بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
إِنَّ الْحَمْدَ لِلَّهِ، نَحْمَدُهُ وَنَسْتَعِينُهُ، مَنْ يَهْدِهِ اللهُ فَلَا مُضِلَّ لَهُ، وَمَنْ يُضْلِلْ فَلَا هَادِيَ لَهُ، وَأَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ، وَأَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ، أَمَّا بَعْدُ
اِتَّخَذُوْۤا اَحْبَارَهُمْ وَ رُهْبَانَهُمْ اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ وَ الْمَسِيْحَ ابْنَ مَرْيَمَ١ۚ وَ مَاۤ اُمِرُوْۤا اِلَّا لِيَعْبُدُوْۤا اِلٰهًا وَّاحِدًا١ۚ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ١ؕ سُبْحٰنَهٗ عَمَّا يُشْرِكُوْنَ۰۰۳۱
[التوبة: 31]
’’ انہوں نے اپنے علماء اور مشائخ اور مسیح ابن مریم کو اللہ کےسوا اپنا رب بنا لیا ہے ، حالانکہ انہیں تو صرف الٰہ واحد کی بندگی کاحکم دیا گیا تھا جس کے سوا کوئی الٰہ نہیں ، وہ (اللہ) اس شرک سے پاک ہے جو یہ لوگ کرتے ہیں ‘‘۔
شرک فی لطاعت بھی دراصل شک فی احقوق و اختیارات کا ایک حصہ ہے۔ یہ اللہ کا حق ہے کہ صرف اسی کا کہنا مانا جائے۔اس آیت میں بتایا گیا کہ دین میں اللہ کے علاوہ کسی اور کا حکم ماننا اسے رب بنانا اور اس کی عبادت کرنا ہے۔ یہ حق صرف اللہ تعالیٰ کا ہے کہ حکم صرف اسی کا چلے گاْ اس کے حکم کے سامنے کسی اور کا حکم نہیں مانا جائے گا۔ اگر کوئی دین کے معاملات میں اللہ کے مقابلے میں اپنے عالموں،مولویوں، خطیبوں، مفتیوں کا حکم مانتا ہے تو گویا وہ ان کی بندگی کرتا ہے ، یعنی یہ شرک فی الحقوق ہوگیا کیونکہ بندگی ، کہنا ماننا، اطاعت کرنا یہ صرف اللہ کا حق ہے۔ سورہ النساء میں فرمایا گیا :
وَ مَاۤ اَرْسَلْنَا مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا لِيُطَاعَ بِاِذْنِ اللّٰهِ
[النساء: 64]
’’ ہم نے جو بھی رسول بھیجا ہے، اس لئے بھیجا ہے کہ اس کی اطاعت کی جائے اللہ کے حکم سے ‘‘۔
واضح ہوا کہ نبی ﷺ کی اطاعت بھی اللہ کے حکم سے ہے۔ نبی ﷺ تو وہی دین لیکر آئے تھے جو اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں نازل فرمایا تھا۔ نبی ﷺ کی بعثت کا مقصد ہی یہی تھا کہ وہ انسانوں کو قرآن پڑھ کر سنائیں، اللہ کے احکامات کی ان کے سامنے تشریح کریں۔ اس کے علاوہ اللہ تعالیٰ نے اولی الامر کی اطاعت کا بھی حکم دیا لیکن ان کی اطاعت صرف قرآن و حدیث کے تحت ہے۔( النساء: 59 ) اولیٰ الامر کو دین میں کسی قسم کی کمی بیشی کا اختیار نہیں۔علماء کی ایسی اطاعت جو قرآن و حدیث کی حدود سے باہر ہو تو انہیں رب بنانا ہے جیسا کہ اوپر آیت میں بیان ہوا ہے۔ اس بارے میں ایک حدیث بھی ملتی ہے ،عدی بن حاتم ؓ فرماتے ہیں :
