بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
إِنَّ الْحَمْدَ لِلَّهِ، نَحْمَدُهُ وَنَسْتَعِينُهُ، مَنْ يَهْدِهِ اللهُ فَلَا مُضِلَّ لَهُ، وَمَنْ يُضْلِلْ فَلَا هَادِيَ لَهُ، وَأَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ، وَأَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ، أَمَّا بَعْدُ
تعویذ کا لفظ باب تفعیل کا مصدر ہے جس کے لغوی معنی ’’ پناہ لینے ‘‘ کے ہیں، اصطلاح میں ہر اس چیز کو تعویذ کہتے ہیں جو رفع و دفع آفات و مشکلات کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔
سوچنے کی بات یہ ہےکہ وہ کونسی ذات ہے جو تمام مخلوق اور امور پر مکمل اختیار رکھتی اور کسی کو پناہ دے سکتی ہے؟ ظاہر ہے کہ صرف اللہ تعالیٰ کی ذات۔ مشرکین عرب کا بھی یہی عقیدہ تھا۔
قُلْ مَنْۢ بِيَدِهٖ مَلَكُوْتُ كُلِّ شَيْءٍ وَّ هُوَ يُجِيْرُ وَ لَا يُجَارُ عَلَيْهِ اِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ۰۰۸۸سَيَقُوْلُوْنَ لِلّٰهِ١ؕ قُلْ فَاَنّٰى تُسْحَرُوْنَ۰۰۸۹
[المؤمنون: 88-89]
’’ان سے پوچھو کون ہے وہ جس کے ہاتھ میں ہے اقتدار ہر چیز کا اور وہ پناہ دیتا ہے اور کوئی پناہ نہیں دے سکتا اس کے مقابلے میں اگر تم جانتے ہو ؟ وہ ضرور کہیں گے کہ اللہ۔ کہو پھر کہاں سے دھوکہ کھا رہے ہو تم ؟‘‘
واضح ہوا کہ اس کائنات میں پناہ دینے والی صرف ایک ہی ذات ہے یعنی اللہ تعالیٰ۔
توکل صرف اللہ تعالیٰ پر ہونا چاہئیے :
اَللّٰهُ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ١ؕ وَ عَلَى اللّٰهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُوْنَ۰۰۱۳
[التغابن: 13]
اللہ وہ ہے کہ نہیں نہیں الٰہ ( معبود ) سوائے اس کے ، پس ایمان داروں کو چاہئیے کہ اسی پر توکل کریں ۔ ‘‘
اِنْ يَّنْصُرْكُمُ اللّٰهُ فَلَا غَالِبَ لَكُمْ١ۚ وَ اِنْ يَّخْذُلْكُمْ فَمَنْ ذَا الَّذِيْ يَنْصُرُكُمْ مِّنْۢ بَعْدِهٖ١ؕ وَ عَلَى اللّٰهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُوْنَ۰۰۱۶۰
[آل عمران: 160]
’’اگر اللہ تمہاری مدد کرے تو تم پر کوئی غالب نہیں آسکتا اور اگر وہ چھوڑدے تمہیں (تو) پھر کون ہے وہ جو تمہاری مدد کرسکے اس کے بعد،پس اللہ پر ہی پس بھروسہ کرنا چاہیے مومنوں کو‘‘۔
قُلْ لَّنْ يُّصِيْبَنَاۤ اِلَّا مَا كَتَبَ اللّٰهُ لَنَا١ۚ هُوَ مَوْلٰىنَا١ۚ وَ عَلَى اللّٰهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُوْنَ۰۰۵۱
[التوبة: 51]
’’کہہ دیجیے ہرگز نہیں پہنچے گا ہمیں کوئی نقصان مگر جو لکھ دیا ہے اللہ نے ہمارے لیے وہ ہمارا رب ہے، اور اللہ پر ہی بھروسہ کریں ایمان والے‘‘۔
وَّ تَوَكَّلْ عَلَى اللّٰهِ١ؕ وَ كَفٰى بِاللّٰهِ وَكِيْلًا۰۰۳
[الأحزاب: 3]
