بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
إِنَّ الْحَمْدَ لِلَّهِ، نَحْمَدُهُ وَنَسْتَعِينُهُ، مَنْ يَهْدِهِ اللهُ فَلَا مُضِلَّ لَهُ، وَمَنْ يُضْلِلْ فَلَا هَادِيَ لَهُ، وَأَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ، وَأَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ،
أَمَّا بَعْدُ
اعوذو باللہ ۔ ۔ ۔
قال اللہ تعالیٰ فی سورہ آل عمران
وَ اِنَّ مِنْ اَهْلِ الْكِتٰبِ لَمَنْ يُّؤْمِنُ بِاللّٰهِ وَ مَاۤ اُنْزِلَ اِلَيْكُمْ وَ مَاۤ اُنْزِلَ اِلَيْهِمْ خٰشِعِيْنَ لِلّٰهِ١ۙ لَا يَشْتَرُوْنَ بِاٰيٰتِ اللّٰهِ ثَمَنًا قَلِيْلًا١ؕ اُولٰٓىِٕكَ لَهُمْ اَجْرُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ سَرِيْعُ الْحِسَابِ۰۰۱۹۹
[آل عمران: 199]
’’اہل کتاب میں بھی کچھ لوگ ایسے ہیں جو اللہ پر ایمان ہیں، اس کتاب پر ایمان لاتے ہیں جو تمہاری طرف بھیجی گئی ہے اوراُس کتاب پربھی ایمان رکھتے ہیں جو اس سے پہلے خود ان کی طرف بھیجی گئی تھی، اللہ کے آگے جھکے ہوئے ہیں، اور اللہ کی آیات کو تھوڑی سی قیمت پر بیچ نہیں دیتے ان کا اجر ان کے رب کے پاس ہے اور اللہ حساب چکانے میں دیر نہیں لگاتا۔‘‘
اللہ تعالی نے اس آیت میں ان لوگوں کو ذکر بہت اچھے انداز میں بیان کیا ہے کہ جو اللہ کی آیات پر دنیاوی اجر نہیں لیتے بلکہ فرمایا کہ ان کا اجر ان کے رب کے پاس ہے۔ یعنی دین کاموں کا اجر آخرت کے لئے ہے دنیا کے لئے نہیں۔قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :
وَ اٰمِنُوْا بِمَاۤ اَنْزَلْتُ مُصَدِّقًا لِّمَا مَعَكُمْ وَ لَا تَكُوْنُوْۤا اَوَّلَ كَافِرٍۭ بِهٖ١۪ وَ لَا تَشْتَرُوْا بِاٰيٰتِيْ ثَمَنًا قَلِيْلًا١ٞ وَ اِيَّايَ فَاتَّقُوْنِ۰۰۴۱
[البقرة: 41]
’’اور ایمان لاو (اس کتاب) پر جو میں نے نازل کی تصدیق کرنے والی ہے اس کی جو تمہارے پاس ہے (تورات و انجیل) اور مت بنو پہلے انکار کرنے والے اس کے اور مت بیچو میری آیتوں کو تھوڑی قیمت میں اور صرف مجھ ہی سے پس تم ڈرو۔
۔ ۔ ۔ فَلَا تَخْشَوُا النَّاسَ وَ اخْشَوْنِ وَ لَا تَشْتَرُوْا بِاٰيٰتِيْ ثَمَنًا قَلِيْلًا١ؕ وَ مَنْ لَّمْ يَحْكُمْ بِمَاۤ اَنْزَلَ اللّٰهُ فَاُولٰٓىِٕكَ هُمُ الْكٰفِرُوْنَ۰۰۴۴
[المائدة: 44]
’’تم لوگوں سے نہ ڈرو بلکہ مجھ سے ڈرو اور میری آیات کوتھوڑے معاوضے پر مت بیچو، جو لوگ اللہ کے نازل کردہ قانون کے مطابق فیصلہ نہ کریں وہی کافر ہیں۔ُُ
ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے فرما کہ’’ میری آیات ‘‘ کو ’’ ذریعہ معاش نہ بنا لو،اور فرمایا کہ جو اللہ کے نازل کردہ کے مطابق فیصلہ نہ کریں ’’وہی کافر ‘‘ ہیں۔ یعنی یہ جو حکم دیا گیا ہے کہ قرآن مجید کی آیات نہ بیچ ڈالو یہ اللہ کا حکم ہے ، اور جو اس کے خلاف فیصلہ کریں یعنی اس کمائی کو جائز قرار دیں پس وہی کافر ہیں۔ اللہ تعالیٰ مزید فرماتا ہے:
اِنَّ الَّذِيْنَ يَكْتُمُوْنَ مَاۤ اَنْزَلَ اللّٰهُ مِنَ الْكِتٰبِ وَ يَشْتَرُوْنَ بِهٖ ثَمَنًا قَلِيْلًا١ۙ اُولٰٓىِٕكَ مَا يَاْكُلُوْنَ فِيْ بُطُوْنِهِمْ اِلَّا النَّارَ وَ لَا يُكَلِّمُهُمُ اللّٰهُ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ وَ لَا يُزَكِّيْهِمْ١ۖۚ وَ لَهُمْ عَذَابٌ اَلِيْمٌ۰۰۱۷۴
[البقرة: 174]
اس آیت میں دو معاملات بیان کئے گئے ہیں، اول وہ لوگ جو اللہ کے نازل کردہ احکامات کو چھپاتے ہیں اور دوم وہ لوگ جو اس قرآن کے ذریعے کماتے ہیں، یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے پیٹوں میں جہنم کی آگ ڈال رہے ہیں یعنی قرآن مجید پر یہ کمائی درحقیقت جہنم کی آگ ہے۔ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ ایسے افراد سے بات تک نہیں کرے گا یعنی ان پر بہت ہی غضب ناک ہوگا۔ انہیں پاک بھی نہیں کیا جائے گا کیونکہ جنت میں صرف پاک لوگ ہی جائیں گے۔
قارئین گرامی! کتنے واضح انداز میں اللہ تعالیٰ نے یہ بتا دیا کہ قرآن پر اجرت لینا حرام، اپنے پیٹوں میں جہنم کی آگ ڈالنا ہے اور جو لوگ یہ کام فی سبیل للہ کرتے ہیں ، آخرت میں اللہ تعالیٰ کے پاس اس کا بھرپور اجر پائیں گے۔
گویا امامت،تعلیم القرآن پر اجرت مکمل طور پر حرام ہے۔
نبی ﷺ نے فرمایا :
اقرءوا القرآن ولا تغلوا فيه ولا تجفوا عنه ولا تأكلوا به ولا تستكثروا به
’’ قرآن پڑھو اور اس میں غلو نہ کرو اور اس سے اعراض نہ کرو اس کو ذریعہ معاش نہ بناؤ اور نہ ہی اس سے بہت سے دنیاوی فائدے حاصل کرو۔‘‘
عن سهل بن سعد الساعدي، قال: خرج علينا رسول الله صلى الله عليه وسلم يوما ونحن نقترئ، فقال: «الْحَمْدُ لِلَّهِ، كِتَابُ اللَّهِ وَاحِدٌ، فِيكُمُ الْأَحْمَرُ، وَفِيكُمُ الْأَبْيَضُ، وَفِيكُمُ الْأَسْوَدُ، اقْرَءُوهُ قَبْلَ أَنْ يَقْرَأَهُ أَقْوَامٌ يُقَوِّمُونَهُ كَمَا يُقَوَّمُ السَّهْمُ؛ يَتَعَجَّلُ أَجْرَهُ وَلَا يُتَأَجَّلُهُ»
( ابو داؤد، أبواب تفريع استفتاح الصلاة، باب ما يجزئ الأمي والأعجمي من القراءة )
’’ سہل بن سعد بن ساعدی ؓ سے روایت ہے کہ ایک دن رسول اﷲﷺہمارے پاس تشریف لاۓ اس حال میں کہ ہم قرآن کی تلاوت کر رہے تھے یہ دیکھ کر آپؐ نے فرمایا الحمدﷲ کتابﷲ پڑھنے والے سرخ بھی ہیں‛ سفید بھی ہیں‛ کالے بھی ہیں قرآن پڑھو عنقریب ایسی قومیں آئیں گی جو قرآن کے زیرزبر کو ایسے سیدھا کریں گی جیسے تیر کو سیدھا کیا جاتا ہے لیکن قرآن کے اجر میں جلدی کریں گے اور اس کو آخرت پر نہ رکھیں گے۔‘‘
عن عثمان بن أبي العاص قال: قلت : يَا رَسُولَ اللَّهِ، اجْعَلْنِي إِمَامَ قَوْمِي. قَالَ: أَنْتَ إِمَامُهُمْ، وَاقْتَدِ بِأَضْعَفِهِمْ، وَاتَّخِذْ مُؤَذِّنًا لا يَأْخُذُ عَلَى أَذَانِهِ أَجْرًا
( سنن النسائی، کتاب الاذان ، اتخاذ المؤذن الذي لا يأخذ على أذانه أجرا )
’’ عثمان بن ابی العاصؓ سے روایت ہے کہ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ مجھے اپنی قوم کا امام بنا دیجئے آپ ؐ نے فرمایا (ٹھیک ہے) تم ان کے امام ہو لیکن کمزور مقتدیوں کا خیال رکھنا۔ اور مؤذن ایسا شخص مقرر کرنا جو اذان پر اجرت نہ لے۔‘‘
عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ، قَالَ: عَلَّمْتُ نَاسًا مِنْ أَهْلِ الصُّفَّةِ الْكِتَابَ، وَالْقُرْآنَ فَأَهْدَى إِلَيَّ رَجُلٌ مِنْهُمْ قَوْسًا فَقُلْتُ: لَيْسَتْ بِمَالٍ وَأَرْمِي عَنْهَا فِي سَبِيلِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ، لَآتِيَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَأَسْأَلَنَّهُ فَأَتَيْتُهُ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، رَجُلٌ أَهْدَى إِلَيَّ قَوْسًا مِمَّنْ كُنْتُ أُعَلِّمُهُ الْكِتَابَ وَالْقُرْآنَ، وَلَيْسَتْ بِمَالٍ وَأَرْمِي عَنْهَا فِي سَبِيلِ اللَّهِ، قَالَ: «إِنْ كُنْتَ تُحِبُّ أَنْ تُطَوَّقَ طَوْقًا مِنْ نَارٍ فَاقْبَلْهَا»
(المستدرک علی الصحیحین للحاکم ، کتاب البیوع، وَأَمَّا حَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ )
