طاغوت کے معنیٰ
لغوی معنیٰ
طغی یطغی طغیا و یطغو طغیانا: مناسب حد سے بڑھنا، کفر میں غلو اختیار کرنا، ہر وہ شخص جو نافرمانی میں حد سے تجاوز کرے اسے طاغوت یعنی سر کش کہتے ہیں۔۔۔
طاغوت کی جمع طواغیت آتی ہے۔۔۔ حدیث میں ہے کہ “لا تحلفوا بآ با ئکم و لا باالطواغی” تم نہ اپنے آباؤ اجداد کی قسمیں اٹھاؤ اور نہ طاغوتوں کی قسمیں اٹھاؤ۔۔۔ ایک دوسری حدیث میں “و لا باالطواغیت” کے الفاظ ہیں۔۔۔ طواغی، طاغیۃ کی جمع ہے۔۔۔ طاغیہ ان بتوں وغیرہ کو کہا جاتا ہے جنہیں مشرکین پوچتے تھے۔۔۔ اور اسی سے یہ عبارت ہے۔۔۔ “ھذا طاغیۃ دوس و ختم” یعنی یہ دوس اور خثم کا بت ہے۔۔۔ یہ کہنا بھی جائز ہے کہ طواغی سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مراد وہ لوگ تھے جو کفر میں سر کشی اختیار کر چکے تھے۔۔۔ یعنی تمام حدوں کو عبور کر چکے تھے اور یہ کفر کے بڑے بڑے سردار تھے۔۔۔
(لسان العرب:7/15)
قرآن سے طاغوت کے معنیٰ
اذْهَبْ إِلَى فِرْعَوْنَ إِنَّهُ طَغَى (طٰہ: 24)
’’تم فرعون کے پاس جائو، وہ بہت سرکش ہوگیا ہے۔‘‘
مَا زَاغَ الْبَصَرُ وَمَا طَغَى (النجم: 17)
’’ان کی آنکھ نہ تو اور طرف مائل ہوئی اور نہ حد سے آگے بڑھی۔‘‘
إِنَّا لَمَّا طَغَى الْمَاءُ حَمَلْنَاكُمْ فِي الْجَارِيَةِ (الحاقۃ: 11)
’’ جب پانی طغیانی پر آیا تو ہم نے تم لوگوں کو کشتی پر سوار کرلیا ۔‘‘
فَأَمَّا مَنْ طَغَى وَآثَرَ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا فَإِنَّ الْجَحِيمَ هِيَ الْمَأْوَى (النازعات: 37 تا39)
’’ سو جس نے سرکشی کی ۔ اور دنیا کی زندگی کو ترجیح دی ۔ تو بیشک جہنم ہی اس کا ٹھکانہ ہوگا ۔‘‘
ایک غلط فہمی کا ازالہ
امت کے قرآن و حدیث سے دور ہوجانے اور علماء و مشائخ کی من مانی تعریفات و شروحات کو دین سمجھے جانے کے بعد جہاں دیگر کئی بنیادی عقائد و نظریات مسخ ہوگئے، وہیں طاغوت کے معنیٰ کے ساتھ بھی یہی ستم ظریفی نظر آئی۔ کچھ مترجمین و مفسرین نے نے ’طاغوت‘ کا ترجمہ’بت‘ کیا ہے، جو کہ کسی طور بھی مناسب طرز عمل نہیں۔ بت تو بے جان ہوتے ہیں، نہ وہ اپنی مرضی سے وجود میں آتے ہیں اور نہ ہی عوام الناس کو اپنی بندگی کی جانب دعوت دیتے ہیں۔ بلکہ ان بتوں کی نسبت ہمیشہ شخصیات کی جانب ہوتی ہے۔ اب اگر وہ شخصیت لوگوں کی اپنی الوہیت کی جانب بلانے والی ہو تو وہ ظاغوت ہے، اور اگر وہ شخصیت بذات خود صحیح دین پر قائم رہی ہو، لیکن بعد ازاں ناخلف ورثاء نے اُن کی الوہیت کی طرف بلایا ہو، تو وہ شخصیات ہی دراصل طاغوت ہیں۔ جیسا کہ صحیح بخاری میں قوم نوح کی جانب سے پوجے جانے والے بتوں کی بابت بتایا گی:
عن ابن عباس رضي الله عنهما، «صارت الأوثان التي كانت في قوم نوح في العرب بعد أما ود كانت لكلب بدومة الجندل، وأما سواع كانت لهذيل، وأما يغوث فكانت لمراد، ثم لبني غطيف بالجوف، عند سبإ، وأما يعوق فكانت لهمدان، وأما نسر فكانت لحمير لآل ذي الكلاع، أسماء رجال صالحين من قوم نوح، فلما هلكوا أوحى الشيطان إلى قومهم، أن انصبوا إلى مجالسهم التي كانوا يجلسون أنصابا وسموها بأسمائهم، ففعلوا، فلم تعبد، حتى إذا هلك أولئك وتنسخ العلم عبدت»
ابن عباس (رض) سے روایت کرتے ہیں کہ وہ بت جو قوم نوح میں تھے وہی عرب میں اس کے بعد پوجے جانے لگے ” ود ” قوم کلب کا بت تھا جو دومتہ الجندل میں تھے اور ” سواع ” ہذیل کا اور ” یغوث ” مراد کا پھر بنی عطیف کا سبا کے پاس جوف میں تھا اور ” یعوق ” ہمدان کا اور ” نسر ” حمیر کا ” جوذی ” الکلاع کے خاندان سے تھا یہ قوم نوح (علیہ السلام) کے نیک لوگوں کے نام تھے جب ان نیک لوگوں نے وفات پائی تو شیطان نے ان کی قوم کے دل میں یہ بات ڈال دی کہ ان کے بیٹھنے کی جگہ میں جہاں وہ بیٹھا کرتے تھے بت نصب کردیں اور اس کا نام ان (بزرگوں) کے نام پر رکھ دیں چناچہ ان لوگوں نے ایسا ہی کیا لیکن اس کی عبادت نہیں کی تھی یہاں تک کہ جب وہ لوگ بھی مرگئے اور اس کا علم جاتا رہا تو اس کی عبادت کی جانے لگی۔
(صحیح بخاری: کتاب التفسیر القرآن، باب {ودا ولا سواعا، ولا يغوث ويعوق} [نوح: 23])
