِّمُکَ أَعْظَمَ سُورَةٍ فِي الْقُرْآنِ قَبْلَ أَنْ تَخْرُجَ مِنْ الْمَسْجِدِ فَأَخَذَ بِيَدِي فَلَمَّا أَرَدْنَا أَنْ نَخْرُجَ قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّکَ قُلْتَ لَأُعَلِّمَنَّکَ أَعْظَمَ سُورَةٍ مِنْ الْقُرْآنِ قَالَ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ هِيَ السَّبْعُ الْمَثَانِي وَالْقُرْآنُ الْعَظِيمُ الَّذِي أُوتِيتُهُ
( بخاری، کتاب فضائل القرآن ، باب: فضیلت سورہ فاتحہ )
’’ابوسعید بن معلی سے روایت کرتے ہیں، انہوں نے کہا کہ میں صلوٰہ ادا کر رہا تھا کہ نبی ﷺ نے مجھے بلایا، میں نے آپ کو کوئی جواب نہیں دیا، یہاں تک فارغ ہوں، میں نے کہا یا رسول اللہ میں صلوٰہ ادا کر رہا تھا، آپ نے فرمایا کیا اللہ نے یہ نہیں فرمایا کہ جب بھی اللہ ورسول تمہیں پکاریں تو جواب جلد دو، فرمایا میں تمہیں مسجد سے نکلنے سے پہلے ایک سورت بتلاؤں گا، جو قرآن مجید کی تمام سورتوں سے افضل ہے، پھر نبی ﷺ نے میرا ہاتھ پکڑ لیا، جب ہم باہر نکلنے لگے، تو میں نے درخواست کی یا رسول اللہﷺآپ نے فرمایا تھا میں تمہیں قرآن کی سب سے زیادہ افضل سورت بتلاؤں گا، آپ نے فرمایا وہ سورت الحمد للہ رب العالمین ہے اسی کا نام سبع مثانی اور قرآن عظیم ہے، جو مجھے دی گئی‘‘۔
واضح ہوا کہ سورہ فاتحہ قرآن ہی کا حصہ ہے اور اس پر بھی اللہ کا وہی حکم نافذ ہوتا ہے جو قرآن کی دیگر سورتوں پر ہوتا ہے۔
اب ہم آتے ہیں نبی ﷺ کے اس حکم کی طرف کہ صلوٰۃمیں سورہ فاتحہ کا تلاوت لازمی ہے:
عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَا صَلَاةَ لِمَنْ لَمْ يَقْرَأْ بِفَاتِحَةِ الْکِتَابِ
( بخاری، کتاب اذان و بَابُ وُجُوبِ القِرَاءَةِ لِلْإِمَامِ)
’’ عبادہ بن صامت ؓ سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا کہ اس کی صلوٰۃ نہیں جو سورہ فاتحہ نہ پڑھے ۔‘‘
اس حدیث میں اس بات کا بیان ہے کہ صلوٰہ میں سورہ فاتحہ کی تلاوت لازمی ہے۔ انفرادی صلوٰۃ میں اس حدیث پر عمل کرتے ہوئے کوئی مسئلہ نہیں پیدا ہوتا، اسی طرح ایسی صلوٰۃ جس میں امام خفیہ تلاوت کررہا ہو وہاں بھی کوئی کوئی ٹکراو نہیں ہوتا لیکن جب امام جہری یعنی با آواز بلند تلاوت کر رہا ہو تو قرآن کا حکم سامنے آجاتا ہے کہ جب قرآن پڑھا جائے تو توجہ سے سنو اور خاموش رہو تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔ قرآن کا حکم لاریب ہے دنیا کا کوئی قول و حکم اللہ کی بات کو نہیں بدل سکتا۔ پھر اب نبیﷺ کا اس حکم پر عمل کیسے ہوگا۔ ابو ہریرہ ؓ سے یہی سوال کیا گیا تو انہوں نے جواب دیا :
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ مَنْ صَلَّی صَلَاةً لَمْ يَقْرَأْ فِيهَا بِأُمِّ الْقُرْآنِ فَهِيَ خِدَاجٌ ثَلَاثًا غَيْرُ تَمَامٍ فَقِيلَ لِأَبِي هُرَيْرَةَ إِنَّا نَکُونُ وَرَائَ الْإِمَامِ فَقَالَ اقْرَأْ بِهَا فِي نَفْسِکَ
( مسلم ، کتاب الصلوٰہ، بَابُ وُجُوبِ قِرَاءَةِ الْفَاتِحَةِ فِي كُلِّ رَكْعَةٍ، ۔ ۔ ۔ )
