فہرست

اللہ کے علاوہ کسی اور کو عالم الغیب سمجھنا شرک ہے۔

بِسۡمِ ٱللَّهِ ٱلرَّحۡمَٰنِ ٱلرَّحِيمِ

إِنَّ الْحَمْدَ لِلَّهِ، نَحْمَدُهُ وَنَسْتَعِينُهُ، مَنْ يَهْدِهِ اللهُ فَلَا مُضِلَّ لَهُ، وَمَنْ يُضْلِلْ فَلَا هَادِيَ لَهُ، وَأَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ، وَأَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ، أَمَّا بَعْدُ

            ’’غیب ‘‘ چھپی ہوئی چیز کو کہتے ہیں۔ یعنی  اللہ تعالیٰ نے ہمارے جسم کو جو خصوصیات ( حواس خمسہ )  دی ہیں ان کو بروئےکار لاتے ہوئے ہم کچھ  بھی معلوم کرسکیں اس کے علاوہ سب کچھ ہمارے لئے غیب ہے۔خیر اب اللہ  تعالیٰ نے انسان کو ایسی ٹیکنالوجی  سے نواز دیا ہے کہ وہ بڑی بڑی دوربینوں یا   کیمروں کے مدد سے  دور دور کی چیزیں یا سمندر کی گہرائی میں موجود مخلوقات   کوبھی دیکھنے لگے ہیں، اسی طرح ایکسرے یا الٹرا ساؤنڈ کے ذریعے جسم کے اندر کے اعضاء کا کچھ حال بھی  معلوم کرلیتے ہیں۔ یہ سارا معاملہ ماتحت الاسباب یعنی اللہ تعالیٰ کی طرف سے  عطا کردہ اسباب کے ذریعے ہوتا ہے۔

            اس کے برعکس مافوق الاسباب، یعنی کسی تخلیق شدہ چیز  کی مدد کے بغیر  کسی چیز کو دیکھ لینا، اس کا حال جان لینا ’’ علم الغیب ‘‘ کہلاتا ہے اور  اس کاعلم رکھنے والا ’’ عالم الغیب ‘‘ کہلاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس کائنات کی ہر ہر چیز کا خالق ہے تو ظاہر ہے اس سے کوئی چیز چھپ ہی نہیں سکتی،  اور وہ ہی عالم الغیب ہے ۔لیکن افسوس کہ قرآن و حدیث سے دوری کی وجہ سے اس امت میں ایسےگمراہ کن عقائد آ گئے ہیں کہ  اللہ تعالیٰ کے علاوہ دوسرے بھی ’’ عالم الغیب ‘‘ سمجھے جاتے  ہیں۔ گویا جو اللہ تعالیٰ کی صفت ہے اس کی مخلوق بھی اسی صفت کی حامل ہے اور یہ عقیدہ ’’ شرک فی الصفات ‘‘ ہے۔

            یہ مضمون اسی جذبے کی تحت لکھا جا رہا ہے کہ فرقہ پرست مولوی ، مفتی اور پیر صاحبان نے اس عقیدے کے حوالے سے  امت میں جو گمراہی پھیلائی ہے اس کا سدباب کیا جا سکے اور کلمہ گو  اس بارے میں حقیقت جان کر  اس شرکیہ عقیدے سے بچ سکے ۔

عالم الغیب صرف اللہ تعالیٰ کی صفت ہے :

وَ عِنْدَهٗ مَفَاتِحُ الْغَيْبِ لَا يَعْلَمُهَاۤ اِلَّا هُوَ١ؕ وَ يَعْلَمُ مَا فِي الْبَرِّ وَ الْبَحْرِ١ؕ وَ مَا تَسْقُطُ مِنْ وَّرَقَةٍ اِلَّا يَعْلَمُهَا وَ لَا حَبَّةٍ فِيْ ظُلُمٰتِ الْاَرْضِ وَ لَا رَطْبٍ وَّ لَا يَابِسٍ اِلَّا فِيْ كِتٰبٍ مُّبِيْنٍ۰۰۵۹

[الأنعام: 59]

 ’’ اور غیب کی کنجیاں اُس کے پاس ہیں،اُن کو اُس کے سوا کوئی نہیں جانتا اور بر و بحر میں جو کچھ بھی ہے وہ اُسے جانتا ہے۔ اور کوئی پتا نہیں گرتا مگر اُسے اُس کا علم ہوتا ہے، اور زمین کے اندھیروں میں کوئی دانہ ہو یا کوئی تر یا خشک چیز سب ایک کھلی کتاب میں موجود ہے ‘‘۔

عٰلِمُ الْغَيْبِ وَ الشَّهَادَةِ١ؕ وَ هُوَ الْحَكِيْمُ الْخَبِيْرُ

 [الأنعام: 73]

 ’’۔ ۔ ۔  اور وہ پوشیدہ اور ظاہر سب کا جاننے والا ہے، وہ انتہائی دانا اور خوب باخبر ہے ‘‘۔

اَلَمْ يَعْلَمُوْۤا اَنَّ اللّٰهَ يَعْلَمُ سِرَّهُمْ وَ نَجْوٰىهُمْ وَ اَنَّ اللّٰهَ عَلَّامُ الْغُيُوْبِۚ۰۰۷۸

 [التوبة: 78]

 ’’  کیا انہیں معلوم نہیں کہ اللہ ان کے  پوشیدہ امور اور  سرگوشیوں تک سے آگاہ ہے  اور یہ کہ اللہ غیب کا جاننے والا ہے ‘‘۔

قُلْ لَّا يَعْلَمُ مَنْ فِي السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ الْغَيْبَ اِلَّا اللّٰهُ١ؕ وَ مَا يَشْعُرُوْنَ اَيَّانَ يُبْعَثُوْنَ۰۰۶۵

 [النمل: 65]

 ’’ کہہ دیجیے، اللہ کے سوا آسمانوں اور زمین میں کوئی غیب کا علم نہیں رکھتا اور وہ یہ بھی نہیں جانتے کہ وہ کب اٹھائے جائیں گے ‘‘۔

اِنَّ اللّٰهَ عِنْدَهٗ عِلْمُ السَّاعَةِ١ۚ وَ يُنَزِّلُ الْغَيْثَ١ۚ وَ يَعْلَمُ مَا فِي الْاَرْحَامِ١ؕ وَ مَا تَدْرِيْ نَفْسٌ مَّا ذَا تَكْسِبُ غَدًا١ؕ وَ مَا تَدْرِيْ نَفْسٌۢ بِاَيِّ اَرْضٍ تَمُوْتُ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ عَلِيْمٌ خَبِيْرٌؒ۰۰۳۴

 [لقمان: 34]

 ’’ بیشک قیامت کا علم اللہ ہی کے پاس ہے، اور وہی بارش اتارتا ہے اور وہ جانتا ہے جو کچھ رحموں میں پلتا ہے اور کوئی متنفس نہیں جانتا کہ کل وہ کیا کمائی کرے گا اور نہ کسی شخص کو یہ خبر ہے کہ وہ کس زمین میں مرے گا، بیشک اللہ ہی سب کچھ جاننے والا اور باخبر ہے ‘‘

اِنَّ اللّٰهَ عٰلِمُ غَيْبِ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ١ؕ اِنَّهٗ عَلِيْمٌۢ بِذَاتِ الصُّدُوْرِ۰۰۳۸

 [فاطر: 38]

 ’’ بیشک اللہ ہی آسمانوں اور زمین کی پوشیدہ باتوں کا جاننے والا ہے، وہ توسینوں  کے بھیدوں تک سے واقف ہے ‘‘۔

قرآن مجید کی ان آیات سے یہ بات ثابت ہوگئی  کہ’’ عالم الغیب ‘‘ صرف اور صرف تنہا اللہ  تعالیٰ  ہی کی ذات ہے ،اس کی ساری مخلوق میں کوئی بھی عالم الغیب نہیں۔

اللہ تعالیٰ رسولوں کو غیب کی اطلاع دیتا ہے :

