فہرست

صلٰوۃ التسبیح  سے متعلق  روایات کی حقیقت

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

پوسٹ 1

صلوٰۃ التسبیح سے متعلق جتنی بھی روایات ہیں ان میں سے کوئی ایک سند بھی ضعف سے خالی نہیں ، اس صلوٰۃ سے متعلق سب سے مضبوط سمجھی جانے والی سند ابن عباس کی ہے جس کو ابوداؤد نے نقل کیا ہے جس کے متعلق ابوداؤد کہتے ہیں کہ صلوٰۃ التسبیح سے متعلق یہ سب سے صحیح روایت ہے:

أَصَحُّ حَدِيثٌ فِي صَلَاةِ التَّسْبِيحِ (أمالي الأذكار في فضل صلاة التسبيح 1/13 )

أَبۡنُ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ

یہ روایت مع سند و متن ملاحظہ ہو :

پہلا طرق :

حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ بِشْرِ بْنِ الْحَكَمِ النَّيْسَابُورِيُّ، حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ، حَدَّثَنَا الْحَكَمُ بْنُ أَبَانَ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لِلْعَبَّاسِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ: ” يَا عَبَّاسُ، يَا عَمَّاهُ، أَلَا أُعْطِيكَ، أَلَا أَمْنَحُكَ، أَلَا أَحْبُوكَ، أَلَا أَفْعَلُ بِكَ عَشْرَ خِصَالٍ، إِذَا أَنْتَ فَعَلْتَ ذَلِكَ غَفَرَ اللَّهُ لَكَ ذَنْبَكَ أَوَّلَهُ وَآخِرَهُ، قَدِيمَهُ وَحَدِيثَهُ، خَطَأَهُ وَعَمْدَهُ، صَغِيرَهُ وَكَبِيرَهُ، سِرَّهُ وَعَلَانِيَتَهُ، عَشْرَ خِصَالٍ: أَنْ تُصَلِّيَ أَرْبَعَ رَكَعَاتٍ تَقْرَأُ فِي كُلِّ رَكْعَةٍ فَاتِحَةَ الْكِتَابِ وَسُورَةً، فَإِذَا فَرَغْتَ مِنَ الْقِرَاءَةِ فِي أَوَّلِ رَكْعَةٍ وَأَنْتَ قَائِمٌ، قُلْتَ: سُبْحَانَ اللَّهِ، وَالْحَمْدُ لِلَّهِ، وَلَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَاللَّهُ أَكْبَرُ، خَمْسَ عَشْرَةَ مَرَّةً، ثُمَّ تَرْكَعُ، فَتَقُولُهَا وَأَنْتَ رَاكِعٌ عَشْرًا، ثُمَّ تَرْفَعُ رَأْسَكَ مِنَ الرُّكُوعِ، فَتَقُولُهَا عَشْرًا، ثُمَّ تَهْوِي سَاجِدًا، فَتَقُولُهَا وَأَنْتَ سَاجِدٌ عَشْرًا، ثُمَّ تَرْفَعُ رَأْسَكَ مِنَ السُّجُودِ فَتَقُولُهَا عَشْرًا، ثُمَّ تَسْجُدُ، فَتَقُولُهَا عَشْرًا، ثُمَّ تَرْفَعُ رَأْسَكَ، فَتَقُولُهَا عَشْرًا، فَذَلِكَ خَمْسٌ وَسَبْعُونَ، فِي كُلِّ رَكْعَةٍ تَفْعَلُ ذَلِكَ فِي أَرْبَعِ رَكَعَاتٍ، إِنِ اسْتَطَعْتَ أَنْ تُصَلِّيَهَا فِي كُلِّ يَوْمٍ مَرَّةً فَافْعَلْ، فَإِنْ لَمْ تَفْعَلْ فَفِي كُلِّ جُمُعَةٍ مَرَّةً، فَإِنْ لَمْ تَفْعَلْ فَفِي كُلِّ شَهْرٍ مَرَّةً، فَإِنْ لَمْ تَفْعَلْ فَفِي كُلِّ سَنَةٍ مَرَّةً، فَإِنْ لَمْ تَفْعَلْ، فَفِي عُمُرِكَ مَرَّةً “،

(ابوداؤد کِتَابُ تَفْرِيعِ أَبْوَابِ التَّطَوُّعِ وَرَكَعَاتِ السُّنَّةِ بَابُ صَلَاةِ التَّسْبِيحِ ، سنن ابن ماجه 1387، القراءة خلف الامام 1/57 ، ابن خزیمه 2/ 223 ، والحاكم “1/318” والبيهقي في “السنن الكبرى” “3/51- 52” كتاب الصلاة: باب ما جاء في صلاة التسبيح والطبراني في “الكبير” “11/ 243- 244” رقم “11622” كلهم من طريق عبد الرحمن بن بشر به)

