بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
بلاشبہ اللہ کے نبی محمد ﷺ سے محبت ایمان کا لازمی حصہ ہے جس کے بغیر ایمان مکمل نہیں ہوتا ۔ زبانِ رسالت ﷺ نے اس کی اہمیت کو ان الفاظ میں بیان فرمایا ہے :
لَا يُؤْمِنُ أَحَدُکُمْ حَتَّی أَکُونَ أَحَبَّ إِلَيْهِ مِنْ وَالِدِهِ وَوَلَدِهِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ
(صحیح بخاری :کتاب الایمان بَابٌ: حُبُّ الرَّسُولِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنَ الإِيمَانِ)
” تم میں سے کوئی اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا جب تک کہ میں اسے اس کے والدین ، اولاد اور تمام انسانوں سے زیادہ عزیز نہ ہو جاؤں ۔”
نبی ﷺ کی رسالت پر ایمان رکھنے والا کوئی شخص ان کی محبت سے خالی یا عاری نہیں ہوسکتا۔ اس معاملے میں نہ تو کسی قسم کے اختلاف کی گنجائش ہے اور نہ ہی کسی کو اختلاف ہے۔ہاں ، اختلاف ہے تو اس بات پر کہ نبی ﷺ سے محبت کا انداز اور معیار کیا ہو ۔ آج امت کی ایک بڑی اکثریت نبی ﷺ کے احکام و فرامین سے بے پرواہ ہو کر ان کی تعریف میں غلو پر مبنی شرکیہ نعتیں ترنم سے گانے کو محبت کا نام دیتی ہے؛ یارسول اللہ کا نعرہ لگانے کو فعل ِ محبت سمجھتی ہے ؛ آپ ﷺ کو حاضرو ناظر ، مختارِ کل ، غائبانہ مدد کو پہنچنے اور کائنات میں تصرف کا اختیار رکھنے والا سمجھنے کو محبت قرار دیتی ہے ! اور نبی ﷺ کا یوم ِ ولادت ” عید میلاد النبی ﷺ” کے نام سے بطور ِ جشن منانے کو حبِ نبی ﷺ قرار دیتی ہے ؛ اس دن کو نبی ﷺ کی ولادت کے حوالے سے ” بڑا دن” بتا کر من گھڑت روایات اور خود ساختہ قصے بیان کرنے کو باعث ِ ثواب سمجھتی ہے۔ اس دن جلسے ، جلوس اور چراغاں کا اہتمام کیا جاتا ہے ، شیرینیاں تقسیم کی جاتی ہیں ¸دوسروں کو بھی اسکی ترغیب دی جاتی ہے اور یہ سب کچھ نبی ﷺ سے محبت کا تقاضا سمجھا جاتا ہے اسی لئے ایسا نہ کرنے والوں کو یہ لوگ محبتِ رسول ﷺ سے خالی قراردیتے ہیں ۔چاہے انہیں کتنا ہی سمجھایا جائے کہ نبی ﷺ سے محبت کا یہ انداز قرآن و حدیث میں نہیں بتایا گیا ، جو چیز دین میں نہیں اسکی کوئی حیثیت نہیں ، اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی تعلیمات میں یہ چیزیں نہیں پائی جاتیں ۔ بلکہ نبی علیہ السلام نے تو دین میں نئی چیزیں ایجاد کرنے سے منع فرمایا ہے :
مَنْ اَحْدَثَ فِیْ اَمْرِنَا ھٰذَا مَا لَیْسَ مِنْہُ فَھُوَ رَدٌّ
(بخاری، کتاب الصلح، بَابُ إِذَا اصْطَلَحُوا عَلَى صُلْحِ جَوْرٍ فَالصُّلْحُ مَرْدُودٌ )
” جس نے ہمارے دین میں کوئی نئی بات نکالی جو اس میں نہ تھی ، وہ قابل رد ہے۔”
مَنْ عَمِلَ عَمَلاً لَّیْسَ عَلَیْہِ اَمْرُنَا فَھُوَ رَ دًّ
(صحیح بخاری : کتاب البیوع ، بَابُ النَّجْشِ، وَمَنْ قَالَ: «لاَ يَجُوزُ ذَلِكَ البَيْعُ)
” جو کوئی ایسا کام کرے جس کا ہم نے حکم نہیں دیا تو وہ قابل رد ہے۔”
ان دلائل کے باوجود بھی یہ دن نہ ماننے والوں کو مطعون کیا جاتا ہے اور ان پر توہین ِ رسالت بلکہ منکر ِ رسالت ہونے کے فتوے لگائے جاتے ہیں۔ اس صورتحال میں ضروری ہے کہ اللہ کے نبی ﷺ کے صحیح انداز کو قرآن و حدیث کے حوالے سے واضح کیا جائے تاکہ حُب ِ رسول ﷺ کے درست معیار کو اپنایا جا ئے اور غلط طرزِ عمل کی اصلاح کر لی جائے ۔
نبی ﷺ سے محبت کے معنی ان کی اطاعت و اتباع ہے ، یعنی جو اپنی زندگی کو سنت کے رنگ میں رنگ لے وہی صحیح معنوںمیں نبی ﷺ سے محبت کرنے والا ہے ۔ نبیﷺ کی سنت سے ہٹ کر نبی ﷺ سےمحبت کے دعوے خود نبی ﷺ کی حدیث کے مطابق باطل محض ثابت ہوتے ہیں ۔ یہ بھی خیال رہے کہ سنت وہی طریقہ ہے جسے نبی ﷺ نے اختیار کیا ہے اور کوئی ایسا کام جو نبی ﷺ کر سکتے تھے لیکن آپ ﷺ نے نہیں کیا ، اسے نہ کرنا ہی سنت ہے۔ کسی نیک کام میں سنت ِ رسول ﷺ سے تجاوز یعنی آگے بڑھ جانا بھی سنت سے ہٹ جانے ہی کی ایک شکل ہے ۔ سنت سے تجاوز کرنے والے کا اقدام ظاہر کرتا ہے کہ اس کے خیال میں (نعوذباللہ ) سنتِ رسول ﷺ ناقص ہے اور اس میں اضافے کی ضرورت ہے ! ایسا کرنے والوں کے لئے درج ذیل واقعہ انتہائی سبق آموز ہے :