 سورہ آل عمران میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا :

مَا كَانَ اللّٰهُ لِيَذَرَ الْمُؤْمِنِيْنَ عَلٰى مَاۤ اَنْتُمْ عَلَيْهِ حَتّٰى يَمِيْزَ الْخَبِيْثَ مِنَ الطَّيِّبِ١ؕ وَ مَا كَانَ اللّٰهُ لِيُطْلِعَكُمْ عَلَى الْغَيْبِ وَ لٰكِنَّ اللّٰهَ يَجْتَبِيْ مِنْ رُّسُلِهٖ مَنْ يَّشَآءُ١۪ فَاٰمِنُوْا بِاللّٰهِ وَ رُسُلِهٖ١ۚ وَ اِنْ تُؤْمِنُوْا وَ تَتَّقُوْا فَلَكُمْ اَجْرٌ عَظِيْمٌ۰۰۱۷۹

 [آل عمران: 179]

 ’’ (یاد رکھو ! ) اللہ مومنوں کو اس حالت میں نہیں چھوڑنے والا جس میں کہ تم اس وقت ہو جب تک کہ وہ ناپاک ( عناصر ) کو پاک  لوگوں سے الگ نہ کر دے ،  اور اللہ تمہیں غیب کی باتوں سے بھی مطلع نہیں کیا کرتا ، البتہ وہ اپنے رسولوں میں جسے چاہتا ہے ( اس مقصد کے لیے ) منتخب کر لیتا ہے ،  لہٰذا تم اللہ اور اس کے رسولوں پر ایمان رکھو اور اگر تم ایمان لاؤ اور تقویٰ کی روش اختیار کرو تو تمہارے لیے اجر عظیم ہے‘‘۔

یعنی عام افراد کو اللہ تعالیٰ غیب کی باتیں نہیں بتاتا بلکہ اپنے رسولوں  میں سے جسے چاہے اور جس قدر چاہے غیب کی اطلاع  دیتا ہے۔ گویا انبیاء علیہ السلام  ایسی صفات کے حامل نہیں ہوتے کہ اپنے تئیں غیب کا پتہ چلالیں بلکہ اللہ انہیں غیب کی اطلاع دیتا ہے۔ فرشتوں  کیساتھ  بھی یہی معاملہ  ہے کہ جس قدر اللہ تعالیٰ چاہتا ہے انہیں بتا دیتا ہے۔ سورہ بقرہ میں جہاں انسان کی تخلیق کا ذکر ہےوہاں اللہ تعالیٰ نے فرمایا :

وَ عَلَّمَ اٰدَمَ الْاَسْمَآءَ كُلَّهَا ثُمَّ عَرَضَهُمْ عَلَى الْمَلٰٓىِٕكَةِ١ۙ فَقَالَ اَنْۢبِـُٔوْنِيْ۠ بِاَسْمَآءِ هٰۤؤُلَآءِ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِيْنَ۰۰۳۱قَالُوْا سُبْحٰنَكَ لَا عِلْمَ لَنَاۤ اِلَّا مَا عَلَّمْتَنَا١ؕ اِنَّكَ اَنْتَ الْعَلِيْمُ الْحَكِيْمُ۰۰۳۲

 [البقرة: 31-32]

 ’’ اور اللہ نے آدم کو تمام (اشیاء کے) نام سکھائے اور پھر ان (اشیاء) کو فرشتوں کے سامنے پیش کیا اور فرمایا کہ مجھے تم ان سب کے نام بتاؤ اگر تم سچے ہو۔ انہوں نے کہا کہ تو پاک ہے ہمیں کچھ نہیں معلوم سوائے اس کے جو تو نے سکھایا ہے، اور تمام علم وحکمت والا بس تو ہی ہے‘‘۔

کیا جنات  بھی عالم الغیب ہوتے ہیں ؟

 

فَلَمَّا قَضَيْنَا عَلَيْهِ الْمَوْتَ مَا دَلَّهُمْ عَلٰى مَوْتِهٖۤ اِلَّا دَآبَّةُ الْاَرْضِ تَاْكُلُ مِنْسَاَتَهٗ١ۚ فَلَمَّا خَرَّ تَبَيَّنَتِ الْجِنُّ اَنْ لَّوْ كَانُوْا يَعْلَمُوْنَ الْغَيْبَ مَا لَبِثُوْا فِي الْعَذَابِ الْمُهِيْنِؕ۰۰۱۴

 [سبأ: 14]

 ’’ پھر جب ہم نے  اس ( سلیمان   ؑ) پر موت کا فیصلہ نافذ کردیا تو جنوں کو ان کی موت کا معلوم ہی نہیں ہوا سوائے  اس گھن کے کیڑے کے جو ان کے عصا کو کھاتا رہا، سو (اس کے نتیجے میں) جب وہ گرپڑے تو جنوں پر یہ حقیقت کھل گئی کہ اگر وہ غیب کے جاننے والے ہوتے تو اس ذلت کے عذاب میں مبتلا نہ رہتے‘‘۔

کیا انبیاء علیہم السلام عالم الغیب ہوتے ہیں ؟

ذٰلِكَ مِنْ اَنْۢبَآءِ الْغَيْبِ نُوْحِيْهِ اِلَيْكَ١ؕ وَ مَا كُنْتَ لَدَيْهِمْ اِذْ يُلْقُوْنَ اَقْلَامَهُمْ اَيُّهُمْ يَكْفُلُ مَرْيَمَ١۪ وَ مَا كُنْتَ لَدَيْهِمْ اِذْ يَخْتَصِمُوْنَ۰۰۴۴

 [آل عمران: 44]

’’یہ غیب کی خبریں ہیں جو ہم وحی کے ذریعے تمہارے پاس بھیج رہے ہیں۔ اور تم ان کے پاس نہیں تھے جب وہ ( بطور قرعہ اندازی) اپنے قلم ڈال رہے تھے ( یہ طے کرنے کے لئے) کہ مریم کا کفیل کون ہو اور تم ان کے پاس نہ تھے جب وہ جھگڑ رہے تھے‘‘۔

يَوْمَ يَجْمَعُ اللّٰهُ الرُّسُلَ فَيَقُوْلُ مَا ذَاۤ اُجِبْتُمْ١ؕ قَالُوْا لَا عِلْمَ لَنَا١ؕ اِنَّكَ اَنْتَ عَلَّامُ الْغُيُوْبِ۰۰۱۰۹

[المائدة: 109]

’’ اس دن (کا تصور کرو) جب کہ اللہ رسولوں کو جمع کرے گا، پھر ان سے کہے گا کہ تمہیں کیا جواب ملا تھا، وہ کہیں گے ہمیں کچھ علم نہیں، پوشیدہ باتوں کا تو ہی خوب جاننے والا ہے۔ ‘‘۔

قُلْ لَّاۤ اَقُوْلُ لَكُمْ عِنْدِيْ خَزَآىِٕنُ اللّٰهِ وَ لَاۤ اَعْلَمُ الْغَيْبَ وَ لَاۤ اَقُوْلُ لَكُمْ اِنِّيْ مَلَكٌ١ۚ اِنْ اَتَّبِعُ اِلَّا مَا يُوْحٰۤى اِلَيَّ١ؕ قُلْ هَلْ يَسْتَوِي الْاَعْمٰى وَ الْبَصِيْرُ١ؕ اَفَلَا تَتَفَكَّرُوْنَؒ۰۰۵۰

 [الأنعام: 50]

’’ (اےنبی ﷺان سے) کہو”میں تم سے یہ نہیں کہتا کہ میرے پاس اللہ کے خزانے ہیں، اور نہ میں غیب جانتا ہوں اور نہ میں تم سے یہ کہتا ہوں کہ میں فرشتہ ہوں۔ میں تو صرف اس وحی کی پیروی کرتا ہوں جو میری طرف آتی ہے۔ کہو کہ کیا نابینا اور بینا برابر ہوتے ہیں! کیا تم فکر نہیں کرتے‘‘۔