’’ ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا کہ جس نے صلوٰۃ ادا کی اور ام القرآن نہیں پڑھی تو اس کی صلوٰۃ ناقص ہے، نبیﷺ نے تین مرتبہ یہی ادا فرمایا۔ تو ابو ہریرہ ؓ سے پوچھا گیا کہ جب ہم امام کے پیچھے ہوتے ہیں۔ کہا : اپنے دل میں پڑھو ۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘
واضح ہوگیا کہ امام پیچھے سورہ فاتحہ قرآت و تلاوت نہیں کرنی بلکہ اپنے دل میں پڑھ لے۔ قرآت کے معنی منہ کے مخارج سے اس کی ادائیگی ہے لیکن صحابی ؓ نے اس دل میں پڑھنے کا بتایا یعنی منہ سے قرآت نہیں کرو بلکہ دل میں اس پر غور و فکر کرنا ہے۔اگر امام کوئی ایسی سورہ پڑھ رہا ہوتا ہے جو ہمیں آتی ہے تو وہ امام کی تلاوت کیساتھ خود بخود ہمارے دل میں چل رہی ہوتی ہے، اسے کہتے ہیں دل میں پڑھنا۔
صحابہ ؓ کا عمل :
عَنْ عَطَائِ بْنِ يَسَارٍ أَنَّهُ أَخْبَرَهُ أَنَّهُ سَأَلَ زَيْدَ بْنَ ثَابِتٍ عَنْ الْقِرَائَةِ مَعَ الْإِمَامِ فَقَالَ لَا قِرَائَةَ مَعَ الْإِمَامِ فِي شَيْئٍ
( مسلم ، کتاب المساجد، باب: سجدہ تلاوت )
’’ عطاء بن یسار فرماتے ہیں کہ میں نے زید بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے پوچھا کہ کیا امام کے ساتھ قرأت کرنی چاہئے تو فرمایا کہ امام کے ساتھ قرأت نہیں کرنی چاہیے۔‘‘
جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ يَقُولُ مَنْ صَلَّی رَکْعَةً لَمْ يَقْرَأْ فِيهَا بِأُمِّ الْقُرْآنِ فَلَمْ يُصَلِّ إِلَّا وَرَائَ الْإِمَامِ
( موطا امام مالک : کتاب الصلوٰۃ ، باب ما جاء في أم القرآن)
’’جابر بن عبداللہ ؓفرماتے ہیں جس شخص نے ایک رکعت پڑھی اور اس میں سورت فاتحہ نہ پڑھی تو گویا اس نے صلوٰہ نہیں ادا کی مگر جب امام کے پیچھے ہو۔‘‘
عَنْ نَافِعٍ أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ کَانَ إِذَا سُئِلَ هَلْ يَقْرَأُ أَحَدٌ خَلْفَ الْإِمَامِ قَالَ إِذَا صَلَّی أَحَدُکُمْ خَلْفَ الْإِمَامِ فَحَسْبُهُ قِرَائَةُ الْإِمَامِ وَإِذَا صَلَّی وَحْدَهُ فَلْيَقْرَأْ قَالَ وَکَانَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ لَا يَقْرَأُ خَلْفَ الْإِمَامِ
( مؤطا امام مالک، کتاب الصلاۃ، باب ترك القراءة خلف الإمام فيما جهر فيه )
’’نافع سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عمر ؓ سے جب کوئی پوچھتا کہ سورت فاتحہ پڑھی جائے امام کے پیچھے تو جواب دیتے کہ جب کوئی تم میں سے صلوٰۃ ادا کرے امام کے پیچھے تو کافی ہے اس کو قرأت امام کی اور جو اکیلے پڑھے تو پڑھ لے کہا نافع نے کہا کہ اور عبداللہ بن عمر ؓ نہیں پڑھتے تھے امام کےپیچھے ‘‘
عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ عَنْ أَبِيهِ أَنَّهُ کَانَ يَقْرَأُ خَلْفَ الْإِمَامِ فِيمَا لَا يَجْهَرُ فِيهِ الْإِمَامُ بِالْقِرَائَةِ
( موطا امام مالک ،ایضا)
’’ عروہ بن زبیر سری ( خاموش تلاوت والی)صلواٰۃ میں امام کےپیچھے سورہ فاتحہ پڑھتے تھے ۔‘‘