’’ اور اللہ پر توکل کریں اور اللہ کافی ہے بطور کارساز ‘‘۔
اہل ایمان کا بھروسہ تو اللہ ہی کی ذات پر ہوتا ہے، ان کا ایمان ہوتا ہے کہ ساری دنیا اگر ہمیں نقصان پہنچانا چاہے تو ہمیں ذرا بھی نقصان نہیں پہنچ سکتا الا یہ کہ اللہ چاہے۔ اس لئے کہ وہ جانتے ہیں کہ تمام مخلوق اللہ کی پیدا کی ہوئی ہے، تمام مخلوق کا پالنہار اللہ تعالیٰ ہے، تمام مخلوق پرکنٹرول اللہ کا چلتا ہے۔سمندر کے طوفان کو کوئی کنٹرول نہیں کرسکتا سوائے اللہ کے۔ بیماری میں شفاء کوئی نہیں دے سکتا سوائے اللہ کے، اسی طرح دنیا کے تمام امور میں مختار کل اللہ تعالیٰ ہے۔
اب کوئی ایمان کا دعویٰ بھی کرے اور اس بات پر بھی اسکا ایمان ہو کہ کوئی دوسری چیز بھی مجھے غائبانہ اور مافوق الاسباب نقصان سے بچا سکتی یا مجھے فائدہ دے سکتی ہے تو یہ گویا اس نے اس چیز کو اللہ کی صفات کے برابر کردیا اور اسی لئے نبی ﷺ نے تعویذ کو شرک قرار دیا کہ اسے لٹکانے والا اب اللہ پر توکل سے نکل گیا، اب اس کا توکل اس چیز پر ہوگیا جو اس نے لٹکائی ہے۔ آج کے کلمہ گو کی اکثریت بھی اسی شرک میں مبتلا ہے۔ کسی کے گلے میں تعویذ ہے تو کسی کے بازو پر ’’ اما م ضامن ‘‘ ( یعنی امام کی وجہ سے کوئی مصیبٹ نہیں پہنچے گی)۔کسی نےکالا دھاگہ باندھا ہوا ہے تو کسی نے پیلا او رکوئی کڑے پہنے ہوئے ہے اور کوئی چھلے پر ایمان بنائے بیٹھا ہے۔ کسی نے گھر پر مردہ گائے کی کھوپڑی لگا رکھی ہے تو کسی نے گاڑی کے نیچے بچے کی پرانی جوتی باندھی ہوئی ہے۔
الغرض کہ ان چیزوں پر اس کلمہ گو کا توکل ہوگیا ہےکہ یہ چیزیں مجھے مصیبت، پریشانی یا بیماری سے بچا لیں گی۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
قُلْ مَنْ يُّنَجِّيْكُمْ مِّنْ ظُلُمٰتِ الْبَرِّ وَ الْبَحْرِ تَدْعُوْنَهٗ تَضَرُّعًا وَّ خُفْيَةً١ۚ لَىِٕنْ اَنْجٰىنَا مِنْ هٰذِهٖ لَنَكُوْنَنَّ مِنَ الشّٰكِرِيْنَ۰۰۶۳قُلِ اللّٰهُ يُنَجِّيْكُمْ مِّنْهَا وَ مِنْ كُلِّ كَرْبٍ ثُمَّ اَنْتُمْ تُشْرِكُوْنَ۰۰۶۴
[الأنعام: 63-64]
’’پوچھو (ان سے) ! کون بچاتا ہے تم کو صحرا اور سمندر کی تاریکیوں سے جب تم پکارتے ہو اس کو گڑ گڑا کر اور چپکے چپکے کہ اگر بچالے وہ ہم کو، اس بلا سے تو ہم ضرور ہوں گے شکر گزار۔ کہہ دو ! اللہ ہی نجات دیتا ہے تم کو اس سے اور ہر تکلیف سے پھر بھی تم شرک کرتے ہو‘‘۔
واضح ہوا مکمل اختیار صرف اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے اس کے علاوہ نہ کوئی کسی کو مافوق الاسباب نفع دے سکتا ہے اور نہ ہی کوئی نقصان۔ لہذا کلمہ گو کسی بھی صورت میں اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی اور چیز پرنہ توکل کرے گا نہ اس سے کسی قسم کے نفع و نقصان کی امید رکھے گا۔