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ أَنَّهُ سَمِعَ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يَقُولُ جَاءَ ثَلَاثَةُ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ وَقَالَ آخَرُ أَنَا أَصُومُ الدَّهْرَ وَلَا أُفْطِرُ وَقَالَ آخَرُ أَنَا أَعْتَزِلُ النِّسَاءَ فَلَا أَتَزَوَّجُ أَبَدًا فَجَاءَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَيْهِمْ فَقَالَ أَنْتُمْ الَّذِينَ قُلْتُمْ كَذَا وَكَذَا أَمَا وَاللَّهِ إِنِّي لَأَخْشَاكُمْ لِلَّهِ وَأَتْقَاكُمْ لَهُ لَكِنِّي أَصُومُ وَأُفْطِرُ وَأُصَلِّي وَأَرْقُدُ وَأَتَزَوَّجُ النِّسَاءَ ٭فَمَنْ رَغِبَ عَنْ سُنَّتِي فَلَيْسَ مِنِّي
( البخاري: كِتَابُ النِّكَاحِ (بَابُ التَّرْغِيبِ فِي النِّكَاحِ)
” انسؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ کی ازواج کے پاس تین آدمی آئے اور نبی ﷺ کی عبادت کے متعلق پوچھا ۔ ان کو اس کی خبر دی گئی ۔ انہوں نے اسکو کم جانا اور کہنے لگے : ہماری نبی ﷺ کے ساتھ کیا نسبت ؟ اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کی اگلی پچھلی لغزشیں معاف فرمادی ہیں ۔ ایک آدمی نے کہا کہ میں ہمیشہ ساری رات صلوٰۃ پڑھا کروں گا ۔ دوسرے نے کہا کہ میں ہمیشہ دن کو صوم رکھوں گا اور ناغہ نہ کروں گا ۔ تیسرے آدمی نے کہا کہ میں عورتوں سے الگ رہوں گا اور کبھی نکاح نہ کروں گا ۔ نبی ﷺ کو جب یہ بات معلوم ہوئی تو آپ ﷺ اُن سے پوچھا کہ تم نے ایسی ایسی باتیں کہی ہیں ؟ خبردار ! اللہ کی قسم میں تمہاری نسبت اللہ سے بہت ڈرتا ہوں اور تم سب سے زیادہ متقی ہوں ، لیکن میں رات کو صلوٰۃ بھی پڑ ھتا ہوں اور سوتا بھی ہوں ، صوم بھی رکھتا ہوں اور ناغہ بھی کرتا ہوں ، اور عورتوں سے نکاح بھی کیے ہیں ۔ جس نے میرے طریقے سے منہ موڑا وہ مجھ سے نہیں ‘‘۔
ہمیشہ رات بھر عبادت کرنا یا ہمیشہ صوم رکھنا بظاہر کوئی برُا کام نہیں ہے ، لیکن چونکہ یہ نبی ﷺ کی سنت نہیں بلکہ سنت سے تجاوز ہے ، اس لئے نبی ﷺ نے ایسا کرنے والے کے متعلق فرمایا کہ ” فَلَیْسَ مِنِّی” یعنی اسکا مجھ سے کوئی تعلق نہیں ۔اسطرح اللہ کے نبی ﷺ نے ایساکرنے والوں سے بیزاری کا اظہار فرمایا ۔
اس تمہید کا مقصد یہ ہے کہ نبی ﷺ کی سنت سے محبت ہی نبیﷺ سے محبت ہے۔اب دیکھنا یہ کہ آج جس طرح نبی سے محبت کا اظہار کیا جاتا ہے اور پھر اسی پر اصرار بھی کیا جاتا ہے ، اس کا ثبوت کہیں سنت میں بھی ملتا ہے یا نہیں ۔ ہمارے پاس اللہ کی آخری کتاب محفوظ شکل میں موجود ہے اور نبی ﷺ کی سنت احادیث ِ صحیحہ کی صورت میں ۔ ان دونوں کا مطالعہ کر لیا جائے، کوئی ایک آیت یا کوئی ایک صحیح حدیث بھی ایسی نہ ملے گی جو مروجہ عید میلا د النبی ﷺ منانے کے لئے دلیل بن سکے ۔ مل بھی کیسے سکتی ہے کیونکہ اگر قرآن و سنت میں ایسی کوئی دلیل ملتی تو سب سے پہلے صحابہ اکرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم یہ ” عید ” مناتے کیونکہ وہ آج کے ان نام نہاد عاشقان ِ رسول سے کہیں زیادہ صحیح معنوں میں نبی ﷺ سے محبت کرنے والے تھے ۔ وہ تو زندگی بھر دو ہی عیدیں مناتے رہے ۔ ایسی صورتحال میں نبی ﷺ کی ولادت کے حوالے سے اس دن عید منانے ، جلوس نکالنے ، گلیاں اور عمارتیں قمقموں سے سجانے ، مصنوعی آرائشی محرابیں بنانے ، خانہ کعبہ اور مسجد نبوی کے گتے اور کاغذ کے تعزیوں کی طرح ماڈل بناکر انکا طواف کرنے ، مٹھائیاں اور حلوے تقسیم کرنے کی کیا دینی حیثیت رہ جاتی ہے اور ان سب کو کس درجے میں ” حُبِ رسول ﷺ ” قرار دیا جا سکتا ہے کہ جو کام نبی ﷺ کی سنت نہیں وہی محبت رسول ﷺ کا معیار بن جائے ؟ یہ سب کچھ سنت سے انحراف اور تجاوز ہے جو کسی بھی صورت میں پسندیدہ نہیں ۔ دین نام ہی قرآن و سنت کا ہے ۔دین کی حدود سے آگے بڑھنا نری گمراہی و ضلالت ہے ۔ اس بات کو سمجھنے کے لئے نہ تو عقل و خرد کے بلند معیار کی ضرورت ہے اور نہ ہی آگہی و معرفت کے کوئی خاص علوم درکار ہیں ۔ عمر بن عبد العزیز رحمتہ اللہ علیہ نے ایک شخص کو جس نے ان سے تقدیر کے متعلق سوال کیا تھا یہی جواب دیا تھا کہ ” میں تجھے اللہ سے ڈرنے اور اس کے حکم پر چلنے کی وصیت کرتا ہوں اور نبی ﷺ کی سنت پر چلنے کی بھی تاکید کرتا ہوں ۔جو باتیں بدعتیوں نے نکالی ہیں انہیں چھوڑ دو ۔انہوں نے یہ باتیں اس وقت نکالیں جبکہ رسول اللہ ﷺ کی سنت جاری ہو چکی تھی اور یہ لوگ یہ باتیں ایجاد کرنے کا کوئی حق نہیں رکھتے تھے ۔ تو سنت پر عمل لازم ہے کہ اس سے تم گمراہی سے بچو گے ۔۔۔۔ تم اپنے لئے وہی راستہ اختیار کرو جسے اصحاب ِ رسول نے اختیار کیا تھا ۔ وہ بڑی فضیلت والے اور دور رس نگاہ والے تھے ، اور جن کاموں سے انہوں نے منع کیا تو درست ہی منع کیا ، کیوں کہ وہ دین کو ہم سے زیادہ سمجھنے والے تھے ۔ آج جو لوگوں نے بدعتیں نکال رکھی ہیں یہی اگر ہدایت کا راستہ ہے تو اس کا مطلب یہ کہ یہ لوگ دین کے معاملے میں صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم سے بھی آگے بڑھے ہوئے ہیں ۔۔۔۔۔” (سنن ابی داؤد : کتاب السنتہ ، باب فی لزوم السنتہ )
دیکھئے عمر ثانی رحمتہ اللہ علیہ نے کتنی شدت سے نبی علیہ السلام اور صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کے راستے کو چھوڑ کر بدعت کی روش اپنانے والوں کو تنبیہ فرمائی ہے۔ قرآن نے بھی اس کی شدید مذمت کی ہے :
﴿وَمَن يُشَاقِقِ ٱلرَّسُولَ مِنۢ بَعۡدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُ ٱلۡهُدَىٰ وَيَتَّبِعۡ غَيۡرَ سَبِيلِ ٱلۡمُؤۡمِنِينَ نُوَلِّهِۦ مَا تَوَلَّىٰ وَنُصۡلِهِۦ جَهَنَّمَۖ وَسَآءَتۡ مَصِيرًا﴾ [النساء: 115]
” اور جو شخص ہدایت واضح ہونے کے بعد رسول کی مخالفت کرے اور مومنوں کے راستہ کے سوا کسی اورراستے پر چلے تو جدھر وہ چلتا ہے ہم اسے ادھر ہی چلنے دیتے گے اور ( قیامت کے دن ) جہنم میں داخل کر دیں گے ، اور وہ بر ی جگہ ہے۔”
مندرجہ بالا آیت میں یہ واضح کر دیا گیا کہ نبی ﷺ کی تعلیمات کی مخالفت کرنے اور مومنین ( یعنی صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم ) کے راستے کو چھوڑ کر کوئی دوسرا راستہ اخیتا ر کرنے کا انجام جہنم ہے۔ آج موجودہ معاشرے میں کفر و الحاد کا بھی زور ہےاور بدعات و خرافات کا بھی دور دورہ ہے ۔ دین اپنی خالص اور اصلی صورت میں قرآن و حدیث کی حد تک رہ گیا ہے ۔عملاً تو دین کی خود ساختہ صورت ہی ہر طرف رائج ہے۔ دن بہ دن نئی نئی بدعات دین کے نام سے رائج ہوتی جارہی ہیں ۔ عید میلاد النبی ﷺ کے نام سے نئی عیدبھی ان ہی خود ساختہ بدعات میں سے ایک ہے ۔ اسے رائج کرنے میں ہمارے یہاں کے نام نہاد علماء کا بڑا عمل دخل ہے کیونکہ اس کا سب سے زیادہ فائدہ انہی کو ہوتا ہے۔ یہ فن ِ دینداری کے ماہر اور علمی موشگا فیوں سے آراستہ ہوتے ہیں ۔ اس لئے ان بدعات کو جائز ثابت کرنے کے لئے آئے دن کوئی نہ کوئی شوشہ چھوڑتے رہتے ہیں ۔ اس نو ایجاد کردہ ” عید میلاد النبی ﷺ ” کو ثابت کرنے کے لئے ان لوگوں نے چند عجیب و غریب قسم کے دلائل بھی تراش لئے ہیں ۔ اگلی سطور میں انہیں بیان کرکے قرآن و حدیث کی روشنی میں انکا جائز ہ لیا گیا ہے ۔