يَسْـَٔلُوْنَكَ عَنِ السَّاعَةِ اَيَّانَ مُرْسٰىهَا١ؕ قُلْ اِنَّمَا عِلْمُهَا عِنْدَ رَبِّيْ

 [الأعراف: 187]

’’پوچھتے ہیں آپ سے قیامت کے بارے میں کہ کب ہے اس کا واقع ہونا ، کہہ دیجیے درحقیقت اس کا علم تو میرے رب کے پاس ۔ ۔‘‘۔

قُلْ لَّاۤ اَمْلِكُ لِنَفْسِيْ نَفْعًا وَّ لَا ضَرًّا اِلَّا مَا شَآءَ اللّٰهُ١ؕ وَ لَوْ كُنْتُ اَعْلَمُ الْغَيْبَ لَا سْتَكْثَرْتُ مِنَ الْخَيْرِ١ۛۖۚ وَ مَا مَسَّنِيَ السُّوْٓءُ١ۛۚ اِنْ اَنَا اِلَّا نَذِيْرٌ وَّ بَشِيْرٌ لِّقَوْمٍ يُّؤْمِنُوْنَؒ۰۰۱۸۸

 [الأعراف: 188]’’( اے نبی ﷺ )کہہ دیجیے نہیں میں اختیار رکھتا اپنی جان کے لیے کسی نفع کا اور نہ کسی نقصان کا مگر جو اللہ چاہے اور اگر میں جانتا ہوتا غیب کو تو یقینا میں حاصل کرلیتا بہت بھلائی سے اور نہ پہنچتی مجھے کبھی کوئی تکلیف نہیں ہوں میں مگر ایک ڈرانے والا اور خوشخبری دینے والا اس قوم کے لیے جو ایمان رکھتے ہیں‘‘۔

وَ مِمَّنْ حَوْلَكُمْ مِّنَ الْاَعْرَابِ مُنٰفِقُوْنَ١ۛؕ وَ مِنْ اَهْلِ الْمَدِيْنَةِ١ؔۛ۫ مَرَدُوْا عَلَى النِّفَاقِ١۫ لَا تَعْلَمُهُمْ١ؕ نَحْنُ نَعْلَمُهُمْ١ؕ سَنُعَذِّبُهُمْ مَّرَّتَيْنِ ثُمَّ يُرَدُّوْنَ اِلٰى عَذَابٍ عَظِيْمٍۚ۰۰۱۰۱

 [التوبة: 101]

’’اور بعض ان میں سے جو تمہارے اردگرد دیہاتیوں میں سے منافق ہیں بعض اہل مدینہ میں سے بھی جو اڑے ہوئے ہیں نفاق پر، آپ نہیں جانتے انہیں ، ہم جانتے ہیں انہیں عنقریب ہم عذاب دیں گے انہیں دو مرتبہ پھر وہ لوٹائے جائیں گے بہت بڑے عذاب کی طرف‘‘۔

تِلْكَ مِنْ اَنْۢبَآءِ الْغَيْبِ نُوْحِيْهَاۤ اِلَيْكَ١ۚ مَا كُنْتَ تَعْلَمُهَاۤ اَنْتَ وَ لَا قَوْمُكَ مِنْ قَبْلِ هٰذَا١ۛؕ فَاصْبِرْ١ۛؕ اِنَّ الْعَاقِبَةَ لِلْمُتَّقِيْنَؒ۰۰۴۹

 [هود: 49]

’’یہ غیب کی خبروں میں سے ہےجنہیں  ہم وحی کرتے ہیں آپ کی طرف، اس سے پہلےآپ انہیں نہیں  جانتے تھے اور نہ آپ کی قوم ، تو آپ صبر کریں بیشک اچھا انجام متقین کے لیے ہے‘‘۔

نَحْنُ نَقُصُّ عَلَيْكَ اَحْسَنَ الْقَصَصِ بِمَاۤ اَوْحَيْنَاۤ اِلَيْكَ هٰذَا الْقُرْاٰنَ١ۖۗ وَ اِنْ كُنْتَ مِنْ قَبْلِهٖ لَمِنَ الْغٰفِلِيْنَ۰۰۳

 [يوسف: 3]

’’ (اے نبی ﷺ) ہم تمہارے سامنے بہترین قصّہ بیان کر رہے ہیں ، اس سے جسے ہم نے وحی کیا ہے تم پر یہ قرآن اور اگرچہ تم اس سے پہلے بالکل بے خبر تھے‘‘ ۔

احادیث سے نبیﷺ کے عالم الغیب نہ ہونے پر دلائل :

نبی ﷺ  کی زوجہ عائشہ ؓ پر تہمت لگائی گئی اور نبی ﷺ ایک ماہ تک پریشان رہے اور لوگوں سے اپنی زوجہ کے بارے میں مشورے کرتے رہے ۔ ایک ماہ بعد جب اللہ تعالیٰ کی طرف وحی ( اطلاع غیب ) ہوئی تو  انہیں ان کی زوجہ کی پاکدامنی کے بارے میں بتایا گیا۔ ( بخاری ،  مسلم و دیگر کتب احادیث )۔

 سوچیں اگر نبی ﷺ عالم الغیب ہوتے تو پہلے دن  ہی فرما دیتے کہ یہ سب جھوٹ ہے اور عائشہ ؓ پاکدامن ہیں لیکن ایسا نہ ہوا۔

اسی طرح   زعل ،ذکوان، عصیہ اور بنولحیان  نے نبی ﷺ کے پاس آکر اس بات کا دعویٰ کیا کہ وہ اسلام قبول کرچکے ہیں۔ انہوں نے نبی ﷺ سے اپنی قوم کے لئے  مدد کی درخواست کی۔  نبی ﷺ نے ستر ایسے صحابہ ؓ کو ان کے ساتھ بھیجا جنہیں قراء کہا جاتا تھا ۔ یہ لوگ دن میں لکڑیاں جمع کرتے تھے اور راتوں کو صلوٰۃ ادا کرتے تھے۔  جب وہ بیر معونہ کے مقام پر پہنچے تو انہوں نے ان سب صحابہ ؓ کو شہید کردیا  ۔ ( بخاری و مسلم )۔

اگر نبی ﷺ عالم الغیب ہوتے تو .انہیں پہلے ہی سے خبر ہوتی کہ یہ قبائل جھوٹ بول رہے ہیں اور یہ میرے صحابہ    ؓ                  کو لیجا کر شہید کردیں گے ۔

عائشہ ؓ فرماتی ہیں :

وَمَنْ حَدَّثَكَ أَنَّهُ يَعْلَمُ الغَيْبَ، فَقَدْ كَذَبَ، وَهُوَ يَقُولُ: لاَ يَعْلَمُ الغَيْبَ إِلَّا اللَّهُ

( بخاری ،  کتاب التحید ، بَابُ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: {عَالِمُ الغَيْبِ فَلاَ يُظْهِرُ عَلَى غَيْبِهِ أَحَدًا} )

’’ اور جو شخص تم سے کہے کہ آپ( ّ نبی ﷺ ) غیب جانتے ہیں تو وہ جھوٹا ہے اللہ فرماتا ہے کہ غیب کا علم اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔

ام سلمہ ؓ سے روایت ہے:

أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ” إِنَّكُمْ تَخْتَصِمُونَ إِلَيَّ، وَلَعَلَّ بَعْضَكُمْ أَلْحَنُ بِحُجَّتِهِ مِنْ بَعْضٍ، فَمَنْ قَضَيْتُ لَهُ بِحَقِّ أَخِيهِ شَيْئًا، بِقَوْلِهِ: فَإِنَّمَا أَقْطَعُ لَهُ قِطْعَةً مِنَ النَّارِ فَلاَ يَأْخُذْهَا “

( بخاری ،  کتاب الشھادت ، بَابُ مَنْ أَقَامَ البَيِّنَةَ بَعْدَ اليَمِينِ )