نبی ﷺ نے تعویذ اور دھاگوں کو شرک قرار دیا:
عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى، عَنِ النَّبِيِّ عَلَيْهِ السَّلَامُ قَالَ: «مَنْ عَلَّقَ التَّمَائِمَ وَعَقَدَ الرُّقَى فَهُوَ عَلَى شُعْبَةٍ مِنَ الشِّرْكِ»
( مصنف ابن ابی شیبہ ، کتاب الطب، في تعليق التمائم والرقى، جزء 5، صفحہ 336 )
’’عبد الرحمن بن ابی لیلیٰ ، نبی ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا : ” جس نے تعویذلٹکایا اور ڈوراباندھا تو یہ شرک کے ایک عمل پر ہے۔‘‘
عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ الْجُهَنِيِّ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَقْبَلَ إِلَيْهِ رَهْطٌ فَبَايَعَ تِسْعَةً وَأَمْسَكَ عَنْ وَاحِدٍ فَقَالُوا يَا رَسُولَ اللَّهِ بَايَعْتَ تِسْعَةً وَتَرَكْتَ هَذَا قَالَ إِنَّ عَلَيْهِ تَمِيمَةً فَأَدْخَلَ يَدَهُ فَقَطَعَهَا فَبَايَعَهُ وَقَالَ مَنْ عَلَّقَ تَمِيمَةً فَقَدْ أَشْرَكَ
( مسند احمد ، مسند الشاميين ، حديث عقبة بن عامر الجهني )
’’عقبہ بن عامر ؓ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبیﷺکی خدمت میں (دس آدمیوں کا) ایک وفد حاضر ہوا، نبیﷺنے ان میں سے نو آدمیوں کو بیعت کرلیا اور ایک سے ہاتھ روک لیا، انہوں نے پوچھا یا رسول اللہ !( ﷺ) آپ نے نو کو بیعت کرلیا اور اس شخص کو چھوڑ دیا ؟ نبی ﷺ نے فرمایا اس نے تعویذ پہن رکھا ہے، یہ سن کر اس نے گریبان میں ہاتھ ڈال کر اس تعویذ کو ٹکڑے ٹکڑے کردیا اور نبی ﷺنے اس سے بھی بیعت لے لی اور فرمایا جس نے تعویذ لٹکایاہے اس نے شرک کیا۔‘‘
عَنْ قَيْسِ بْنِ السَّكَنِ الْأَسَدِيِّ، قَالَ: دَخَلَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْعُودٍ، رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَلَى امْرَأَةٍ فَرَأَى عَلَيْهَا حِرْزًا مِنَ الْحُمْرَةِ فَقَطَعَهُ قَطْعًا عَنِيفًا ثُمَّ قَالَ: إِنَّ آلَ عَبْدِ اللَّهِ عَنِ الشِّرْكِ أَغْنِيَاءُ وَقَالَ: كَانَ مِمَّا حَفِظْنَا عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ «أَنَّ الرُّقَى وَالتَّمَائِمَ وَالتَّوْلِيَةَ مِنَ الشِّرْكِ»
(مستدرک حاکم 4/241 كِتَابُ الطِّبِّ وَأَمَّا حَدِيثُ مَيْسَرَةَ بْنِ حَبِيبٍ)
’’ عبد اللہ بن مسعود ؓ نے اپنی زوجہ کے گلے میں ایک دھاگہ دیکھا سرخ باوا کے لئے، تو انہوں نے وہ توڑ ڈالا، پھر فرمایا: عبد اللہ کےگھر والے شرک سے بے نیاز ہیں، اور فرمایا جو ہم نے سنا نبی ﷺ سے کہ دم ، تعویذ اور تولہ ( محبت کا تعویذ ) سب شرک ہیں ‘‘۔ ( بعد میں غیر مشرکانہ الفاظ والے دم کی اجازت دے دی گئی)