جشن ِ میلا د منانے کے لئے سورۃ یونس کی آیت 57 پیش کی جاتی ہے ۔ آیت اور ترجمہ ملاخطہ فرمائیں :
﴿يٰٓاَيُّھَا النَّاسُ قَدْ جَاۗءَتْكُمْ مَّوْعِظَةٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَشِفَاۗءٌ لِّمَا فِي الصُّدُوْرِ ڏ وَهُدًى وَّرَحْمَةٌ لِّلْمُؤْمِنِيْنَ﴾
[يونس: 57]
” آپ فرما دیں کہ ( قرآن کا نزول) اللہ کے فضل اور اس کی رحمت سے ہے تو اس پر اُنہیں خوش ہونا چا ہیے ۔ یہ ان چیزوں سے کہیں بہتر ہے جو وہ جمع کر رہے ہیں ۔”
یہ آیت پیش کر کے کہا جاتا ہے کہ نزولِ قرآن پرخوشی منانے کا حکم دیا گیا ہے ، اور قرآن کا نازل ہونا ، نصیحت ، شفا ، ہدایت و رحمت سب کچھ نبی ﷺ کی پیدائش اور تشریف آوری پر موقوف ہے اور قرآن سے بڑی رحمت و نعمت تو خود نبی ﷺ کی ذاتِ گرامی ہے ، لہٰذ ا نبی ﷺ کی ذات مقدسہ کے ظہور پر جتنی بھی خوشی منائی جائے کم ہے ۔
ان حضرات کی بیشتر بدعات کا یہی حال ہے کہ جس آیت کو دلیل میں پیش کرتے ہیں اس میں اس چیز کا کوئی ذکر ہی نہیں ہوتا جسے یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ سورۃ یونس کی درج بالا آیت میں اللہ کی رحمت پر خوش ہونے کا حکم ہے ، اس سے ” عید میلا د” منانے کا جواز کیسے نکل آیا ؟ کیا اس آیت سے رسول اللہ ﷺ نے جن پر یہ آیت نازل ہوئی ، یہ سمجھا کہ عید میلاد منانی چاہیے ؟ صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے یہ سمجھا کہ ا س آیت سے عید میلاد منانا ثابت ہو رہا ہے ؟ یا پھر صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم کے شاگرد تابعین اور ان کے بعد تبع تابعین نے اس آیت سے عید میلاد کا جواز نکالا ؟ تو جس آیت میں اللہ کے نبی ﷺ کو عید میلا د نظر نہیں آئی ، صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کو نظر نہیں آئی ، تابعین و تبع تابعین اور محدثین کو نظر نہیں آئی ، آج کئی صدیوں کے بعد اس آیت سے عید میلادکا جواز کیسے نکل آیا ؟ پھر یہ کہ بلا شبہ نزول ِ قرآن پر ہر مومن کو خوشی ہونی چاہیے کہ یہ اللہ کی طرف سے ہدایت و رحمت کا ذریعہ ہے ، اور ظاہر ہے کہ صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم کو ہم سے زیادہ خوشی تھی جنہوں نے اس سے پورا فائدہ حاصل کیا ، مگر انہوں نے خوشی کا اظہار چراغاں کرکے یا جلسے جلوس کرکے نہیں بلکہ اس پر عمل کر کے کیا ۔یہ نہیں کہ قرآن کے نزول کی خوشی میں گلی کوچوں کو سجائیں ، گھروں اور عمارتوں پر چراغاں کریں ، لیکن عملی طور پر قرآن کی تعلیم سے دور ہٹے ہوئے ہوں ! کیا خوشی منانے کے یہ طریقے جو آج رائج ہیں نبی ﷺ اور صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم سے بھی ثابت ہیں ؟ ایسا نہ کرنے والے کو یہ کہا جاتا ہے کہ اسے نبی ﷺ سے محبت نہیں ہے ! صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کی زندگیاں تو ایسی نام نہاد محبت سے قطعا ًخالی ملیں گی ۔ پھر یہ کہنا کہ قرآن کا نزول نبی ﷺ کی بدولت ہے ، دین کی روح سے ناوقفیت کی بات ہے ۔ اللہ تعالیٰ کا دین کسی کا محتاج نہیں ۔ اللہ اپنے دین کا کام جس انسان سے لیتا ہے اس میں اس کا کوئی کمال نہیں ۔ یہ تو اللہ کی عطا اور انعام ہے کہ اللہ کسی بندے سے اپنے دین کا کام لے۔اللہ تعالیٰ نے نبی ﷺ کو منصبِ رسالت کے لئے منتخب کیا تو یہ آپ ﷺ پر اللہ تعالیٰ کا انعام تھا جس کے لئے نبی ﷺ ہمیشہ شکر گزار رہے اور کبھی اس کو اپنا ذاتی کمال بتا کر فخر نہ کیا ۔ جشن ِ میلا د منانے والے کہتے ہیں کہ اللہ نے اپنی نعمتوں کو بیان کرنے کا حکم دیاہے :
﴿وَأَمَّا بِنِعۡمَةِ رَبِّكَ فَحَدِّثۡ﴾ [الضحى: 11]
” اپنے رب کی نعمت کو بیان کرو۔”