قرآن سے بھی یہی بات ثابت ہے کہ طواغیت بے جان صرف بے جان بت اور نا نظر آنے والے شیاطین ہی نہیں، بلکہ عوام الناس کے مابین جیتی جاگتی شخصیات بھی ہوتی ہیں، جبھی لوگ اپنے معاملات کے فیصلے اُن کے پاس لے کر جاتے ہیں۔
أَلَمْ تَرَ إِلَى ٱلَّذِينَ يَزْعُمُونَ أَنَّهُمْ ءَامَنُوا۟ بِمَآ أُنزِلَ إِلَيْكَ وَمَآ أُنزِلَ مِن قَبْلِكَ يُرِيدُونَ أَن يَتَحَاكَمُوٓا۟ إِلَى ٱلطَّٰغُوتِ وَقَدْ أُمِرُوٓا۟ أَن يَكْفُرُوا۟ بِهِۦ وَيُرِيدُ ٱلشَّيْطَٰنُ أَن يُضِلَّهُمْ ضَلَٰلًۢا بَعِيدًا (النساء:60)
’’ کیا تم نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جو دعویٰ تو یہ کرتے ہیں کہ جو (کتاب) تم پر نازل ہوئی اور جو (کتابیں) تم سے پہلے نازل ہوئیں ان سب پر ایمان رکھتے ہیں اور چاہتے یہ ہیں کہ اپنا مقدمہ طاغوت کے پاس لے جا کر فیصلہ کرائیں حالانکہ ان کو حکم دیا گیا تھا کہ اس سے اعتقاد نہ رکھیں اور شیطان (تو یہ) چاہتا ہے کہ ان کو بہکا کر رستے سے دور ڈال دے ۔‘‘
طاغوت کے اصطلاحی معنیٰ و مفاہیم
- طاغوت اُس چیز کو کہتے ہیں جو ایک خاص حد سے تجاوز کر جائے ۔ انسان کی زندگی کا مقصد یہی ہے کہ وہ خالص اللہ تعالیٰ کی عبادت کرے، اب اگر وہ اس حوالے سے غلطی کا شکار ہے، تو اللہ کا تقاضا ہے کہ وہ توبہ اور رجوع کرے، لیکن اگر اِس کے برعکس وہ اپنے کفر و شرک پر دلائل فراہم کرے، اور لوگوں کو اللہ کے راستے سے روکنے کی کوشش کرے(یعنی سرکشی کرے)، تو وہ شخصیت بذات خود طاغوت بن جاتی ہے۔شیطان سب سے بڑا طاغوت ہے، اور اُس کے مشن کو آگے بڑھانے والے اور سہولت کار بھی طواغیت کے زمرے میں ہی آتے ہیں۔
- طاغوت ہر وہ چیز ہے جس کی اللہ کے سوا عبادت کی جائے اور وہ اپنی عبادت کیے جانے یا کروائے جانے پر راضی ہو۔
- طاغوت خدائی کے جھوٹے داعویدار کو کہتے ہیں ۔انبیاء علیھم السلام ، صحابہ اکرام علیہم الرضوان اور سچے اولیاء، اللہ تعالیٰ کی عبادت کی طرف بلاتے تھے اور وہ غیراللہ کی عبادت کرنے والوں کے سب سے بڑے دشمن تھے اس لیے وہ طاغوت نہیں ہیں چاہے لوگ ان کی بندگی کریں، بلکہ طاغوت تو وہ ہیں جو لوگوں کو ان شخصیات کی بندگی کی طرف بلاتے ہیں۔
یہاں ایک اہم بات سمجھنا ضروری ہے کہ گناہ اور سرکشی میں فرق ہوتا ہے۔ گناہ گار طاغوت نہیں ہوتا بلکہ سرکش طاغوت ہوتا ہے۔ یعنی وہ شخص جو لوگوں کے سامنے اللہ کی شریعت یا اُس کے کسی جز کے انکار کی دعوت رکھے، اور اللہ کے دین کو ظاہری یا مخفی طور پر نقصان پہنچانے کی قصداً سعی کرے۔
طاغوت کو کیسے پہچانا جائے؟
طاغوت تو بے شمار ہیں مگر ان کے سر کردہ و سر بر آوردہ پانچ ہیں:
- ابلیس لعین۔
- ایسا شخص جس کی عبادت کی جائے اور وہ اس فعل پر رضامند ہو۔
- جو شخص لوگوں کو اپنی عبادت کی دعوت دے ،اگرچہ اس کی عبادت نہ بھی ہوتی ہو۔
- جو شخص علم غیب جاننے کا دعوی کرتا ہو۔
- جو شخص اللہ کی نازل کی ہوئی شریعت کے خلاف فیصلہ کرے، یا وہ شخص جو اپنے آپ کو شریعت ساز سمجھتا ہے۔
- جو اشخاص اللہ کی بندگی کی راہ میں قصداً حائل ہوں (چاہے وہ اولوالامر ہوں، مذہبی پیشوا ہوں یا رشتہ دار ہوں)۔
- انسان کا اپنا نفس جب اُسے اللہ سے بغاوت پر اکسائے اور وہ اللہ کے فرمان کو چھوڑ کر نفس کا پیروکار بن جائے۔
جومنزل من اللہ کے مطابق فیصلہ نہ کریں
اللہ تعالیٰ کے مقابلے میں ایک بندے کے تین درجے ہیں۔
پہلا درجہ یہ ہے: کہ بندہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت ہی کو حق سمجھے مگر اس کے احکام کی خلاف ورزی کرے تو یہ فسق اور وہ گناہ گار ہوگا۔ دوسرا درجہ یہ ہے:کہ وہ اللہ کی فرمانبرداری سے منحرف ہو کر یا تو خودمختار بن جائے یا کسی اور کی بندگی کرنے لگے ۔یہ شرک و کفر ہے۔
تیسرا درجہ یہ ہے: کہ وہ اللہ سے بغاوت کرے اور اس کی مخلوق پر خود اپنا حکم چلائے اور اللہ کے مقابلے میں دوسروں کا کہا ماننے کا حکم دے، یا پھر لوگوں کو خالصاً اللہ کی بندگی کرنے سے روکے یا راہ میں حائل ہو۔جو شخص اس مرتبے پر پہنچ جائے وہ طاغوت ہے۔اور کوئی شخص اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا جب تک وہ طاغوت کا منکر یا اُس سے اجتناب کرنے والا نہ ہو۔
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
فَمَن يَكْفُرْ بِٱلطَّٰغُوتِ وَيُؤْمِنۢ بِٱللَّهِ فَقَدِ ٱسْتَمْسَكَ بِٱلْعُرْوَةِ ٱلْوُثْقَىٰ لَا ٱنفِصَامَ لَهَا ۗ (البقرۃ: 256)