’’عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے عباس بن عبدالمطلب سے فرمایا: “اے عباس! اے میرے چچا! کیا میں آپ کو عطا نہ کروں؟ کیا میں آپ کو بھلائی نہ پہنچاؤں؟ کیا میں آپ کو نہ دوں؟ کیا میں آپ کو دس ایسی باتیں نہ بتاؤں جب آپ ان پر عمل کرنے لگیں تو اللہ تعالیٰ آپ کے اگلے پچھلے، نئے پرانے، جانے انجانے، چھوٹے بڑے، چھپے اور کھلے، سارے گناہ معاف کر دے گا، وہ دس باتی یہ ہیں: آپ چار رکعت صلاہ ادا کریں ، ہر رکعت میں سورۃ فاتحہ اور کوئی ایک سورۃ پڑھیں، جب پہلی رکعت کی قرآت کر لیں تو حالت قیام ہی میں پندرہ مرتبہ «سبحان الله، والحمد لله، ولا إله إلا الله، والله أكبر» کہیں، پھر رکوع کریں تو یہی کلمات حالت رکوع میں دس بار کہیں، پھر جب رکوع سے سر اٹھائیں تو یہی کلمات دس بار کہیں، پھر جب سجدہ میں جائیں تو حالت سجدہ میں دس بار یہی کلمات کہیں، پھر سجدے سے سر اٹھائیں تویہی کلمات دس بار کہیں، پھر (دوسرا) سجدہ کریں تو دس بار کہیں اور پھر جب (دوسرے) سجدے سے سر اٹھائیں تو دس بار کہیں، تو اس طرح یہ ہر رکعت میں پچہتر بار ہوا، یہ عمل آپ چاروں رکعتوں میں کریں، اگر پڑھ سکیں تو ہر روز ایک مرتبہ اسے پڑھیں، اور اگر روزانہ نہ پڑھ سکیں تو ہر جمعہ کو ایک بار پڑھ لیں، ایسا بھی نہ کر سکیں تو ہر مہینے میں ایک بار، یہ بھی ممکن نہ ہو تو سال میں ایک بار اور اگر یہ بھی ممکن نہ ہو تو پھر عمر بھر میں ایک بار پڑھ لیں”۔

اس روایت کے مرکزی راوی ” مُوسَى بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ ” ہیں جن سے متعلق محدثین کی آراء اور اپنی رائے ذہبی نے نقل کی ہے کہ ولم يذكره أحد في كتب الضعفاء أبدا، ولكن ما هو بالحجة.اگر چہ اس کا ذکر کسی نے کتاب الضعفاء میں نہیں کیا لیکن یہ راوی حجت نہیں یعنی اس کی روایت کو دلیل نہیں بنایا جا سکتا ، قال ابن معين: لا أرى به بأسا. وقال النسائي: ليس به بأس ابن معین اور نسائی کے مطابق اس میں کوئی برائی ، حرج نہیں وقال ابن حبان: ربما أخطأ. وقال أبو الفضل السليماني: منكر الحديث. وقال ابن المديني: ضعيف. ابن حبان کہتے ہیں کہ کبھی یہ خطا کرتا ہے ، سلیمانی نے اسے منکر الحدیث اور ابن المدینی نے ضعیف کہا ہے اور ذہبی کہتے ہیں کہ اس کی روایات منکرات میں سے ہیں اور یہ اور حکم بن ابان (جس سے یہ روایت بیان کر رہا ہے) میں ان دونوں کو ثبت نہیں سمجھتا

قلت: حديثه من المنكرات لاسيما والحكم بن أبان ليس أيضا بالثبت. (میزان الاعتدال 4/213)

اور تمام اقوال کا خلاصہ کرتے ہوئے ابن حجر لکھتے ہیں :

یہ صدوق (ثقاہت کا کم تر درجہ) ہے اور خراب حافظے والا ہے (تقریب التہذیب 6988)

پس موسیٰ بن عبد العزیز کے اندر ثقاہت کا وہ درجہ نہیں کہ اسکی اس منفرد روایت کو قبول کر لیا جائے جبکہ اس کی کوئی معتبر متابعت بھی نہیں ہے اور ابن خزیمہ اس مضبوط کہے جانے والی سند سے متعلق لکھتے ہیں کہ اگر إِنْ صَحَّ الْخَبَرُ فَإِنَّ فِي الْقَلْبِ مِنْ هَذَا الْإِسْنَادِ شَيْئًا (ابن خزیمه 2/223)یہ خبر (سند) صحیح ثابت ہو بھی جائے تب بھی اس کے متعلق دل میں کچھ (خلجان) رہ جاتا ہے :