اور نبی ﷺ اللہ کی سب سے بڑی نعمت ہیں لہٰذااس دن عید منانا اور اللہ کی اس نعمت کا تذکرہ کرنا جائز ہے ۔ بلا شبہ نبی ﷺ اللہ کی عظیم نعمت ہیں لیکن اس سے عید میلاد منانے کا ثبوت کیسے نکل آیا ؟ اگر محض نعمت ہونے سے عید کا جواز مل جاتا ہے تو پھر تو بے شمار عیدیں منانی چاہیئں کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :
﴿۔ ۔ ۔ وَإِن تَعُدُّواْ نِعۡمَتَ ٱللَّهِ لَا تُحۡصُوهَآۗ ۔ ۔ ۔٣٤﴾ [إبراهيم: 34]
” اگر تم اللہ کی نعمتوں کا شمار کرنا چاہوتو انہیں گن نہ سکو گے۔”
اللہ کی نعمتیں بے شمار ہیں ، کہاں تک عید یں منائی جائیں گی ؟ اگر یہ کہا جائے کہ فلاں نعمت پر عید منائی جائے اور فلاں پر نہیں تو اس کی کیا دلیل ہو گی ؟ پھر یہ کہ صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم بھی جانتے تھے کہ اللہ کے نبی ﷺ عظیم نعمت ہیں ۔ کیا وجہ ہے کہ انہوں نے یہ عید نہیں منائی ۔ وہ جانتے تھے کہ اسلام میں شخصیت پرستی کی کوئی حیثیت نہیں اس لئے نہ نبی ﷺ نے اپنی پیدائش کا دن کبھی منایا اور نہ ہی صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے ۔ یہ تو عیسائیوں کا طریقہ ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش کے حوالے سے کرسمس مناتے ہیں اور اس دن کو ” بڑا دن ” کہتے ہیں ۔ اسی طرح ہندو بھی اپنے دیوتا کرشن جی کا جنم دن مناتے ہیں جسے ” جنم اشٹمی ” کہتے ہیں ۔ رسول اللہ ﷺ کی حدیث کے مطابق مَنْ تَشَبَّهَ بِقَوْمٍ فَهُوَ مِنْهُمْ ( سنن ابی داؤد : کتاب اللباس ) ” جو کسی قوم کی مشابہت اختیار کر ے گا وہ انہی میں شمار کیا جائے گا ۔” لہٰذا ان تمام بدعتوں سے پرہیز لازمی ہے۔
اس دن عید منانے کے جواز کے لئے یہ لوگ اللہ کے دشمن ابولہب کے طرز عمل سے بھی استدلال کرتے ہیں ۔ بخاری کتاب النکاح کے حوالے سے بتاتے ہیں کہ ابو لہب کے مرنے کے بعد اس کےبعض گھر والوں نے اسے خواب میں برے حال میں دیکھا اور اس سے اس کا حال پوچھا ۔ ابو لہب نے کہا کہ مرنے کے بعدمیں نے کوئی راحت نہ پائی سوائے اس کے کہ تھوڑاسا سیراب کیا جاتا ہوں ، اس لئے کہ میں نے ثوبیہ کو آزاد کیا تھا ۔ کہتے ہیں کہ ابو لہب کو جب اس کی باندی ثوبیہ نے نبی ﷺ کی ولادت کی خبر دی تو اس نے اس خوشی میں ثوبیہ کو آزاد کر دیا تھا ، تو جب کافر ابولہب کو نبی ﷺ کی ولادت کی خوشی منانے کا فائدہ ہو سکتا ہے تو ہمیں کیوں نہ ہوگا ۔
افسوس کہ ان حضرات کو عیدمیلاد منانے کی کوئی دلیل نہ تو نبی ﷺ سے ملی نہ صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم سے بلکہ اس اللہ کے دشمن ابولہب سے ملی جس کا ذکر قرآن میں یوں ہے کہ تَبَّتْ يَدَآ اَبِيْ لَهَبٍ وَّتَبَّ ۭ ( سورہ لہب :1) ” ٹوٹ گئے ابو لہب کے ہاتھ دونوں اور وہ برباد ہو گیا ۔” حالانکہ اس نے تو محمد ﷺ کی پیدائش پر ایک رشتے دار کی حیثیت سے خوش ہو کر اپنی باندی ثوبیہ کو آزاد کیا تھا ۔اس کے وہم گمان میں بھی نہ تھا کہ اس کے فوت شدہ بھائی کا یہ بیٹا بڑا ہو کر نبی بنے گا اور اس کے باطل معبووں کو جھٹلائے گا ورنہ وہ تو بھتیجےکی پیدائش کی خوشی منانے کی بجائے اس کے برعکس کوئی طرزِ عمل اختیار کرتا۔ابولہب کے عمل سے استدلال کیسے کیا جاسکتا ہے ، وہ تو کوئی مسلمان نہیں بلکہ نبی ﷺ کا دشمن اور بدترین کافر تھا جس کی مذمت میں قرآن نازل ہوا ! نبی ﷺ اور صحابہ کرام ر ضی اللہ تعالیٰ عنہم نے تو کسی کی پیدائش کے لحاظ سے کبھی کوئی دن نہیں منایا ۔ تو پھر اب سنت ِ رسول ﷺ اور طریقئہ صحابہ کو چھوڑ کر ابولہب کا عمل کیوں اختیار کیا جار ہا ہے ؟