’’ پس جو طاغوت کے ساتھ کفر کرے اور الله پر ایمان لائے تو اس نے مضبوط حلقہ پکڑ لیاجو ٹوٹنے والا نہیں شیطان سب سے بڑا طاغوت ہے۔جو غیراللہ کی عبادت کی طرف بلاتا ہے۔‘‘
أَلَمْ أَعْهَدْ إِلَيْكُمْ يَٰبَنِىٓ ءَادَمَ أَن لَّا تَعْبُدُوا۟ ٱلشَّيْطَٰنَ ۖ إِنَّهُۥ لَكُمْ عَدُوٌّۭ مُّبِينٌۭ (یٰسٓ: 60)
’’اے آدم کی اولاد! کیا میں نے تمہیں تاکید نہ کر دی تھی کہ شیطان کی عبادت نہ کرنا کیونکہ وہ تمہارا صریح دشمن ہے۔‘‘
اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ شیطان کی اطاعت شیطان کی عبادت ہے۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :
من قال: لا إله إلا الله، وكفر بما يعبد من دون الله، حرم ماله، ودمه، وحسابه على الله
جو شخص (لا اله الا الله)کا اقرار کرے اور اللہ کے سوا جن جن کی عبادت کی جاتی ہے اُن کا انکار کرے۔اُس کا مال و خون مسلمانوں پر حرام ہو گیا اور اس کے دل کا معاملہ اللہ کے حوالے ہے۔
(صحیح المسلم: کتاب الایمان، باب الأمر بقتال الناس حتى يقولوا: لا إله إلا الله محمد رسول الله)
غور فرمائیے! کہ صرف زبان سے کلمہ پڑھ لینے سے مال و جان حرام اور محفوظ نہیں ہو سکتی بلکہ مسلمانوں سے جان و مال اس وقت حرام ہو گی جب ان معبودوں کا انکار کر دیا جائے جن کی اللہ کے علاوہ عبادت کی جاتی ہے۔مگر آج اللہ کو چھوڑ کر جن جن کی عبادت ہو رہی ہے اکر لوگ اُن کی تردید نہیں کرتے جبکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جن جن کی عبادت کی جاتی ہے اُن کا نکار کرو۔
وہ جابر اور ظالم حکمران جو فیصلے کے لیے کتاب و سنت کا پابند نہ ہو بلکہ انسانوں پر انسانوں کی جانب بنائے ہوئےایسے (دینی یا دنیوی)قوانین نافذ کرےجو اللہ کی شریعت سے متصادم ہوں، وہ یقینا ًطاغوت ہے۔ایسے حکمران کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا :
وَمَن لَّمْ يَحْكُم بِمَآ أَنزَلَ ٱللَّهُ فَأُو۟لَٰٓئِكَ هُمُ ٱلْكَٰفِرُونَ (المائدۃ: 44)
’’ اور جو اللہ کے نازل فرمائے ہوئے احکام کے مطابق حکم نہ دے تو ایسے ہی لوگ کافر ہیں ۔‘‘
طاغوت کا انکار واجب ہے
نوح علیہ السلام سے لے کر محمد صلی اللہ علیہ وسلم تک اللہ تعالیٰ نے ہر امت کی طرف ایک رسول بھیجا۔جو انہیں اللہ وحدہ کی عبادت کا حکم دیتے اور انہیں طاغوت کی عبادت سے روکتے تھے۔دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے:
وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِى كُلِّ أُمَّةٍۢ رَّسُولًا أَنِ ٱعْبُدُوا۟ ٱللَّهَ وَٱجْتَنِبُوا۟ ٱلطَّٰغُوتَ ۖ فَمِنْهُم مَّنْ هَدَى ٱللَّهُ وَمِنْهُم مَّنْ حَقَّتْ عَلَيْهِ ٱلضَّلَٰلَةُ ۚ فَسِيرُوا۟ فِى ٱلْأَرْضِ فَٱنظُرُوا۟ كَيْفَ كَانَ عَٰقِبَةُ ٱلْمُكَذِّبِينَ (النحل: 36)
’’ا ور ہم نے ہر جماعت میں پیغمبر بھیجا کہ اللہ ہی کی عبادت کرو اورطاغوت سے اجتناب کرو۔ تو ان میں بعض ایسے ہیں جن کو اللہ نے ہدایت دی اور بعض ایسے ہیں جن پر گمراہی ثابت ہوئی۔ سو زمین پر چل پھر کر دیکھ لو کہ جھٹلانے والوں کا انجام کیسا ہوا ۔‘‘
اللہ تعالیٰ نے تمام بندوں کے اوپر فرض کیا ہے کہ وہ طاغوت کا انکار کریں اور اللہ تعالیٰ پر ایمان لائیں۔
اللہ تعالیٰ نے ہر امت میں ایک رسول بھیجاجو انہیں اللہ وحدہ کی دعوت دیتا اور انہیں شرک سے منع کرتا تھا۔اس کی دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے:
إِنَّآ أَرْسَلْنَٰكَ بِٱلْحَقِّ بَشِيرًۭا وَنَذِيرًۭا ۚ وَإِن مِّنْ أُمَّةٍ إِلَّا خَلَا فِيهَا نَذِيرٌۭ(فاطر: 24)
’’ بے شک ہم نے آپ کو سچا دین دے کر خوشخبری اور ڈرانے والا بنا کر بھیجا ہے اور کوئی امت نہیں گزری مگر اس میں ایک ڈرانے والا گزر چکا ہے ۔‘‘
نیز فرمایا:
وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِى كُلِّ أُمَّةٍۢ رَّسُولًا أَنِ ٱعْبُدُوا۟ ٱللَّهَ وَٱجْتَنِبُوا۟ ٱلطَّٰغُوتَ ۖ فَمِنْهُم مَّنْ هَدَى ٱللَّهُ وَمِنْهُم مَّنْ حَقَّتْ عَلَيْهِ ٱلضَّلَٰلَةُ ۚ فَسِيرُوا۟ فِى ٱلْأَرْضِ فَٱنظُرُوا۟ كَيْفَ كَانَ عَٰقِبَةُ ٱلْمُكَذِّبِينَ (النحل: 36)