مزید اس سند کے مرسل اور موصول ہونے میں اختلاف ہے۔

دوسرا طرق :

وَرَوَاهُ إِبْرَاهِيمُ بْنُ الْحَكَمِ بْنِ أَبَانَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عِكْرِمَةَ مُرْسَلًا لَمْ يَقُلْ فِيهِ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ. حَدَّثَنَاهُ مُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ، نا إِبْرَاهِيمُ بْنُ الْحَكَمِ (ابن خزیمه 2/223)

حکم بن ابان سے ہی اس کو ابراھیم بن حکم نے مرسل روایت کیا ہے اگرچہ یہ ابراھیم ضعیف ہے لیکن اس روایت کا مرسل ہونا ہی قرین صواب ہے

جیسا کہ امام بیہقی نے لکھا کہ :

وَالْمُرْسَلُ أَصَحُّ (شعب الایمان 4/462) “اس کا مرسل ہونا ہی زیادہ صحیح ہے”

اسی لئے امام اسحاق بن راھویہ نے اس سند سے توقف کر کے اس کو ابراھیم بن الحکم کے طریق سے موصولاً بیان کیا (المستدرک 1/463)

یا پھر اس اختلاف کی بناپر یہ سند مضطرب ہے ۔

تیسرا طرق :

حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ نَائِلَةَ، ثنا شَيْبَانُ، ثنا نَافِعٌ أَبُو هُرْمُزٍ، عَنْ عَطَاءٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِي اللهُ عَنْهُمَا، قَالَ: جَاءَ الْعَبَّاسُ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ (المعجم الکبیر للطبرانی 11/161)

اس کا راوی نَافِعٌ أَبُو هُرْمُزٍ شدید مجروح ہے اس پر کذاب اور متروک ، ذاھب الحدیث جیسی جروح ہیں۔(التَّكْميل في الجَرْح والتَّعْدِيل ومَعْرِفة الثِّقَات والضُّعفاء والمجَاهِيل 1/326)

چوتھا طرق :

حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ قَالَ: نا مُحْرِزُ بْنُ عَوْنٍ قَالَ: نا يَحْيَى بْنُ عُقْبَةَ بْنِ أَبِي الْعَيْزَارِ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ جُحَادَةَ، عَنْ أَبِي الْجَوْزَاءِ قَالَ: قَالَ لِي ابْنُ عَبَّاسٍ

(المعجم الاوسط للطبرانی 3/187)

اس کا راوی يَحْيَى بْنُ عُقْبَةَ بْنِ أَبِي الْعَيْزَارِ منکر الحدیث ہے (میزان الاعتدال 4/397)

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

صلٰوۃ التسبیح ۔ پوسٹ 2

            سابقہ پوسٹ میں ہم نے صلاۃ التسبیح کے چار طرق پر محدثین کے دلائل دئیے تھے کہ یہ روایات ضعیف ہیں۔ اب ہم مزید اسناد پر محدثین کے اقوال پیش کریں گے۔

طرق نمبر 5:

حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ قَالَ: نا هِشَامُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ أَبُو الْوَلِيدِ الْمَخْزُومِيُّ قَالَ: نا مُوسَى بْنُ جَعْفَرِ بْنِ أَبِي كَثِيرٍ، عَنْ عَبْدِ الْقُدُّوسِ بْنِ حَبِيبٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ (المعجم الاوسط 3/14)

ابن حجر لکھتے ہیں کہ اس کا راوی عَبْدِ الْقُدُّوسِ بْنِ حَبِيبٍ شدید ضعیف ہے اور بعض ائمہ نے اس کو کذاب تک کہا ہے۔

 (أمالي الأذكار في فضل صلاة التسبيح 1/24)

اس کے دوسرے راوی مُوسَى بْنُ جَعْفَرِ بْنِ أَبِي كَثِيرٍ کے متعلق ذہبی لکھتے ہیں :

میں اسے نہیں جانتا اور اسکی خبر ساقط ہے (میزان الاعتدال 4/201)

یہ تو تھی اس سلسلہ کی مضبوط ترین روایت اور اسکی حیثیت ، اب اس کی دوسری اسناد ملاحظہ ہوں ۔

أَبِي رَافِعٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ

ابن عباس کے علاوہ اس کو ابی رافع سے بھی منسوب کیا گیا ہے ملاحظہ ہو :