کیسی ستم ظریفی ہے کہ رسول اللہ ﷺ اور صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کے اسوہ حسنہ پر ابولہب کے اسوہ کو ترجیح دی جارہی ہے ! رہی بات اس کے مرنے کے بعد اسے خواب میں دیکھے جانے کی تو یہ نہ تو قرآن کی آیت ہے اور نہ کوئی حدیث ِ رسول ﷺ ، یہ تو محض ایک خواب ہے جس کی زبان ِ نبوت یا صحابہ رضی اللہ تعالی ٰ عنہم سے کوئی تصدیق وارد نہیں ۔ بھلا خواب دین میں کب حجت ہو ا کرتے ہیں ؟ بلاشبہ انبیاء علیہم السلام کے خواب سچے ہوتے ہیں ، لیکن عام طور سے غیر نبی کے خواب عجیب و غریب ہی ہوا کرتے ہیں اور یہ خواب تو حد درجہ عجیب و غریب ہے کہ جس میں عالم ِ برزخ کا عالم ِ دنیا سے رابطہ بیان کیا گیا ہے اور مرنے والا عالم ِ برزخ کی کیفیت بیان کررہا ہے۔قرآن و حدیث کی کسوٹی پر تو یہ اور اس قسم کے دوسر ے خواب سراسر باطل قرار پاتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے تو عالم دنیا اور عالم ِ برزخ کے درمیان قیامت تک کے لئے ایک آڑ رکھی ہے۔ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں سے لطف اندوز ہونے والے شہداء احد شدید خواہش کے باوجود اپنا پیغام دنیا والوں تک نہ پہنچا سکے جیسا کہ احادیث میں بیان کیا گیا ہے ، البتہ اللہ تعالیٰ نے سورۃ آل عمران کی یہ آیت نازل فرما کر دنیا والوں کو ان کے حال سے باخبرکیا :
﴿وَلَا تَحۡسَبَنَّ ٱلَّذِينَ قُتِلُواْ فِي سَبِيلِ ٱللَّهِ أَمۡوَٰتَۢاۚ بَلۡ أَحۡيَآءٌ عِندَ رَبِّهِمۡ يُرۡزَقُونَ﴾ [آل عمران: 169]
” جو اللہ کی راہ میں قتل کئےجائیں انہیں مردہ نہ سمجھو ، وہ اپنے رب کے پاس زندہ ہیں اور رزق دئے جاتے ہیں ۔”
اللہ تعالیٰ ایک اور جگہ شہید کی تمنا ان الفاظ میں بیان فرماتا ہے :
﴿قِيلَ ٱدۡخُلِ ٱلۡجَنَّةَۖ قَالَ يَٰلَيۡتَ قَوۡمِي يَعۡلَمُونَ بِمَا غَفَرَ لِي رَبِّي وَجَعَلَنِي مِنَ ٱلۡمُكۡرَمِينَ﴾ [يس: 26-27]
” کاش میری قوم کو معلوم ہو کہ میرے رب نے مجھے معاف فرما دیا اور مجھے عزت والوں میں شامل کر دیا ۔”
اللہ کی راہ میں جان دینے والے شہید تو خود کسی کو اپنے حال کی خبر نہ دے سکیں اوروہ اس کی تمنا ہی کرتے رہیں جبکہ اللہ کا دشمن ابو لہب خواب میں لوگوں سے اپنا حال بیان کر تا پھرے ! کیسی عجیب اور بے سروپا بات ہے ! اب جس کا دل چاہے وہ قرآن و حدیث کو مان لےکہ ایسا ہونا ناممکن ہے اور جس کا دل چاہے وہ خوابوں پر ایمان لے آئے ۔
جشن ِ میلاد برپا کرنے والوں کی اس بدعت کے جواز میں ایک دلیل ملاحظہ فرمائیے کہ نبی ﷺ سے پیر کے د ن صوم رکھنے کے متعلق سوال کیا گیا تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ اسی دن اللہ تعالیٰ نے مجھ پر وحی نازل فرمائی اور اسی دن میں پیدا ہوا ۔ ( صحیح مسلم : کتاب الصوم ) حدیث میں تو اس دن صوم رکھنے کا ہی ذکر ہے ، کوئی اور خاص کام تو ثابت نہیں ، لیکن یہ فرماتے ہیں کہ جب نبی ﷺ نے اپنی ولادت کا دن منایا تو ہم کیوں نہ منائیں ؟ حالانکہ جو کچھ آج بدعات و خرافات پھیلا دی گئی ہیں ان کا کوئی اشارہ تک بھی اس حدیث میں نہیں پایا جاتا ۔ اللہ کے نبی ﷺ تو پیر اور جمعرات کو صوم رکھتے تھے اور فرماتے تھے کہ کہ ان دنوں میں اللہ کی بارگاہ میں اعمال پیش ہوتے ہیں اور میں پسند کرتا ہوں کہ جب میرے اعمال بارگاہِ الہی میں پیش ہوں تو میں صائم ہوں ۔ ( جامع ترمذی : ابواب الصوم ) ۔
جشن میلاد برپا کرنے والے اگر واقعی نبیﷺ سے محبت کرتے ہیں تو سنت پر عمل کریں کہ ہر پیر اور جمعرات کو صوم رکھا کریں ، نبی ﷺ کی سنت کے بجائے ہندوؤ ں کی جنم اشٹمی اور عیسائیوں کے کرسمس کی طرح سال میں ایک دن جلسے جلوس ، بڑے بڑے لاؤڈ سپیکر وں پر دن رات شور شرابہ کر کے غیر مسلموں کی تقلید کرنا آخر نبی ﷺ سے محبت کا کون سا انداز ہے جس پر یہ عمل پیرا ہیں ! اللہ کے رسول ﷺ تو شکر گزار ی کا اظہار صوم رکھ کر کریں اور یہ نام نہاد عاشق ِ رسول اس کے برعکس لنگر بازی کریں ! آج جو کچھ نبی ﷺ کی پیدائش کی خوشی میں کیا جاتا ہے وہ اسلام نہیں ، نہ اللہ کے نبی ﷺ نے اس کا حکم دیا اور نہ صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے اللہ کے نبی ﷺ سے بہت زیادہ محبت رکھنے کے باوجود کبھی ایسا کیا ۔ ایمان والوں کے لئے صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کا طرز ِ عمل نمونہ ہے اور ان کا ایمان معیار ۔ ہمارے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ انہوں نے یہ سب کچھ نہیں کیا۔