’’ا ور ہم نے ہر جماعت میں پیغمبر بھیجا کہ اللہ ہی کی عبادت کرو اورطاغوت سے اجتناب کرو۔ تو ان میں بعض ایسے ہیں جن کو اللہ نے ہدایت دی اور بعض ایسے ہیں جن پر گمراہی ثابت ہوئی۔ سو زمین پر چل پھر کر دیکھ لو کہ جھٹلانے والوں کا انجام کیسا ہوا ۔‘‘
اللہ وحدہ لا شریک لہ کی عبادت اور طاغوت سے پرہیز کے بغیر توحید مکمل نہیں ہوتی۔اللہ تعالیٰ نے اس کو اپنے بندوں پر فرض کیا ہے۔ جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَالَّذِينَ اجْتَنَبُوا الطَّاغُوتَ أَنْ يَعْبُدُوهَا وَأَنَابُوا إِلَى اللَّهِ لَهُمُ الْبُشْرَى فَبَشِّرْ عِبَادِ الَّذِينَ يَسْتَمِعُونَ الْقَوْلَ فَيَتَّبِعُونَ أَحْسَنَهُ أُولَئِكَ الَّذِينَ هَدَاهُمُ اللَّهُ وَأُولَئِكَ هُمْ أُولُو الْأَلْبَابِ (الزمر: 17-18)
’’ اور جن لوگوں نے طاغوت کی عبادت سے اجتناب کیا اور اللہ کی طرف رجوع کرلیا ان کے لیے خوشخبری ہے، پس میرے ان بندوں کو خوشخبری پہنچا دو ۔ جو بات کو غور سے سنتے اور اس میں سے اچھی بات کی پیروی کرتے ہیں، یہ وہ لوگ ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے ہدایت بخشی ہے اور یہی ہیں جو عقل والے ہیں ۔‘‘
طاغوت کی جماعت اور اللہ کی جماعت ایک دوسرے کے دشمن ہیں۔ ایک کھرا مومن ہرگز دو کشتیوں کا سوار نہیں ہوتا۔
الَّذِينَ آمَنُوا يُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَالَّذِينَ كَفَرُوا يُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِ الطَّاغُوتِ فَقَاتِلُوا أَوْلِيَاءَ الشَّيْطَانِ إِنَّ كَيْدَ الشَّيْطَانِ كَانَ ضَعِيفًا (النساء: 76)
’’ جو لوگ ایمان لائے ہیں وہ اللہ کی راہ میں جنگ کرتے ہیں اور جنھوں نے کفر کیا ہے وہ طاغوت کی راہ میں لڑتے ہیں تو تم شیطان کے حامیوں سے لڑو۔ بیشک شیطان کی چال انتہائی کمزور ہوتی ہے) ۔‘‘
اگر ایمان لانے کے بعد بھی طاغوت سے ہمدردی یا اُس کی اعانت کی جائے گی تو ہدایت چھن جانے کا مکمل طور پر احتمال ہے۔
اللَّهُ وَلِيُّ الَّذِينَ آمَنُوا يُخْرِجُهُمْ مِنَ الظُّلُمَاتِ إِلَى النُّورِ وَالَّذِينَ كَفَرُوا أَوْلِيَاؤُهُمُ الطَّاغُوتُ يُخْرِجُونَهُمْ مِنَ النُّورِ إِلَى الظُّلُمَاتِ أُولَئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ (البقرۃ: 257)
’’ اللہ ولی ہے ان لوگوں کا جو ایمان لاتے ہیں۔ وہ ان کو تاریکیوں سے روشنی کی طرف نکالتا ہے۔ اور جن لوگوں نے کفر کیا ان کے اولیا طاغوت ہیں ‘ وہ ان کو روشنی سے تاریکیوں کی طرف لاتے ہیں۔ یہی لوگ ہیں آگ والے۔ اور یہ اس میں ہمیشہ رہیں گے) ۔‘‘
عبد الطاغوت کی عملی صورت
ابلیس لعنت اللہ علیہ کی بندگی
ابلیس” وہ شیطان ہے جو راندہٴ درگاہ ہوا۔ جس پر لعنت کی گئی اور جس سے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:
وَإِنَّ عَلَيْكَ لَعْنَتِي إِلَى يَوْمِ الدِّينِ (ص:78)
’’بے شک تم پر قیامت کے روز تک میری لعنت ہے۔‘‘
“ابلیس” فرشتوں کے ساتھ ان کی صحبت میں رہ کر انہیں کی طرح عمل کرتا تھا۔ جب آدم علیہ السلام کو سجدہ کرنے کا حکم دیا گیا تو جو خباثت ،انکار اور غرور اس میں تھا ظاہر ہوگیا۔ چنانچہ اس نے انکار کر یا، تکبر کا شکار ہوا اور کافر بن گیا۔ لہٰذا اللہ تعالیٰ کی رحمت سے دور کر دیا گیا ،اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:
وَإِذْ قُلْنَا لِلْمَلاَئِكَةِ اسْجُدُواْ لآدَمَ فَسَجَدُواْ إِلاَّ إِبْلِيسَ أَبَى وَاسْتَكْبَرَ وَكَانَ مِنَ الْكَافِرِينَ (البقرۃ:34 (
’’اور جس وقت ہم نے فرشتوں کو حکم دیا کہ آدم کے لئے سجدہ میں گر جاؤ تو سب سجدہ میں گر گئے بجز ابلیس کے اس نے کہنا نہ مانا اور غرور میں آگیا ،اور کافروں میں سے ہوگیا۔‘‘
ابلیس کی بندگی کرنا دراصل اللہ کے مقابلے میں شیطان کو وسوں کی پیروی ہے، جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
أَلَمْ أَعْهَدْ إِلَيْكُمْ يَا بَنِي آدَمَ أَنْ لَا تَعْبُدُوا الشَّيْطَانَ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُبِينٌ وَأَنِ اعْبُدُونِي هَذَا صِرَاطٌ مُسْتَقِيمٌ (یٰسٓ:60- 61)
’’ اور اے آدم کے بیٹو ! کیا میں نے تم کو ہدایت نہ کی تھی کہ شیطان کی بندگی نہ کرو، بیشک وہ تمہارا کھلا دشمن ہے ۔ اور یہ کہ میری ہی بندگی کرو، یہ سیدھا راستہ ہے ۔‘‘