۔ ۔ ۔ سمعته يقرأ في سورة براءة: {اتخذوا أحبارهم ورهبانهم أربابا من دون الله} [التوبة: 31]، قال: «أما إنهم لم يكونوا يعبدونهم، ولكنهم كانوا إذا أحلوا لهم شيئا استحلوه، وإذا حرموا عليهم شيئا حرموه»
( ترمذی ، ابواب تفسیر القرآن ، باب: ومن سورة التوبة ، روایتہ حسن )
۔ ۔ ۔ میں نےنبی ﷺ کو سورہ برأت کی یہ آیات پڑھتے ہوئے سنااِتَّخَذُوْ ا اَحْبَارَهُمْ وَرُهْبَانَهُمْ اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ ( التوبہ : 31) ’’انہوں نے اپنے علماء اور مشائخ اور مسیح ابن مریم کو اللہ کےسوا اپنا رب بنا لیا ہے‘‘ ۔ پھرانہوں نے فرمایا کہ وہ لوگ ان کی عبادت نہیں کرتے تھے لیکن اگر وہ (علماء اور درویش) ان کے لئے کوئی چیز حلال قرار دیتے تو وہ بھی اسے حلال سمجھتے اور اسی طرح ان کی طرف سے حرام کی گئی چیز کو حرام سمجھتے‘‘۔
یہی ہے وہ شرک جو آج اس امت میں پھیلا ہوا ہے۔ کلمہ گو فرقوں میں بٹ کر صرف اپنے اپنے فرقوں کے علماء کی اطاعت کر رہے ہیں۔ کوئی اپنے عالم و مفتی سے نہیں پوچھتا کہ جو بات آپ بیان کر رہے ہیں وہ قرآن و حدیث میں کہاں ہے بس انہیں اپنا رب بنایا ہوا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں چار جگہ ’’ غیر اللہ ‘‘ کے نام کی نذر و نیاز کو حرام قرار دیا۔ لیکن کچھ فرقوں کے علماء نے اسے کھل کر حلال قرار دیا اور ان فرقوں کے مقلد اسے ثواب کا کام سمجھ کر کھاتے ہیں۔ ایسے بھی عالم ہیں کہ جنہوں نے اللہ کی بات ’’ لغیر اللہ ‘‘ کا مذاق بنایا، کہتے ہیں کہ جو ہم ’’اللہ کے غیر‘‘ کے نام تھوڑی کھا رہے ہیں ہم تو اللہ کے’’ اپنے نبی‘‘ اور’’ اپنے ولی‘‘ کے نام کا کھا رہے ہیں۔حالانکہ ’’غیر اللہ ‘‘ سے مراد ’’اللہ کےعلاوہ‘‘ ہے۔کہیں کسی مولوی نے فلسفہ چھاڑا کہ اگر کوئی چیز اللہ کے علاوہ کسی اور نام کی کردی گئی تو وہ کیسے حرام ہوگئی۔ کہتے ہیں کیا ’’ یوسف کی گائے ‘‘ حرام ہوگئی ؟ الغرض کہ انہوں نے اللہ کے حکم کے خلاف لوگوں کو حرام کھانے پر لگایا ہوا ہے اور کہتے ہیں کہ صرف ’’ بت ‘‘ کے نام کا کھانا حرام ہے۔ اسی طرح دوسرے معاملات ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے سورہ الحج میں فرمایا :
هُوَ سَمّٰىكُمُ الْمُسْلِمِيْنَ١ۙ۬ مِنْ قَبْلُ وَ فِيْ هٰذَا
[الحج: 78]
’’ اسی ( اللہ ) نے تمہارا نام مسلمین رکھا، اس سے پہلے بھی اور اس ( قرآن ) میں بھی ‘‘۔