مُوسَى بْنُ عُبَيْدَةَ قَالَ: حَدَّثَنِي سَعِيدُ بْنُ أَبِي سَعِيدٍ، مَوْلَى أَبِي بَكْرِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ حَزْمٍ، عَنْ أَبِي رَافِعٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ

 (ترمذٰی أَبْوَابُ الوِتْرِ بَابُ مَا جَاءَ فِي صَلَاةِ التَّسْبِيحِ ، ابن ماجہ 1386 ، مسند الرویانی 699 ، المعجم الکبیر 1/329 ، شعب الایمان 2/132)

اس کا راوی مُوسَى بْنُ عُبَيْدَةَ ضعیف ہے (تقریب 6989)

بخاری نے اسکو منکر الحدیث کہا ہے : مُنكَرُ الحديثِ (التاریخ الکبیر للبخاری 7/291)

اس کا دوسرا راوی سعيد بن أبي سعيد الأنصاري مجھول ہے (تقریب 2320)

عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَمْرٍو رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ

اس کے علاوہ اس روایت کو عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَمْرٍو سے بھی منسوب کیا گیا ہے ملاحظہ ہو :

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سُفْيَانَ الْأُبُلِّيُّ، حَدَّثَنَا حَبَّانُ بْنُ هِلَالٍ أَبُو حَبِيبٍ، حَدَّثَنَا مَهْدِيُّ بْنُ مَيْمُونٍ، حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ مَالِكٍ، عَنْ أَبِي الْجَوْزَاءِ، قَالَ: حَدَّثَنِي رَجُلٌ كَانَتْ لَهُ صُحْبَةٌ يَرَوْنَ أَنَّهُ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَمْرٍو، قَالَ: قَالَ لِي النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «ائْتِنِي غَدًا أَحْبُوكَ، وَأُثِيبُكَ، وَأُعْطِيكَ» حَتَّى ظَنَنْتُ أَنَّهُ يُعْطِينِي عَطِيَّةً، قَالَ: «إِذَا زَالَ النَّهَارُ، فَقُمْ فَصَلِّ أَرْبَعَ رَكَعَاتٍ»، فَذَكَرَ نَحْوَهُ، قَالَ: «ثُمَّ تَرْفَعُ رَأْسَكَ يَعْنِي مِنَ السَّجْدَةِ الثَّانِيَةِ، فَاسْتَوِ جَالِسًا، وَلَا تَقُمْ حَتَّى تُسَبِّحَ عَشْرًا، وَتَحْمَدَ عَشْرًا، وَتُكَبِّرَ عَشْرًا، وَتُهَلِّلَ عَشْرًا، ثُمَّ تَصْنَعَ ذَلِكَ فِي الْأَرْبَعِ الرَّكَعَاتِ»، قَالَ: «فَإِنَّكَ لَوْ كُنْتَ أَعْظَمَ أَهْلِ الْأَرْضِ ذَنْبًا غُفِرَ لَكَ بِذَلِكَ»، قُلْتُ: فَإِنْ لَمْ أَسْتَطِعْ أَنْ أُصَلِّيَهَا تِلْكَ السَّاعَةَ؟ قَالَ «صَلِّهَا مِنَ اللَّيْلِ وَالنَّهَارِ»، قَالَ أَبُو دَاوُدَ: «حَبَّانُ بْنُ هِلَالٍ خَالُ هِلَالٍ الرَّأْيِ»، قَالَ أَبُو دَاوُدَ: رَوَاهُ الْمُسْتَمِرُّ بْنُ الرَّيَّانِ، عَنْ أَبِي الْجَوْزَاءِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو مَوْقُوفًا، وَرَوَاهُ رَوْحُ بْنُ الْمُسَيَّبِ، وَجَعْفَرُ بْنُ سُلَيْمَانَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مَالِكٍ النُّكْرِيِّ، عَنْ أَبِي الْجَوْزَاءِ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَوْلُهُ، وَقَالَ فِي حَدِيثِ رَوْحٍ، فَقَالَ حَدِيثُ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،

(ابوداؤد 1298)