یہی وجہ ہے، کہ دوران دعوت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے والد سے کہا تھا:
يَا أَبَتِ لَا تَعْبُدِ الشَّيْطَانَ إِنَّ الشَّيْطَانَ كَانَ لِلرَّحْمَنِ عَصِيًّا (مریم: 44)
’’ اے میرے باپ ! شیطان کی بندگی نہ کیجیے، بیشک شیطان رحمن کا نافرمان ہے۔ ‘‘
انبیاء کی محبت و عقیدت میں غلو اور شرک کا شکار ہوجانا
ہمیشہ سے ہی ایسا ہوتا چلا آیا ہے کہ انبیاء کی زندگی میں اُن کی مخالفت کی گئی، اور بعد میں اُن کی قدردانی کے نام پر اُن کی عقیدت و محبت کے نام پر کبھی تو انہیں اللہ کے برابر بنانے کی کوشش کی اور کبھی اللہ سے بھی بلند کردیا یا، حالانکہ انبیاء کی دعوت تو ہمیشہ اللہ کی توحید ہی کی جانب رہے ہے، اور اُن کا مشن اللہ کا شکر گذار بندہ بننا تھا۔ پچھلی امتوں کی پیروی میں ہماری نام نہاد امتِ مسلمہ کی ایک بڑی اکثریت بھی اسی بیماری کا شکار ہوچکی ہے، نہ صرف نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو مشکل کشا اور عالم الغیب کہا جارہا ہے بلکہ حبِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے نام پر اللہ تعالیٰ کی توہین کی جارہی ہے۔ چند مشہور و معروف اشعار سے اس امر کا اندازہ کرنا مشکل نہیں۔
وہی جو مستوی عرش تھا خدا ہو کر ۔۔۔۔ اتر پڑا ہے مدینے میں مصطفی ہو کر
اللہ کے پلّے میں وحدت کے سوا کیا ہے۔۔۔ جو لینا ہے لے لیں گے محمد کے دَر سے
معاذ اللہ
شخصیات کی محبت و عقیدت میں غلو
آج امت مسلمہ کا شیرازہ بکھر جانے اور عقائد میں شرک کی ملاوٹ ہوجانے کے بعدامت کی بڑی اکثریت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی اور داماد علی بن طالب رضی اللہ عنہ کو مشکل کشا سمجھنے لگی ہے، اسی طرح مختلف صحابہ، تابعین و تبع تابعین کو مختلف صفات باری تعالیٰ کا حامل سمجھا جا رہا ہے، حالانکہ اُن کی زندگیاں توحید کے پرچار اور شرک کے ابطال میں گذری ہیں۔ اِسی طرح بہت سی ایسی شخصیات بھی ہیں جن کی اپنی تصانیف ہی اپنی الوہیت کی دعوت پر گواہ ہیں، اور کچھ نے مریدین کی عقیدت کا امتحان لینے کے لیے کلمہ توحید میں محمد الرسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کے نام کے بجائے اپنا نام تک لگا کر پڑھوادیا۔یہ کام طاغوت پرستی کی بدترین شکل ہے۔ مالک ہمیں اِس سے بچا کر رکھے۔ آمین
باطل نظاموں کی پیروی
شریعت سازی اللہ کا حق ہے۔ انتظامی معاملات میں اولوالامر کو تعذیرات کی مدد میں ایک محدود اختیار بھی دیا گیا ہے کہ وہ انتظامات کے حوالے سے اپنا منشور طے کرسکیں تاکہ معاملات حکومت کو نظم و نسق کے ساتھ چلایا جا سکے۔ البتہ کسی شخص کو یہ اختیار نہیں دیا گیا کہ وہ اِس مد میں کوئی ایسا آئین ایجاد کرلے جو شریعت الٰہیہ سے متعارض و متصادم ہو۔ اگر کسی بندے کا ایسا نظام جو اللہ کے نظام کا مخالف ہو، قبول کرلیا جائے تو مالک اُس شخص کو اپنا شریک گردانتا ہے۔ جیسا کہ ارشاد ہے:
أَمْ لَهُمْ شُرَكَاءُ شَرَعُوا لَهُمْ مِنَ الدِّينِ مَا لَمْ يَأْذَنْ بِهِ اللَّهُ وَلَوْلَا كَلِمَةُ الْفَصْلِ لَقُضِيَ بَيْنَهُمْ وَإِنَّ الظَّالِمِينَ لَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ (الشوریٰ: 21)
’’ کیا ان لوگوں کے کچھ ایسے شریک ہیں جنہوں نے ان کے لئے دین کا وہ طریقہ نکال لیا ہے جس کی اجازت اللہ نے نہیں دی اور اگر فیصلے کی بات پہلے سے طے نہ ہوچکی ہوتی تو یقینا ان کے درمیان کبھی کا فیصلہ کردیا گیا ہوتا اور اس حقیقت میں کوئی شک نہیں کہ ظالموں کے لئے ایک بڑا ہی دردناک عذاب ہے ‘‘
طواغیت سے فیصلے کروانا
اہل ایمان کے شایان شاں نہیں کہ وہ باہمی معاملات کے فیصلوں کے لیے طواغیت کے پاس جائیں، یہ بات از روئے قرآن سخت ناپسندیدہ اور گمراہی کی سند ہے۔
أَلَمْ تَرَ إِلَى ٱلَّذِينَ يَزْعُمُونَ أَنَّهُمْ ءَامَنُوا۟ بِمَآ أُنزِلَ إِلَيْكَ وَمَآ أُنزِلَ مِن قَبْلِكَ يُرِيدُونَ أَن يَتَحَاكَمُوٓا۟ إِلَى ٱلطَّٰغُوتِ وَقَدْ أُمِرُوٓا۟ أَن يَكْفُرُوا۟ بِهِۦ وَيُرِيدُ ٱلشَّيْطَٰنُ أَن يُضِلَّهُمْ ضَلَٰلًۢا بَعِيدًا (النساء:60)