مسلمین جمع کا صیغہ ہے اور اس کا واحد ’’ مسلم ‘‘ ہے۔یہ ہے وہ نام و پہچان جو اللہ تعالیٰ نے ہر دور میں ایمان لانے والوں کو دی۔لیکن صد افسوس کہ امت فرقوں اور گروہوں میں تقسیم ہوگئی اور اپنی اپنی پہچان بھی تبدیل کرلی۔ آج کوئی مالکی ہے ، کوئی حنفی، شافعی اور کوئی حنبلی۔ یہ نام کس نے دئیے ہیں؟ کیا اللہ اور رسول اللہ ﷺ کے دئیے ہوئے نام ہیں؟ آج ان کی پہچان دیوبندی ، بریلوی ، سنی، شیعہ، اہلحدیث، سلفی ہے۔ کہاں سے آئے یہ نام ؟ یہ کس کی اطاعت ہے۔ اللہ اور رسول اللہ کی اطاعت تو ہر گز نہیں بلکہ اپنے فرقے کے علماء و مفتیان کی اطاعت ہے جسے اللہ تعالیٰ نے انہیں رب بنالینا قرار دیا ہے۔ اب یہ اللہ کے علاوہ ان کی بندگی کر رہےہیں سو یہ اللہ کے حق میں شرک ہے۔
دین اسلام کے علاوہ کوئی دوسرا دین اپنانا بھی شرک ہے:
سورہ الشوریٰ میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :
اَمْ لَهُمْ شُرَكٰٓؤُا شَرَعُوْا لَهُمْ مِّنَ الدِّيْنِ مَا لَمْ يَاْذَنْۢ بِهِ اللّٰهُ١ؕ وَ لَوْ لَا كَلِمَةُ الْفَصْلِ لَقُضِيَ بَيْنَهُمْ١ؕ وَ اِنَّ الظّٰلِمِيْنَ لَهُمْ عَذَابٌ اَلِيْمٌ۰۰۲۱
[الشورى: 21]
’’ کیا ان کے ایسے بھی شریک ہیں کہ جنہوں نے ان کے لئے دین کا ایسا طریقہ مقرر کیا ہو کہ جس کی اللہ نے اجازت نہیں دی اور اگر فیصلے کی بات طے شدہ نہ ہوتی تو ان کا فیصلہ ( ابھی ہی ) کردیا گیا ہوتا۔ اور یقینا ً ایسے ظالموں کے لئے درد ناک عذاب ہے ‘‘۔
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اس بات کو شرک قرار دیا ہے کہ ایک انسان اللہ کے بنائے ہوئے نظام زندگی ( دین ) کے مقابلے میں ایسا دین قبول کرلے جس کی اللہ کی طرف سے اجازت نہ ہو۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک ہی دین نازل فرمایا گیا ہے،اور وہ ’’ اسلام ‘‘ ہے۔
شَرَعَ لَكُمْ مِّنَ الدِّيْنِ مَا وَصّٰى بِهٖ نُوْحًا وَّ الَّذِيْۤ اَوْحَيْنَاۤ اِلَيْكَ وَ مَا وَصَّيْنَا بِهٖۤ اِبْرٰهِيْمَ وَ مُوْسٰى وَ عِيْسٰۤى اَنْ اَقِيْمُوا الدِّيْنَ وَ لَا تَتَفَرَّقُوْا فِيْهِ١ؕ كَبُرَ عَلَى الْمُشْرِكِيْنَ مَا تَدْعُوْهُمْ اِلَيْهِ١ؕ اَللّٰهُ يَجْتَبِيْۤ اِلَيْهِ مَنْ يَّشَآءُ وَ يَهْدِيْۤ اِلَيْهِ مَنْ يُّنِيْبُ۰۰۱۳
(الشوریٰ :13)
’’تمہارے لئے دین کا وہی طریقہ مقرر کیا ہے جس کا حکم نوح کو دیا تھا اور جسے (اے محمدﷺ ) ہم نے تمہاری طرف وحی کیا ہے، اور جس کا حکم ہم ابراہیم اور عیسیٰ کو دے چکے ہیں کہ اس دین کو قائم کرو اور اس میں متفرق نہ ہونا‘‘۔