’’ عبادہ بن صامت سے روایت ہے کہ وہ فرماتے ہیں کہ میں نے اہل صفہ کے کچھ لوگوں کو قرآن مجید اور کتاب اللہ کی تعلیم دی ان میں سے ایک شخص نے مجھے ایک کمان ہدیہ دی۔ میں نے کہا کہ اس کی مالیت تو کچھ نہیں اور میں اس سے اللہ کی راہ میں تیر اندازی کروں گا (مقصد یہ کہ اس ہدیہ کے قبول کرنے کا خیال تھا اس واسطے کہ اس کی مالیت تو کچھ خاص نہیں تھی کہ اس کو تعلیم کا معاوضہ خیال کرتا اور نیت یہ تھی کہ اس کے ذریعہ اللہ کے راستہ میں تیر اندازی کروں گا) میں اس کے بارے میں رسول اللہﷺ کے پاس جاؤں گا اور سوال کروں گا، چنانچہ میں نبی ﷺ کے پاس گیا اور کہا کہ یا رسول ﷺایک آدمی نے مجھے کمان ہدیہ کی ہے ان میں سے کہ جنہیں کتاب اللہ اور قرآن کی تعلیم دیتا ہوں اور اس کمان کی کچھ مالیت بھی نہیں ہے اور اس کے ذریعہ میں اللہ کے راستہ میں تیر اندازی کروں گا، نبیﷺ نے فرمایا کہ اگر تجھے یہ بات پسند ہے کہ تیرے گلے میں آگ کا طوق ڈالا جائے تو اسے قبول کر لے۔‘‘
عن أبي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «مَنْ تَعَلَّمَ عِلْمًا مِمَّا يُبْتَغَى بِهِ وَجْهُ اللَّهِ، لَا يَتَعَلَّمُهُ إِلَّا لِيُصِيبَ بِهِ عَرَضًا مِنَ الدُّنْيَا، لَمْ يَجِدْ عَرْفَ الْجَنَّةِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ»
( صحیح ابن حبان ، کتاب العلم ، ذكر وصف العلم الذي يتوقع دخول النار في القيامة لمن طلبه )
’’ابوہریر ؓ ہ سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا کہ جس شخص نے وہ علم کہ جس سے اللہ تبارک تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کی جاتی ہے اس لئے سیکھا کہ اس کے ذریعہ اسے دنیا کا کچھ مال و متاع مل جائے تو ایسا شخص جنت کی خوشبو کو بھی نہیں پا سکے گا قیامت کے دن۔ ‘‘
قارئین گرامی ! یہ جسم کو لرزا دینے والی احادیث ہیں کہ تعلیم القرآن پر تحفہ لینے والا بھی آگ کا ہار پہنے گا اور جس نے اسی ذریعہ معاش بنایا وہ جنت کی خوشبو بھی نہیں سونگھ پائیں گے۔ استغفر اللہ من ذالک
قرآن اور احادیث نبوی ﷺ سے ثابت ہوا کہ
قرآن مجید کی آیات پر اجرت لینا،
اس پر تحفہ لینا،
اس کے ذریعے کسی اور قسم کا فائدہ اٹھانا ،
اپنے پیٹوں میں جہنم کی آگ ڈالنا ہے۔
اللہ کے حکم کا کفر،
اورنبی ﷺ کے حکم کا کفرہے۔
اسی طرح اذان کی اجرت سے بھی منع کردیا گیا ہے۔
اسلام کے نام پر فرقے بنا دئیے گئے، ایک دوسرے سے اختلاف کی گیا لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ
دینی امور پر اجرت لینے پر سارے فرقوں کا اتفاق ہے۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ فرقوں کا سارا کنٹرل ان کے مفتی اور مولوی کے ہاتھ میں ہوتا ہے ، اور یہ اپنی کمائی کسی بھی طور چھوڑنے پر تیار نہیں، انہوں دین کو پیشہ بنا رکھا ہے۔لیکن اس کمائی پر مصر رہنے والےفرقوں کے یہ علماء کہتے ہیں کہ ان قرآنی آیات کا ہر گز یہ مقصد نہیں کہ قرآن پر اجرت منع ہے بلکہ قرآن ہی کی آیات بعض دوسری آیات کی تفصیل بیان کرتی ہیں۔ اس بارے میں وہ سورہ بقرہ آیات ۱۷۴ اور ۱۷۵ آیت پیش کرتے ہیں :
اِنَّ الَّذِيْنَ يَكْتُمُوْنَ مَاۤ اَنْزَلَ اللّٰهُ مِنَ الْكِتٰبِ وَ يَشْتَرُوْنَ بِهٖ ثَمَنًا قَلِيْلًا١ۙ اُولٰٓىِٕكَ مَا يَاْكُلُوْنَ فِيْ بُطُوْنِهِمْ اِلَّا النَّارَ وَ لَا يُكَلِّمُهُمُ اللّٰهُ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ وَ لَا يُزَكِّيْهِمْ١ۖۚ وَ لَهُمْ عَذَابٌ اَلِيْمٌ۰۰۱۷۴ اُولٰٓىِٕكَ الَّذِيْنَ اشْتَرَوُا الضَّلٰلَةَ بِالْهُدٰى وَ الْعَذَابَ بِالْمَغْفِرَةِ١ۚ فَمَاۤ اَصْبَرَهُمْ عَلَى النَّارِ۰۰۱۷۵
[البقرة: 174-175]
’’بے شک جو لوگ اُن احکام کو چھپاتے ہیں جو اللہ نے اپنی کتاب میں ناز ل کیے ہیں اوراس (قرآن) کے ذریعے تھوڑا معاوضہ کماتے ہیں، وہ دراصل اپنے پیٹ میں جہنم کی آگ ڈالتے ہیں، قیامت کے دن اللہ ہرگز ان سے بات نہ کرے گا، نہ انہیں پاک کرےگا، اور اُن کے لیے دردناک عذاب ہے۔ یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے ہدایت کے بدلے گمراہی خرید لی ہے اور ( اللہ کی طرف سے ) مغفرت کے بدلے ( اللہ کا ) عذاب، سو دیکھو یہ کس قدر صبر کرنے والے ہیں جہنم کی آگ پر۔‘‘
وَ اِذْ اَخَذَ اللّٰهُ مِيْثَاقَ الَّذِيْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ لَتُبَيِّنُنَّهٗ۠ لِلنَّاسِ وَ لَا تَكْتُمُوْنَهٗ١ٞ فَنَبَذُوْهُ وَرَآءَ ظُهُوْرِهِمْ وَ اشْتَرَوْا بِهٖ ثَمَنًا قَلِيْلًا١ؕ فَبِئْسَ مَا يَشْتَرُوْنَ۰۰۱۸۷
[آل عمران: 187]
’’ اور جب اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں سے پختہ عہد لیا تھا جو کتاب دیئے گئے کہ وہ لوگوں کے سامنے کتاب کو وضاحت سے بیان کریں گے اور اسے چھپائیں گے نہیں۔ پھر انہوں نے کتاب کو پس پشت ڈال دیا اور اسے تھوڑی سی قیمت کے عوض بیچ ڈالا۔ کتنی بری ہے وہ قیمت جو وہ وصول کر رہے ہیں‘‘۔
ان آیات کو پیش کرکے کہا جاتا ہے کہ جب دین کو چھپا لیا جائے اور اس پر اجرت لی جائے تو یہ اسوقت یہ حرام ہے ورنہ یہ جائز ہے۔
وضاحت :
بے شک ایسا کرکے اس پر اجرت لینا تو کھلا حرام ہے لیکن یہ مفتیان بھی اس امت کیساتھ وہی کھیل رہے ہیں جو کہ قوم یہود کے علماء نے کھیلا تھا کہ اللہ کے نازل کردہ میں سے بہت چھپا لیا کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے اس قسم کے افراد کی اس روش سے اسی وقت آگاہ کردیا تھا، مالک کائنات فرماتا ہے :
يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْۤا اِنَّ كَثِيْرًا مِّنَ الْاَحْبَارِ وَ الرُّهْبَانِ لَيَاْكُلُوْنَ اَمْوَالَ النَّاسِ بِالْبَاطِلِ وَ يَصُدُّوْنَ عَنْ سَبِيْلِ اللّٰهِ١ ۔ ۔ ۔
[التوبة: 34]
’’اے ایمان والو، بے شک علماء اور پیروں کی اکثریت لوگوں کا مال باطل طریقے سے کھاتی ہے اور انہیں اللہ کی راہ سے روک دیتی ہے ۔ ۔ ۔‘‘
اللہ تعالیٰ نے پہلے ہی بتا دیا تھا کہ یہ لوگوں کا مال باطل طریقے سے کھاتے ہیں تو اللہ کی وہ بات صادق آئی اور آج یہ بات ہمارے سامنے کھل کر آچکی ہے کہ یہ مولوی، یہ پیر اور مفتیان کس کس طرح دین پر کمائی کر رہے ہیں۔ کہیں امامت پر اجرت ہے، کہیں تعلیم القرآن پر اجرت، کہیں قرآن کا تعویذ لکھ کر کما رہے ہیں اور کہیں ایصال ثواب کی بدعات پر مبنی رسومات ایجاد کرکے وہاں پوری پوری ٹیم لیجا کر ختم قرآن کی فیس لے رہے ہیں۔ کہیں مولوی صاحب کو ختم پر بلایا جاتا ہے اور ہاتھ اٹھا اٹھا کر دعا کرکے تر مال اور ہدیہ حاصل کرتے ہیں تو اب کہیں ’’ قرآن سے روحانی علاج ‘‘ شروع کردیا ہے۔ کہیں اذان پر اجرت ہے تو کہیں درس و تدریس پرجانے کا ہدیہ۔ الغرض کہ دین کو کمائی کا ذریعہ بنا ڈالا ہے۔
مفتی صاحبان جو یہ دو آیات پیش کررہے ہیں تو دین پر اجرت کے بارے میں قرآن میں صرف یہ دو آیات نہیں ہیں بلکہ کثرت سے وہ آیات بھری پڑی ہیں جن میں اجرت پر انکار ثابت ہوتا ہے۔ مفتی صاحبان وہ آیات لوگوں کے سامنے آنے ہی نہیں دیتے بلکہ اسے چھپا لیتے ہیں۔ملاحظہ فرمائیں اس کی چند مثالیں:
نوح علیہ السلام نے اپنی قوم سے کہا :
وَ مَاۤ اَسْـَٔلُكُمْ عَلَيْهِ مِنْ اَجْرٍ١ۚ اِنْ اَجْرِيَ اِلَّا عَلٰى رَبِّ الْعٰلَمِيْنَۚ۰۰۱۰۹
[الشعراء: 109]
’’اور نہیں میں سوال کرتا تم سے اس پر کسی اجرت کا، نہیں ہے میری اجرت مگر جہانوں کے رب کے ذمے‘‘ ۔
وَ يٰقَوْمِ لَاۤ اَسْـَٔلُكُمْ عَلَيْهِ مَالًا١ؕ اِنْ اَجْرِيَ اِلَّا عَلَى اللّٰهِ ۔ ۔ ۔
[هود: 29]
’’اور اے میری قوم ! میں نہیں مانگتا تم سے اس پر کوئی مال، نہیں ہے میرا اجر مگر اللہ پر ‘‘
ھود علیہ اسلام نے فرمایا میرا اجر ﷲ کے ذمہ ہے۔
وَ مَاۤ اَسْـَٔلُكُمْ عَلَيْهِ مِنْ اَجْرٍ١ۚ اِنْ اَجْرِيَ اِلَّا عَلٰى رَبِّ الْعٰلَمِيْنَؕ۰۰۱۲۷
[الشعراء: 127]
’’اور نہیں میں سوال کرتا تم سے اس پر کسی اجرت کا، نہیں ہے میری اجرت مگر جہانوں کے رب کے ذمے‘‘ ۔
وَ مَاۤ اَسْـَٔلُكُمْ عَلَيْهِ مِنْ اَجْرٍ١ۚ اِنْ اَجْرِيَ اِلَّا عَلٰى رَبِّ الْعٰلَمِيْنَؕ۰۰۱۲۷
[هود: 51]
’’اے میری قوم ! نہیں میں مانگتا تم سے اس پر کوئی اجر، نہیں ہے میرا اجر مگر اس پر جس نے مجھے پیدا کیا تو کیا تم سمجھتے نہیں ہو‘‘
لوط علیہ اسلام نےفرمایا میرا اجر ﷲ کے ذمہ ہے۔
وَ مَاۤ اَسْـَٔلُكُمْ عَلَيْهِ مِنْ اَجْرٍ١ۚ اِنْ اَجْرِيَ اِلَّا عَلٰى رَبِّ الْعٰلَمِيْنَؕ۰۰۱۶۴
[الشعراء: 164]
’’اور نہیں میں مانگتا تم سے اس (تبلیغ) پر کوئی اجرت ، نہیں ہے میری اجرت مگر رب العالمین کے ذمے ‘‘۔
شعیب علیہ اسلام نے فرمایا میرا اجر ﷲ کے ذمہ ہے۔
وَ مَاۤ اَسْـَٔلُكُمْ عَلَيْهِ مِنْ اَجْرٍ١ۚ اِنْ اَجْرِيَ اِلَّا عَلٰى رَبِّ الْعٰلَمِيْنَؕ۰۰۱۸۰
[الشعراء: 180]
’’اور نہیں میں مانگتا تم سے اس (تبلیغ) پر کوئی اجرت ، نہیں ہے میری اجرت مگر رب العالمین کے ذمے‘‘ ۔
سورہ یٰسن میں اللہ تعالیٰ نے ایک بنیاد بیان فرمائی کہ ہدایت پر کون ہے :
اتَّبِعُوْا مَنْ لَّا يَسْـَٔلُكُمْ اَجْرًا وَّ هُمْ مُّهْتَدُوْنَ۰۰۲۱
(یٰسٓ :21)
’’ رسولوں کی اتباع کرو جو تم سے کوئی اجر نہیں مانگتے اور جو ہدایت یافتہ ہیں۔‘‘
نبی ﷺ سے کہلوایا :
قُلْ لَّاۤ اَسْـَٔلُكُمْ عَلَيْهِ اَجْرًا١ؕ اِنْ هُوَ اِلَّا ذِكْرٰى لِلْعٰلَمِيْنَؒ
(الانعام: 90)
’’ (اے نبی ﷺ!) کہدو کہ میں تم سے اس (قرآن) پر اجرت نہیں مانگتا ، یہ تو تمام عالم کے لیے نصیحت ہے ۔‘‘
۔ ۔ ۔قُلْ لَّاۤ اَسْـَٔلُكُمْ عَلَيْهِ اَجْرًا١ؕ اِنْ هُوَ اِلَّا ذِكْرٰى لِلْعٰلَمِيْنَؒ۰۰۹۰
(سبا :47)
’’ (اے نبی ﷺ!) کہدو کہ میں نے (دین پر) تم سے کچھ اجرت مانگی ہو تو وہ تمہاری، میرا اجر تو اﷲ کے ذمہ ہے اور وہ ہر چیز سے باخبر ہے ‘‘۔
انبیاء علیہ السلام بھی اپنے ہاتھوں سے کمانے والے تھے :
قَالَ مَا بَعَثَ اللّٰہُ نَبِیًّا اِلَّا رَعَی الْغَنَمَ فَقَالَ اَصْحَابُہٗ وَ اَنْتَ فَقَالَ نَعَمْ کُنْتُ اَرْعَاھَاعَلٰی قَرَارِْ یطَ لِاَھْلِ مَکَّۃَ
(بخاری: کتاب الاجارۃ، باب رعی الغنم علی قراریط )
’’ نبی ﷺنے فرمایا کہ اﷲ تعالیٰ نے کوئی نبی ایسا نہیں بھیجا جس نے بکریاں نہ چَرائیں ہوں۔ صحابہؓ نے پوچھا اور آپ نے بھی؟ فرمایا کہ ہاں، میں بھی مکہ والوں کی بکریاں چند قیراط کی اجرت پر چَرایا کرتا تھا‘‘۔
اسی طرح انبیاء علیہ السلام مختلف کام کیا کرتے تھے:
اِنَّ دَاوٗدَ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَانَ لَا یَاْکُلُ اِلَّامِنْ عَمَلِ یَدِہٖ
(بخاری: کتاب البیوع، باب کسب الرجل عملِہ بیدہٖ)
’’ اﷲ کے نبی داؤ د علیہ الصلوٰۃ و السلام صرف اپنے ہاتھ سے کام کرکے روزی حاصل کرتے تھے ۔‘‘
کَانَ زَکَرِیَّا نَجَّارًا
(مسلم:کتاب الفضائل،باب فضائل زکریا ؑ)
’’ زکریا ؑ بڑھئی تھے ۔‘‘
اب دیکھیں صحابہ ؓ کا کردار:
عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : أَتَاهُ رِعْلٌ وَذَكْوَانُ وَعُصَيَّةُ وَبَنُو لَحْيَانَ فَزَعَمُوا أَنَّهُمْ قَدْ أَسْلَمُوا وَاسْتَمَدُّوهُ عَلَى قَوْمِهِمْ ، فَأَمَدَّهُمُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِسَبْعِينَ مِنْ الْأَنْصَارِ ، قَالَ : أَنَسٌ كُنَّا نُسَمِّيهِمْ الْقُرَّاءَ يَحْطِبُونَ بِالنَّهَارِ وَيُصَلُّونَ بِاللَّيْلِ فَانْطَلَقُوا بِهِمْ حَتَّى بَلَغُوا بِئْرَ مَعُونَةَ غَدَرُوا بِهِمْ وَقَتَلُوهُمْ ، فَقَنَتَ شَهْرًا يَدْعُو عَلَى رِعْلٍ وَذَكْوَانَ وَبَنِي لَحْيَانَ ، قَالَ : قَتَادَةُ ، وَحَدَّثَنَا أَنَسٌ أَنَّهُمْ قَرَءُوا بِهِمْ قُرْآنًا أَلَا بَلِّغُوا عَنَّا قَوْمَنَا بِأَنَّا قَدْ لَقِيَنَا رَبَّنَا فَرَضِيَ عَنَّا وَأَرْضَانَا ، ثُمَّ رُفِعَ ذَلِكَ بَعْدُ
( بخاری،کتاب الجہاد و السیر، بَابُ العَوْنِ بِالْمَدَدِ )
’’نبی کریم ﷺ کی خدمت میں رعل ‘ ذکوان ‘ عصیہ اور بنو لحیان قبائل کے کچھ لوگ آئے اور یقین دلایا کہ وہ لوگ اسلام لا چکے ہیں اور انہوں نے اپنی کافر قوم کے مقابل امداد اور تعلیم و تبلیغ کے لیے آپ سے مدد چاہی۔ تو نبیﷺنے ستر انصاریوں کو ان کے ساتھ کر دیا۔ انسؓ نے بیان کیا ‘ کہ ہم انہیں قاری کہا کرتے تھے۔ وہ لوگ دن میں جنگل سے لکڑیاں جمع کرتے اور رات میں صلوٰۃ ادا کرتے رہتے۔ یہ لوگ ان قبیلہ والوں کے ساتھ چلے گئے ‘ لیکن جب بئرمعونہ پر پہنچے تو قبیلہ والوں نے ان صحابہ ؓ کے ساتھ دغا کی اور انہیں شہید کر ڈالا۔ نبیﷺ نے ایک مہینہ تک ( صلوٰۃ میں ) قنوت پڑھی اور رعل و ذکوان اور بنو لحیان کے لیے بددعا کرتے رہے۔ قتادہ نے کہا کہ ہم سے انس ؓ نے کہا کہ ( ان شہداء کے بارے میں ) قرآن مجید میں ہم یہ آیت یوں پڑھتے رہے ”ہاں! ہماری قوم ( مسلمین ) کو بتا دو کہ ہم اپنے رب سے جا ملے۔ اور وہ ہم سے راضی ہو گیا ہے اور ہمیں بھی اس نے خوش کیا ہے۔“ پھر یہ آیت منسوخ ہو گئی تھی‘‘۔
یہ ہے صحابہ ؓ کا عمل کہ دن میں محنت مزدوری اور رات میں اللہ کی عبادت۔قرآن و حدیث کے دلائل سے ثابت ہوا کہ کسی بھی حالت میں قرآن مجید پر اجرت نہیں لی جا سکتی۔ فرقے کے مفتیان و علماء خود ان سب باتوں کو چھپاتے ہیں، لوگوں کے سامنے یہ سب بیان نہیں کرتے تاکہ لوگ حقیقت جان کر ہمیں مال دینا نہ بند کردیں، لہذا اب ان پر بھی ان دونوں آیات کا نفاذ ہوتا ہے جو یہ بہانہ تراشنے کے لئے بیان کرتے ہیں۔ اس طرح انہوں نے وہی کام کیا جو مالک قرآن مجید میں فرماتا ہے :
اِشْتَرَوْا بِاٰيٰتِ اللّٰهِ ثَمَنًا قَلِيْلًا فَصَدُّوْا عَنْ سَبِيْلِهٖ١ؕ اِنَّهُمْ سَآءَ مَا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ۰۰۹
[التوبة: 9]
’’انہوں نے اللہ کی آیات کو تھوڑی سی قیمت پر بیچ دیا پھر (لوگوں کو) اللہ کی راہ سے روک دیا۔ بہت برے ہیں وہ کام جو وہ کر رہے ہیں‘‘۔
بالکل آج یہی ماحول ہے کہ ہر ہر فرقےنے ’’ دین پر اجرت ‘‘ پر اتفاق کیا ہوا ہے اور باقی ہر ہر مسئلے پر ان کا اختلاف ہے، بہر حال ان میں بھی کچھ لوگ ایسے ہیں جو اجرت نہیں لیتے لیکن ان کی تعداد بمشکل ایک دو فیصد ہی ہوگی۔