’’رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ تم میرے پاس  پاس مقدمہ لے کر آتے ہو اور شاید تم میں سے کوئی شخص دلیل پیش کرنے میں دوسرے سے زیادہ چست ہو اور میں اس کو اس کے بھائی کے حق میں سے اس کے کہنے کے سبب سے کچھ دلا دوں تو وہ آگ کا ٹکڑا ہے جو میں اسے دے رہا ہوں وہ اسے نہ لے‘‘۔

گویا نبی ﷺ نے فرما دیا کہ میں عالم الغیب نہیں، مجھے حقیقت کا علم نہیں ہوتا، صرف تم لوگوں کی باتیں سن کر کسی ایک کے حق میں فیصلہ دے دیتا ہوں۔

ام العلاء ؓ  جنہوں نے نبی ﷺ سے بیعت کی تھی فرماتی ہیں :

أَنَّهُ اقْتُسِمَ المُهَاجِرُونَ قُرْعَةً فَطَارَ لَنَا عُثْمَانُ بْنُ مَظْعُونٍ، فَأَنْزَلْنَاهُ فِي أَبْيَاتِنَا، فَوَجِعَ وَجَعَهُ الَّذِي تُوُفِّيَ فِيهِ، فَلَمَّا تُوُفِّيَ وَغُسِّلَ وَكُفِّنَ فِي أَثْوَابِهِ، دَخَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقُلْتُ: رَحْمَةُ اللَّهِ عَلَيْكَ أَبَا السَّائِبِ، فَشَهَادَتِي عَلَيْكَ: لَقَدْ أَكْرَمَكَ اللَّهُ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «وَمَا يُدْرِيكِ أَنَّ اللَّهَ قَدْ أَكْرَمَهُ؟» فَقُلْتُ: بِأَبِي أَنْتَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَمَنْ يُكْرِمُهُ اللَّهُ؟ فَقَالَ: «أَمَّا هُوَ فَقَدْ جَاءَهُ اليَقِينُ، وَاللَّهِ إِنِّي لَأَرْجُو لَهُ الخَيْرَ، وَاللَّهِ مَا أَدْرِي، وَأَنَا رَسُولُ اللَّهِ، مَا يُفْعَلُ بِي» قَالَتْ: فَوَاللَّهِ لاَ أُزَكِّي أَحَدًا بَعْدَهُ أَبَدًا حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ عُفَيْرٍ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ مِثْلَهُ. وَقَالَ نَافِعُ بْنُ يَزِيدَ، عَنْ عُقَيْلٍ مَا يُفْعَلُ بِهِ. وَتَابَعَهُ شُعَيْبٌ، وَعَمْرُو بْنُ دِينَارٍ، وَمَعْمَرٌ

( بخاری، کتاب الجنائز ، بَابُ الدُّخُولِ عَلَى المَيِّتِ بَعْدَ المَوْتِ إِذَا أُدْرِجَ فِي أَكْفَانِهِ )

’’ کہ مہاجرین نے انصار کی تقسیم کا قرعہ ڈالا ہمارے حصہ میں عثمان بن مظعون  ؓ آئے، ہم نے ان کو اپنے گھر میں اتارا اور ان کو بیماری لاحق ہوگئی جس میں انہوں نے  وفات پائی اور نہلا کر کفن پہنائے گئے تو رسول اللہﷺتشریف لائے، میں نے کہا اے ابوالسائب تم پر اللہ کی رحمت ہو تمہارے متعلق میری شہادت ہے کہ اللہ نے تمہیں معزز بنایا، نبیﷺنے فرمایا کہ تمہیں کس چیز نے بتایا ؟ میں نے کہا یا رسول اللہﷺ میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں، پھر کون ہے جس کو اللہ تعالیٰ معزز بنائے گا، آپ نے فرمایا ان پر موت آئی ہے واللہ میں اس کے لیے خیر کا امیدوار ہوں واللہ میں یقین کے ساتھ نہیں جانتا ہوں حالانکہ میں اللہ کا رسول ہوں کہ میرے ساتھ کیا کیا جائے گا۔ ام علاء  ؓنے کہا کہ واللہ میں نے اس کے بعد کسی کے متعلق کبھی بھی پاک ہونے کی شہادت نہیں دی‘‘۔

خالد بن زکوان سے روایت ہے:

قَالَتِ الرُّبَيِّعُ بِنْتُ مُعَوِّذِ ابْنِ عَفْرَاءَ، جَاءَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَدَخَلَ حِينَ بُنِيَ عَلَيَّ، فَجَلَسَ عَلَى فِرَاشِي كَمَجْلِسِكَ مِنِّي، فَجَعَلَتْ جُوَيْرِيَاتٌ لَنَا، يَضْرِبْنَ بِالدُّفِّ وَيَنْدُبْنَ مَنْ قُتِلَ مِنْ آبَائِي يَوْمَ بَدْرٍ، إِذْ قَالَتْ إِحْدَاهُنَّ: وَفِينَا نَبِيٌّ يَعْلَمُ مَا فِي غَدٍ، فَقَالَ: «دَعِي هَذِهِ، وَقُولِي بِالَّذِي كُنْتِ تَقُولِينَ»

( بخاری ، کتاب النکاح )

’’ربیع بنت معوذ ؓ  نے بتایا  کہ نبی ﷺ شب زفاف کے بعد میرے گھر میں تشریف لائے اور میرے بستر پر اس طرح بیٹھ گئے جیسے تم بیٹھے ہو اس وقت کئی لڑکیاں دف بجا کر مقتولین بدر کی شان میں قصیدہ خوانی کر رہی تھیں۔ آخر ان میں ایک لڑکی یہ گانے لگی کہ ہم میں ایک ایسا نبی تشریف لایا ہے جو یہ جانتا ہے کہ کل کیا ہوگانبی ﷺنے فرمایا یہ مت کہو بلکہ جو پہلے کہہ رہی تھیں وہی کہو ‘‘۔

یعنی نبی ﷺ نے ایسی بات پسند نہیں فرمائی جس میں انہیں عالم الغیب سمجھا جائے ۔

عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الخُدْرِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، خَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي أَضْحًى أَوْ فِطْرٍ إِلَى المُصَلَّى، ثُمَّ انْصَرَفَ، فَوَعَظَ النَّاسَ، وَأَمَرَهُمْ بِالصَّدَقَةِ، فَقَالَ: «أَيُّهَا النَّاسُ، تَصَدَّقُوا»، فَمَرَّ عَلَى النِّسَاءِ، فَقَالَ: «يَا مَعْشَرَ النِّسَاءِ، تَصَدَّقْنَ، فَإِنِّي رَأَيْتُكُنَّ أَكْثَرَ أَهْلِ النَّارِ» فَقُلْنَ: وَبِمَ ذَلِكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ: «تُكْثِرْنَ اللَّعْنَ، وَتَكْفُرْنَ العَشِيرَ، مَا رَأَيْتُ مِنْ نَاقِصَاتِ عَقْلٍ وَدِينٍ، أَذْهَبَ لِلُبِّ الرَّجُلِ الحَازِمِ، مِنْ إِحْدَاكُنَّ، يَا مَعْشَرَ النِّسَاءِ» ثُمَّ انْصَرَفَ، فَلَمَّا صَارَ إِلَى مَنْزِلِهِ، جَاءَتْ زَيْنَبُ، امْرَأَةُ ابْنِ مَسْعُودٍ، تَسْتَأْذِنُ عَلَيْهِ، فَقِيلَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، هَذِهِ زَيْنَبُ، فَقَالَ: «أَيُّ الزَّيَانِبِ؟» فَقِيلَ: امْرَأَةُ ابْنِ مَسْعُودٍ، قَالَ: «نَعَمْ، ائْذَنُوا لَهَا» فَأُذِنَ لَهَا۔۔۔

( بخاری ،  کتاب الزکاۃ ِ بَابُ الزَّكَاةِ عَلَى الأَقَارِبِ )