صحابہ کرام ؓ کے عمل سے مسئلہ مکمل طور پر واضح ہوگیا کہ جہری صلوٰۃ میں امام کےپیچھے سور فاتحہ کی تلاوت نہیں کرنی۔
فرقہ اہلحدیث اسی حوالے سے نبیﷺ کے ایک اور عمل کا بھی انکار کرتے ہیں :
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِذَا أَمَّنَ الْإِمَامُ فَأَمِّنُوا فَإِنَّهُ مَنْ وَافَقَ تَأْمِينُهُ تَأْمِينَ الْمَلَائِکَةِ غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ
( بخاری، کتاب اذان ، بَابُ جَهْرِ الإِمَامِ بِالتَّأْمِينِ)
’’ابو ہریرہ ؓ سے ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا : جب امام آمین کہے تو تم بھی آمین کہو، اس لئے کہ جس کی آمین فرشتوں کی آمین سے مل جائے گی تو اس کے اگلے گناہ معاف ہو جائیں گے۔‘‘
بقول فرقہ اہلحدیث کے امام کے پیچھے سورہ فاتحہ پڑھنا لازم ہے۔ اب کیا مقتدی امام سے پہلےہی سورہ فاتحہ پڑھے لےگا کہ اس کی آمین کیساتھ ہی آمین کہے۔ اگر پہلے ہی پڑھ لے گا تو امام سے سبقت لے گیا جس کے لئے نبیﷺ نے منع فرمایا اور بڑی سخت وعید سنائی ہے، اور اگر بعد میں پڑھتا ہے تو امام کے آمین کیساتھ آمیں کیسے کہے گا ؟ کیا اپنی سورہ فاتحہ ختم کرنے سے پہلے ہی ’’ آمین ‘‘ کہہ دے گا؟ الغرض واضح طور پر یہ عمل قرآن اور نبیﷺ کے احکامات کا انکار لگتا ہے۔
فرقہ اہلحدیث قرآن اور احادیث صحیحہ کی ان تمام باتوں کا رد کرتے ہوئے اسے لازمی قرار دیتے ہیں اور اس کی دلیل میں یہ روایت پیش کرتے ہیں:
عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ قَالَ کُنَّا خَلْفَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي صَلَاةِ الْفَجْرِ فَقَرَأَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَثَقُلَتْ عَلَيْهِ الْقِرَائَةُ فَلَمَّا فَرَغَ قَالَ لَعَلَّکُمْ تَقْرَئُونَ خَلْفَ إِمَامِکُمْ قُلْنَا نَعَمْ هَذًّا يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ لَا تَفْعَلُوا إِلَّا بِفَاتِحَةِ الْکِتَابِ فَإِنَّهُ لَا صَلَاةَ لِمَنْ لَمْ يَقْرَأْ بِهَا
( ابو داؤد، أبواب تفريع استفتاح الصلاة ، باب من ترك القراءة في صلاته بفاتحة الكتاب)
’’عبادہ بن صامتؓ سے روایت ہے۔ کہ ایک مرتبہ ہم رسول اللہﷺکے پیچھے صلوٰۃ فجر ادا کررہے تھے۔ آپ نے قرأت شروع کی مگر آپ کے لئے قرآن پڑھنا مشکل ہو گیا ۔جب نبی ﷺ صلوٰۃ سے فارغ ہو گئے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا شاید تم اپنے امام کے پیچھے قرأت کرتے ہو؟ ہم نے عرض کیا ہاں: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہی بات ہے۔ آپ ؐنے فرمایا۔ ایسا نہ کرو سوائے سورہ فاتحہ کے علاوہ۔ کیونکہ سورہ فاتحہ کے بغیرصلوٰۃنہیں ہوتی۔‘‘
سب سے پہلے تو یہ جان لیں کہ یہ روایت ضعیف ہے، اللہ تعالیٰ کے فرمان کے خلاف نبی ﷺ کچھ کہہ ہی نہیں سکتے، اور پھر البانی نے اسے ضعیف قرار دیا ہے تو ایسی روایت پر عمل کرنا کیسا؟
(قال البانی : ضعیف ، المسند الموضوعي الجامع للكتب العشرة ، المقدمہ ، ارکان و فرائض صلاۃ ، الجزء : 11 صفحہ 31 )