اپنےاس حرام فعل کو حلال ثابت کرنےکے لئے یہ بخاری کی ایک حدیث بھی پیش کرتے ہیں، لہذا اس کا مطالعہ بھی کرتے ہیں۔
اس سے قبل ہم نے دینی امور پر اجرت کے بارے میں قرآن و حدیث کا بیان پیش کیا تھا جس کی رو سے امامت اور تعلیم القرآن پر اجرت لینا منع اور جہنم کی آگ اپنے پیٹوں میں ڈالنا ہے۔ ایسے لوگ قیامت کے دن پاک نہیں کئے جائیں گے ، کیونکہ جنت میں صرف پاک لوگ جائیں گے۔ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ ان سے کلام بھی نہیں کرے گا بلکہ حدیث نبی ﷺ کی رو سے یہ جنت کی خوشبو بھی نہیں پا سکیں گے۔ لیکن ان کا دل جگرا دیکھیں کہ انہوں اس حرام کام کو اپنا پیشہ بنا لیااورجہنم کی آگ پر صبر کرلیا :
اِنَّ الَّذِيْنَ يَكْتُمُوْنَ مَاۤ اَنْزَلَ اللّٰهُ مِنَ الْكِتٰبِ وَ يَشْتَرُوْنَ بِهٖ ثَمَنًا قَلِيْلًا١ۙ اُولٰٓىِٕكَ مَا يَاْكُلُوْنَ فِيْ بُطُوْنِهِمْ اِلَّا النَّارَ وَ لَا يُكَلِّمُهُمُ اللّٰهُ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ وَ لَا يُزَكِّيْهِمْ١ۖۚ وَ لَهُمْ عَذَابٌ اَلِيْمٌ۰۰۱۷۴اُولٰٓىِٕكَ الَّذِيْنَ اشْتَرَوُا الضَّلٰلَةَ بِالْهُدٰى وَ الْعَذَابَ بِالْمَغْفِرَةِ١ۚ فَمَاۤ اَصْبَرَهُمْ عَلَى النَّارِ۰۰۱۷۵
[البقرة: 174-175]
’’بے شک جو لوگ اُن احکام کو چھپاتے ہیں جو اللہ نے اپنی کتاب میں ناز ل کیے ہیں اوراس (قرآن) کے ذریعے تھوڑا معاوضہ کماتے ہیں، وہ دراصل اپنے پیٹ میں جہنم کی آگ ڈالتے ہیں، قیامت کے دن اللہ ہرگز ان سے بات نہ کرے گا، نہ انہیں پاک کرےگا، اور اُن کے لیے دردناک عذاب ہے۔ یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے ہدایت کے بدلے گمراہی خرید لی ہے اور ( اللہ کی طرف سے ) مغفرت کے بدلے ( اللہ کا ) عذاب، سو دیکھو یہ کس قدر صبر کرنے والے ہیں جہنم کی آگ پر۔‘‘
فَمَاۤ اَصْبَرَهُمْ عَلَى النَّارِ
’’سودیکھو یہ کس قدر صبر کرنے والے ہیں جہنم کی آگ پر‘‘
جہنم کی آگ پر صبر کرنے والے یہ لوگ قرآن و حدیث کے واضح احکامات کے بعد بھی اسے پیشہ بنائے ہوئے ہیں اور عوام الناس کو دھوکہ دینے کے لئے ایک دو احادیث بھی پیش کرتے اور اس سے دینی امور پر اجرت کوجائز قرار دیتے ہیں۔اب ہم ان کی پیش کردہ احادیث کی طرف آتے ہیں:
عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الخُدْرِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ نَاسًا مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَتَوْا عَلَى حَيٍّ مِنْ أَحْيَاءِ العَرَبِ فَلَمْ يَقْرُوهُمْ، فَبَيْنَمَا هُمْ كَذَلِكَ، إِذْ لُدِغَ سَيِّدُ أُولَئِكَ، فَقَالُوا: هَلْ مَعَكُمْ مِنْ دَوَاءٍ أَوْ رَاقٍ؟ فَقَالُوا: إِنَّكُمْ لَمْ تَقْرُونَا، وَلاَ نَفْعَلُ حَتَّى تَجْعَلُوا لَنَا جُعْلًا، فَجَعَلُوا لَهُمْ قَطِيعًا مِنَ الشَّاءِ، فَجَعَلَ يَقْرَأُ بِأُمِّ القُرْآنِ، وَيَجْمَعُ بُزَاقَهُ وَيَتْفِلُ، فَبَرَأَ فَأَتَوْا بِالشَّاءِ، فَقَالُوا: لاَ نَأْخُذُهُ حَتَّى نَسْأَلَ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَسَأَلُوهُ فَضَحِكَ وَقَالَ: «وَمَا أَدْرَاكَ أَنَّهَا رُقْيَةٌ، خُذُوهَا وَاضْرِبُوا لِي بِسَهْمٍ»
( بخاری، کتاب الطب، بَابُ الرُّقَى بِفَاتِحَةِ الكِتَابِ )
’’ابوسعیدخدری ؓ کہتے ہیں کہ نبیﷺ کے صحابہ میں سے چند لوگ عرب کے کسی قبیلہ کے پاس پہنچے، اس قبیلہ کے لوگوں نے ان کی ضیافت نہیں کی، وہ لوگ وہیں تھے کہ اس قبیلہ کے سردار کو سانپ نے ڈس لیا، تو انہوں نے پوچھا کہ تمہارے پاس کوئی دوا یا کوئی دم کرنے والا ہے، تو ان لوگوں نے کہا کہ تم نے ہماری مہمان داری نہیں کی اس لئے ہم کچھ نہیں کریں گے، جب تک کہ تم لوگ ہمارے لئے کوئی چیز متعین نہ کروگے، اس پر ان لوگوں نے چند بکریوں کا دینا منظور کیا،پھر ابو سعید خدری ؓ نے سورہ فاتحہ پڑھنا شروع کی اور تھوک جمع کرکے اس پر ڈال دیا، تو وہ آدمی تندرست ہوگیا، وہ آدمی بکریاں لے کر آیا تو انہوں ( صحابہ ؓ ) نے کہا کہ ہم یہ نہیں لیتے جب تک کہ نبیﷺ سے اس کے متعلق دریافت نہ کرلیں، چنانچہ ان لوگوں نے نبی ﷺسے اس کے متعلق دریافت کیا تو آپ ہنس پڑے، فرمایا کہ تمہیں کیسے معلوم ہوا کہ سورہ فاتحہ دم ہے، تم اس کو لے لو اور ایک حصہ میرا بھی اس میں لگا ؤ۔
یہ خصوصی معاملہ اس وقت پیش آیا تھا جب صحابہ کرامؓ کی جماعت کا گزر ایک قبیلے والوں پر ہوا جنہوں نے اس جماعت کی میزبانی کرنے سے انکار کردیا۔ایسی صورتحال کے لیے نبی ﷺ نے صحابہ کرام کو اس بات کی تعلیم دی ہوئی تھی کہ اگر کوئی قبیلہ ان کی ضیافت نہ کرے تووہ کسی طور سے حق ضیافت وصول کرلیں کیونکہ اس دور میں آج کل کی طرح ہوٹلوں وغیرہ کا رواج نہیں تھا۔
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، قَالَ: حَدَّثَنِي يَزِيدُ، عَنْ أَبِي الخَيْرِ، عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ، قَالَ: قُلْنَا لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّكَ تَبْعَثُنَا، فَنَنْزِلُ بِقَوْمٍ لاَ يَقْرُونَا، فَمَا تَرَى فِيهِ؟ فَقَالَ لَنَا: «إِنْ نَزَلْتُمْ بِقَوْمٍ فَأُمِرَ لَكُمْ بِمَا يَنْبَغِي لِلضَّيْفِ فَاقْبَلُوا، فَإِنْ لَمْ يَفْعَلُوا، فَخُذُوا مِنْهُمْ حَقَّ الضَّيْفِ»
( بخاری، کتاب المظالم و غضب ، بَابُ قِصَاصِ المَظْلُومِ إِذَا وَجَدَ مَالَ ظَالِمِهِ )
’’عقبہ بن عامر سے روایت کرتے ہیں انہوں نے بیان کیا کہ ہم نے نبیﷺسے عرض کیا کہ آپ ہمیں دوسری جگہ بھیجتے ہیں تو ہم ایسی قوم میں اترتے ہیں جو ہماری مہمانداری نہیں کرتے اس کے متعلق آپ کیا فرماتے ہیں ؟ نبی ﷺنے ہم سے فرمایا کہ اگر تم کسی قوم کے پاس اترو اور وہ تمہارے لئے مناسب طور پر مہمانداری کا حکم دیں تو خیر ورنہ تم ان سے مہمانی کا حق وصول کرو‘‘۔
اس دوران قبیلے کے سردار کو سانپ نے ڈس لیا۔جب وہ قبیلے والے صحابہ کرام ؓ کے پاس آئے تو اُن کے طرز عمل کی نشاندہی کی گئی جیسا کہ روایت میں ہے۔ اس سے اس بات کی مکمل وضاحت ہوگئی کہ صحابہؓ نے یہ معاملہ محض اس بنیاد پر کیا تھا کہ قبیلے والوں نے حق ضیافت ادا نہیں کیا تھا ۔چنانچہ سور ہ فاتحہ کا دم کیا گیا اور اﷲ تعالیٰ نے ان کے سردار کو شفا عطا فرمادی ،قبیلے والے حسب وعدہ بکریاں لے آئے۔اب صحابہ کرام ؓ کو تردد ہو ا ۔ یہ تردد اسی وجہ سے ہوا کہ اللہ اوراس کے رسولﷺ قرآن پر اجرت کو حرام ٹھہراتے تھے ۔ چنانچہ انہوں نے اس سلسلے میں یہ طے کیا کہ یہ معاملہ پہلے نبیﷺ کے سامنے پیش کیا جائے۔نبیﷺنے ان سے کہا کہ تمہیں کیسے معلوم کہ ’’ فاتحہ ‘‘ ایک دم ہے ( یعنی ایسی کوئی تعلیم نہیں دی گئی تھی )، پھر فرمایا کہ اس میں میرا بھی حصہ لگاو‘‘۔
اگر نبیﷺ اسے ’’اجرت‘‘ یا ’’کمائی‘‘ سمجھتے تو کسی طور پر بھی اس کی تقسیم اور اس میں اپناحصہ نکالنے کا حکم نہ دیتے کیونکہ ’’اجرت‘‘یا ’’ کمائی ‘‘ توعمل کرنے والے کی ہوتی ہے، وہ کسی میں تقسیم نہیں ہوتی۔