’’ ابوسعیدخدری ؓ  سے روایت کیا ہے، انھوں نے کہا کہ رسول اللہﷺعیدالفطر یا عیدالاضحی کے دن عیدگاہ کی طرف تشریف لے گئے، پھر صلوٰۃ  سے فارغ ہوئے تو لوگوں کو نصیحت کی اور ان کو صدقہ کا حکم دیا، تو آپ نے فرمایا اے لوگو ! صدقہ کرو، پھر عورتوں کے پاس پہنچے اور فرمایا : اے عورتوں کی جماعت تم خیرات کرو، اس لیے کہ مجھےجہنمیوں  میں عورتوں کی کثرت  دکھلائی گی ہے۔ عورتوں نے کہا ایسا کیوں یا رسول اللہ (ﷺ) ؟ آپ نے فرمایا : تم لعن طعن زیادہ کرتی ہو، شوہروں کی نافرمانی کرتی ہو، اے عورتو ! میں نے تم سے زیادہ دین اور عقل میں ناقص کسی کو نہیں دیکھا۔ جو بڑے بڑے ہوشیاروں کی عقل کم کردے، پھر آپ گھر واپس ہوئے، جب گھر پہنچے، تو ابن مسعود کی بیوی زینب ؓ آئیں اور اندر آنے کی اجازت مانگی، آپ سے کہا گیا یا رسول اللہ (ﷺ) یہ زینب ( آئی ) ہے۔ آپ نے فرمایا : کون زینب ؟ کہا گیا کہ ابن مسعود کی بیوی، آپ نے فرمایا : اچھا اجازت دو ، انھیں اجازت دی گئی ۔ ۔ ۔ ‘‘۔

ملاحظہ فرمایا کہ دروازےپر آئی ہوئی صحابیہ ؓ   کا نبی ﷺ کو علم نہیں کہ کون آیا ہے ۔

پیش کردہ  احادیث سے بھی یہی ثابت ہوا کہ نبی ﷺ عالم الغیب نہیں تھے۔

اب ہم ان مغالطہ آرئیوں کی طرف آتے ہیں جو علماء فرقہ نے اس بارے میں پھیلائی ہیں۔

 اَلَمْ تَرَ كَيْفَ کے حوالے سے نبی ﷺ کو عالم الغیب سمجھنا :

قرآن و حدیث کے اس بیان سے واضح ہے کہ اس پوری کائنات میں صرف اللہ تعالیٰ ہی کی ذات ’’ عالم  الغیب ‘‘ ہے اس کے علاوہ کسی دوسرے کو اس صفت کا حامل سمجھنا اللہ کی صفت میں شرک ہے۔ لیکن علماء فرقہ جنہوں  نے خلاف قرآن و حدیث یہ عقیدہ دیا ہے کلمہ گو کر گمراہ کرنے کی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں اور  سورہ فیل کی پہلی آیت : اَلَمْ تَرَ كَيْفَ فَعَلَ رَبُّكَ بِاَصْحٰبِ الْفِيْلِ   ’’ کیا تم نے نہیں دیکھا کہ تمہارے رب نے ہاتھی والوں کیساتھ کیا کیا ‘‘، پیش کرکے کہتے ہیں کہ قرآن خود بتا رہا ہے کہ نبی ﷺ اس وقت بھی موجود تھے اور دیکھ رہے تھے، گویا نبی ﷺ عالم الغیب ہیں۔

            حقیقت تو ہ ہے کہ یہ سب  فریب کاری ہے قرآن میں اللہ تعالیٰ نے فرما دیا کہ اللہ کے علاوہ اور کوئی عالم الغیب ہے  ہی نہیں۔ اس طرح سب سے  پہلے تو یہ عقیدہ رکھنا قرآن کا انکار ہوگیا۔ دوسری بات اَلَمْ تَرَ كَيْفَ ایک ادبی فقرہ ہے جس سے مراد ہے ’’کیا تم نہیں جانتے‘‘۔جیسے کوئی کسی نوجوان سے کہے کہ کیا تم نے نہیں دیکھا کہ پاکستان بننے پر کتنی قتل وغارت ہوئی تو اس سے مراد یہ ہو گی کہ کیا تم نہیں جانتے  کہ پاکستان بننے پر کتنی قتل و غارت ہوئی تھی ۔جیسے سورہ يسين آیت نمبر 31 میں الله کافروں مشرکوں سے فرما رہا ہے :

اَلَمْ يَرَوْا كَمْ اَهْلَكْنَا قَبْلَهُمْ مِّنَ الْقُرُوْنِ اَنَّهُمْ اِلَيْهِمْ لَا يَرْجِعُوْنَؕ۰۰۳۱

 [يس: 31]

’’کیا انہوں نے نہیں دیکھا کہ ان سے پہلے بہت سی قوموں کو ہم نے غارت کر دیا کہ وہ اب ان  کی طرف لوٹ کر نہیں آئیں گی‘‘۔

یہاں بھی کفار کے دیکھنے سے مراد  دراصل ان کا جاننا ہی ہے کہ “کیا وہ کفار نہیں جانتے کہ ان سے پہلے بہت سی قوموں کو ہم نے غارت کر دیا کہ وہ اب ان  کی طرف لوٹ کر نہیں آئیں گی۔یہاں کسی طرح ان کو حاظر ناظر  یا عالم الغیب نہیں سمجھا جا سکتا ۔ اللہ تعالیٰ مزید فرماتا ہے :

اَوَ لَمْ يَرَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْۤا اَنَّ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ كَانَتَا رَتْقًا فَفَتَقْنٰهُمَا١ؕ وَ جَعَلْنَا مِنَ الْمَآءِ كُلَّ شَيْءٍ حَيٍّ١ؕ اَفَلَا يُؤْمِنُوْنَ۰۰۳۰

[الأنبياء: 30]

’’اور کیا نہیں دیکھا ان لوگوں نے جنہوں نے کفر کیا کہ بیشک آسمان اور زمین دونوں تھے (آپس میں) ملے ہوئے تو ہم نے الگ کردیا ان دونوں کو اور ہم نے بنائی پانی سے ہر زندہ چیز تو کیا وہ ایمان نہیں لاتے ‘‘۔

اَوَ لَمْ يَرَ الْاِنْسَانُ اَنَّا خَلَقْنٰهُ مِنْ نُّطْفَةٍ فَاِذَا هُوَ خَصِيْمٌ مُّبِيْنٌ۰۰۷۷

 [يٰس: 77]

’’اور (بھلا ) کیا انسان نے نہیں دیکھا (غور کیا ) کہ بیشک ہم نے اسے پیدا کیا ہے ایک قطرے سے تو اچانک وہ صریح جھگڑالو (بن بیٹھا ) ہے۔

فَاَمَّا عَادٌ فَاسْتَكْبَرُوْا۠ فِي الْاَرْضِ بِغَيْرِ الْحَقِّ وَ قَالُوْا مَنْ اَشَدُّ مِنَّا قُوَّةً١ؕ اَوَ لَمْ يَرَوْا اَنَّ اللّٰهَ الَّذِيْ خَلَقَهُمْ هُوَ اَشَدُّ مِنْهُمْ قُوَّةً١ؕ وَ كَانُوْا بِاٰيٰتِنَا يَجْحَدُوْنَ۰۰۱۵

 [فصلت: 15]

’’اور  رہے عاد تو انہوں نے تکبر کیا زمین میں ناحق اور انہوں نے کہا کون زیادہ سخت ہے ہم سے قوت میں اور(بھلا) کیا انہوں نے نہیں دیکھا کہ بیشک اللہ جس نے پیدا کیا انہیں وہ زیادہ سخت ہے ان سے قوت میں اور ہماری آیات کا وہ انکار کرتے تھے‘‘َ