روزِ روشن کی طرح عیاں اس حقیقت سے چشم پوشی کرتے ہوئے مجوزین ِ میلاد اپنے ہر فعل کو ثابت شدہ قرار دیتے ہیں ۔ یہاں تک کہ جشن ِ میلاد کے خود ساختہ موقعے پر جھنڈ ا لگانے تک کوثابت شدہ امر کہا جاتا ہے اور جھنڈے والوں میں جبر یل علیہ السلام کا نام پیش بھی کیا کرتے ہیں اور ثبوت میں بجائے قرآن و حدیث کے اپنے ہی جیسے لوگوں کی کتابوں کے حوالے پیش کرتے ہیں یا پھر احادیث کے نام سے لکھی جانے والی کتابیں جن میں من گھڑت اور ضعیف روایات ہی پائی جاتی ہیں ، جبکہ کوئی صحیح حدیث تو ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتی۔
سب سے پہلے تو یہ ثابت ہو نا چاہیے کہ 12 ربیع الاول نبی ﷺ کا یوم پیدائش ہے بھی یا نہیں ۔ کسی بھی صحیح حدیث میں اس کا وجود نہیں ملتا البتہ کچھ روایا ت میں 8 ، 9 یا 14 ربیع الاول کا ذکر ہے ۔ اس کے برعکس 12 ربیع لاول واضح طور پر نبی ﷺ کی وفات کا دن ہے ۔ اس دن مومنین کا خوشی منانا ؟؟؟؟؟؟ استغفر اللہ ۔ احادیث سے تو پتہ چلتا ہے کہ سارے صحابہ کرام رضی اللہ تعالی ٰ عنہم رو رہے تھے ، ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے خطبہ دیا :
” سن لو تم میں جو کوئی محمد ﷺ کی بندگی کرتا تھا محمد ﷺ کی وفات ہوگئی ۔ اور جو کوئی اللہ کی بندگی کرتا ہے تو بے شک اللہ تعالیٰ حئ ( زندہ جاوید ) ہے جس کو کبھی موت نہیں آنی ، اور اللہ کا ارشاد ہے کہ ” محمد (ﷺ) محض ایک رسول ہیں ، ان سے پہلے بھی بہت رسول گذرے ہیں ، اگر یہ وفات پا جائیں یا شہید کرد ئیے جائیں تو کیا تم الٹے پھر جاؤ گے ، اور جو کوئی الٹے پاؤں پھر گیا تو وہ اللہ کو کچھ نقصان نہیں پہنچا سکتا اور اللہ اپنے شکر گزار بندوں کو ضرور جزا دے گا۔” یہ سن کر لوگ بے اختیار رونے لگے ۔” ( بخاری : کتاب الا نبیاء )
ایک اور روایت میں عبد بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما فرماتے ہیں :
” جب ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ آیت تلاوت فرمائی تو ایسا معلوم ہو تا تھا کہ کسی کو اس آیت کی خبر ہی نہیں تھی پھر جسے دیکھو یہی آیت پڑھ رہا تھا” ( زہری کہتے ہیں سعید بن مسیب )نے کہا کہ عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ واللہ جس دم میں نے ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو یہ آیت تلاوت کرتے ہوئے سنا میں گھٹنوں کے بل گر پڑا ، اور ایسا بے دم ہوا کہ میرے پاؤں مجھے سہارا نہ دے سکے یہاں تک کہ میں زمین کی طرف جھک پڑا جس وقت مجھے یقین ہو گیا کہ اللہ کے نبی ﷺ وفات پا گئے ہیں ۔”
( بخاری : کتاب المغازی ، باب مرض النبی ﷺ و وفاتہ)
تو اس دن تو ہر ایمان والا افسردہ تھا اور کیوں نہ ہوتا اس امت کا نبی ، ایک عظیم شخصیت ، ان سے محبت کرنے والا ، ان کو جہنم کی آگ سے بچانے کی کوشش کرنے والا اور ان کے لیے دعائیں کرنے والا آج ان کو چھوڑ کر اس دنیا سےچلا گیا تھا۔ کیا یہ ممکن ہے کہ آئندہ سال 12 ربیع الاول کو کوئی صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہم ” عید” ” خوشی ” مناسکتا تھا ۔ خوشیاں ضرور منائی گئی ہوں گی لیکن ان کے گھروں میں جو محمد ﷺ سے نفرت کرتے تھے ، جو ان کے لائے ہوئے دین کے دشمن تھے ! وہ یقینا ً خوشیاں منا رہے ہو ں گے ۔ آج 12 ربیع الاول کو ” عید ” منا کر کس کی پیروی کی جارہی ہے ؟ غورو فکر کا مقام ہے !