قبیلہ والوں نے صحابہ سے دریافت کیا کہ کیا تمہارے پاس کاٹے کی دوا ہے یا تمہارے اندر کوئی ایسا ہے جو کاٹے کے منتر سے واقف ہو اور دم کر سکتا ہو۔ صحابہ نے جواب دیا کہ ’’ ہاں‘‘۔ مگر تم لوگ وہ ہو جنہوں نے ہماری میزبانی کرنے سے انکار کردیا ہے اس لیے ہم اس وقت تک تمہارے سردار پر ’’دم‘‘ نہ کریں گے جب تک تم ہمیں اُس کی اجرت دینے کا وعدہ نہ کرو۔‘‘ان علماء سو ءنے جو اپنی حرام کمائی کو حق ثابت کرنے کے لیے جو تانے بانے ملانے کی کوشش کی تھی،اس حدیث کے واضح الفاظ نے سر راہ اس کا شیرازہ بکھیر دیا۔
اِنَّ اَحَقَّ مَا اَخَذْتُمْ عَلَیْہِ اَجْراً کِتَابُ اللّٰہِ
اسی واقعہ کی ایک اور روایت ابن عباس رضی اﷲ عنہما سے بھی آتی ہے۔ما قبل بیان کردہ روایت ابو سعید خدری ؓسے مروی ہے جو کہ خود اس قافلے میں شامل تھے،اور ترمذی کی بیان کردہ روایت کے مطابق دم کرنے والے بھی وہ خود ہی تھے، مگر یہ حدیث جس کو روایت کرنے والاصحابی وہ ہے جو خود اس میں سفر میں شامل تھا اور جو اس پورے واقعے کا عینی شاہد اور مرکزی کردار رہا،ان فرقہ پرستوں کے نزدیک اُس روایت سے کم تر ہے جو دوسرے ایسے صحابی سے مروی ہے جو اس واقعے کے گواہ نہیں کہ اس مہم میں شریک سفر نہ تھے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اُس روایت میں ایک ایسا جملہ ہے جس کے ذریعے ان پیشہ وروں نے اپنی ’’حرام‘‘ کمائی کو جائز ٹھہرایا ہوا ہے۔ ابن عباس رضی اﷲ عنہما کی محولہ روایت میں یہ بیان کیا گیا ہے :
عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ نَفَرًا مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَرُّوا بِمَائٍ فِيهِمْ لَدِيغٌ أَوْ سَلِيمٌ فَعَرَضَ لَهُمْ رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ الْمَائِ فَقَالَ هَلْ فِيکُمْ مِنْ رَاقٍ إِنَّ فِي الْمَائِ رَجُلًا لَدِيغًا أَوْ سَلِيمًا فَانْطَلَقَ رَجُلٌ مِنْهُمْ فَقَرَأَ بِفَاتِحَةِ الْکِتَابِ عَلَی شَائٍ فَبَرَأَ فَجَائَ بِالشَّائِ إِلَی أَصْحَابِهِ فَکَرِهُوا ذَلِکَ وَقَالُوا أَخَذْتَ عَلَی کِتَابِ اللَّهِ أَجْرًا حَتَّی قَدِمُوا الْمَدِينَةَ فَقَالُوا يَا رَسُولَ اللَّهِ أَخَذَ عَلَی کِتَابِ اللَّهِ أَجْرًا فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ أَحَقَّ مَا أَخَذْتُمْ عَلَيْهِ أَجْرًا کِتَابُ اللَّهِ
( بخاری، کتاب الطب، باب: الشرط فی الرقیۃ ۔ ۔)
’’ ابن عباس سے روایت ہے کہ نبیﷺکے اصحاب میں سے چند آدمی پانی کے رہنے والوں کے پاس سے گذرے جن میں سے ایک شخص کو سانپ کاٹا ہوا تھا (لدیغ یا سلیم کا لفظ بیان کیا) پانی کے رہنے والوں میں سے ایک آدمی ان صحابہ کے پاس پہنچا اور کہا تم میں سے کوئی شخص جھاڑنے والا ہے، پانی میں ایک شخص سانپ یا بچھو کا کاٹا ہوا ہے (سانپ کے کاٹے ہوئے کے لیے لدیغ یا سلیم کا لفظ بیان کیا) ایک صحابی گئے اور بکریوں کی شرط پر سورت فاتحہ پڑھی، تو وہ آدمی اچھا ہوگیا اور وہ صحابہ ؓ کے پاس بکریاں لے کر آئے ۔لیکن ان ( صحابہ ؓ ) نے اسے برا خیال کیا اور کہنے لگے کہ تم نے کتاب اللہ پر اجرت لی ہے، یہاں تک کہ وہ لوگ مدینہ پہنچے تو ان لوگوں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! انھوں نے کتاب اللہ پر اجرت لی، آپ نے فرمایا کہ جن چیزوں پر تم اجر لیتے ہو ان میں سب سے مستحق کتاب اللہ ہے۔‘‘
ان کی طرف سے پیش کردہ اس روایت میں سب سے پہلے صحابہ ؓ کے اس جملے کو پڑھئیے :
فَکَرِهُوا ذَلِکَ وَقَالُوا أَخَذْتَ عَلَی کِتَابِ اللَّهِ أَجْرًا
لیکن ان ( صحابہ ؓ ) نے اسے برا خیال کیا اور کہنے لگے کہ تم نے کتاب اللہ پر اجرت لی ہے
صحابہ ؓ کے اس قول نے یہ اس حقیقت کو واضخ کردیا کہ :
صحابہ ؓ کو یہی تعلیم دی گئی تھی اور وہ کتاب اللہ پر کمائی حرام سمجھتے تھے۔
اب جب صحابہ ؓ نبی ﷺ کے پاس پہنچے تو اس واحد روایت کے مطابق نبی ﷺ نے فرمایا :
إِنَّ أَحَقَّ مَا أَخَذْتُمْ عَلَيْهِ أَجْرًا کِتَابُ اللَّهِ
’’جن چیزوں پر تم اجرت لیتے ہو ان میں سب سے مستحق کتاب اللہ ہے۔‘‘
اس واقعے کے بارے میں تمام کتب حدیث بشمول صحیح بخاری میں جتنی بھی روایات بیان کی گئی ہیں ،سوائے اس منفرد روایت کے کسی میں بھی یہ الفاظ نہیں ملتے۔ یہی وہ جملہ ہے جس پرمفتی و مولوی اور ان کے ہم قبیل اسلاف نے ایک جھوٹی عمارت کھڑی کرنے کی کوشش کی ہے۔ ہر معاملے میں قرآن و حدیث ایک متفقہ عقیدہ دیتا ہے۔ اگر کبھی کسی آیت یا حدیث کے الفاظ سے بظاہر کسی اور آیت یا حدیث کا انکار ہو رہا ہو تواس کی تاویل کتاب اﷲکے دئیے ہوئے مؤقف کے مطابق کی جاتی ہے۔اس بارے میں قرآن و حدیث کا یہی بیان ہے کہ اﷲ کی آیات کو بیچا نہ جائے، اس کوکسی انداز میں بھی کمائی کا ذریعہ نہ بنایا جائے، اس کے عوض کسی قسم کا کوئی تحفہ نہ لیا جائے اور نہ کوئی دوسرا دنیاوی فائدہ اٹھایا جائے، اذان فی سبیل اﷲ دی جائے، اس پر کوئی معاوضہ نہ دیا لیا جائے، دینی علم کو صرف اﷲ کی رضا کے لیے سیکھا جائے،جس کسی نے اسے دنیا کمانے کے لیے سیکھا تواس پر جنت کی خوشبو بھی حرام ہے۔۔۔۔۔۔
یہ سار ی باتیں ہمیں رسول اﷲ ﷺ کے ذریعے ہی پہنچی ہیں۔ اب کیا اس بات کا تصور کیا جا سکتا ہے کہ اﷲ کے رسول ﷺ اس کے خلاف بھی کوئی بات فرما دیں گے! رسول اﷲﷺ کے اس فرمان کو اسی انداز میں قبول کیا جائے گا کہ جس انداز میں خود انہوں نے اس پر عمل کیا ہوگا۔جبکہ نبی ﷺ سے زیادہ اللہ تعالیٰ کے حکم کو جو سورہ الانعام آیت نمبر 90 میں ہے عمل کرنے والا اور کون ہو سکتا ہے:
اُولٰٓىِٕكَ الَّذِيْنَ هَدَى اللّٰهُ فَبِهُدٰىهُمُ اقْتَدِهْ١ؕ قُلْ لَّاۤ اَسْـَٔلُكُمْ عَلَيْهِ اَجْرًا١ؕ اِنْ هُوَ اِلَّا ذِكْرٰى لِلْعٰلَمِيْنَؒ۰۰۹۰
[الأنعام: 90]
’’یہی لوگ ایسے تھے جن کو اللہ تعالیٰ نے ہدایت کی تھی سو آپ بھی ان ہی کے طریق پر چلیئے آپ کہہ دیجیئے کہ میں تم سے اس (قرآن) پر کوئی معاوضہ نہیں چاہتا یہ تو صرف تمام جہان والوں کے واسطے ایک نصیحت ہے‘‘ ۔
سور ہ احزاب میں اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے:
لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِيْ رَسُوْلِ اللّٰهِ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِّمَنْ كَانَ يَرْجُوا اللّٰهَ وَ الْيَوْمَ الْاٰخِرَ وَ ذَكَرَ اللّٰهَ كَثِيْرًاؕ۰۰۲۱
[الأحزاب: 21]
’’اور تمہارے لیے رسول اللہ کی زندگی میں بہترین نمونہ ہے، ہر اس شخص کے لیے جو اﷲ(کے سامنے)اور روز آخرت (سرخروئی)کی توقع رکھتا ہو اور کثرت سے اﷲ کا ذکر کرنے والا ہو‘‘
یہ علماء فرقہ اب فیصلہ کرلیں کہ وہ کن لوگوں میں ہیں؟اگریہ اﷲ کے ملنے اور قیامت کے آنے پر ایمان رکھتے ہیں تو نبی ﷺ کا طریقہ اپنائیں۔
رسول اﷲﷺنے یہ جملہ فرمایا کہ ’’جن چیزوں پر تم اجرت لیتے ہو ان میں سب سے مستحق کتاب اللہ ہے‘‘، لیکن فقر و فاقہ، مصیبت و افلاس میں گھرے ہوئے کسی صحابی کو امامت،اذان یا تعلیم القرآن پر اجرت نہیں دی!