            قرآن مجید کی ان آیات نے کھول کھول کر واضح کردیا کہ اَلَمْ تَرَ كَيْفَ سے مراد یہ نہیں کہ نبیﷺ اس وقت وہاں موجود تھے یا وہ عالم الغیب ہیں ،  بلکہ اس سے مراد یہ ہے کہ اے نبی ﷺ  کیا تمہیں یہ خبر نہیں پہنچی  کہ جس کو سارا عرب جانتا ہے ۔ اَلَمْ تَرَ كَيْفَ سے مراد  وہاں حاضر و ناظر کے لئے جاتے ہیں ۔ جبکہ اس سے مراد دو باتیں ہوتی ہیں ایک تو اپنی آنکھوں سے دیکھنا یعنی بصری انداز، جبکہ دوسرا انداز قلبی ہوتا ہے کہ تم یقینا ً اس پر ایمان لاتے ہو کہ ایسا ہی ہے  جیسا کہ تمہیں بتایا گیا۔ یہاں مراد  موجود ہونا  یا عالم الغیب ہونا نہیں  بلکہ کا جاننا ہے۔ یعنی سارا عرب اس بات کو ایسے جانتا تھا  کہ جیسے ہر ایک نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہو۔

کیا قیامت کے دن نبی ﷺ  کی گواہی ان کے عالم الغیب ہونے کا ثبوت ہے ؟

            سورہ بقرہ کی ایک آیت بھی اس بارے میں پیش کی جاتی ہے کہ نبی ﷺ قیامت کے دن لوگوں پر گواہی دیں گے، تو اس کا مطلب وہ ہمیشہ سے اور ہر جگہ حاضر و ناظر اور عالم الغیب ہیں جب ہی تو گواہی دیں گے۔

وضاحت :

            مولوی حضرات کا یہ طریقہ کار ہے کہ وہ  آیت پیش نہیں کرتے بلکہ زبانی ہی سنا کر لوگوں کو گمراہ کر دیتے ہیں کہ قرآن میں یہ آیا ہے۔ سورہ بقرہ آیت نمبر ۱۴۳ میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :

وَ كَذٰلِكَ جَعَلْنٰكُمْ اُمَّةً وَّسَطًا لِّتَكُوْنُوْا شُهَدَآءَ عَلَى النَّاسِ وَ يَكُوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَيْكُمْ شَهِيْدًا١ؕ وَ مَا جَعَلْنَا الْقِبْلَةَ الَّتِيْ كُنْتَ عَلَيْهَاۤ اِلَّا لِنَعْلَمَ مَنْ يَّتَّبِعُ الرَّسُوْلَ مِمَّنْ يَّنْقَلِبُ عَلٰى عَقِبَيْهِ١ؕ وَ اِنْ كَانَتْ لَكَبِيْرَةً اِلَّا عَلَى الَّذِيْنَ هَدَى اللّٰهُ١ؕ وَ مَا كَانَ اللّٰهُ لِيُضِيْعَ اِيْمَانَكُمْ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ بِالنَّاسِ لَرَءُوْفٌ رَّحِيْمٌ۰۰۱۴۳

[البقرة: 143]

’’اور اسی طرح ہم نے تم کو امت وسط (بہترین امت) بنایا ہے تاکہ تم لوگوں پر گواہ بنو اور رسول تم پر گواہ ہوں  اور وہ قبلہ جس پر تم پہلے تھے ہم نے صرف اس لئے مقرر کیا تھا تاکہ ہم دیکھ لیں کہ کون رسول کی پیروی کرتا ہے اور کون الٹا پھر جاتا ہے، اور ہرچند کہ یہ بات دشوار تھی مگر ان پر نہیں جن کو اللہ نے ہدایت دی ہے۔ اللہ تمہارے ایمان کو ضائع نہیں کرے گا۔ بےشک اللہ لوگوں پر شفیق ورحیم ہے‘‘۔

اس آیت کو پڑھیں    نبی ﷺ سے پہلے ’’ گواہی ‘‘ کون دے گا ؟ اللہ نے فرمایا کہ نبی ﷺ کی یہ امت گواہی دے گی اور رسول اللہ ﷺ اس امت پر گواہ ہوں گے۔ اگر اس سے حاضر و ناظر اور عالم الغیب کے معنیٰ لئے جاتے ہیں تو پھر تو یہ ساری کی ساری امت ’’ حاضر و ناظر اور عالم الغیب ‘‘ ہے کیونکہ نبی ﷺ سے پہلے یہ امت سابقہ امتوں پر گواہی دے گی، لیکن ایسی بات ہر گز نہیں۔ نبی ﷺ نے اس آیت کی جو تشریح فرمائی وہ اس طرح ہے :

عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الخُدْرِيِّ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِﷺ: ” يُدْعَى نُوحٌ يَوْمَ القِيَامَةِ، فَيَقُولُ: لَبَّيْكَ وَسَعْدَيْكَ يَا رَبِّ، فَيَقُولُ: هَلْ بَلَّغْتَ؟ فَيَقُولُ: نَعَمْ، فَيُقَالُ لِأُمَّتِهِ: هَلْ بَلَّغَكُمْ؟ فَيَقُولُونَ: مَا أَتَانَا مِنْ نَذِيرٍ، فَيَقُولُ: مَنْ يَشْهَدُ لَكَ؟ فَيَقُولُ: مُحَمَّدٌ وَأُمَّتُهُ، فَتَشْهَدُونَ أَنَّهُ قَدْ بَلَّغَ: {وَيَكُونَ الرَّسُولُ عَلَيْكُمْ شَهِيدًا}، فَذَلِكَ قَوْلُهُ جَلَّ ذِكْرُهُ: {وَكَذَلِكَ جَعَلْنَاكُمْ أُمَّةً وَسَطًا لِتَكُونُوا شُهَدَاءَ عَلَى النَّاسِ وَيَكُونَ الرَّسُولُ عَلَيْكُمْ شَهِيدًا}” وَالوَسَطُ: العَدْلُ۔

( بخاری،  کتاب تفسیر القرآن، بَابُ قَوْلِهِ تَعَالَى: {وَكَذَلِكَ جَعَلْنَاكُمْ أُمَّةً وَسَطًا لِتَكُونُوا شُهَدَاءَ عَلَى النَّاسِ وَيَكُونَ الرَّسُولُ عَلَيْكُمْ شَهِيدًا} )

’’ابو سعد خدری ؓسے روایت ہے کہ  رسولﷺ نے فرمایا کہ قیامت کے روز نوح علیہ السلام کو بلایا جائے گا،وہ آکر کہیں گے۔”اے رب میں حاضر ہوں”۔اللہ تعالیٰ فرمائے گا “کیا تم نے ہمارے احکامات کو پہنچا دیا تھا” وہ کہیں گے کہ “جی ہاں”۔ پھر ان کی امت سے پوچھا جائے” کیا انہوں نے تم کو دین پہنچایا تھا” وہ کہیں گے کہ “ہمارے پاس کوئی ڈرانے والا نہیں آیا”۔اللہ تعالیٰ نوح علیہ السلام سے فرمائے گا کہ تمہارا گواہ کون ہے،وہ کہیں گے کہ محمدﷺ اور ان کی امت۔اس وقت وہ (نبیﷺ کے امتی) گواہی دیں گے کہ بے شک نوح علیہ السلام نے احکامات پہنچا دیے تھے اور رسولﷺ ان پر گواہی دیں گے۔اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کا یہی مطلب ہے‘‘۔

واضح ہوا کہ گواہی دینے کا مطلب یہ ہے کہ ہمیں  قرآن مجید کہ ذریعے بتا دیا گیا کہ نوح علیہ السلام نے  رات دن اپنی قوم کو اللہ کی طرف دعوت دی اور اس کا پیغام پہنچادیا ( نوح : 5 )۔اللہ کی بات  یقینا ً سچی ہے ہم گواہی دیں گے کہ نوح علیہ السلام نے اپنی قوم کے سامنے اللہ کا پیغام بیان فرما دیا تھا اور رسول اللہ ﷺ ہمارے اس بیان پر گواہی دیں گے ۔ کیا  اس سے اس امت یا نبی ﷺ کا عالم الغیب ہونا ثابت ہوتا ہے ؟ کلمہ  طیبہ  لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ  بھی اس بات کی دلیل ہے کہ  نہ ہم نے اللہ تعالیٰ کو دیکھا اور نہ محمد ﷺ کو  اور نہ ہم نے وحی نازل ہوتے دیکھی ، یہ بن دیکھے گواہی ہے۔