ان احادیث سے یہ بات مکمل طور پر واضح ہے کہ ’’ تعویذ ‘‘ شرک ہے، لیکن مولوی و مفتیان نے امت کو بیوقوف بنایا ہے کہ ’’ قرآنی تعویذ ‘‘ جائز ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ لوگ اس مشرکانہ حرام کام کے پیسے وصول کرتے ہیں، یہ ان کی کمائی کا ذریعہ بنا ہوا ہے۔ دیکھیں نبی ﷺ نے آئے ہوئے ان دس افراد میں سے نو سے بیعت لے لی اور دسواں یہ کہہ کر چھوڑ دیا : إِنَّ عَلَيْهِ تَمِيمَةً ’’اس نے تعویذ پہن رکھا ہے‘‘۔ نبی ﷺ نے یہ نہیں پوچھا کہ کتاب اللہ کا تعویذ تو نہیں ؟ بلکہ صاف فرمایا کہ اس نے تعویذ پہن رکھا ہے۔ یہاں عربی لفظ تَمِيمَةً بیان ہوا ہے اور عربی قاعدہ یہ ہے کہ جب کسی اسم پر تنوین ( دو زبر، یا دو زیر، یز دو پیش ) ہو تو اسم عام ہوتا ہے، یعنی ہر قسم کا تعویذ۔ لہذا یہ بات واضح ہے کہ ہر قسم کا تعویذ شرک ہے۔
یہ کہنا کہ قرآن کا تعویذ جائز ہے تو کیا اب اللہ تعالیٰ کے علاوہ قرآنی آیات پر بھی توکل کیا جا سکتا ہے؟ انہیں غائبانہ اور ما فوق الاسباب نفع و نقصان پہچانے والا سمجھا جا سکتا ہے ؟ قرآن مجید انسانوں کی ہدایت کے لئے بھیجا ہے گیا ہے، اسے پڑھنے اور ہدایت حاصل کرنے سے دل سے کفر و شرک نکل جاتا ہے لیکن اس کی آیات نفع یا نقصان پہنچانے والی بنا کر نہیں بھیجی گئیں۔ اگر واقعی ایسا ہے تو یہ مولوی حضرات کشمیر،فلسطین ، برما یا ان علاقوں میں کیوں نہیں بھجوادیتے جہاں اسلام کے نام لیواؤں پر زندگی تنگ کردی گئی ہے جہاں ان کی خواتین کی عصمت دری کی جا رہی ہے۔
اگر واقعی ایسا ہے تو مولوی اور مفتی صاحبان ، بیماری یا دل کا دورہ پڑنےپر ہسپتال کیوں داخل ہوتے ہیں ’’ قرآنی تعویذ ‘‘ سے علاج کیوں نہیں کرتے۔ در حقیقت یہ سب دوسروں کو بیوقوف بنا کر مال بٹورنے کے لئے ہے۔
دوسری بات کہ عربی میں تعویذ کے لئے تَمِيمَةً کا لفظ بیان کیا جاتا ہے، جبکہ ’’ دم ‘‘ کے لئے الرُّقَى کا لفظ استعمال ہوتا ہے، لیکن یہ علماء سو ء الرُّقَى کا ترجمہ ‘‘ تعویذ‘‘ کرتے ہیں اور لوگوں کو کتب احادیث میں دکھاتے ہیں کہ یہ دیکھو خود نبی ﷺ نے تعویذ کیا ہے اور اس کا حکم بھی دیا ہے۔ دیکھیں کیسا جگرا ہے ان کاکہ نبیﷺ کے بیان کردہ مشرکانہ کام کو جائز دکھا کر حرام کما رہے ہیں۔
ایک بات اور بھی کہی جاتی ہے کہ جب انسان بیمار ہوتا ہے تو آخر دوائی بھی تو استعمال کرتا ہے، تو کیا دوائی پر توکل نہیں کیا جاتا؟ کیا یہ شرک نہیں۔
وضاحت : قرآن مجید میں فرمایا گیا :
وَ اِذَا مَرِضْتُ فَهُوَ يَشْفِيْنِ۪ۙ۰۰۸۰
[الشعراء: 80]
’’ ( ابراہیم ؑ نے کہا )اور جب میں بیمار پڑتا ہوں تو ( اللہ ) مجھے شفا دیتا ہے‘‘۔
نبی ﷺ نے فرمایا :
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا أَنْزَلَ اللَّهُ دَائً إِلَّا أَنْزَلَ لَهُ شِفَائً