کیا رسول اﷲﷺ کا یہ اسوہ قابل اتباع نہیں ؟
صحابہ کرام ؓ بھی اس جملے کے معنی نہیں سمجھ پائے اور دین سے دنیا کمانے کے بجائے آخرت خریدنے میں ہی مصروف رہے! لیکن سمجھے توبس علم کے یہ ’’سمندروپہاڑ‘‘ ہی سمجھے کہ اس جملے میں کیا بات پنہاں ہے!
قرآن و حدیث کی رو سے جو بات اس جملے سے واضح ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ اجر کمانے کے لائق بہترین چیز اﷲ کی کتاب ہے۔اس سلسلے میں قرآن کی آیات اور احادیث پیش کرنے کی چنداں ضرورت نہیں کہ قرآن پڑھنے ،اس کے مطابق اپنے عقائد بنانے اوراس پر عمل کرنے والوں کے لیے اﷲ نے کتنا بہترین اجر تیارکر رکھا ہے جو آخرت میں ملے گا۔ نبی ﷺ نے فرمایا :
اللَّهُمَّ لَا عَيْشَ إِلَّا عَيْشُ الْآخِرَهْ
( بخاری ، کتاب الجہاد و السیر ، بَابُ البَيْعَةِ فِي الحَرْبِ أَنْ لاَ يَفِرُّوا، وَقَالَ بَعْضُهُمْ: عَلَى المَوْتِ )
’’ اے میرے اللہ زندگی نہیں ہے مگر بس آخرت کی زندگی ہے ‘‘۔
دنیا میں اس کتاب سے جو اجر ملتا ہے وہ یہی ہے کہ اﷲ اس کتاب پر عمل کرنے والوں کو ’’سربلند‘‘کر دیتا ہے۔جیسا کہ نبیﷺ نے فرمایا:
اِنَّ اﷲَ یَرْفَعُ بِھٰذَا الْکِتَابِ اَقْوَامًا وَّ یَضَعُ بِہٖ اٰ خَرِیْنَ
(مسلم: کتاب صلوٰۃ،باب فضل من یقوم بالقرآن۔۔۔)
’’ ۔۔۔ اﷲ تعالیٰ اس کتاب کے ذریعے قوموں کو سربلندی عطا فرماتا ہے اور دوسروں کو اس کے ذریعے پستی میں ڈالدیتا ہے‘‘۔
دنیا میں قرآن پر جو صلہ ملتا ہے وہ یہی ہے کہ اس کو پڑھنے اور اس پر عمل کرنے والی قوموں کو اﷲ تعالیٰ اس دنیا میں سربلندی عطا فرماتا ہے اور اس کے مقابلے میں جو قومیں اس کے مطابق عمل نہیں کرتیں ،انہیں اس دنیا میں ذلیل و پست کردیا جاتا ہے، جیسا کہ آج یہ کلمہ گو امت اس دنیا میں پست کردی گئی ہے۔لہٰذا دینی امور پر اجرت کو جائز قرار دینا محض جہالت اور افترا ء پردازی ہے،خود نبی ﷺکے اسوہ اور صحابہ کرام ؓ کا طرز عمل اس کی نفی کرتا ہے۔
اگر نبی ﷺ کا اس جملے سے مطلب نعوذوباللہ قرآن پر دنیاوی اجرت لینا تھا تو یہ سارے ملکر وہ صحیح احادیث پیش کردیں جس میں نبی ﷺ کا کسی صحابی کو امامت ، تعلیم القرآن پرتنخواہ، اجرت، وظیفہ یا تحفہ دینا ثابت ہو۔
الحمد للہ تا قیامت یہ لوگ ایک بھی ایسی حدیث نہیں پیش کرسکیں گے کہ جس سے یہ ثابت ہو کہ نبیﷺ نے کتاب اللہ پر کسی ایک کو اجرت یا ہدیہ دیا ہو۔ اللہ تعالیٰ انہیں ہدیت دے کہ یہ اللہ کے حرام کردہ کو حرام ہی مانیں۔
حفظ قرآن کی بنیاد پر نکاح:
اپنی اس حرام کمائی کو جائز کرنے کے لئے ایک اور حدیث کو بھی ڈھال بنانے کی کوشش کی جاتی ہے، ملاحظہ فرمائیں :
عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ، أَنَّ امْرَأَةً جَاءَتْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ جِئْتُ لِأَهَبَ لَكَ نَفْسِي، فَنَظَرَ إِلَيْهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَصَعَّدَ النَّظَرَ إِلَيْهَا وَصَوَّبَهُ، ثُمَّ طَأْطَأَ رَأْسَهُ، فَلَمَّا رَأَتِ المَرْأَةُ أَنَّهُ لَمْ يَقْضِ فِيهَا شَيْئًا جَلَسَتْ، فَقَامَ رَجُلٌ مِنْ أَصْحَابِهِ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنْ لَمْ يَكُنْ لَكَ بِهَا حَاجَةٌ فَزَوِّجْنِيهَا، فَقَالَ: «هَلْ عِنْدَكَ مِنْ شَيْءٍ؟» فَقَالَ: لاَ وَاللَّهِ يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: «اذْهَبْ إِلَى أَهْلِكَ فَانْظُرْ هَلْ تَجِدُ شَيْئًا؟» فَذَهَبَ ثُمَّ رَجَعَ فَقَالَ: لاَ وَاللَّهِ يَا رَسُولَ اللَّهِ مَا وَجَدْتُ شَيْئًا، قَالَ: «انْظُرْ وَلَوْ خَاتَمًا مِنْ حَدِيدٍ» فَذَهَبَ ثُمَّ رَجَعَ، فَقَالَ: لاَ وَاللَّهِ يَا رَسُولَ اللَّهِ وَلاَ خَاتَمًا مِنْ حَدِيدٍ، وَلَكِنْ هَذَا إِزَارِي – قَالَ سَهْلٌ: مَا لَهُ رِدَاءٌ – فَلَهَا نِصْفُهُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَا تَصْنَعُ بِإِزَارِكَ، إِنْ لَبِسْتَهُ لَمْ يَكُنْ عَلَيْهَا مِنْهُ شَيْءٌ، وَإِنْ لَبِسَتْهُ لَمْ يَكُنْ عَلَيْكَ شَيْءٌ» فَجَلَسَ الرَّجُلُ حَتَّى طَالَ مَجْلِسُهُ ثُمَّ قَامَ فَرَآهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُوَلِّيًا، فَأَمَرَ بِهِ فَدُعِيَ، فَلَمَّا جَاءَ قَالَ: «مَاذَا مَعَكَ مِنَ القُرْآنِ؟» قَالَ: مَعِي سُورَةُ كَذَا، وَسُورَةُ كَذَا، وَسُورَةُ كَذَا – [ص:193] عَدَّهَا – قَالَ: «أَتَقْرَؤُهُنَّ عَنْ ظَهْرِ قَلْبِكَ؟» قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: «اذْهَبْ فَقَدْ مَلَّكْتُكَهَا بِمَا مَعَكَ مِنَ القُرْآنِ»
( بخاری، کتاب فضائل القرآن ، بَابُ القِرَاءَةِ عَنْ ظَهْرِ القَلْبِ )
’’ سہل بن سعد ؓ روایت کرتے ہیں کہ ایک عورت نبی ﷺکے پاس آئی اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ (ﷺ) میں نے آپ کو اپنا نفس بخش دیا، آپ نے اس کو اوپر سے نیچے تک غور سے دیکھا پھر اپنا سرجھکا لیا، جب عورت نے دیکھا کہ آپ نے اس کے بارے میں کوئی حکم نہیں دیا تو وہ بیٹھ گئی، پھر نبی ﷺ کے ایک صحابی نے عرض کیا یا رسول اللہ ! اگر آپ کو اس عورت کی ضرورت نہ ہو تو اس کا مجھ سے نکاح کردیجئے، آپ نے فرمایا کیا تیرے پاس کچھ سامان ہے، اس نے جواب دیا کچھ نہیں اللہ کی قسم اےرسول اللہ ( ﷺ )۔ آپ نے فرمایا اپنے گھر جا کر دیکھو شاید تمہیں کچھ مل جائے، وہ گیا پھر لوٹ کر آیا اور کہا یا رسول اللہ (ﷺ) اللہ کی قسم مجھے کچھ بھی نہیں ملا، آپ نے فرمایا جاؤ دیکھو، چاہے لوہے کی انگوٹھی ہی لے آؤ، وہ گیا، پھر آکر عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! لوہے کا چھلا بھی نہیں، البتہ یہ تہہ بند ہے، (سہل کہتے ہیں اس کے پاس دوسری چادر بھی نہ تھی)، لیکن اس نے کہا اس خاتون کو آدھا تہہ بند دے دیجئے، تو رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ تو اپنی اس ازار کو کیا کرے گا، اگر تو اسے پہن لے گا تو عورت کے پاس نہ رہے گی اور اگر وہ پہن لے گی تو تیرے پاس کچھ نہ رہے گا، تب وہ شخص بیٹھ گیا اور دیر تک بیٹھا رہا پھر اٹھ کھڑا ہوا، نبی ﷺ نے اسے مغموم جاتے دیکھ کر بلوایا اور فرمایا تجھے کچھ قرآن یاد ہے، اس نے جواب دیا مجھے فلاں فلاں سورتیں یاد ہیں، ان سورتوں کو شمار کرکے تعداد بھی بتائی، آپ نے فرمایا کیا وہ تجھے حفظ ہیں ؟ اس نے جواب دیا ہاں ! آپ نے فرمایا جا میں نے تجھے قرآن شریف حفظ کرنے کی وجہ سے اس کا مالک بنادیا۔‘‘