سورہ تکویر کی آیت سے نبی ﷺ کو عالم الغیب ثابت کرنا :

سورہ  تکویر کی آیت نمبر 24  پیش کی جاتی ہے :

 وَمَا هُوَ عَلَي الْغَيْبِ بِضَنِيْنٍ [التكوير: 24] ’’ وہ غیب کے معاملہ میں بخیل نہیں ہے ‘‘۔

اس آیت کو پیش کرکے کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ فرما رہا ہے کہ نبی محمد ﷺ غیب کی باتیں چھپاتے نہیں بلکہ کھول کر بتاتے ہیں۔ اگر وہ نہیں بتاتے تو ہمیں جنت و جہنم کا علم کیسے ہوتا۔ گویا وہ عالم الغیب ہیں۔

وضاحت :

قرآن و حدیث کے پیش کردے دلائل سے یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ عالم الغیب صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہے، اور وہ اپنے رسولوں میں سے  جسے چاہے جتنی چاہے غیب کی اطلاع دے دیتا ہے۔ نبی ﷺ  کو جو باتیں بتائی  گئیں ان کے  متعلق یہ بتایا جا رہا ہے کہ نبی ﷺ اللہ کی طرف سے دی گئی اطلاع غیب میں سے کچھ چھپا نہیں لیتے بلکہ وہ من و عن اسے انسانوں تک پہنچا دیتے ہیں۔ لیکن گمراہ فرقوں نے اپنے باطل عقیدے کو ثابت کرنے کے لئے اسے دوسرا رخ دے دیا۔

احادیث کے حوالے سے پھیلائی گئی غلط فہمیاں:

            احادیث کے حوالے سے بیان کیا جاتا ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا کہ ( امامت کرتے ہوئے ) میں تمہیں پیچھے سے دیکھ رہا ہوتا ہوں۔ حالانکہ  اس سے بھی مراد اللہ تعالیٰ کی طرف سے دکھایا جانا ہوتا ہے۔اس حدیث سے تو یہ  ثابت ہو رہا ہےکہ نبی ﷺ اپنی پیٹھ پیچھے نہیں دیکھتے تھے۔

عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ: أَنَّ رَجُلًا اطَّلَعَ مِنْ جُحْرٍ فِي دَارِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَالنَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَحُكُّ رَأْسَهُ بِالْمِدْرَى فَقَالَ: «لَوْ عَلِمْتُ أَنَّكَ تَنْظُرُ، لَطَعَنْتُ بِهَا فِي عَيْنِكَ، إِنَّمَا جُعِلَ الإِذْنُ مِنْ قِبَلِ الأَبْصَارِ»

( بخاری، کتاب اللباس  ، بَابُ الِامْتِشَاطِ ٌ )

’’ سھیل بن سعد ؓ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے نبیﷺ کی  دیوار کے ایک سوراخ سے گھر کے اندر  جھانکا ، نبیﷺ اس وقت اپنا سر کنگھے سے کھجلا رہے تھے ۔پھر ( معلوم ہونے پر  نبی ﷺ) نے فرمایا : اگر مجھے معلوم ہوتا کہ تم جھانک رہے ہو تو میں تمہاری آنکھ پھوڑ  دیتا۔بے شک اذن                                                                                                                   ( اجازت )      لینا تو اسی  کے لیے ہے کہ آدمی کی نظر  ( کسی کے )  ستر پر نہ پڑے‘‘۔

یہ حدیث اس بات کی تصدیق کرتی ہے کہ نبی ﷺ اپنے پیچھے سے نہیں دیکھتے تھے۔

مزید یہ حدیث بھی پڑھیں :

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ انْصَرَفَ مِنْ صَلَاةٍ جَهَرَ فِيهَا بِالْقِرَائَةِ فَقَالَ هَلْ قَرَأَ مَعِي مِنْکُمْ أَحَدٌ آنِفًا فَقَالَ رَجُلٌ نَعَمْ أَنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنِّي أَقُولُ مَا لِي أُنَازَعُ الْقُرْآنَ فَانْتَهَی النَّاسُ عَنْ الْقِرَائَةِ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِيمَا جَهَرَ فِيهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْقِرَائَةِ حِينَ سَمِعُوا ذَلِکَ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ

( مؤطا امام مالک،کتاب الصلاۃ ، باب ترك القراءة خلف الإمام فيما جهر فيه )

’’ابوہریرہ ؓ روایت ہے کہ رسول اللہﷺ ایک دن جہری ( بلند آواز )صلوٰۃ  سے فارغ ہوئے ،پھر فرمایا کیا تم میں سے کسی نے میرے ساتھ کلام اللہ پڑھا تھا ؟  ایک شخص بول اٹھا کہ ہاں میں نے یا رسول اللہﷺ۔فرمایا جب ہی میں کہتا تھا اپنے دل میں کیا ہوا ہے مجھ سےکلام اللہ چھینا جاتا ہے ۔ کہا ابن شہاب یا ابوہریرہ  ؓنے تب لوگوں نے قرآت کرنا بند کردی جہری صلوٰۃ میں جب سے یہ بات سنی نبی ﷺ سے ۔‘‘

 اس سے بھی یہ واضح ہوا کہ نبی ﷺ کو امامت کرتے ہوئے پیچھے نہیں دکھائی دیتا تھا ورنہ معلوم ہی نہیں کرتے بلکہ فرماتے کہ : اے فلاں تم میرے پیچھے قرآن نہ پڑھا کرو۔ بات وہی ہے کہ ’’ میں اپنے پیچھے دیکھتا ہوں ‘‘ سے مراد اللہ تعالیٰ کی طرف سے غیب کی اطلاع دے دینا ہوتا تھا۔ غیب کی باتیں  کبھی خواب میں بھی بتائی گئیں کبھی نبی ﷺ کو مسجد کی دیوار پر ہی جنت و جہنم دکھا دی گئی اور کبھی    فرشتے کام کرتے ہوئے دکھا دئیے جاتے تھے۔ ملاحظہ فرمائیں یہ حدیث:

عَنْ أَنَسٍ، أَنَّ رَجُلًا جَاءَ فَدَخَلَ الصَّفَّ وَقَدْ حَفَزَهُ النَّفَسُ، فَقَالَ: الْحَمْدُ لِلَّهِ حَمْدًا كَثِيرًا طَيِّبًا مُبَارَكًا فِيهِ، فَلَمَّا قَضَى رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَاتَهُ قَالَ: «أَيُّكُمُ الْمُتَكَلِّمُ بِالْكَلِمَاتِ؟» فَأَرَمَّ الْقَوْمُ، فَقَالَ: «أَيُّكُمُ الْمُتَكَلِّمُ بِهَا؟ فَإِنَّهُ لَمْ يَقُلْ بَأْسًا» فَقَالَ رَجُلٌ: جِئْتُ وَقَدْ حَفَزَنِي النَّفَسُ فَقُلْتُهَا، فَقَالَ: «لَقَدْ رَأَيْتُ اثْنَيْ عَشَرَ مَلَكًا يَبْتَدِرُونَهَا، أَيُّهُمْ يَرْفَعُهَا»

( مسلم ، کتاب المساجد و مواضع  الصلاۃ ، بَابُ مَا يُقَالُ بَيْنَ تَكْبِيرَةِ الْإِحْرَامِ وَالْقِرَاءَةِ )