’’ کیا تم نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جو دعویٰ تو یہ کرتے ہیں کہ جو (کتاب) تم پر نازل ہوئی اور جو (کتابیں) تم سے پہلے نازل ہوئیں ان سب پر ایمان رکھتے ہیں اور چاہتے یہ ہیں کہ اپنا مقدمہ طاغوت کے پاس لے جا کر فیصلہ کرائیں حالانکہ ان کو حکم دیا گیا تھا کہ اس سے اعتقاد نہ رکھیں اور شیطان (تو یہ) چاہتا ہے کہ ان کو بہکا کر رستے سے دور ڈال دے ۔‘‘
احبار و رہبان کی بندگی
حلت و حرمت کی حدود کا تعین صرف اللہ تبارک و تعالیٰ اور حکمِ الٰہیہ کی متابعت میں محمد الرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذمہ داری تھی۔ لیکن اگر اہل کتاب کی روش پر چل کر ہم یہ اختیار اپنے علماء و مشائخ کو دے دیں، تو یہ درحقیقت اللہ کو چھوڑ کر اُن کی بندگی ہے۔ اور اسی کی شکایت اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنی کتاب میں بھی کی ہے:
اتَّخَذُوا أَحْبَارَهُمْ وَرُهْبَانَهُمْ أَرْبَابًا مِنْ دُونِ اللَّهِ وَالْمَسِيحَ ابْنَ مَرْيَمَ وَمَا أُمِرُوا إِلَّا لِيَعْبُدُوا إِلَهًا وَاحِدًا لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ سُبْحَانَهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ (التوبۃ: 31)
’’ انہوں نے اپنے علماء و مشائخ اور مسیح ابن مریم کو اللہ کے سوا رب بنا لیا ہے، حالانکہ ان کو حکم دیا گیا تھا کہ اللہ واحد کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں اس کے سوا کوئی معبود نہیں اور وہ ان لوگوں کے شریک بنانے سے پاک ہے۔ ‘‘
اور یہی وجہ تھی، کہ جب نجران کی عیسائی وفد کو دین ِ اسلام اور نصرانیت میں موجود مشترکہ نکات پر مدعو کیا گیا، تو وہاں بھی اِس نکتے کو صراحت کے ساتھ بیان کیا گیا :
قُلْ يَا أَهْلَ الْكِتَابِ تَعَالَوْا إِلَى كَلِمَةٍ سَوَاءٍ بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ أَلَّا نَعْبُدَ إِلَّا اللَّهَ وَلَا نُشْرِكَ بِهِ شَيْئًا وَلَا يَتَّخِذَ بَعْضُنَا بَعْضًا أَرْبَابًا مِنْ دُونِ اللَّهِ فَإِنْ تَوَلَّوْا فَقُولُوا اشْهَدُوا بِأَنَّا مُسْلِمُونَ (آل عمران: 64)
’’ (کہہ دیجیے ! اے اہل کتاب ! آئو اس بات کی طرف جو ہمارے اور تمہارے درمیان یکساں مشترک ہے۔ یہ کہ ہم اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں نہ اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک ٹھہرائیں اور نہ بنائے کوئی ہم میں سے کسی کو رب اللہ کے سوا پھر اگر وہ روگردانی کریں اس سے تو کہہ دو کہ گواہ رہو ہم تو مسلم ہیں ۔‘‘
اصحاب فضل و اقتدار کی بندگی
انسان کمزور پیدا کیا گیا ہے۔ یہ جب دنیا میں کچھ لوگوں کو دیکھتا ہے جن کو مالک نے بہت سی دولت، اقتدار یا شہرت عطا کی ہوتی ہے، تو اُن سے متاثر ہوجاتا ہے۔ حالانکہ اللہ نے اُن کی دولت اور رعب و دبدبے کی حیثیت سے اپنے بندوں کو کتاب اللہ میں خبر دار بھی کردیا تھا:
وَلَا تَمُدَّنَّ عَيْنَيْكَ إِلَى مَا مَتَّعْنَا بِهِ أَزْوَاجًا مِنْهُمْ زَهْرَةَ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا لِنَفْتِنَهُمْ فِيهِ وَرِزْقُ رَبِّكَ خَيْرٌ وَأَبْقَى وَأْمُرْ أَهْلَكَ بِالصَّلَاةِ وَاصْطَبِرْ عَلَيْهَا لَا نَسْأَلُكَ رِزْقًا نَحْنُ نَرْزُقُكَ وَالْعَاقِبَةُ لِلتَّقْوَى (طٰہ: 131-132)
’’ اور کبھی آنکھ اٹھا کر بھی نہ دیکھنا اس (سامان عیش و عشرت) کی طرف جو کہ ہم نے ان لوگوں کے مختلف گروہوں کو دنیاوی زندگی کی رونق کے طور پردے رکھا ہے تاکہ اس میں ہم ان کی آزمائش کریں اور تیرے رب کا عطیہ تو بہرحال اس سے کہیں بڑھ کر عمدہ بھی ہے اور دیرپا بھی ۔ اور اپنے گھر والوں کو صلاۃ کا حکم دیجیے، اور خود بھی اس پر جمے رہئے، ہم آپ سے رزق کا سوال نہیں کرتے بلکہ ہم ہی آپ کو رزق دیں گے، اور اچھا انجام پرہیزگاری کا ہی ہوتا ہے۔ ‘‘
فَلَا تُعْجِبْكَ أَمْوَالُهُمْ وَلَا أَوْلَادُهُمْ إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيُعَذِّبَهُمْ بِهَا فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَتَزْهَقَ أَنْفُسُهُمْ وَهُمْ كَافِرُونَ (التوبۃ: 55)
’’ آپ کو ان کے مال اور اولاد تعجب میں نہ ڈالیں اللہ چاہتا ہے کہ ان چیزوں سے دنیا کی زندگی میں ان کو عذاب دے اور جب ان کی جان نکلے تو اس وقت بھی وہ کافر ہی ہوں۔ ‘‘
إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا لَنْ تُغْنِيَ عَنْهُمْ أَمْوَالُهُمْ وَلَا أَوْلَادُهُمْ مِنَ اللَّهِ شَيْئًا وَأُولَئِكَ هُمْ وَقُودُ النَّارِ (آل عمران: 10)
’’ بیشک جو لوگ اڑے ہوئے ہیں اپنے کفرو (باطل) پر، ان کو اللہ کے مقابلے میں نہ تو ان کے مال کچھ کام آسکیں گے، اور نہ ہی ان کی اولادیں، اور یہی لوگ ہیں جو ایندھن ہوں گے (دوزخ کی) اس ہولناک آگ کا۔‘‘
لیکن جب بندے کا تعلق کتاب اللہ سے مظبوط نہ ہو تو ایمان کی کمزوری کا شکار ہوتے ہوتے بالآخر ایسی کیفیت پر پہنچ جاتا ہے کہ ان لوگوں سے قربت پانے کے لیے کچھ بھی کرنے تیّار ہوتا ہے چاہے اُسے اللہ کی آیات کا کتنا ہی مذاق کیوں نہ اُڑانا پڑے، اور کبھی اُن سے ذہنی طور پر اِس قدر مرعوب ہوجاتا ہے کہ اُس کے قال، چال، ڈھال اور تراش خراش سب کچھ انہی لوگوں جیسا بنتا جاتا ہے چہ جائیکہ کتاب اللہ کا مطالبہ کچھ اور ہی ہو۔اور یہ ذہنی غلامی کی بدترین سطح ہے۔یوں وہ درحقیقت ان طواغیت کے انکار کے بجائے اُن کو بندہ بن چکا ہوتا ہے، لیکن کچھ شعور نہیں رکھتا۔
مشرکوں سے دلی دوستیاں اور شادیاں کرنا
اللہ تعالیٰ کا اپنے بندوں سے تقاضا ہے کہ وہ مومنین کو چھوڑ کر کفّار کو دوست نہ بنائیں، اور یہ بھی واضح کردیا گیا کہ مومن چاہے حکم اللہ کے تحت ہر رنگ و مذہب کے لوگوں کے ساتھ اچھے اخلاق کے ساتھ پیش آتا اور اُن کی دنیاوی پریشانیوں کو دور کرنے کے لیے سعی و جہد کرتا ہے، اور اُن سے صلہ رحمی بھی کرتا ہے۔ لیکن اُس کی دلی دوستی و محبت صرف مومنین کے ساتھ ہی ہوتی ہے، اور اِس کے جگری دوست اور رزداں کبھی بھی مومنین کے بجائے کفار و مشرکین نہیں ہوتے۔
الَّذِينَ يَتَّخِذُونَ الْكَافِرِينَ أَوْلِيَاءَ مِنْ دُونِ الْمُؤْمِنِينَ أَيَبْتَغُونَ عِنْدَهُمُ الْعِزَّةَ فَإِنَّ الْعِزَّةَ لِلَّهِ جَمِيعًا (النساء: 139)
’’ جنہوں نے (ایمان کے دعوں کے باوجود) کافروں کو اپنا دوست بنا رکھا ہے، ایمان والوں کو چھوڑ کر کیا یہ لوگ ان کے یہاں عزت ڈھونڈتے ہیں ؟ تو (یہ یقین جان لیں کہ) بیشک عزت سب کی سب اللہ ہی کے لئے ہے۔‘‘
محض اُن کے فتنے سے بچنے کے لیے اور صرف اسی حد تک ان لوگوں سے دوستی رکھی جاسکتی ہے۔ جیسا کہ ارشاد ہے:
لَا يَتَّخِذِ الْمُؤْمِنُونَ الْكَافِرِينَ أَوْلِيَاءَ مِنْ دُونِ الْمُؤْمِنِينَ وَمَنْ يَفْعَلْ ذَلِكَ فَلَيْسَ مِنَ اللَّهِ فِي شَيْءٍ إِلَّا أَنْ تَتَّقُوا مِنْهُمْ تُقَاةً وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ وَإِلَى اللَّهِ الْمَصِيرُ (آل عمران: 28)
’’ ایمان والے کافروں کو اپنا دوست نہ بنائیں اہل ایمان کو چھوڑ کر، اور جس نے ایسے کیا، اس کا اللہ سے کوئی تعلق نہیں، مگر یہ کہ تم ان (کے ظلم وستم) سے بچنے کے لئے (اور اپنی حفاظت کی خاطر) بچاؤ کا کوئی طریقہ اختیار کرلو، اور اللہ تم لوگوں کو ڈراتا ہے اپنے آپ سے، اور اللہ ہی کی طرف لوٹ کر جانا ہے (سب کو) ۔‘‘
لیکن مومنین کو چھوڑ کر مشرکین سے محبت کرنے والے، محمد الرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان یاد رکھیں کہ:
’’۔۔۔ أَنْتَ مَعَ مَنْ أَحْبَبْتَ ‘‘
’’۔۔۔تو انہیں کے ساتھ ہوگا جن سے محبت کرتا ہے۔‘‘
(صحیح مسلم: كتاب البر والصلة والآداب، باب المرء مع من أحب)
خاندان اور برادری کو نبھانے کی خاطر احکاماتِ الٰہی سے اعراض کرنا
کتاب اللہ صلہ رحمی کا حکم دیتی اور قطع رحمی سے روکتی ہے، البتہ اگر قریبی رشتہ دار ایمان کے بجائے کفر کو پسند کرنے والے ہوں تو اُن سے صلہ رحمی تو ضرور ہوگی اور محبت اور دلی دوستی نہیں رکھی جا سکتی۔ جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا آبَاءَكُمْ وَإِخْوَانَكُمْ أَوْلِيَاءَ إِنِ اسْتَحَبُّوا الْكُفْرَ عَلَى الْإِيمَانِ وَمَنْ يَتَوَلَّهُمْ مِنْكُمْ فَأُولَئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ (التوبۃ: 23)
’’ اے وہ لوگوں جو ایمان لائے ہو ! تم مت بناؤ اپنے باپوں اور اپنے بھائیوں کو اپنا دوست، اگر وہ ترجیح دیں کفر کو ایمان پر، اور جو کوئی (اس کے باوجود) تم میں سے ان سے دوستی رکھے گا، تو ایسے لوگ ظالم ہوں گے۔‘‘
