بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
إِنَّ الْحَمْدَ لِلَّهِ، نَحْمَدُهُ وَنَسْتَعِينُهُ، مَنْ يَهْدِهِ اللهُ فَلَا مُضِلَّ لَهُ، وَمَنْ يُضْلِلْ فَلَا هَادِيَ لَهُ، وَأَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ، وَأَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ، أَمَّا بَعْدُ
اِنَّمَا يَسْتَجِيْبُ الَّذِيْنَ يَسْمَعُوْنَ١ؔؕ وَ الْمَوْتٰى يَبْعَثُهُمُ اللّٰهُ ثُمَّ اِلَيْهِ يُرْجَعُوْنَؐ۰۰۳۶
( الانعام : 36 )
’’بےشک قبول تو وہی کرتے ہیں جو سنتے ہیں اور رہے مردے، اللہ انہیں زندہ کر کے اٹھائے گا پھر سب اللہ ہی کی طرف لائے جائیں گے۔‘‘
کیسا نادان ہے یہ کلمہ گو کہ قرآن و حدیث کو چھوڑ کر ان کہانیوں کے پیچھے پڑ گیا جو عقل بھی قبول نہیں کرتیں۔ اس کے سامنے کوئی مر جاتا ہے تو جان لیتا ہے کہ یہ مردہ اب بے حس ہو گیا ہے نہ سن سکتا ہے، نہ دیکھ سکتا اور نہ ہی بول سکتا ہے۔ لوگ اس کے کپڑے اتارتے ، اسے غسل دیتے اور کفن دیکر اپنے کاندھوں پر اٹھا کر اس قبرستان میں دفن کر آتے ہیں، کیونکہ انہیں معلوم ہوتا ہے کہ اب یہ مردہ جسم سڑگلنا شروع ہو جائے گا اور بدبو پھیل جائے گی۔ یہ مردہ اپنے لئے دعا بھی نہیں کرسکتا اس لئے سب ملکر اس کے لئے دعا بھی کرتے ہیں۔ لیکن جب قبر میں دفن ہوگیا تو کہتے ہیں کہ اب یہ سنتا ہے، دیکھتا اور جانتا ہے، لوگوں کی سن کر اللہ کے آگے رکھتا اور اللہ سے منوا لیتا ہے۔
اگر قرآن و حدیث سے ان عقائد کا موازنہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ عقیدہ تو ہے ہی خلاف قرآن۔ قرآن تو بتاتا ہے کہ اب یہ ختم ہوجانے والی زندگی صرف قیامت کے دن بحال ہوگی۔
ثُمَّ اِنَّكُمْ بَعْدَ ذٰلِكَ لَمَيِّتُوْنَؕ۰۰۱۵ثُمَّ اِنَّكُمْ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ تُبْعَثُوْنَ۰۰۱۶
( سورہ المومنون 15/16 )
’’ پھر اس ( زندگی )کے بعد تمہیں موت آ جائے گی پھر تم قیامت کے دن زندہ کر کے اٹھائے جاوگے ‘‘۔
سورہ نحل میں فرمایا:
اَمْوَاتٌ غَيْرُ اَحْيَآءٍ١ۚ وَ مَا يَشْعُرُوْنَ١ۙ اَيَّانَ يُبْعَثُوْنَؒ۰۰۲۱
( النحل : 21 )
’’ مردہ ہیں، زندگی کی رمق نہیں، نہیں شعور رکھتے کہ کب اٹھائے جائیں گے‘‘۔
قرآن مجید میں واضح کردیا گیا مرا ہوا یہ شخص جس کاجسم مردہ ہو چکا ہے یہ کسی قسم کا شعور ہی نہیں رکھتا۔ اللہ تعالیٰ نے مردہ انسانی جسم کو زندہ انسانی جسم کا ضد قرار دیا ہے :
وَ مَا يَسْتَوِي الْاَعْمٰى وَ الْبَصِيْرُۙ۰۰۱۹وَ لَا الظُّلُمٰتُ وَ لَا النُّوْرُۙ۰۰۲۰وَ لَا الظِّلُّ وَ لَا الْحَرُوْرُۚ۰۰۲۱وَ مَا يَسْتَوِي الْاَحْيَآءُ وَ لَا الْاَمْوَاتُ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ يُسْمِعُ مَنْ يَّشَآءُ١ۚ وَ مَاۤ اَنْتَ بِمُسْمِعٍ مَّنْ فِي الْقُبُوْرِ۰۰۲۲
( فاطر: 19/22)
’’ اور نہیں ہے برابر اندھا اور دیکھنے والا، اور نہ ہی تاریکی اور روشنی، اور نہ سایہ اور یہ دھوپ، اور نہیں ہے برابر زندہ مردہ کے، بے شک اللہ جسے چاہتا سناتا ہے اور آپ ( محمد ﷺ ) انہیں نہیں سنا سکتے جو قبروں میں دفن ہیں۔‘‘
بتایا کہ جس طرح دیکھنے والا اندھے کی ضد ہے، تاریکی روشنی کی اور سایہ دھوپ کی ضد ہے اسی طرح مردہ زندہ کی ضد ہے۔ زندہ سنتا ہے، دیکھتا ہے بولتا ہے اور ہر قسم کا شعور رکھتا ہے مردہ اس کی ضد ہے نہ سنتا ہے نہ بولتا ہے اور نہ ہی کوئی شعور رکھتا ہے۔
اللہ تعالیٰ مزید فرماتا ہے :
اِنَّمَا يَسْتَجِيْبُ الَّذِيْنَ يَسْمَعُوْنَ١ؔؕ وَ الْمَوْتٰى يَبْعَثُهُمُ اللّٰهُ ثُمَّ اِلَيْهِ يُرْجَعُوْنَؐ۰۰۳۶
