فہرست

شرک کی تعریف اور آج کے دور کے مشرکانہ عقائد و اعمال

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

              إِنَّ الْحَمْدَ لِلَّهِ، نَحْمَدُهُ وَنَسْتَعِينُهُ، مَنْ يَهْدِهِ اللهُ فَلَا مُضِلَّ لَهُ، وَمَنْ يُضْلِلْ فَلَا هَادِيَ لَهُ، وَأَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ، وَأَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ، أَمَّا بَعْدُ

شرک کے معنی ٰ :

لغوی طور پر شرک کے معنی ’’ ساجھی ‘‘ یا ’’ برابری ‘‘ کے ہوتے ہیں لیکن اصطلاحا ً  اللہ تعالیٰ کی ذات، صفات، حقوق و اختیارات  میں کسی  کوبھی کو  شریک کردینے کے ہوتے ہیں۔ مثلا ً کوئی یہ کہے کہ جو کام اللہ تعالیٰ کرتا ہے وہ  دوسرا بھی کرلیتا  ہے۔ اللہ تعالیٰ اس بات کا اختیار رکھتا ہے اور کوئی دوسرا بھی اس کا اختیار رکھتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی یہ صفت  ہے کہ وہ چھپی چیز کا علم رکھتا ہے اور دوسرا بھی عالم الغیب ہے۔ اس قسم کے  عقائد اور ان کے تحت اعمال  کو شرک کہا جاتا ہے۔

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :

اِنَّ اللّٰهَ لَا يَغْفِرُ اَنْ يُّشْرَكَ بِهٖ وَ يَغْفِرُ مَا دُوْنَ ذٰلِكَ لِمَنْ يَّشَآءُ١ۚ وَ مَنْ يُّشْرِكْ بِاللّٰهِ فَقَدِ افْتَرٰۤى اِثْمًا عَظِيْمًا۰۰۴۸

 [النساء: 48]

’’ بے شک اللہ   اس ( گناہ ) کو تو معاف نہیں کرتا کہ اس کا شریک ٹھہرایا جائے، اس کے سوا جس کے جس گناہ کو چاہے معاف کردے گا، اور جس نے اللہ کیساتھ شرک کیا اس نے بہت ہی بڑا بہتان  باندھا ‘‘۔

اللہ تعالیٰ کی ذات، صفات، علم و تصرفات اور اختیارات میں شریک ٹہرا کر کسی نبی یا ولی کو اس کا ہمسر و ہم پلہ قرار دینا انتہائی بدترین   عمل  اور ظلم عظیم ہے ۔ بڑے سے بڑا گناہ بھی اگر اللہ چاہے تو بغیر توبہ کے بھی معاف کردے یا کچھ عرصہ عذاب دینے کے بعد پھرجنت میں داخل کردے ، لیکن شرک بغیر توبہ اور اصلاح کے ہر گز معاف نہیں ہو سکتا، شرک پر مرنے والے پر جنت حرام کردی گئی ہے، اور جہنم اس کا ہمیشہ کا ٹھکانہ ہے۔

لَقَدْ كَفَرَ الَّذِيْنَ قَالُوْۤا اِنَّ اللّٰهَ هُوَ الْمَسِيْحُ ابْنُ مَرْيَمَ١ؕ وَ قَالَ الْمَسِيْحُ يٰبَنِيْۤ اِسْرَآءِيْلَ اعْبُدُوا اللّٰهَ رَبِّيْ وَ رَبَّكُمْ١ؕ اِنَّهٗ مَنْ يُّشْرِكْ بِاللّٰهِ فَقَدْ حَرَّمَ اللّٰهُ عَلَيْهِ الْجَنَّةَ وَ مَاْوٰىهُ النَّارُ١ؕ وَ مَا لِلظّٰلِمِيْنَ مِنْ اَنْصَارٍ۰۰۷۲

 [المائدة: 72]