موطا امام مالک میں اسی متن کی ایک روایت ملتی ہے :
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ انْصَرَفَ مِنْ صَلَاةٍ جَهَرَ فِيهَا بِالْقِرَائَةِ فَقَالَ هَلْ قَرَأَ مَعِي مِنْکُمْ أَحَدٌ آنِفًا فَقَالَ رَجُلٌ نَعَمْ أَنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنِّي أَقُولُ مَا لِي أُنَازَعُ الْقُرْآنَ فَانْتَهَی النَّاسُ عَنْ الْقِرَائَةِ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِيمَا جَهَرَ فِيهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْقِرَائَةِ حِينَ سَمِعُوا ذَلِکَ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
( مؤطا امام مالک،کتاب الصلاۃ ، باب ترك القراءة خلف الإمام فيما جهر فيه )
’’ابوہریرہ ؓ روایت ہے کہ رسول اللہﷺ ایک دن جہری ( بلند آواز )صلوٰۃ سفارغ ہوئے ،پھر فرمایا کیا تم میں سے کسی نے میرے ساتھ کلام اللہ پڑھا تھا ؟ ایک شخص بول اٹھا کہ ہاں میں نے یا رسول اللہﷺ۔فرمایا جب ہی میں کہتا تھا اپنے دل میں کیا ہوا ہے مجھ سےکلام اللہ چھینا جاتا ہے ۔ کہا ابن شہاب یا ابوہریرہ ؓنے تب لوگوں نے قرآت کرنا بند کردی جہری صلوٰۃ میں جب سے یہ بات سنی نبی ﷺ سے ۔‘‘
واضح ہوا کہ نبی ﷺ نے اپنے پیچھے قرآن مجید کی تلاوت سے منع فرمادیا۔
فرقہ اہلحدیث اور جماعت المسلمین نے ایک اور روایت پیش کی ہے کہ نبی ﷺ صلاۃ میں دو سکتے کرتے تھے، ایک تکبیر تحریمہ کے بعد اور دوسرا فاتحہ اور قرآن کی کسی اور سورہ کی تلاوت کے بعد، اور کہتے ہیں کہ اس دوران صحابہ ؓ اپنی سورہ فاتحہ پڑھ لیا کرتے تھے۔
أن سمرة بن جندب، وعمران بن حصين، تذاكرا فحدث سمرة بن جندب، أنه حفظ عن رسول الله صلى الله عليه وسلم ” سكتتين: سكتة إذا كبر، وسكتة إذا فرغ من قراءة {غير المغضوب عليهم ولا الضالين} [الفاتحة: 7] “، فحفظ ذلك سمرة وأنكر عليه عمران بن حصين فكتبا في ذلك إلى أبي بن كعب فكان في كتابه إليهما أو في رده عليهما: أن سمرة قد حفظ
( سنن ابی داؤد ، أبواب تفريع استفتاح الصلاة، باب السكتة عند الافتتاح)
’’حسنؓ سے روایت ہے کہ کہ سمرہ بن جندب ؓاور عمران بن حصین ؓ آپس میں مذاکرہ کر رہے تھے سمرہ ؓ نے کہا رسول اللہ ﷺ سے دو سکتے یاد کئے ہیں ایک سکتہ تکبیر تحریمہ کے بعد اور دوسرا سکتہ جب آپ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ پڑھ چکتے عمران بن حصین نے اس کو نہ مانا انہوں نے (اپنے اختلاف کو) ابی بن کعب کے پاس لکھا ابی بن کعب ؓنے جواب میں فرمایا کہ سمرہ ؓنے ٹھیک یاد رکھا ‘‘۔
البانی نے اسے ضعیف قرار دیا ہے
(المسند الموضوعي الجامع للكتب العشرة و، ما يستحب للإمام في صلاة الجماعة، باب : سكوت الإمام قبل قراءة الفاتحة ، الجزء 12، صفحہ 319 )
واضح ہوا کہ دو سکتوں روایت جسے بنیاد بنا یا جا رہا ہے وہ بھی ضعیف ہے ۔
قرآن و حدیث کے ان کھلے دلائل سے واضح ہوا کہ امام کے پیچھے لازمی طور پر سورہ فاتحہ کی تلاوت اللہ اور
رسول اللہ ﷺ کے فرامین کا عملا! انکار ہے۔