اللہ کے نبی ﷺ نے دو عیدیں بتائی تھیں ، عید الفطر اور عید الاضحی ( ابو داؤ / نسائی )۔ اللہ کے نبی ﷺ کی بتائی ہوئی عیدوں کو نا کافی سمجھ کر یہ تیسری عید ( عید میلادالنبی ﷺ کے نام سے ) ایجاد کی گئی ہے اور پھر اسے عیدوں کی عید قرار دے کر یہ شعر پڑھا جاتا ہے کہ
؎ نثار تیری چہل پہل پر ہزار عیدیں اے ربیع الاول
جہاں میں ابلیس کے سوا سبھی تو خوشیاں منا رہے ہیں
یعنی نبی ﷺ اور صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم زندگی بھر دو عید یں مناتے رہے ، ایسی ہزاروں عیدیں ان کی اپنی ایجاد کردہ عید پر نثار اور قربان کی جاسکتی ہیں ! غور کرنے کا مقام ہے کہ حب ِ رسول ﷺ کا دم بھرنے والے نبی ﷺ کے حکم کا کیسا مذاق اڑارہے ہیں ! جب انہیں سمجھایا جاتاہے کہ اسلام میں تو صرف دو عیدیں ہیں تو بجائے اصلاح کے حیل و حجت سے کام لیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اسلام میں دو نہیں اور بھی عیدیں ہیں کیونکہ عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ آیت تکمیل ِ دین
﴿۔ ۔ ٱلۡيَوۡمَ أَكۡمَلۡتُ لَكُمۡ دِينَكُمۡ وَأَتۡمَمۡتُ عَلَيۡكُمۡ نِعۡمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ ٱلۡإِسۡلَٰمَ دِينٗاۚ ۔ ۔﴾ [المائدة: 3]
” آج میں نے تمہارے لئے تمہارا دین مکمل کر دیا ، تم پر اپنی نعمت تمام کر دی اور تمہارے لئے دین ِ اسلام پر راضی ہو گیا ۔”
کے متعلق فرمایا کہ یہ دو عیدیں یعنی جمعہ و عرفہ والے دن نازل ہوئی ( مشکوٰۃ : باب الجمعہ )۔ چنانچہ فرماتے ہیں کہ عید صرف عید الفطر اور عید الا ضحی ہی نہیں بلکہ مسلمین کے لئے ہر جمعہ عید ہونے کی وجہ سے ہر ہفتے عید ہوتی ہے ۔ یوم ِ جمعہ کو بعض احادیث میں عید کہا گیا ہے ( اس کی تفصیل آگے
آ رہی ہے )لیکن کیا نبی ﷺ کے یوم ِ ولادت کو بھی کسی حدیث میں عید کہا گیا ہے ؟ اگر نہیں اور قطعا نہیں تو جمعہ کو عید کہنے سے یوم ِ میلاد عید کیسے ثابت ہو جائے گا ؟ دعوے اور دلیل میں مطابقت تو ہونی چاہئے۔ دوسرا یہ کہ جمعہ عید قرار دیا ہے تو اس دن غسل کرنے ، خوشبولگانے ، مسواک کرنے اور صلوٰۃ ِ جمعہ ہی ادا کرنے کا حکم دیا ہے نہ کہ جلوس نکالنے ، عمارتیں و گلیاں سجانے اور ” لنگر شریف ” لٹانے کا۔ پھر یہ کہ جمعہ کے دن لوگ اپنے کاروبار بھی کرتے ہیں ۔ عیدین کی طرح نہ تو عام چھٹی ہوتی ہے اور نہ ہی اس کو بطور تہوار منایا جاتا ہے۔ جس طرح اس کا صاٖ ف مطلب ہے کہ احادیث میں عیدحکماً کہا گیا ہے ورنہ جمعہ عید الفطر و عید الا ضحی کی طرح حقیقتا عید نہیں ہے ، مثلا ً ڈوب کر مرنے والا ، طاعون سے مرنے والا ، وغیرہ ۔ جیسا کہ احادیث میں موجود ہے ، یہ سب شہدا ء حکما ً شہید ہیں یعنی اللہ تعالیٰ اپنے فضل و کرم سے انہیں بھی شہادت کے اجرو ثواب سے نواز دے گا ، لیکن جو اللہ کی راہ میں قتل کر دیا جائے تو اس کا مقام یقینا ًبہت زیادہ ہے۔اسی طرح سے یوم ِ جمعہ کو حکما ً عید کہا گیا ہے کہ یہ مسلمین کے لئے خصوصی عبادت کا دن ہے ۔ عرفہ کا دن بھی خصوصی عبادت کے حوالے سے حکما ً عید ہے ۔
یہ بھی ملحوظ رہے کہ اگر یوم ِ جمعہ حقیقی عید ہو تا تو اس دن صوم رکھنا قطعا نا جائز ہو تا کیونکہ عید کے دن صوم رکھنے کی احادیث میں واضح ممانعت واردہے جبکہ اگر کوئی مسلم ہر مہینے کچھ صوم مثلاً ایام ِ بیض وغیرہ کے رکھتا ہے اور ان میں جمعہ بھی آجاتا ہے تو وہ جمعہ کو بھی صوم رکھ سکتا ہے ۔ پھر یہ کہ اگر نبی ﷺ کا یوم ِ ولادت بھی عیدین کی طرح یوم ِ عید ہو تا تو اس دن بھی صوم رکھنا جائز نہ ہوتا حالانکہ نبی ﷺ خود سوموار کے دن صوم رکھا کرتے تھے جو نبی ﷺ کی پیدائش کا دن تھا ۔ صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے نبی ﷺ کی پیدائش کے دن کبھی جشن ِ میلاد برپا نہیں کیا ، نہ اس دن جلوس نکالے ، نہ کسی بھی سال اس دن کے حوالے سے مردانہ و زنانہ محافل ِ میلاد و نعت منعقد کیں ۔انہوں نے نبی ﷺ سے محبت کا اظہار آپ ﷺ کی کامل اطاعت کرکے کیا اور یہی سچی محبت ہے ۔ صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے تو اس کی اتنی اہمیت بھی نہ سمجھی کہ اس دن سے اسلامی کیلنڈر کا آغاز کرتے ! بلکہ انہوں نے تو اسلام کے لئے اپنے گھر بار چھوڑکر مدینہ ہجرت کرنے کے دن سے اسلامی سن کا آغاز کیا ۔ اسی لئے مسلمین کا سن ” سنِ ہجری ”کہلاتا ہے ۔
ان معروضات سے کسی کی دل آزاری مقصود نہیں بلکہ صرف یہ واضح کرنا ہے کہ ہم نبی ﷺ سے اظہار ِ محبت کے مروجہ طریقوں کو قرآن و حدیث کی کسوٹی پر پرکھیں اور پوری طرح صورتحال کا جائزہ لیکر اصلاح کی کوشش کریں ۔ یہ بات ذہن نشیں کر لی جائے کہ دنیا و آخرت کی فلاح و کامیابی کا دارومدارزبانی دعؤوں اور ہند و نصاری ٰ کی رسومات بجالانے پر نہیں بلکہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی مکمل اطاعت اور صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کے نقش ِ قدم کی پیروی ہی پر ہے ۔اللہ تعالیٰ حق کو سمجھنےاور اس کی اتباع کی توفیق عطا فرمائے۔