ابوالجوزاء کہتے ہیں کہ مجھ سے ایک ایسے شخص نے جسے شرف صحبت حاصل تھا حدیث بیان کی ہے لوگوں کا خیال ہے کہ وہ عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما تھے، انہوں نے کہا: نبیﷺ نے فرمایا: “کل تم میرے پاس آنا، میں تمہیں دوں گا، عنایت کروں گا اور نوازوں گا”، میں سمجھا کہ آپ مجھے کوئی عطیہ عنایت فرمائیں گے (جب میں کل پہنچا تو) آپنے فرمایا: “جب سورج ڈھل جائے تو کھڑے ہو جاؤ اور چار رکعت صلاۃ ادا کرو”، پھر ویسے ہی بیان کیا جیسے اوپر والی حدیث میں گزرا ہے، البتہ اس میں یہ بھی ہے کہ: “پھر تم سر اٹھاؤ یعنی دوسرے سجدے سے تو اچھی طرح بیٹھ جاؤ اور کھڑے مت ہو یہاں تک کہ دس دس بار تسبیح و تحمید اور تکبیر و تہلیل کر لو پھر یہ عمل چاروں رکعتوں میں کرو”، پھر آپ  نے فرمایا: “اگر تم اہل زمین میں سب سے بڑے گنہگار ہو گے تو بھی اس عمل سے تمہارے گناہوں کی بخشش ہو جائے گی”، میں نے عرض کیا: اگر میں اس وقت یہ صلاۃ ادا نہ کر سکوں؟ آپ نے فرمایا: “تو رات یا دن میں کسی وقت ادا کر لو”۔ ابوداؤد کہتے ہیں: حبان بن ہلال: ہلال الرای کے ماموں ہیں۔ ابوداؤد کہتے ہیں: اسے مستمر بن ریان نے ابوالجوزاء سے انہوں نے عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت کیا ہے۔ نیز اسے روح بن مسیب اور جعفر بن سلیمان نے عمرو بن مالک نکری سے، عمرو نے ابوالجوزاء سے ابوالجوزاء نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے بھی موقوفاً روایت کیا ہے، البتہ راوی نے روح کی روایت میں «فقال حديث عن النبي ﷺ » (تو ابن عباس نے نبیﷺ کی حدیث بیان کی) کے جملے کا اضافہ کیا ہے۔

اس کا راوی عَمْرو بْن مالك النكري بصري. مجروح ہے اسکو منکر الحدیث ، سارق الحدیث اور ضعیف کہا گیا ہے ۔

منكر الْحَدِيث عَن الثقات، وَيَسْرِقُ الحديث.

سمعت أبا يَعْلَى يَقُولُ عَمْرو بْن مالك النكري كَانَ ضعيفا. (الکامل فی الضعفاء الرجال 6/258)

ابن حجر تقریب میں لکھتے ہیں کہ یہ صدوق ہے اور وہم میں مبتلاء ہوتا ہے :

صدوق له أوهام (تقریب 5104)

ابن حبان نے کہا کہ منفرد باتیں اور خطائیں کرتا ہے (الثقات لابن حبان ج 5: ص 350)

ذہبی نے اس کا ذکر الضعفاء میں کیا ہے (دیوان الضعفاء 1/305)

ابن حجرنے اس پر تبصرہ کیا جا کا خلاصہ یہ ہے کہ ابی الجوزاء کے شاگردوں میں اس روایت کو بیان کرنے میں اختلاف ہے کسی نے کہا کہ ابی الجوزاء نے ابن عمرو سے روایت کی ، کسی نے کہا کہ عبد اللہ ابن عباس سے ، کسی نے کہا ابن عمر سے اور اسی طرح اس کے مرفوع اور موقوف ہونے میں بھی اختلاف ہے یہ شدید اضطراب ہے  (أمالي الأذكار في فضل صلاة التسبيح 1/29)

امام عقیلی کہتے ہیں کہ صلوٰۃ التسبیح سے متعلق کوئی حدیث ثابت نہیں :

لَيْسَ فِي صَلَاةِ التَّسْبِيحِ حَدِيثٌ يَثْبُتُ. (الضعفاء الكبير1/124)

ابوبکر العربی کہتے ہیں کہ اس سے متعلق کوئی حدیث صحیح یا حسن نہیں :

وَقَالَ أَبُو بَكْرِ بْنُ الْعَرَبِيِّ لَيْسَ فِيهَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ وَلَا حَسَنٌ (عارضة الأحوذي 2/226-167)

ابن جوزی نے اس کا ذکر موضوعات میں کیا ہے : (الموضوعات 2/143-146)

ابن قدامہ احمد بن حنبل کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ انھوں نے کہا کہ اس سے متعلق کوئی روایت صحیح نہیں :

لَيْسَ فِيهَا شَيْءٌ يَصِحُّ (المغنیٰ 1/438)

نووی نے قاصی حسین کے حوالے سے لکھا کہ انھوں نے کہا کہ صلوٰۃ التسبیح کے مستحب ہونے سے متعلق احادیث وارد ہیں لیکن اس کے مستحب ہونے میں نظر ہے کیونکہ احادیث ضعیف ہیں ۔۔۔۔۔۔۔ ترمذی نے کہا کہ اس سے متعلق بہت سی روایات صحیح نہیں ہیں ۔۔۔۔۔۔ عقیلی نے کہا کہ صلوٰۃ التسبیح سے متعلق کوئی حدیث ثابت نہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔ اور ابوبکر العربی وغیرہ نے کہا کہ اس سے متعلق کوئی حدیث صحیح یا حسن نہیں :