ایک اور مقام پر فرمایا:
لَا تَجِدُ قَوْمًا يُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ يُوَادُّونَ مَنْ حَادَّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَلَوْ كَانُوا آبَاءَهُمْ أَوْ أَبْنَاءَهُمْ أَوْ إِخْوَانَهُمْ أَوْ عَشِيرَتَهُمْ أُولَئِكَ كَتَبَ فِي قُلُوبِهِمُ الْإِيمَانَ وَأَيَّدَهُمْ بِرُوحٍ مِنْهُ وَيُدْخِلُهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ أُولَئِكَ حِزْبُ اللَّهِ أَلَا إِنَّ حِزْبَ اللَّهِ هُمُ الْمُفْلِحُونَ (مجادلۃ: 22)
’’ تم ایسا نہیں پاؤ گے کہ جو لوگ (سچے دل سے) ایمان رکھتے ہوں اللہ پر اور قیامت کے دن پر وہ دوستی رکھتے ہوں ان لوگوں سے جو مخالفت کرتے ہیں اللہ اور اس کے رسول کی اگرچہ وہ ان کے باپ یا بیٹے یا بھائی یا کنبہ (قبیلہ) ہی کیوں نہ ہوں (کیونکہ) یہ وہ لوگ ہیں جن کے دلوں میں اللہ نے نقش فرمادیا (دولت) ایمان کو اور اس نے ان کی تائید (وتقویت) فرمادی اپنی طرف سے ایک عظیم الشان روح کے ذریعے اور وہ ان کو داخل فرمائے گا ایسی عظیم الشان جنتوں میں جن کے نیچے سے بہہ رہی ہوں گی طرح طرح کی نہریں جن میں ان کو ہمیشہ رہنا نصیب ہوگا اللہ ان سے راضی ہوگیا اور یہ اس سے راضی ہوگئے یہ لوگ ہیں اللہ کی جماعت آگاہ رہو کہ اللہ کی جماعت ہی یقینی طور پر فلاح پانے والی ہے ۔‘‘
لیکن اگر پھر بھی رشتہ داریاں اور محبتیں اللہ اور اُس کے رسول سے زیادہ عزیز ہیں، تو اللہ عزوجل کا فرمان سن لیجیے کہ:
قُلْ إِنْ كَانَ آبَاؤُكُمْ وَأَبْنَاؤُكُمْ وَإِخْوَانُكُمْ وَأَزْوَاجُكُمْ وَعَشِيرَتُكُمْ وَأَمْوَالٌ اقْتَرَفْتُمُوهَا وَتِجَارَةٌ تَخْشَوْنَ كَسَادَهَا وَمَسَاكِنُ تَرْضَوْنَهَا أَحَبَّ إِلَيْكُمْ مِنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ وَجِهَادٍ فِي سَبِيلِهِ فَتَرَبَّصُوا حَتَّى يَأْتِيَ اللَّهُ بِأَمْرِهِ وَاللَّهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْفَاسِقِينَ (التوبۃ: 24)
’’ (ان سے) کہو کہ اگر تمہارے باپ اور تمہارے بیٹے اور تمہارے بھائی اور تمہاری بیویاں، اور تمہارا کنبہ، اور تمہارے وہ مال جو تم نے کما رکھے ہیں اور تمہاری وہ تجارت جس کے ماند پڑجانے کا تمہیں اندیشہ لگا رہتا ہے، اور تمہارے وہ گھر جو تمہیں پسند ہیں (اگر یہ سب کچھ) تمہیں زیادہ پیارا ہو اللہ اور اس کے رسول سے، اور اس کی راہ میں جہاد کرنے سے، تو تم انتظار کرو، یہاں تک کہ اللہ لے آئے اپنا حکم اور اللہ نور ہدایت سے نہیں نوازتا بدکار لوگوں کو۔‘‘
نفس کی بندگی
طاغوت پرستی کی ایک صورت نفس کی بندگی بھی ہے۔ یعنی انسان کے ساتھ ہدایات ربّانی موجود ہوں، لیکن اُس پر عمل پیرا ہونے کے بجائے وہ ہوائے نفس کا بندہ بن جائے، اور ہدایاتِ ربانی پر عمل کرنے کے بجائے اُس کے برعکس نفس کی بات مانے۔ جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
أَفَرَأَيْتَ مَنِ اتَّخَذَ إِلَهَهُ هَوَاهُ وَأَضَلَّهُ اللَّهُ عَلَى عِلْمٍ وَخَتَمَ عَلَى سَمْعِهِ وَقَلْبِهِ وَجَعَلَ عَلَى بَصَرِهِ غِشَاوَةً فَمَنْ يَهْدِيهِ مِنْ بَعْدِ اللَّهِ أَفَلَا تَذَكَّرُونَ (الجاثیۃ: 23)
’’تو کیا تم نے اس شخص کے حال (اور اس کی بدبختی) پر بھی غور کیا جس نے اپنی خواہش کو ہی اپنا معبود بنا رکھا ہو اور اللہ نے اس کو گمراہی (کے گڑھے) میں ڈال دیا ہو اس کے علم کے باوجود اس کے کانوں اور اس کے دل پر اس نے مہر لگا دی ہو اور اس کی آنکھوں پر پردہ ڈال دیا ہو سو کون ہے جو ایسے شخص کو ہدایت دے سکے اللہ کے بعد ؟ کیا تم لوگ پھر بھی کوئی سبق نہیں لیتے ؟‘‘
نفس پرستی تو درحقیقت ہر انداز کی طاغوت پرستی کی ہی بنیادی وجوہات میں سے ایک ہے، لیکن اِس کی انتہاء آج کل لبرل ازم اور دہریت کے نام سے دیکھنے کو ملتی ہے، کہ ایک شخص ببانگ دہل اس بات کا اظہار کرتا ہے کہ میں صرف وہی کروں گا جو مجھے اچھا لگے گا، اور میں کسی دین نام کی چیز کو نہیں مانتا۔ مالک ایسی کیفیت سے ہم سب کو اپنی پناہ میں رکھے، اور ہمیں اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے بہترین بندے بنادے۔ آمین