’’ ان لوگوں نے یقینا ً کفر کیا  جنہوں نے کہا کہ مسیح ابن مریم ہی اللہ ہیں، حالانکہ مسیح    ؑنے کہا تھا اے بنی اسرائیل اللہ کی عبادت کرو جو میرا بھی رب ہے اور تمہارا بھی رب، حقیقت یہ ہے کہ  جس کسی نے اللہ کیساتھ شرک کیا تو اللہ نے اس پر جنت حرام کردی ہے اور اس کا ٹھکانہ جہنم ہوگا، اور ظالموں کا کوئی مددگار نہ ہوگا‘‘۔

              بات  بالکل واضح ہے کہ شرک کرنے والے پر جنت ابدی طور پر  حرام  اور اس کا ہمیشہ کا ٹھکانہ جہنم ہے۔  یعنی آخرت کی اس زندگی میں جہاں موت نام کی کوئی چیز نہ ہوگی  شرک کرنے والا ہمیشہ ہمیشہ کے لئے جہنم میں ہی  جلتا رہے گا۔ ذرا تصور کریں وہ زندگی کہ جس میں ہزاروں  سال گز رجائیں لاکھوں اور کروڑوں  سال ہی نہیں اربہا سال گزر جائیں گے لیکن موت نہ آئے گی تو اس  مشرک کا کیا حال ہوگا، ایک کھال جلے گی تو دوسری بنا دی جائے گی دوسری جلے گی تو تیسری اس طرح کروڑوں  مرتبہ جسم دوبارہ بنا دیا جائے گا لیکن جہنم سے خلاصی نہیں ہوگی۔

              اب ہم دوبارہ سورہ نساء کی طرف آتے ہیں :

اِنَّ اللّٰهَ لَا يَغْفِرُ اَنْ يُّشْرَكَ بِهٖ وَ يَغْفِرُ مَا دُوْنَ ذٰلِكَ لِمَنْ يَّشَآءُ١ۚ وَ مَنْ يُّشْرِكْ بِاللّٰهِ فَقَدِ افْتَرٰۤى اِثْمًا عَظِيْمًا۰۰۴۸

 [النساء: 48]

’’ بے شک اللہ   اس ( گناہ ) کو تو معاف نہیں کرتا کہ اس کا شریک ٹھہرایا جائے، اس کے سوا جس کے جس گناہ کو چاہے معاف کردے گا، اور جس نے اللہ کیساتھ شرک کیا اس نے بہت ہی بڑا بہتان  باندھا ‘‘۔

              معلوم ہوا کہ شرک کسی صورت میں معاف نہیں لیکن دوسرے گناہ اللہ تعالیٰ جس کے لئے چاہے اور جس قدر چاہے معاف کرسکتا ہے، یہاں تک کہ ایک حدیث قدسی میں نبی  ﷺنے فرماتے ہیں  کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا :

وَمَنْ لَقِيَنِي بِقُرَابِ الْأَرْضِ خَطِيئَةً لَا يُشْرِکُ بِي شَيْئًا لَقِيتُهُ بِمِثْلِهَا مَغْفِرَةً

(  مسلم ، كتاب الذِّكْرِ وَالدُّعَاءِ وَالتَّوْبَةِ وَالِاسْتِغْفَارِ ،   بَابُ فَضْلِ الذِّكْرِ وَالدُّعَاءِ وَالتَّقَرُّبِ إِلَى اللهِ تَعَالَى )

’’ اور جس نے تمام زمین کے برابر گناہ لے کر مجھ سے ملاقات کی بشرطیکہ میرے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ کرتا ہو تو میں اس سے اسی کی مثل مغفرت کے ساتھ ملاقات کروں گا‘‘۔

              سوچیں آخر کیا وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ شرک کے معاملے میں اس قدر سخت ہے اور دوسرے گناہوں کے بارے معافی کی گنجائش رکھی ہوئی ہے، معاذ ؓ سے روایت ہے  کہ نبی ﷺ  نے ان سے فرمایا:

يَا مُعَاذُ هَلْ تَدْرِي حَقَّ اللَّهِ عَلَى عِبَادِهِ وَمَا حَقُّ الْعِبَادِ عَلَى اللَّهِ قُلْتُ اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ قَالَ فَإِنَّ حَقَّ اللَّهِ عَلَى الْعِبَادِ أَنْ يَعْبُدُوهُ وَلَا يُشْرِكُوا بِهِ شَيْئًا وَحَقَّ الْعِبَادِ عَلَى اللَّهِ أَنْ لَا يُعَذِّبَ مَنْ لَا يُشْرِكُ بِهِ شَيْئًا فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَفَلَا أُبَشِّرُ بِهِ النَّاسَ قَالَ لَا تُبَشِّرْهُمْ فَيَتَّكِلُوا.

( بخاری ، کتاب الجہاد و السیر، بَابُ اسْمِ الفَرَسِ وَالحِمَارِ )

’’ اے معاذ ! کیا تم جانتے ہو کہ اللہ تعالیٰ کا حق اس کے بندوں پر کیا ہے اور بندوں پر اللہ کا کیا حق ہے۔ میں نے عرض کیا کہ اللہ اور اس کا رسول ہی خوب جانتا ہے، فرمایا اللہ کا حق بندوں پر یہ ہے، کہ اس کی عبادت کریں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں اور بندوں کا حق اللہ پر یہ ہے کہ جو شخص اس کے ساتھ شرک نہ کرتا ہو اس کو عذاب نہ دے، میں نے عرض کیا میں اس بات کی لوگوں کو بشارت دے دیتا  ، فرمایا نہیں ورنہ وہ اسی پر  بھروسہ کرلیں گے ‘‘۔

کیا اللہ تعالیٰ اپنا حق معاف فرما دے گا ؟

نہیں ہر گز نہیں ۔اللہ کا حق یہی ہے کہ اس کیساتھ کسی کو شریک نہ کیا جائے، یہی وجہ ہے کہ مالک شرک کو معاف نہیں کرے گا اور دوسرے گناہ جس کے لئے جتنا چاہے معاف کردے گا۔ اس بات کو آپ اس طرح سمجھیں کہ  ہر وہ بات جو اللہ تعالیٰ کی ذات ، صفات حقوق و اختیارات میں کسی کو اس کا ساجھی یا اس جیسا بیان کرتی ہو وہ ناقابل معافی ہے اور دوسرے وہ گناہ جس میں اللہ کی ذات ، صفات، حقوق و اختیارات                متا ئثر نہیں ہوتے قابل معافی ہیں۔ مثلا ً ایک شخص چوری کرتا، سود کھاتا، زنا کرتا ہے تو یہ سارے کام خود اس کے لئے نقصان دے ہیں  لیکن اس سے شرک نہیں ہوتا لہذا  یہ گناہ جس قدر اللہ چاہے تو  معاف ہو سکتے ہیں ۔اس کے برعکس  ایک شخص اللہ کے علاوہ اس کے کسی بندے کو ’’ غوث الاعظم ‘‘ ( کائنات کا سب سے بڑا پکاریںسننے والا ) کہتا ہے تو یہ صرف اللہ کی صفت ہے اس نے اللہ کی اس صفت میں اس کے بندے ہی کو شریک کرڈالا  طرح یہ شرکیہ کام ہوگیا۔ اللہ تعالیٰ ہی اپنی تمام  مخلوق کو ہر قسم کی ضرورت کی چیزیں مہیا کرتا ہے جسے عربی میں الوہاب ( دینے والا) کہتے ہیں۔ اب کوئی بندہ کسی فوت شدہ انسان کو ’’ داتا ‘‘ ( دینے والا ) کہے اور سمجھے اور اس عقیدے کے تحت اس کے مزار پر حاضری دے، اس سے  دعا کرے تو یہ اللہ کی صفت  جیسا بنا دینا ہوگیا۔ایسے عمل کے بعد  اگر وہ بغیر توبہ مر گیا تو اس پر جنت ہمیشہ کے لئے حرام ہے۔