يُسْتَحَبُّ صَلَاةُ التَّسْبِيحِ لِلْحَدِيثِ الْوَارِدِ فِيهَا وَفِي هَذَا الِاسْتِحْبَابِ نَظَرٌ لِأَنَّ حَدِيثَهَا ضَعِيفٌ —— قال التِّرْمِذِيُّ رُوِيَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي صَلَاةِ التَّسْبِيحِ غَيْرُ حَدِيثٍ قَالَ ولا يصح منه كبير شئ —– قَالَ الْعُقَيْلِيُّ لَيْسَ فِي صَلَاةِ التَّسْبِيحِ حَدِيثٌ يَثْبُتُ وَكَذَا ذَكَرَ أَبُو بَكْرِ بْنُ الْعَرَبِيِّ وآخرون أنه ليس فيها حَدِيثٌ صَحِيحٌ وَلَا حَسَنٌ وَاَللَّهُ أَعْلَمُ

(المجموع شرح المهذب 4/55)

ابن تیمیہ میں نے فتاویٰ میں اس پر جو گفتگو کی اس کا خلاصہ یہ ہے:

” کہ ائمہ اربعہ میں سے کسی نے اسے بیان نہیں کیا بلکہ احمد نے اس حدیث کو ضعیف کہا ہے اور یہ نماز مستحب نہیں اور یہ فرض نماز کے اصول کے بھی خلاف ہے کیونکہ فرض نماز میں دوسرے سجدے کے بعد قعدہ طویل نہیں ہوتا مزید برآں یہ موضوع (گھڑی ہوئی) ہے ، اور اس طرح کی ساری احادیث موضوع اور جھوٹی ہیں اس پر اہل معرفہ کا اتفاق ہے” (مجموع الفتاویٰ 579/11)

ابن حجر نے اگرچہ مجموعی طور پر اس سے متعلق روایات کی تحسین کر دی لیکن وہ لکھتے ہیں کہ حق یہی ہے کہ اس کے تمام طرق ضعیف ہیں اور عبد اللہ ابن عباس کی روایت اگر حسن کی شرط پر لی بھی جائے تو یہ شاذ ہے کیونکہ اس میں انفرادیت ہے اور کوئی معتبر شاہد یا متابعت نہیں ہے اور یہ صلاۃ کی عام ہیئت کے مخالف ہے اور موسیٰ بن عبد العزیز اگرچہ سچا ، صالح ہے لیکن وہ اس تفرد کا متحمل نہیں اور ابن تیمیہ اور مَزّی نے اس روایت کو ضعیف کہا ہے اور ذہبی نے توقف کیا ہے۔

وَالْحَقُّ أَنَّ طُرُقَهُ كُلَّهَا ضَعِيفَةٌ وَإِنْ كَانَ حَدِيثُ ابْنِ عَبَّاسٍ يَقْرُبُ مِنْ شَرْطِ الْحَسَنِ إلَّا أَنَّهُ شَاذٌّ، لِشِدَّةِ الْفَرْدِيَّةِ فِيهِ وَعَدَمِ الْمُتَابِعِ وَالشَّاهِدِ مِنْ وَجْهٍ مُعْتَبَرٍ وَمُخَالَفَةِ هَيْئَتِهَا لِهَيْئَةِ بَاقِي الصلوات، وَمُوسَى بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ وَإِنْ كَانَ صَادِقًا صَالِحًا فَلَا يُحْتَمَلُ مِنْهُ هَذَا التَّفَرُّدُ وَقَدْ ضَعَّفَهَا ابْنُ تَيْمِيَّةَ وَالْمِزِّيُّ وَتَوَقَّفَ الذَّهَبِيُّ

(تلخیص الحبیر 2/13-14)

علامہ البانی نے اگرچہ مجموعی طرق کی بنیاد پر اس سے متعلق ابوداؤد کی روایت کو حسن قرار دیا ہے لیکن خود البانی صاف اعلان کرتے ہیں کہ اس روایت کی کوئی ایک سند بھی ثابت نہیں ملاحظہ ہو :

ومن أمثلة ذلك ” حديث صلاة التسابيح ” فإنه قد تبين بعد تتبع طرقه أنه ليس له إسناد ثابت ۔۔

 (الرد المفحم للالبانی ص: 100)