( بخاری ، کتاب الطب ، بَابُ مَا أَنْزَلَ اللَّهُ دَاءً إِلَّا أَنْزَلَ لَهُ شِفَاءً )
’’ ابو ھریرہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ نے جو بھی بیماری اتاری ہے اس کی شفاء ( دوا ) بھی نازل کی ہے‘‘۔
تَدَاوَوْا عِبَادَ اللَّهِ، فَإِنَّ اللَّهَ لَمْ يَضَعْ دَاءً إِلَّا وَضَعَ مَعَهُ شِفَاءً، إِلَّا الْهَرَمَ
(مصنف ابن ابی شیبہ ، کتاب الطب ، مَنْ رَخَّصَ فِي الدَّوَاءِ وَالطِّبِّ )
’’اے اللہ کے بندو ! دوائی استعمال کرو، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے بڑھاپے کے سوا کوئی بھی بیماری نہیں اتاری مگر یہ کہ اس کے ساتھ شفاء بھی نازل کی ہے۔ “
لِكُلِّ دَاءٍ دَوَاءٌ، فَإِذَا أُصِيبَ دَوَاءُ الدَّاءِ بَرَأَ بِإِذْنِ اللهِ عَزَّ وَجَلَّ
( مسلم ، کتاب السلام، بَابُ لِكُلِّ دَاءٍ دَوَاءٌ وَاسْتِحْبَابِ التَّدَاوِي )
’’ ہر بیماری کی دوا ہوتی ہے، جب بیمار کو وہ دوا پہنچ جائے تو اللہ کے حکم سے وہ بیماری دور ہو جاتی ہے ‘‘۔
قرآن و احادیث کے اس بیان سے ثابت ہوا کہ بیماری میں دوا استعمال کرنا عین شریعت کے مطابق ہے اور اس میں توکل دوا پر نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ پر ہی ہوتا ہے ، اور شفاء اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوتی ہے۔ ایک ہی قسم کی دوا کسی مریض کو اچھا کردیتی ہے اور کس کو اس سے شفاء نہیں ملتی۔
ایک روایت پیش کی جاتی ہے کہ عبد اللہ بن عمرو ؓ العاص اپنے بچوں کے گلے میں تعویذ ڈالا کرتے تھے۔
وضاحت :
مؤطا امام مالک اور دیگر کتب میں اس بارےمیں جو روایت ملتی ہے وہ اس طرح ہے :
قال لرسول الله صلى الله عليه وسلم: إني أروع في منامي، فقال له رسول الله صلى الله عليه وسلم: «قل أعوذ بكلمات الله التامة، من غضبه وعقابه، وشر عباده، ومن همزات الشياطين وأن يحضرون»
( مؤطا امام مالک ، کتاب الشعر، باب ما يؤمر به من التعوذ )
’’ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اگر کوئی نیند میں ڈر جائے تو یہ دعا پڑھے أَعُوذُ بِکَلِمَاتِ اللَّهِ التَّامَّاتِ مِنْ غَضَبِهِ وَعِقَابِهِ وَشَرِّ عِبَادِهِ وَمِنْ هَمَزَاتِ الشَّيَاطِينِ وَأَنْ يَحْضُرُونِ فَإِنَّهَا لَنْ تَضُرَّهُ وَکَانَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ يُلَقِّنُهَا مَنْ بَلَغَ مِنْ وَلَدِهِ وَمَنْ لَمْ يَبْلُغْ مِنْهُمْ کَتَبَهَا فِي صَکٍّ ثُمَّ عَلَّقَهَا فِي عُنُقِهِ (یعنی۔ میں اللہ کے غضب، عقاب، اس کے بندوں کے فساد، شیطانی وساوس اور ان (شیطانوں) کے ہمارے پاس آنے سے اللہ کے پورے کلمات کی پناہ مانگتا ہوں) ۔‘‘
روایت صرف اتنی ہے اور کافی کتب الحدیث میں آئی ہے لیکن یہی روایت جب دوسرے راوی سے آئی تو اس میں راوی نے ان الفاظ کا اضافہ کردیا :