اس حدیث کو غور سے بار بار پڑھیں کیا اس سے دینی امور پر اجرت کا کوئی جواز نکلتا ہے؟
یہ ایک خاص واقعہ تھا کہ اس صحابی کے پاس اس خاتون کو مہر میں دینے کے لئے کچھ بھی نہیں تھا ۔ نبی ﷺ نے اس سے فرمایا:
هَلْ عِنْدَکَ مِنْ شَيْئٍ
کیا تیرے پاس کچھ سامان ہے
اسنے جواب دیا :
لَا وَاللَّهِ يَا رَسُولَ اللَّهِ
کچھ نہیں اللہ کی قسم اےرسول اللہ ( ﷺ )
نبی ﷺ نےفرمایا :
اذْهَبْ إِلَى أَهْلِكَ فَانْظُرْ هَلْ تَجِدُ شَيْئًا؟
اپنے گھر جا کر دیکھو شاید تمہیں کچھ مل جائے
وہ گھر گیا اور واپس آکر بولا:
لاَ وَاللَّهِ يَا رَسُولَ اللَّهِ مَا وَجَدْتُ شَيْئًا
یا رسول اللہ (ﷺ) اللہ کی قسم مجھے کچھ بھی نہیں ملا
قَالَ: انْظُرْ وَلَوْ خَاتَمًا مِنْ حَدِيدٍ» فَذَهَبَ ثُمَّ رَجَعَ، فَقَالَ: لاَ وَاللَّهِ يَا رَسُولَ اللَّهِ وَلاَ خَاتَمًا مِنْ حَدِيدٍ، وَلَكِنْ هَذَا إِزَارِي – قَالَ سَهْلٌ: مَا لَهُ رِدَاءٌ – فَلَهَا نِصْفُهُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَا تَصْنَعُ بِإِزَارِكَ، إِنْ لَبِسْتَهُ لَمْ يَكُنْ عَلَيْهَا مِنْهُ شَيْءٌ، وَإِنْ لَبِسَتْهُ لَمْ يَكُنْ عَلَيْكَ شَيْءٌ»
نبی ﷺ نے فرمایا اپنے گھر جا کر دیکھو شاید تمہیں کچھ مل جائے، وہ گیا پھر لوٹ کر آیا اور کہا یا رسول اللہ (ﷺ) اللہ کی قسم مجھے کچھ بھی نہیں ملا، آپ نے فرمایا جاؤ دیکھو، چاہے لوہے کی انگوٹھی ہی لے آؤ، وہ گیا، پھر آکر عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! لوہے کا چھلا بھی نہیں، البتہ یہ تہہ بند ہے، (سہل کہتے ہیں اس کے پاس دوسری چادر بھی نہ تھی)، لیکن اس نے کہا اس خاتون کو آدھا تہہ بند دے دیجئے، تو رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ تو اپنی اس ازار کو کیا کرے گا، اگر تو اسے پہن لے گا تو عورت کے پاس نہ رہے گی اور اگر وہ پہن لے گی تو تیرے پاس کچھ نہ رہے گا۔‘‘
یہ وہ حالات تھے کہ اس صحابی ؓ کے پاس مہر میں اس خاتون کو دینے کے لئے لوہے کا چھلا بھی نہیں تھا۔ اب وہ صحابی غمزدہ ہو کر خاموش بیٹھ گیا اور پھر اٹھ کر جانے لگا، ایسی کیفیت میں نبیﷺ نے اسے روکا اور پوچھا:
مَاذَا مَعَكَ مِنَ القُرْآنِ؟»
تجھے کچھ قرآن یاد ہے
قَالَ: مَعِي سُورَةُ كَذَا، وَسُورَةُ كَذَا، وَسُورَةُ كَذَا – عَدَّهَا –
اس نے جواب دیا مجھے فلاں فلاں سورتیں یاد ہیں، ان سورتوں کو شمار کرکے تعداد بھی بتائی
قَالَ: «أَتَقْرَؤُهُنَّ عَنْ ظَهْرِ قَلْبِكَ؟
آپ نے فرمایا کیا وہ تجھے حفظ ہیں ؟
قَالَ: نَعَمْ،
اس نے جواب دیا ہاں !
قَالَ: «اذْهَبْ فَقَدْ مَلَّكْتُكَهَا بِمَا مَعَكَ مِنَ القُرْآنِ
آپ نے فرمایا جا میں نے تجھے قرآن شریف حفظ کرنے کی وجہ سے اس کا مالک بنادیا
( وسری روایات میں ہے کہ میں نے تیرا نکاح اس سے کردیا )
کیا اس حدیث کو پڑھ جانے کے بعد یہ خیال تک گزرتا ہے کہ اس حدیث سے دینی اجرت ثابت ہوتی ہے ؟ یہ تو محض یہ دینی سوداگر ہیں جنہیں ہر چیز سے دین پر کمائی دکھائی دے جاتی ہے۔ افسوس خود بھی گمراہ ہوئے اور دوسروں کو بھی گمراہ کر رہے ہیں۔
عمر ؓ پر دینی امور پر اجرت دینے کا الزام :
عمر ؓ پر الزام لگایا جاتا ہے کہ انہوں نے دینی امور پر وظائف کی صورت میں اجرت دی۔ گویا یہ عمر ؓ پر الزام لگاتے ہیں کہ نعوذوباللہ وہ کام جسے کتاب اللہ نے جہنم کی آگ قرار دیا، جس سے نبیﷺ نے منع فرمایا اور جو کام ابوبکر صدیق ؓ نےنہیں کیا یعنی وہ کام جو اسلام میں تھا ہی نہیں نعوذوباللہ من ذالک عمر ؓ نے کیا۔
نبی ﷺ نے عمر ؓ کی بابت یہ فرمایا کہ جس راہ پر عمر ؓ چلتے ہین شیطان وہ راہ چھوڑ کر دوسری طرف چلا جاتا ہے، یعنی عمر ؓ اس قدر سختی سے اسلام پر چلنے والے ہیں۔ لیکن ان کا ظرف دیکھیں کہ اس ہستی کے متعلق بلا کسی ثبوت یہ بات کہہ دی گئی۔ حدیث کی کسی بھی کتاب میں ایسا ہر گز نہیں ملتا بلکہ وظائف کا ذکر ملتا ہے جو عمر ؓ نے ہر ہر مسلم کو دئیے تھے۔
حقیقت یہ ہے کہ عمر ؓ کے زمانے میں بے انتہا فتوحات ہوئیں، کفار کے بے شمار علاقے فتح ہو کر اسلامی مملکت میں شامل ہوتے رہے اور ان سے حاصل ہونے والے مال غنیمت اور دوسری مدات کی آمدنی کے مسجد نبوی میں ڈھیر لگے رہتے تھے۔ اور عمر ؓ اس سارے مال کو ساری مملکت میں تقسیم کرنے پر اتنے پرعزم تھے کہ فرماتے تھے۔
لَوْلَا آخِرُ الْمُسْلِمِينَ مَا فَتَحْتُ قَرْيَةً إِلَّا قَسَمْتُهَا بَيْنَ أَهْلِهَا کَمَا قَسَمَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَيْبَرَ
(بخاری کتاب الجہادوالسیر باب الغنیمۃ)
“اگر دوسرے مسلمین کا خیال نہ ہوتا تو جو بستی میں فتح کرتا اس کو لوگوں میں تقسیم کردیتا جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر کو تقسیم کردیا تھا”۔
آپ نے اس مال غنیمت کی مملکت کے لوگوں میں تقسیم کے مختلف معیار مقرر کیے ہوئے تھے جس کا اندازہ ذیل کی روایات سے ہوتا ہے۔
كَانَ عَطَاءُ الْبَدْرِيِّينَ خَمْسَةَ آلَافٍ , خَمْسَةَ آلَافٍ ، وَقَالَ عُمَرُ : لَأُفَضِّلَنَّهُمْ عَلَى مَنْ بَعْدَهُمْ .
( بخاری، کتاب المغازی )
’’بدری صحابہ کا ( سالانہ ) وظیفہ پانچ پانچ ہزار تھا۔ عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں انہیں ( بدری صحابہ کو ) ان صحابیوں پر فضیلت دوں گا جو ان کے بعد ایمان لائے‘‘۔
عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ، قَالَ : كَانَ فَرَضَ لِلْمُهَاجِرِينَ الْأَوَّلِينَ أَرْبَعَةَ آلَافٍ فِي أَرْبَعَةٍ , وَفَرَضَ لِابْنِ عُمَرَ ثَلَاثَةَ آلَافٍ وَخَمْسَ مِائَةٍ ، فَقِيلَ لَهُ : هُوَ مِنْ الْمُهَاجِرِينَ فَلِمَ نَقَصْتَهُ مِنْ أَرْبَعَةِ آلَافٍ ، فَقَالَ : إِنَّمَا هَاجَرَ بِهِ أَبَوَاهُ ، يَقُولُ : لَيْسَ هُوَ كَمَنْ هَاجَرَ بِنَفْسِهِ .