اِنَّ الدِّيْنَ عِنْدَ اللّٰهِ الْاِسْلَامُ١۫ وَ مَا اخْتَلَفَ الَّذِيْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ اِلَّا مِنْۢ بَعْدِ مَا جَآءَهُمُ الْعِلْمُ بَغْيًۢا بَيْنَهُمْ١ؕ وَ مَنْ يَّكْفُرْ بِاٰيٰتِ اللّٰهِ فَاِنَّ اللّٰهَ سَرِيْعُ الْحِسَابِ۰۰۱۹
[آل عمران: 19]
’’ بلا شبہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک دین تو اسلام ہی ہے، اور اہل کتاب نے علم آ جانے کے بعد بھی آپس میں ضد و عناد کے سبب اختلاف کیا اور جو اللہ تعالیٰ کی آیات کا انکار کرے تو اللہ جلد ہی حساب لینے والا ہے‘‘۔
[آل عمران: 85]
’’ اور جو کوئی اسلام کے علاوہ کسی اور دین کا طالب ہوگا تو وہ اس سے ہر گز قبول نہ کیا جائے گا اور وہ آخرت میں نقصان اٹھانے والوں میں ہوگا ‘‘۔
بیان کردہ آیات سے جو بات سامنے آتی ہے وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک ہی نظام زندگی نازل ہوا ہے ، جس کا نام ‘‘ اسلام ‘‘ ہے۔یہی تمام انبیاء علیہم السلام کا دین تھا۔انسان کو اس دین کے علاوہ کسی اور دین کو اپنانے سے منع کیا گیا ہے اور بتایا کہ جس کسی نے دین اسلام کے علاوہ کوئی اور نظام قبول کیا تو وہ ہر گز قبول نہیں کیا جائے گا اور وہ آخرت میں بہت خسارے میں ہوگا۔ سورہ شوریٰ کی آیت نمبر 21 میں اس بات کو بھی واضح کردیا گیا کہ اللہ کے علاوہ کسی اور کے دین کو قبول کرلینا اس کو اللہ کا شریک بنا دینا ہے۔ یہ شرک فی الحقوق ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کا حق ہے کہ اس کا نازل کردہ دین ہوبہو اپنایا جائے جب انسان کسی اور کا بنایا ہوا نظام اپناتا ہے تو وہ اللہ کے اس حق میں شرک کردیتا ہے۔ مودودی صاحب سورہ شوریٰ آیت نمبر 21 کی تشریح میں لکھتے ہیں :
’’ اس آیت میں شرکاء سے مراد ، ظاہر بات ہے کہ وہ شریک نہیں ہیں جن سے لوگ دعائیں مانگتے ہیں، یا جن کی نذر و نیاز چڑھاتے ہیں ،یا جن کے آگے پوچا پاٹ کے مراسم ادا کرتے ہیں۔ بلکہ لا محالہ ان سے مراد وہ انسان ہیں جن کو لوگوں نے شریک فی الحکم ٹھہرا لیا ہے ، جن کے سکھائے ہوئے افکار و عقائد اور نظریات اور فلسفوں پر لوگ ایمان لاتے ہیں ، جن کی دی ہوئی قدروں کو مانتے ہیں، جن کے پیش کئے ہوئے اخلاقی اصولوں اور تہذیب و ثقافت کے معیاروں کو قبول کرتے ہیں، جن کے مقرر کئے ہوئے قوانین اور طریقوں اور ضابطوں کو اپنے مذہبی مراسم اور عبادات میں، اپنی شخصی زندگی میں ، اپنی معاشرت میں ،اپنے تمدن میں ، اپنے کاروبار اور لین دین میں ، اپنی عدالتوں میں اور اپنی سیاست اور حکومت میں اس طرح اختیارر کرتے ہیں کہ گویا یہی وہ شریعت ہے جس کی پیروی ان کو کرنی چاہئیے۔ یہ ایک پوراکا پورا دین ہے جو اللہ رب العالمین کی تشریع کے خلاف ہے، اور اس کے اذن( sanction ) کے بغیر ایجاد کرنے والوں نے ایجاد کیا اور ماننے والوں نے مان لیا۔ اور یہ ویسا ہی شرک ہے جیسے غیر اللہ کو سجدہ کرنا اور غیر اللہ سے دعائیں مانگنا شرک ہے ‘‘۔ ( تفہیم القرآن، جلد چہارم، صفحہ 499 ، حاشیہ نمبر 38)۔