وكان عبد الله بن عمرو يعلمهن من عقل من بنيه، ومن لم يعقل كتبه فأعلقه عليه
( ترمذی، ابواب الدعوات)
’’ اور عبد اللہ بن عمرو ؓ العاص یہ دعا اپنے بالغ بچوں کو سکھایا کرتے تھے اور نابالغ بچوں کے لئے لکھ کر ان کے گلے میں ڈال دیا کرتے تھے‘‘۔
البانی اس بارے میں کہتے ہیں :
حسن دون قوله وكان عبد الله
(المسند الموضوعي الجامع للكتب العشرة ، لمؤلف: صهيب عبد الجبار ، جزٔ 15 صفحہ 97 )
’’کہ یہ روایت حسن ہے سوائے عبد اللہ کے قول کے‘‘۔
عبد اللہ والا قول کیا ہے : يعلمهن من عقل من بنيه، ومن لم يعقل كتبه فأعلقه عليه یہ دعا اپنے بالغ بچوں کو سکھایا کرتے تھے اور نابالغ بچوں کے لئے لکھ کر ان کے گلے میں ڈال دیا کرتے تھے‘‘۔
دوسری بات یہ ہے کہ جس میں بچوں کو سکھانے اور نابالغوں کے گلے میں ڈالنے کا ذکر ہے تو اسے روایت کرنے والے محدث امام ترمذی خود اسے ’’ حسن غریب ‘‘ قرار دیتے ہیں۔ مسند احمد میں جہاں یہ روایت بیان ہوئی ہے تو محقق شعيب الأرنؤوط فرماتے ہیں: ’’ یہ سند ضعیف ہے اور ( راوی ) محمد بن اسحاق ’’ مد لس ‘‘ ہے اور ’’ عن عن ‘‘ کیساتھ روایت کر رہا ہے ‘‘۔ ( یعنی اس تدلیس کرنے والے راوی جو اپنی طرف سے بڑھا چڑھا کر بیان کرتا ہے کی وجہ سے یہ سند ضعیف ہے )۔ ( مسند احمد ط الرسالۃ ، باب : مسند عبد اللہ بن عمرو بن العاص ؓ، الجز: 11 ، صفحہ : 296 )
واضح ہوا کہ عبد اللہ کا یہ قول ثابت نہیں کہ جس میں تعویذ بنا کر لٹکانے کا ذکر ہے۔ لیکن مولوی و مفتی صاحبان کی تو یہ کمائی کا ذریعہ ہے، جہاں امامت، خطابت، تعلیم القرآن کے ذریعے قرآنی آیات پر اجرت، تنخواہ، ہدیہ لیا جا رہا ہے وہاں قرآن ہی کی آیات کا تعویذ جائز کرکے کمائی کا ایک ذریعہ تلاش کرلیا گیا ہے۔ حرام کی اس کمائی کے شوقین کو اس سے کوئی مطلب نہیں کہ کوئی تعویذ پہن کر مشرک بن جاتا ہے اور اس حالت میں موت سے ہمکنار ہونے پر ہمیشہ کی جہنم میں چلا جاتا ہے انہیں تو بس کمائی چاہئیے خواہ کیسے بھی ملے۔
اللہ کے بندو ! زبان نبوت ﷺ نے تعویذ کو شرک قرار دیا ہے اور شرک پر موت کی صورت میں اس انسان پر ہمیشہ کے لئے جنت حرام ہے یعنی وہ کبھی جنت کی خوشبو بھی نہ سونگھ سکے گا بلکہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے جہنم کی آگ میں جلتا رہے گا۔ وہ آگ ہے کہ جو کبھی نہیں بجھے گی، جہاں پینے کو پیپ ملے گی اور سالہاسال گزر جائیں گے لیکن نہ موت آئے گی کہ اس عذاب کا خاتمہ ہو جائے اور نہ ہی اس پر عذاب کم کیا جائے گا۔ بات چند سال کی نہیں بھائیوں، بلکہ اربوں اور کھربوں سال کے بعد بھی موت نہیں، کوئی سنوائی نہیں۔ اس لئے آج اپنے آپ کو کفر و شرک سے بچا لیں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو ہدایت سے نوازے۔