( بخاری، کتاب المناقب الانصار ، بَابُ هِجْرَةِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَصْحَابِهِ إِلَى المَدِينَةِ )
’’ ابن عمر ؓ نے کہا آپ ( عمر ؓ ) نے تمام مہاجرین اولین کا وظیفہ ( اپنے عہد خلافت میں ) چار چار ہزار چار چار قسطوں میں مقرر کر دیا تھا، لیکن عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کا وظیفہ چار قسطوں میں ساڑھے تین ہزار تھا اس پر ان سے پوچھا گیا کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بھی مہاجرین میں سے ہیں۔ پھر آپ انہیں چار ہزار سے کم کیوں دیتے ہیں؟ تو عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ انہیں ان کے والدین ہجرت کر کے یہاں لائے تھے۔ اس لیے وہ ان مہاجرین کے برابر نہیں ہو سکتے جنہوں نے خود ہجرت کی تھی‘‘۔
ایک موقع پر عمر ؓ نے فرمایا :
لَئِنْ سَلَّمَنِي اللَّهُ، لَأَدَعَنَّ أَرَامِلَ أَهْلِ العِرَاقِ لاَ يَحْتَجْنَ إِلَى رَجُلٍ بَعْدِي أَبَدًا
( بخاری، کتاب اصحاب النبی ﷺ، بَابُ قِصَّةِ البَيْعَةِ، وَالِاتِّفَاقِ عَلَى عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ وَفِيهِ مَقْتَلُ عُمَرَ بْنِ الخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا )
’’اگر اللہ تعالیٰ نے مجھے سلامت رکھا تو میں اہل عراق کی بیوہ عورتوں کو اتنا خوش حال کر دوں گا کہ میرے بعد وہ کسی کی محتاج نہ رہیں گی ۔‘‘
عن ابن عمر قال: قدمت رفقة من التجار، فنزلوا المصلى، فقال عمر لعبد الرحمن بن عوف: هل لك أن نحرسهم الليلة من السرق فباتا يحرسانهم، ويصليان ما كتب الله لهما فسمع عمر بكاء صبى فتوجه نحوه، فقال لأمه: اتقى الله وأحسنى إلى صبيك، ثم عاد إلى مكانه فسمع بكاءه، فعاد إلى أمه، فقال لها: مثل ذلك، ثم عاد إلى مكانه، فلما كان فى آخر الليل سمع بكاءه، فأتى أمه، فقال: ويحك إنى لأراك أم سوء، مالى أرى ابنك لا يقر منذ الليلة قالت: يا عبد الله قد أبرمتنى منذ الليلة إنى أريغه عن الفطام فيأبى، قال: ولم قالت: لأن عمر لا يفرض إلا للفطيم، قال: وكم له قالت: كذا وكذا شهرا، قال: ويحك لا تعجليه، فصلى الفجر وما يستبين الناس قراءته من غلبة البكاء فلما سلم قال: يا بؤسا لعمر كم قتل من أولاد المسلمين، ثم أمر مناديا فنادى ألا لا تعجلوا صبيانكم عن الفطام، فإنا نفرض لكل مولود فى الإسلام وكتب بذلك إلى الآفاق: إنا
( جامع الاحادیث ، مسند العشرہ ، مسند عمر بن الخطاب ؓ )
’’ ابن عمر ؓ فرماتے ہیں کہ چند تاجردوست آئے اور معلی میں ٹھہرے، تو عمر ؓ نے عبدالرحمن بن عوف ؓ سے فرمایا کہ کیا خیال ہے ؟ کیا آج رات ہم ان کو چوری سے بچانے کے لیے ان کی چوکیداری کریں ؟ چنانچہ دونوں نے ان کی پہرے داری کرتے ہوئے رات گزاری اور صلوٰۃ ادا کرتے رہے جتنی اللہ نے ان کے نصیب میں لکھی تھی، اتنے میں عمر ؓ نے ایک بچے کی رونے کی آواز سنی تو اس کی طرف متوجہ ہوگئے اور اس کی ماں سے کہا کہ اللہ سے ڈر اور اپنے بچے کے ساتھ اچھا معاملہ کر یہ کہہ کر واپس آگئے، پھر بچے کے رونے کی آواز سنی، اس کی مان کے پاس واپس آئے اور اس سے اسی طرح کہا، اور اپنی جگہ واپس آگئے، رات کے آخری پہر انھوں نے پھر بچے کی رونے کی آوازسنی تو اس کی ماں کے پاس واپس آئے اور فرمایا کہ تو برباد ہو، میرے خیال میں تو اچھی ماں نہیں ہے، بھلا کیا مسلہ ہے کہ رات بھرتیرا بچہ بےچین رہا ہے ، وہ کہنے لگی کہ اے اللہ کے بندے ! میں رات سے پریشان ہوں کیونکہ میں اس کا دودھ چھڑانا چاہتی ہوں اور یہ انکار کرتا ہے، عمر ؓ نے نے دریافت فرمایا کیوں ؟ کہنے لگی اس لیے کہ عمر ؓ اسی بچے کے لیے وظیفہ مقرر کرتے ہیں جس کا دودھ چھڑایا جاچکا ہو، پھر پوچھا کہ اس کا کتنا ہوگا ؟ عورت نے فرمایا کہ اتنا اتنا ماہوار۔ فرمایا تو برباد ہو جلدی مت کر، پھر فجر کی صلوٰۃ پڑھائی، اور اسی صلوٰۃ میں اتنا رو رہے تھے کہ لوگ ٹھیک سے آواز نہ سن پا رہے تھے، سو جب سلام پھیرا تو فرمایا کہ ہائے تمہارے عمر کی بربادی، مسلمین کے بچے قتل کردئیے، پھر اعلان کرنے والے کو حکم دیاتو اس نے اعلان کیا کہ اپنے بچوں کو دودھ چھوڑانے میں جلدی نہ کروہم ہرنومولود مسلم بچے کے لیے وظیفہ مقرر کردیتے ہیں، اور یہ حکم تمام ممالک اسلامیہ میں پہنچادیا کہ مسلمین کے ہر پیدا ہونے والے بچے کا وظیفہ مقرر کیا جائے گا ‘‘۔ (ابن سعد اور ابوعبید فی الاموال)
مندرجہ ذیل روایت سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ پھر پیدا ہونے والے بچے کا بھی وظیفہ مقرر کردیا گیا۔
عن أبي قبيل قال: كان الناس في زمن عمر بن الخطاب إذا ولد المولد فرض له في عشرة، فإذا بلغ أن يفرض ألحق به. “أبو عبيد”.
( کنز العمال، حرف جیم ، باب احکام الجھاد، الأرزاق والعطايا )
’’ابو قبیل فرماتے ہیں عمرؓ کے زمانے میں جب کوئی بچہ پیدا ہوتا تھا تو اس کے لیے دس تک وظیفہ مقرر ہوتا اور جب وہ بالغ ہوجاتا تو بڑوں والاوظیفہ ملتا “۔ (ابوعبید)
مندرجہ بالا روایات میں واضح ہے کہ عمر ؓ کی طرف سے دئیے جانے والے وظائف کی بنیاد کسی بھی طور امامت، تعلیم القرآن یا مؤذن کے لئے نہیں تھیں بلکہ پیدا ہونے والے بچے تک کے لئے وظیفہ مقرر تھا۔ عمڑ ؓ پر جھوٹا الزام لگانے والےکتن حادیث سے ایک روایت تو پیش کرتے کہ کس امام، کس مؤذن یا معلم کو اس کے اس فعل کی بنیاد پر اجرت دی گئی۔ مزید یہ کہ خود امامت کرنے والے کا یہ حال تھا کہ جب زخمی ہوئے ہیں تو اپنے بیٹے سے کہتے ہیں :
يَا عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ، انْظُرْ مَا عَلَيَّ مِنَ الدَّيْنِ، فَحَسَبُوهُ فَوَجَدُوهُ سِتَّةً وَثَمَانِينَ أَلْفًا أَوْ نَحْوَهُ، قَالَ: إِنْ وَفَى لَهُ، مَالُ آلِ عُمَرَ فَأَدِّهِ مِنْ أَمْوَالِهِمْ، وَإِلَّا فَسَلْ فِي بَنِي عَدِيِّ بْنِ كَعْبٍ، فَإِنْ لَمْ تَفِ أَمْوَالُهُمْ فَسَلْ فِي قُرَيْشٍ، وَلاَ تَعْدُهُمْ إِلَى غَيْرِهِمْ
( بخاری، کتاب اصحاب النبی ﷺ، بَابُ قِصَّةِ البَيْعَةِ، وَالِاتِّفَاقِ عَلَى عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ وَفِيهِ مَقْتَلُ عُمَرَ بْنِ الخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا )
’’ اے ! عبداللہ دیکھو مجھ پر لوگوں کا کتنا قرض ہے ؟ لوگوں نے حساب لگایا، تو تقریبا چھیاسی ہزار قرضہ تھا، فرمایا اگر اس قرض کی ادائیگی کے لیے عمر کی اولاد کا مال کافی ہو تو انهی کے مال سے اسے ادا کرنا، وگر نہ پھر بنی عدی بن کعب ؓ سے مانگنا اگر ان کا مال بھی ناکافی ہو تو قریش سے طلب کرلینا، اس کے علاوہ کسی سے نہ لینا ‘‘۔
اللہ اکبر ! یہ حال تھا اتنی بڑی سلطنت کے خلیفہ کا۔ ان کا قول ملتا ہے کہ:
انی انزلت مال اﷲ منی بمنزلہ مال الیتیم فان استغینت عففت عنہ وان افتقرت اکلت بالمعروف
( طبقات لابن سعد: جز ۱۰،صفحہ ۲۷۶)
’’ میں نے اﷲ کے مال (بیت المال) میں اپنا حق ویسا ہی رکھا ہے جیسا کہ یتیم کے ولی کو یتیم کے مال میں ہوتا ہے۔ اگر میں غنی ہوں گا تو اس میں سے کچھ نہ لوں گا اور ضرورت مندی کی حالت میں معروف کے مطابق ہی لوں گا‘‘۔
عمر ؓ پر بدترین الزام لگانے والے ان کی سیرت سے زندگی گزارنے کا طریقہ سیکھیں۔
اللہ انہیں ہدایت دے یہ دین کا کام دنیا کمانے کے لئے نہیں اللہ کی رضا کے لئےکریں۔
عمر ؓ پر یہ الزام بھی لگایا جاتا ہے :
حدثنا أبو بكر قال: حدثنا وكيع عن صدقة الدمشقي عن الوضين ابن عطاء قال: كان بالمدينة ثلاثة معلمين يعلمون الصبيان، فكان عمر بن الخطاب يرزق كل (رجل) منهم خمسة عشر كل شهر.
_________
(1) في [هـ]: زيادة (ابن موسى)، وفي [س]: (ابن)، وفي [أ، ح]: (عن).
(2) في [جـ، ز، ط، و]: زيادة (أبي).
(3) في [أ، ح، ط، هـ]: (واحد).
(4) ضعيف منقطع؛ صدقة ضعيف، والوضين لم يدرك عمر
لكتاب: المصنف
المؤلف: أبو بكر عبد الله بن محمد بن أبي شيبة العبسي الكوفي (ت ٢٣٥ هـ)
المحقق: سعد بن ناصر بن عبد العزيز أبو حبيب الشثري
تقديم: ناصر بن عبد العزيز أبو حبيب الشثري
الناشر: دار كنوز إشبيليا للنشر والتوزيع، الرياض – السعودية
الطبعة: الأولى، ١٤٣٦هـ-٢٠١٥م
یہ اثر ضعیف ہے۔ اس کے وجوہ ضعف ہیں: ( 1) اس کا راوی صدقة الدمشقی “ضعیف” ہے۔ تقريب التهذيب: (1 / 451) (2) اس کے راوی “الوضین بن عطاء ” کے متعلق ذہبی لکھتے ہیں کہ ثقہ ہے لیکن بعض نے اسے ضعیف بھی کہا ہے۔ ثقة ، وبعضهم ضعفه الكاشف في معرفة من له رواية في الكتب الستة: (4 / 450) ، ابن حجر لکھتے ہیں کہ یہ صدوق ہے لیکن خراب حافظے والا ہے اور اس پر قدری ہونے کا بھی الزام ہے ۔ صدوق سيئ الحفظ ، ورمي بالقدر تقريب التهذيب: (1 / 1036) ۔ (3) اس راوی “وضین بن عطاء” کی تاریخ وفات 147ھ یا 149ھ یا 156 ھ بیان ہوئی ہے اور عمر رضی اللہ کی وفات 23ھ کی ہے ۔ اس اعتبار سے اس نے عمر رضی اللہ عنہ کا زمانہ ہی نہیں پایا ۔ لہذا یہاثر”منقطع”ہے۔