’’انس ؓ  فرماتے ہیں کہ ایک آدمی آیا اور صف میں داخل ہوگیا اور اس کا سانس پھول رہا تھا اس نے کہا الْحَمْدُ لِلَّهِ حَمْدًا کَثِيرًا طَيِّبًا مُبَارَکًا فِيهِ، جب رسول اللہ ﷺ صلوٰۃ  سے فارغ ہوئے تو فرمایا کہ تم میں سےصلوٰۃ میں یہ کلمات کہنے والا کون ہے لوگ خاموش رہے آپ نے دوبارہ فرمایا کہ تم میں سے یہ کلمات کہنے والا کون ہے اس نے کوئی غلط بات نہیں کہی تو ایک آدمی نے عرض کیا کہ میں آیا تو میرا سانس پھول رہا تھا تب میں نے یہ کلمات کہے آپ  نے فرمایا کہ میں نے بارہ فرشتوں کو دیکھا کہ جو ان کلمات کو اوپر لے جانے کے لیے جھپٹ رہے تھے‘‘۔

سورہ آل عمران کی آیت کی اصلی تشریح سامنے آ گئی کہ اللہ تعالیٰ اپنے انبیاء میں سے جسے چاہے جس قدر چاہے غیب کی اطلاع دے دیتا ہے۔ نبی ﷺ کو وہ بارہ فرشتے دکھا دئیےگئے  جو ان کلمات کو اللہ تعالیٰ کے پاس  لیجانے کی جلدی کر رہے تھے لیکن وہ شخص نہیں بتایا گیا جس نے یہ الفاظ ادا کئے تھے۔

کمزور عقائد رکھنے والے اپنے پیروں کے بارے میں بھی یہ کہتے ہیں کہ وہ عالم الغیب ہیں اور ان کی بتائی ہوئی کافی باتیں عملا ً پوری ہوئی ہیں۔

وضاحت :

: سَمِعْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ، يَقُولُ: إِنَّ نَبِيَّ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ” إِذَا قَضَى اللَّهُ الأَمْرَ فِي السَّمَاءِ، ضَرَبَتِ المَلاَئِكَةُ بِأَجْنِحَتِهَا خُضْعَانًا لِقَوْلِهِ، كَأَنَّهُ سِلْسِلَةٌ عَلَى صَفْوَانٍ، فَإِذَا فُزِّعَ عَنْ قُلُوبِهِمْ قَالُوا: مَاذَا قَالَ رَبُّكُمْ؟ قَالُوا لِلَّذِي قَالَ: الحَقَّ، وَهُوَ العَلِيُّ الكَبِيرُ، فَيَسْمَعُهَا مُسْتَرِقُ السَّمْعِ، وَمُسْتَرِقُ السَّمْعِ هَكَذَا بَعْضُهُ فَوْقَ بَعْضٍ – وَوَصَفَ سُفْيَانُ بِكَفِّهِ فَحَرَفَهَا، وَبَدَّدَ بَيْنَ أَصَابِعِهِ – فَيَسْمَعُ الكَلِمَةَ فَيُلْقِيهَا إِلَى مَنْ تَحْتَهُ، ثُمَّ يُلْقِيهَا الآخَرُ إِلَى مَنْ تَحْتَهُ، حَتَّى يُلْقِيَهَا عَلَى لِسَانِ السَّاحِرِ أَوِ الكَاهِنِ، فَرُبَّمَا أَدْرَكَ الشِّهَابُ قَبْلَ أَنْ يُلْقِيَهَا، وَرُبَّمَا أَلْقَاهَا قَبْلَ أَنْ يُدْرِكَهُ، فَيَكْذِبُ مَعَهَا مِائَةَ كَذْبَةٍ، فَيُقَالُ: أَلَيْسَ قَدْ قَالَ لَنَا يَوْمَ كَذَا وَكَذَا: كَذَا وَكَذَا، فَيُصَدَّقُ بِتِلْكَ الكَلِمَةِ الَّتِي سَمِعَ مِنَ السَّمَاءِ “

( بخاری، کتاب تفسیر القرآن ، بَابُ {حَتَّى إِذَا فُزِّعَ عَنْ قُلُوبِهِمْ قَالُوا،، مَاذَا قَالَ رَبُّكُمْ؟ قَالُوا: الحَقَّ وَهُوَ العَلِيُّ

’’ رسول اللہﷺنے فرمایا کہ جب اللہ تعالیٰ آسمان پر کسی بات کا فیصلہ کرتا ہے تو فرشتے اللہ تعالیٰ کے فیصلہ کو سن کر جھکتے ہوئے عاجزی کرتے ہوئے اپنے بازو پھڑپھڑاتے ہیں۔ اللہ کا فرمان انہیں اس طرح سنائی دیتا ہے جیسے صاف چکنے پتھر پر زنجیر چلانے سے آواز پیدا ہوتی ہے۔ پھر جب ان کے دلوں سے گھبراہٹ دور ہو جاتی ہے تو وہ آپس میں پوچھتے ہیں کہ تمہارے رب نے کیا فرمایا؟ وہ کہتے ہیں کہ حق بات کا حکم فرمایا اور وہ بہت اونچا، سب سے بڑا ہے پھر ان کی یہی گفتگو چوری چھپے سننے والے شیطان سن بھاگتے ہیں، شیطان آسمان کے نیچے اوپر ہوتے ہیں، سفیان نے اس موقع پر ہتھیلی کو موڑ کر انگلیاں الگ الگ کر کے شیاطین کے جمع ہونے کی کیفیت بتائی کہ اس طرح شیطان ایک کے اوپر ایک رہتے ہیں۔ پھر وہ شیاطین کوئی ایک کلمہ سن لیتے ہیں اور اپنے نیچے والے کو بتاتے ہیں۔ اس طرح وہ کلمہ ساحر یا کاہن تک پہنچتا ہے۔ کبھی تو ایسا ہوتا ہے کہ اس سے پہلے کہ وہ یہ کلمہ اپنے سے نیچے والے کو بتائیں آگ کا گولا انہیں آ دبوچتا ہے اور کبھی ایسا ہوتا ہے کہ جب وہ بتا لیتے ہیں تو آگ کا انگارا ان پر پڑتا ہے، اس کے بعد کاہن اس میں سو جھوٹ ملا کر لوگوں سے بیان کرتا ہے  ( ایک بات جب اس کاہن کی صحیح ہو جاتی ہے تو ان کے ماننے والوں کی طرف سے )  کہا جاتا ہے کہ کیا اسی طرح ہم سے فلاں دن کاہن نے نہیں کہا تھا، اسی ایک کلمہ کی وجہ سے جو آسمان پر (شیاطین نے) سنا تھا کاہنوں اور ساحروں کی بات کو لوگ سچا جاننے لگتے ہیں۔‘‘

 قرآن مجید  میں بھی اس بارے میں فرمایا گیا ہے :

هَلْ اُنَبِّئُكُمْ عَلٰى مَنْ تَنَزَّلُ الشَّيٰطِيْنُؕ۰۰۲۲۱تَنَزَّلُ عَلٰى كُلِّ اَفَّاكٍ اَثِيْمٍۙ۰۰۲۲۲يُّلْقُوْنَ السَّمْعَ وَ اَكْثَرُهُمْ كٰذِبُوْنَؕ۰۰۲۲۳

 [الشعراء: 221-223]

 ’’ کیا میں تمہیں بتاؤں کہ شیاطین کس پر اترتے ہیں۔ وہ ہر جھوٹے بد کردار پر اترتے ہیں۔ جو کان لگا کر سنتے ہیں اور اکثر ان میں جھوٹ بولنے والے ہیں۔‘‘

واضح ہوا کہ یہ غیب کے جاننے والے نہیں ہوتے بلکہ شیاطین آسمان دنیا سے کچھ سن گن لے لیتے ہیں  جو شیاطین من الانس کے کانوں میں وہ باتیں ڈالدیتے ہیں اور  وہ اس کیساتھ  بڑھا چڑھا کر لوگوں میں بیان کردیتے ہیں۔ وہ بات جو پہلے ہی سے اللہ کی طرف سے حکم دی گئی تھی سچی ثابت ہو جاتی ہے تو لوگ اس ’’ پیر ‘‘ کوعالم الغیب سمجھنے لگتے ہیں۔

            الحمد للہ علم الغیب کا موضوع اختتام کو پہنچا ، اللہ تعالیٰ ہم سب کو کتاب اللہ پڑھنے، سمجھنے اور عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