مزید لکھتے ہیں :
’’ یعنی اللہ کے مقابلہ میں یہ ایسی سخت جسارت ہے کہ اگر فیصلہ قیامت پر نہ اٹھا رکھا گیا ہوتا تو دنیا ہی میں ہراس شخص پر عذاب نازل کردیا جاتا جس نے اللہ کا بندہ ہوتے ہوئے ، اللہ کی زمین پر خود اپنا دین جاری کیا،اور وہ سب لوگ بھی تباہ کردئیے جاتے جنہوں نے اللہ کے دین کو چھوڑ کر دوسروں کے بنائے ہوئے دین کو قبول کیا‘‘۔( تفہیم القرآن، جلد چہارم، صفحہ 500، حاشیہ نمبر 39)۔
موجودہ دور کے حوالے سے دیکھا جائے تو اللہ کے نازل کردہ دین کے مقابلے میں کافی دین اختیار کرلئے گئے ہیں۔ جیسے تصوف، جمہوریت، سوشلزم، کمیونزم، کیپٹل ازم ، تمام فرقہ وارانہ مذاہب جیسے مالکی ، حنفی، شافعی، حنبلی، مذہب اہلحدیث وغیرہ۔
تصوف :
لوگ تصوف کو اسلام کا ایک حصہ سمجھتے ہیں حالانکہ یہ مذہب کلی طور پر اللہ تعالیٰ کی توحید کا مکمل انکاری ہے۔ دین اسلام اللہ کی ذات کے بارے میں بیان کرتا ہے ۔
قُلْ هُوَ اللّٰهُ اَحَدٌ
[الإخلاص]
’’ کہدو کہ اللہ یکتا ہے‘‘
وَلَمْ يَكُنْ لَّهٗ كُفُوًا اَحَدٌ
[الإخلاص:]
’’اور نہ ہی کوئی ایک اس کا ہمسر ہے ‘‘
اسی طرح سورہ الشوریٰ میں ہے :
لَيْسَ كَمِثْلِهٖ شَيْءٌ
[الشورى: 11]
’’ اس کی مثال جیسی (کائنات) میں کوئی چیز نہیں ‘‘
جبکہ مذہب تصوف کے بنیادی تین عقائد ہیں، جو کہ کھلا شرک ہیں :
1۔حلول
حلول سے مرادکوئی انسان عبادت اور ریاضت کرکے نفس کی صفائی اور روح کی بالیدگی پیدا کر لے تو اللہ کی ذات اس کے اندر حلول کر جاتی ہے ۔
2۔ وحدۃالوجود
وحدت الوجود کے فلسفے کا سادہ الفاظ میں مطلب یہ ہے کہ ساری کائنات میں صرف اور صرف ایک ہی وجود ہے اور وہ ہے اللہ تعالی۔ اس کی ذات کے علاوہ کوئی اور وجود نہیں پایا جاتا ہے۔ اگر اس بات کو مان لیا جائے تو پھر خالق و مخلوق میں کوئی فرق باقی نہیں رہتا بلکہ انسان، حیوانات،نباتات، بے جان اشیاء، حتی کہ غلاظت اور شیطان بھی نعوذ باللہ، اللہ تعالی ہی کے وجود کا حصہ قرار پاتے ہیں۔
3۔ وحدۃالشہود
وحدۃالشہود سے مراد “ایک دیکھنا ہے”یعنی چاروں طرف” تو ہی تو “ہے والا معاملہ ہو جاتا ہے- گویا مشاہدے میں جتنی بھی چیزیں ہیں سب نعوذ باللہ اللہ کی ذات ہے۔ اور اسی کو فنا فی اللہ کہا جاتا ہے یعنی اللہ کی ذات میں فنا ہوجانا۔