یعنی اس روایت کے تمام طرق کو اکٹھا کرنے کے بعد معلوم ہوتا ہے کہ اس کی کوئی ایک سند بھی ثابت نہیں ہے۔

یہ بات سند کے لحاظ سے ہوئی اب سند کی اس کمزوری کے ساتھ متن کی نکارت کو بھی پیش نظر رکھاجائے تو اس روایت کا موضوع من گھڑت ہونا ہی ظاہر ہوتاہے ، یادرہے کہ موضوع روایت صرف اسی کو نہیں کہتے جس کی سند میں کوئی کذاب یا وضاّع راوی ہو بلکہ بعض قرائن کی بناپر ضعیف سند سے آنے والی رویات پر بھی موضوع کا حکم لگتا ہے بلکہ بعض حالات میں تو ایسی روایت کو بھی موضوع کہا جاتا ہے جس کے سارے رجال ثقہ ہوتے ہیں ۔ لہٰذا اسکی جتنی فضیلت بیان کی گئی ہے کہ پوری زندگی میں اس کو ایک بار پڑھ لینا ہی کافی ہے اتنی اہمیت تو پنج وقتہ فرض صلوٰۃ کی بھی نہیں بیان ہوئی ، پھر اگر یہ اتنا ہی فضیلت والا عمل تھا تو آپﷺ اپنے تمام اصحاب کو اس کے کرنے کی ترغیب کرتے خود اس پر متواتر عمل پیرا ہوتے کیونکہ آپﷺ اور اصحاب اللہ سے ڈرنے والے اور ثواب کے بہت حریص تھے لیکن کسی بھی صحیح روایت سے ایسا ثابت نہیں ۔

مزے کی بات یہ ہے کہ یہ صلوٰۃ شیعوں کی کتاب میں “نماز جعفر ” کی حیثیت سے موجود ہے (ہو سکتا ہے کسی نے وہاں سے اڑائی ہو ) ملاحظہ ہو :

محمد بن يعقوب، عن علي بن إبراهيم، عن أبيه، عن ابن أبي عمير، عن يحيى الحلبي، عن هارون بن خارجة، عن أبي بصير، عن أبي عبد الله (عليه السلام) قال: قال رسول الله (صلى الله عليه وآله) لجعفر: يا جعفر، ألا أمنحك ؟ ألا اعطيك ؟ ألا أحبوك ؟ فقال له جعفر: بلى يا رسول الله، قال: فظن الناس أنه يعطيه ذهبا أو فضة فتشرف الناس لذلك، فقال له: إني اعطيك شيئا إن أنت صنعته في كل يوم كان خيرا لك من الدنيا، وما فيها وإن صنعته بين يومين غفر الله لك ما بينهما أو كل جمعة، أو كل شهر، أو كل سنة غفر لك ما بينهما تصلي أربع ركعات تبتدأ فتقرأ وتقول إذا فرغت: سبحان الله والحمد لله ولا إله إلا الله والله أكبر، تقول ذلك خمس عشرة مرة بعد القراءة، فإذا ركعت قلته عشر مرات، فإذا رفعت رأسك من الركوع قلته عشر مرات، فإذا سجدت قلته عشر مرات فإذا رفعت رأسك من السجود فقل بين السجدتين عشر مرات، فإذا سجدت الثانية فقل عشر مرات فإذا رفعت رأسك من السجدة الثانية قلت عشر مرات وأنت قاعدقبل أن تقوم، فذلك خمس وسبعون تسبيحة في كل ركعة، ثلاث مائة تسبيحة في أربع ركعات، ألف ومائتا تسبيحة وتهليلة وتكبيرة وتحميدة إن شئت صليتها بالنهار، وإن شئت صليتها بالليل.

(لوسائل 8 : 49/ أبواب صلاة جعفر ب 1 ح 1 و سندہ حسن)