موجودہ دور میں یہ امت شرک کی مختلف اقسام میں ملوث ہے۔ یہاں ہم  شرک کی چند صورتوں کو بیان  کر رہے ہیں  تاکہ  ہرکلمہ گو شرک جیسی گمراہی سے اپنے آپ کو محفوظ رکھ سکے، ان شاء اللہ جلد اس کی تفصیل بھی بیان کردی جائے گی۔مثلاًاللہ تعالیٰ کے علاوہ دوسرے فوت شدہ افراد سے  سے دعائیں مانگنا ‘ قبروں پر جا کر نذر و نیاز تقسیم کرنا اور وہاں  منّتیں ماننا ‘ مزاروں پر شرینی تقسیم کرنا یا چڑھاوے چڑھانا ‘ قبروں یا آستانوں کے پاس جانور ذبح کرنا ‘ قبروں کا طواف کرنا یاپیشانیاں ٹیکنا اور رکوع کی حالت میں جھکنا ‘ قبروں کی طرف منہ کر کے صلاۃ ادا کرنا یا سجدہ کرنا ‘ قبروں کی طرف ثواب اور تبرّک کی نیت سے سفر کرنا ۔  غیراللہ سے مدد مانگنا جیسے  یا رسول ﷺ مدد،یا علی مدد ، یا غوث المدد وغیرہ کے نعرے۔ بیماری یا مصیبت سے بچنے کے لئے کڑا پہننا ‘دھاگہ  و تعویذ لٹکانا، امام ضامن باندھنا ۔ مخصوص پتھروں کی انگوٹھی پہننا ‘ گاڑی کی حفاظت کے لئے بچے کی پرانی جوتی لٹکا لینا ‘ گھر کی حفاظت کے لئے گائے کے سینگ لگا لینا ۔ پرندوں یا آدمیوں سے فال لینا ‘جادو کے ذریعہ دوسروں کو نقصان پہنچانے کی کوشش کرنا ‘ نجومیوں کے پاس جا کر اپنی قسمت معلوم کروانا اور ان کی تصدیق کرنا ‘ علم نجوم سے زمینی حوادثات کی خبریں دینا ‘ ستاروں کے ذریعہ بارش طلب کرنا ‘ جانوروں کو غیر اللہ کے نام پر چھوڑ دینا ‘ قرآن وسنّت کے مخالف امور میں اپنے فرقے کے مولوی و مفتیوں کی اطاعت اس نیت سے کرنا کہ یہ جائز ہے، اللہ کے دین، دین اسلام کو چھوڑ کر لوگوں کے بنائے ہوئے نظام و مذاہب اختیار کرنا۔ اللہ کے دین، دین اسلام کے نام پر بنے ہوئے فرقوں اور گروہوں سے تعلق رکھنا ،وغیرہ وغیرہ۔یہ سارے معاملات مشرکانہ ہیں، وہ لوگ  جو اپنی آخرت کے لئے فکر مند ہیں اور وہ عین اسی لمحے اللہ سے تو بہ کریں اور اپنی اصلاح کرلیں کیونکہ نجانے کس لمحے ہمیں موت آجائے۔

بڑھتی ہوئی مہنگائی کا عذاب!
دراصل اللہ تعالیٰ کا در چھوڑنے کا نجام ہے !
وَ مَنْ اَعْرَضَ عَنْ ذِکْرِیْ فَاِنَّ لَہٗ مَعِیْشَۃً ضَنْکًا وَّ نَحْشُرُہٗ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ اَعْمٰی،،، ﴿طحٰہ:124﴾
اور ( ہاں ) جس نے میری نصیحت(احکامات) سے منہ موڑ ا تویقیناً اس کی معیشت (روزی روٹی) تنگ ہوجائے گی اور ہم اسے روزِ قیامت اندھا کرکے اٹھائیں گے ۔