جمہوریت :
جمہوریت اللہ کے نازل کردہ دین کے متوازی ایک دین ہے جس میں بے شمار آیات و احادیث کا انکار ہوتا ہے۔ جمہوریت کے بنیادی اصول ہی دین اسلام کے کھلے مخالف ہیں ۔
جمہوریت سے مراد ایسا نظام حکومت ہے جس میں عوام کے چنے ہوئے نمائندوں کی اکثریت رکھنے والی سیاسی جماعت حکومت چلاتی ہے اور عوام کے سامنے جوابدہ ہوتی ہے۔ سابق امریکی صدر ابراھم لنکن نے جمہوریت کی تعریف ان الفاظ میں کی ہے:’’عوام کی حکومت۔ عوام کے ذریعے۔ عوام کیلئے۔“
جبکہ بحیثیت ایک مسلم ہم نے اللہ سے عہد کیا ہوتا ہے کہ
قُلْ اِنَّ صَلَاتِيْ وَ نُسُكِيْ وَ مَحْيَايَ وَ مَمَاتِيْ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَۙ۰۰۱۶۲
[الأنعام: 162]
’’ کہدو کہ میری صلواۃ ، میری قربانی ، میرا جینا اور میرا مرنا ( سب ) اللہ رب العالمین ہی کے لئے ہے‘‘۔
یعنی جو کچھ بھی ہم نے کرنا ہے تو وہ اللہ ہی کے لئے کرنا ہے۔ ہم کوئی حکومت بھی چلائیں تو اللہ کے ڈر اور خوف سے جیسے خلفائے راشدین نے عوام کی خاطر نہیں اللہ کی رضا کے حصول کے لئے حکومت کی۔ہر حالت میں حکم صرف االلہ تعالیٰ کا چلے گا ۔
اِنِ الْحُكْمُ اِلَّا لِلّٰهِ
[الأنعام: 57]
’’ حکم تو صرف اللہ ہی کا ہے ‘‘۔
حکم سے مراد زندگی کا سارا طریقہ کار اس کے مرتب کئےہوئے نظام کے تحت ہوگا۔ لوگ کہتے ہیں کہ ہماری جمہوریت میں یہ بات طے ہے کہ حکم صرف اللہ کا مانا جائے گا۔ افسوس کے یہ صرف ایک زبانی دعویٰ ہے۔ جمہوریت کا سارا نظام وہی چل رہا ہے جو اس کی بنیاد ہے۔ اسلام میں کہیں بھی اکثریتی فیصلے کو ماننا بیان نہیں کیا گیا بلکہ اسلام میں دلیل پر فیصلہ ہوتا ہے اور وہ دلیل قرآن و حدیث سے ہونا لازمی ہے۔
اسلام میں کہیں ووٹنگ نہیں، کوئی انتخاب نہیں، اسلام میں گروہ بندی کو شرک قرار دیا گیا ہے یعنی کوئی پارٹی بازی نہیں۔ خواتین کی ذمہ داریاں ان کے گھروں تک ہیں انہیں حکومتی معاملات میں شرکت کی کوئی اجازت نہیں اور نہ ہی کوئی خاتون سربراہ مملکت بن سکتی ہے جبکہ جمہوریت میں یہ سب کچھ ہے۔مختصراً یہ ایک علیحدہ دین ہے اور جیسا کہ مودودی صاحب نے لکھا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ وہ لوگ جنہیں اللہ تعالیٰ نے اس بارے میں قرآن و حدیث کا علم دیا تھا انہیں چاہئیے تھا کہ وہ ان حکمرانوں کو یہ سب بتاتے تاکہ وہ حق جان لیتے اور اپنی اصلاح کریتے ، لیکن مذہبی سیاسی لوگوں نے خود اقتدار کی لالچ میں یہ سب چھپا یا ہی نہیں بلکہ خود اس میں شامل ہوگئے اور اس طرح اللہ کےحق میں شرک کردیا۔
فرقہ وارانہ مذاہب :