“جناب ابو بصیر سے اور وہ امام جعفر صادق سے روایت کرتے ہیں کہ فرمایا رسول اللہ  ﷺنے ایک بار جناب جعفر بن ابی طالب سے فرمایا یا جعفر کیا میں تمھیں بخشش نہ دوں ، کچھ عطا نہ کرو اور کوئی تحفہ نہ دوں ؟ راوی کا بیان ہے کہ لوگوں نے خیال کیا کہ شاید رسول اللہ ﷺ انہیں سونا یا چاندی دینا چاہتے ہیں ؟ چنانچہ تمام لوگ ادھر متوجہ ہوئے ، بالاخر رسول اللہ نے جعفر طیار سے فرمایا : میں تمھیں ایسی چیز عطا کرنے والا ہوں. اگر تم اسے ہر روز بجا لائو گے تو یہ تمھارے لئے دنیا و مافیہا سے بہتر ہوگی اور اگر دو روز کے درمیان بجا لائو گے تو ان کے درمیان کئے جانے والے تمھارے گناہ معاف ہوجائیں گے اور اگر جمہ کے دن یا ہر مہینہ یا ہر سال میں ایک دن بجالائو گے تو اس عرصہ کے دوران والے تمھارے گناہ معاف ہوجائیں گے اور وہ عمل یہ ہے کہ چار رکعت نماز بدو سلام (یعنی دو دو کر کے رکعت پڑھنی ہے ) پڑھو اور نماز شروع کر کے اور سورہ فاتحہ اور سورۃ سے فارغ ہو کر پندرہ بار تسبیحات اربعہ «سبحان الله والحمد لله ولا إله إلاّ الله والله أكبر» پڑھو ، پھر رکوع میں جائو تو دس بار یہی تسبیحات اربعہ پڑھو ، پھر رکوع سے سر اٹھائو تو پھر دس بار پڑھو بعد ازاں سجدہ میں جائو تو یہی ذکر دس بار کرو ، پھر سجدہ سے سر اٹھائو تو دس بار یہی تسبیحات پڑھو ، پھر دوسرے سجدہ میں جائو تو پھر دس بار یہی تسبیحات پڑھو ، جب اس سے سر اٹھائو تو پھر اٹھنے سے پہلے دس بار پڑھو یہی تسبیحات ، اس طرح ایک رکعت میں 75 تسبیحیں ہوجائیں گی ، پھر اسی طرح دوسری ، تیسری اور چھوتھی رکعت میں یہی طریقے سے پڑھو ، اس طرح چار رکعتوں میں کل تین سو مرتبہ تسبیح ہوجائے گی اور مجموعی طور ہر بارہ سو مرتبہ تسبیح ،تحمید ، تحلیل اور تکبیر ہوجائے گی . چاہو تو یہ نماز دن میں پڑھو اور چاہو تو رات میں پڑھو “

اس حدیث کی سند کے متعلق ایک شیعہ عالم لکھتے ہیں:

” مندرجہ بالا حدیث کی سند اس طرح ہے :

محمد بن يعقوب، عن علي بن إبراهيم، عن أبيه، عن ابن أبي عمير، عن يحيى الحلبي، عن هارون بن خارجة، عن أبي بصير، عن أبي عبد الله (عليه السلام) قال: قال رسول الله (صلى الله عليه وآله)

محمد بن یعقوب کلینی (ر) : ثقتہ الاسلام ، ثقہ امامی —- علی بن ابراہیم : ثقہ امامی —– ابراہیم بن ہاشم القمی : ثقہ امامی —– ابن ابی عمیر : ثقہ امامی

یحیی بن عمران الحلبی : ثقہ امامی —– ھارون بن خارجہ : ثقہ امامی —– ابوبصیر :ان کا نام لیث بن البختری تھا اور یہ ثقہ امامی ہیں

ابی عبد اللہ (ع) : امام جعفر صادق (ع) ، امام معصوم (ع)

حدیث مبارکہ کے تمام رجال الحمداللہ ثقہ اور شیعہ امامی ہیں . اس طرح یہ روایت حسن یا صحیح کے درجہ کی قرار پاتی ہے .

سند حدیث کے حوالے سے فقہاء امامیہ کے اقوال:

علامہ مجلسی (ر)نے اصول کافی شرح میں مندرجہ بالا حدیث کی سند کو حسن کہا ہے . (مراۃ العقول)

آیت اللہ کاظم یزدی (ر) کے نزدیک صلاۃ تسبیح پر متواتر اخبار موجود ہیں . (عروۃ الوثقیٰ)

آیت اللہ الخوئی (ر) کے نزدیک صلاۃ تسبیح پر آنے والے اخبار صحیح اور موثق درجہ کے ہیں (المستند في شرح العروة الوثق)

مزید لکھتے ہیں :

“صرف معلومات کے لئے

اھل سنت و اھل حدیث حضرات کی کتب احادیث میں بھی اسناد حسن کے ساتھ صلاۃ تسبیح کا ثبوت موجود ہے ، صرف فرق یہ ہے کہ اھل سنت کے طریق میں نبی اکرم (ع) نے یہ نماز اپنے چچا عباس بن عبدالمطلب کو تعلیم دی تھی . باقی نماز کے طریقے میں کوئی فرق نہیں ہے

ملاحظہ کریں : سنن ابی دائود : 1297، سنن ابن ماجہ : 1387 و سندہ حسن

واضح ہوا کہ شیعہ مذہب کی ایک عبادت کو اس طرح بیان کردیا گیا ہے۔