فرقہ وارانہ مذاہب کو اپنانا بھی اسی شرک کے زمرے میں آتا ہے۔ بحیثیت ایک مسلم ہمارا اللہ ایک، ہمارا رسول محمد ﷺ، ہمارا قرآن ایک، احادیث صحیحہ ایک ہی ہیں تو یہ فرقے کیسے ؟ دراصل قرآن و حدیث سے اختلاف کرکے ہی علیحدہ فرقہ بنتا ہے۔ اللہ تعالی فرماتا ہے :
وَ لَا تَكُوْنُوْا كَالَّذِيْنَ تَفَرَّقُوْا وَ اخْتَلَفُوْا مِنْۢ بَعْدِ مَا جَآءَهُمُ الْبَيِّنٰتُ١ؕ وَ اُولٰٓىِٕكَ لَهُمْ عَذَابٌ عَظِيْمٌۙ۰۰۱۰۵
[آل عمران: 105]
’’ اور تم ان لوگوں کی طرح نہ ہو جانا جنہوں نے اپنے پاس واضح نشانیاں آ جانے کے بعد تفرقہ ڈالا اور آپس میں اختلاف کرنے لگے اور یہی لوگ ہیں جن کے لئے بہت بڑا عذاب ہے ‘‘۔
وَ مَا تَفَرَّقُوْۤا اِلَّا مِنْۢ بَعْدِ مَا جَآءَهُمُ الْعِلْمُ بَغْيًۢا بَيْنَهُمْ١ؕ وَ لَوْ لَا كَلِمَةٌ سَبَقَتْ مِنْ رَّبِّكَ اِلٰۤى اَجَلٍ مُّسَمًّى لَّقُضِيَ بَيْنَهُمْ١ؕ وَ اِنَّ الَّذِيْنَ اُوْرِثُوا الْكِتٰبَ مِنْۢ بَعْدِهِمْ لَفِيْ شَكٍّ مِّنْهُ مُرِيْبٍ۰۰۱۴
[الشورى: 14]
” یہ فرقہ فرقہ نہیں ہوئے لیکن اس کے بعد کہ ان کے پاس ( ان کے رب کی طرف سے)علم آچکا تھا ، آپس میں بغض و عناد کے سبب ، اور اگر (اے نبی ﷺ) آپ کے رب کی(فیصلے کی) بات مقررہ وقت تک کے لئے پہلے طے نہ ہوچکی ہوتی تو یقیناً ان کا فیصلہ ہو چکا ہوتا ۔”
یعنی اختلاف اس وقت ہوا جب اللہ کی طرف سے ہدایات پہنچ چکی تھیں۔ آج بھی اللہ کی طرف سے قرآن و احادیث صحیحہ کی صورت میں ہدایات پہنچی ہوئی ہیں لیکن ان ہدایات سے اختلاف کیا گیا۔ ان فرقہ وارانہ مذاہب میں اسلام کے ساتھ ساتھ اسلام کے خلاف باتیں اور عقائد شامل ہیں۔سورہ الروم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :
مُنِيْبِيْنَ اِلَيْهِ وَ اتَّقُوْهُ وَ اَقِيْمُوا الصَّلٰوةَ وَ لَا تَكُوْنُوْا مِنَ الْمُشْرِكِيْنَۙ۰۰۳۱مِنَ الَّذِيْنَ فَرَّقُوْا دِيْنَهُمْ وَ كَانُوْا شِيَعًا١ؕ كُلُّ حِزْبٍۭ بِمَا لَدَيْهِمْ فَرِحُوْنَ۰۰۳۲
[الروم: 31-32]
” اللہ کی طرف رجوع کرتے رہو اور اسی سے ڈرو اور صلوٰۃ قائم کرو اور مشرکوں میں سے نہ ہو جانا۔ ان لوگوں میں سے جنہوں نے اپنے دین میں فرقے بنالئے اور گروہوں میں بٹ گئے ، ہر گروہ ااس چیز میں مگن ہے جو اس کے پاس ہے۔”
اللہ تعالیٰ نے بتا دیا تھا کہ فرقہ اور گروہ بندی مشرکوں کا عمل ہے تم اس شرک میں شامل نہ ہو جانا لیکن علم رکھنے والے علماء نے اس امت کو فرقوں اور گروہوں میں تقسیم کر کے اس امت کی اجتماعیت کو پارہ پارہ ہی نہیں کردیا بلکہ انہیں شرک میں ملوث کردیا۔ جیسا کہ اس سے قبل بھی بیان کیا جا چکا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں ’’ مسلمین ‘‘ کا نام دیا:
هُوَ سَمّٰىكُمُ الْمُسْلِمِيْنَ١ۙ۬ مِنْ قَبْلُ وَ فِيْ هٰذَا
[الحج: 78]
’’اس ( اللہ ) نے تمہارا نام مسلمین رکھ دیا ہے اس سے قبل بھی اور اس ( قرآن ) میں بھی ‘‘
اللہ تعالیٰ کا یہ حکم قرآن میں موجود تھا اور اس بات کی قطعاً کوئی ضرورت نہ تھی کہ ہم اس نام و پہچان کے علاوہ کوئی اور نام و پہچان رکھتے۔ لیکن جب لوگوں کا کتاب اللہ سے اختلاف ہوا تو اپنی پہچان علیحدہ بنانا پڑی اور اب یہ امت اپنے آپ کو سنی، شیعہ، دیوبندی، بریلوی ، اہلحدیث، سلفی اور نہ جانے کن کن ناموں سے متعارف کراتی ہے۔ کیا قرآن و حدیث سے اختلاف، اپنا علیحدہ نام و پہچان، اپنا علیحدہ گروہ اللہ کے حکم کا انکار نہیں؟ اب ان گروہوں میں رہ کر اللہ کی اطاعت نہیں ہو رہی بلکہ جو کچھ فرقوں کے علما و مفتیان نے کہہ دیا اس کی اطاعت ہو رہی ہے۔
قرآن سورہ زمر آیت 46 اور سورہ المومنون آیت 100 میں اللہ تعالیٰ نے فرما دیا کہ مرنے والے کی روح اب قیامت سے قبل اس دنیا میں واپس نہیں آئے گی لیکن کثرت سے فرقوں کا عقیدہ ہے کہ روح واپس اس قبر اور بدن میں لوٹا دی جاتی ہے۔
قرآن سورہ یونس آیت نمبر 18 میں فوت شدہ افراد کو اللہ تک وسیلہ بنانا شرک قرار دیا گیا ہے لیکن کچھ فرقوں میں یہ بڑا ثواب کا کام ہے۔
قرآن مجید میں چار جگہ غیر اللہ کے نام کی نذر ونیاز حرام قرر دی گئی ہے لیکن کچھ فرقوں میں یہ ثواب سمجھی جاتی ہے۔
اللہ تعالیٰ نے بتا دیا کہ فوت شدہ افراد اب مردہ ہیں اور قیامت تک مردہ رہیں گے، نہ سن سکتے ہیں ، نہ دیکھ سکتے ہیں، لیکن فرقوں میں عقیدہ پایا جاتا ہے کہ یہ زندہ ہیں۔
نبی ﷺ نے یہود و نصاریٰ پر لعنت فرمائی کہ انہوں نے اپنے انبیاء و نیک لوگوں کی قبروں کو عبادت گاہ بنالیا اور فرمایا میں تمہیں اس سے منع کرتا ہوں، لیکن کچھ فرقوں میں مزار بنانا اسے پوچنا عین عبادت ہے۔
یہ چند باتیں مثال کے طور پر بیان کی گئی ہیں لیکن حقیقت یہی ہے کہ قرآن و حدیث سے اختلاف کرتے ہوئے یہ فرقے اور گروہ بنے اور انہوں نے کچھ اسلام کو اپنایا اور کچھ اس کے انکار کو یعنی یہ وہ خالص دین نہیں جو کہ اللہ کی طرف سے نازل کیا گیا تھا، لہذا ایسے مذاہب کو بالکل نہیں اپنانا چاہئیے۔
اسی طرح سوشلزم ، کمیونزم دین اسلام کے خلاف ہیں اور اللہ کا فیصلہ سامنے ہے کہ ’’جس نے اسلام کے علاوہ کوئی اور دین اپنایا تو وہ اس سے قبول نہیں کیا جائے گا اور وہ آخرت میں خسارہ پانے والوں یعنی جہنم میں جانے والوں میں ہوگا۔