( الانعام : 36 )
’’بےشک قبول تو وہی کرتے ہیں جو سنتے ہیں اور رہے مردے، اللہ انہیں زندہ کر کے اٹھائے گا پھر سب اللہ ہی کی طرف لائے جائیں گے۔‘‘
اِنَّكَ لَا تُسْمِعُ الْمَوْتٰى وَ لَا تُسْمِعُ الصُّمَّ الدُّعَآءَ اِذَا وَلَّوْا مُدْبِرِيْنَ۰۰۸۰
( سورہ النمل : 80 )
’’ بے شک آپ مردوں کو نہیں سنا سکتے اور نہ ہی بہروں کو جب وہ پیٹھ پھیر کر بھاگ رہے ہوں۔‘‘
وَ الَّذِيْنَ تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِهٖ مَا يَمْلِكُوْنَ مِنْ قِطْمِيْرٍؕاِنْ تَدْعُوْهُمْ لَا يَسْمَعُوْا دُعَآءَكُمْ١ۚ وَ لَوْ سَمِعُوْا مَا اسْتَجَابُوْا لَكُمْ١ؕ وَ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ يَكْفُرُوْنَ بِشِرْكِكُمْ١ؕ وَ لَا يُنَبِّئُكَ مِثْلُ خَبِيْرٍؒ۰۰۱۴
( سورہ فاطر : 13/14 )
’’ اور لوگ جنہیں پکارتے ہیں اللہ کے علاوہ ( وہ ) ایک قطمیر ( کھجور کی گھٹلی پر چڑھاہوا غلاف ) کے بھی مالک نہیں، اگر تم انہیں پکارو یہ تمہاری پکار نہیں سنتے، اور اگر کہیں سن بھی لیں تو تو تمہارے کسی کام نہیں آ سکتے، اور قیامت کے دن تمہارے شرک کا انکار کریں گے، اور تمہیں اس کی خبر دینے والا کوئی نہیں سوا ( اللہ ) سب کچھ جانے والے کے۔‘‘
اللہ تعالیٰ نے اس فعل کو گمراہ ترین فعل فرمایا :
وَ مَنْ اَضَلُّ مِمَّنْ يَّدْعُوْا مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ مَنْ لَّا يَسْتَجِيْبُ لَهٗۤ اِلٰى يَوْمِ الْقِيٰمَةِ وَ هُمْ عَنْ دُعَآىِٕهِمْ غٰفِلُوْنَ
( الاحقاف :5 )
’’اس شخص سے بڑھ کرگمراہ کون ہو سکتا ہے جو اللہ کے سوا ان لوگوں کو پکارتا ہے جو قیامت تک اس کی داد رسی نہیں کر سکتے۔ وہ تو ان کی پکار ہی سے غافل ہیں۔‘‘
بتایا کہ تم انہیں پکار رہے ہو لیکن وہ تو تمہاری پکار سے غافل ہیں یعنی انہیں معلوم ہی نہیں کہ تم انہیں پکار رہے ہو۔
ان دلائل سے ثابت ہوا کہ مردہ کا سماع ثابت نہیں۔ اب ہم آتے ہیں ان روایات کی طرف جن سے لوگ مردے کا سماع ثابت کرتے ہیں۔
:مسلک پرستوں کے سماع موتیٰ پر دلائل اور ان کا رد
اس بارے میں مندرجہ زیل روایات پیش کی جاتی ہیں:
’’نبی ﷺ مدینہ میں قبروں کے پاس سے گزرے تو کہا:
السلام عليكم يا أهل القبور، يغفر الله لنا ولكم، أنتم سلفنا، ونحن بالأثر
( ترمذی، ابواب الجنائز، باب ما يقول الرجل إذا دخل المقابر )
اے قبر والوں تم پر سلامتی ہو ، اللہ ہماری و تمہاری مغفرت فرمائے، تم ہم سے پہلے جانے والے ہو اور ہم تمہارے بعد جانے والے ‘‘۔
اس روایت کو البانی نے ضعیف کہا ہے
( المسند الموضوعي الجامع للكتب العشرة،باب الذکر عند زیارت القبور، جلد 13 ، صفحی 136 )
سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ روایت ہی صحیح نہیں بلکہ ضعیف ہے، دوسری بات یہ ہے کہ یہ ایک دعا دی گئی ہے اس سے مراد سنانا نہیں، جیسا کہ عمر ؓ نے حجر اسود کو بوسہ دیتے ہوئے فرمایا:
إِنِّي أَعْلَمُ أَنَّكَ حَجَرٌ، لاَ تَضُرُّ وَلاَ تَنْفَعُ، وَلَوْلاَ أَنِّي رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُقَبِّلُكَ مَا قَبَّلْتُكَ
(بخاری، کتاب الحج، بَابُ مَا ذُكِرَ فِي الحَجَرِ الأَسْوَدِ )
عمر ؓ نے فرمایا :’’ میں جانتا ہوں کہ تو ایک پتھر ہے نہ نقصان پہنچا سکتا ہے اور نہ ہی کوئی فائدہ ، اگر میں نے نبیﷺ کو تجھے بوسہ دیتے ہوئے نہ دیکھا ہوتا تو تجھے کبھی بوسہ نہیں دیتا ‘‘۔
سوچیں کیا پتھر سنتا ہے ؟
قبرستان جانے پر صحیح حدیث اس طرح ہے :
السَّلَامُ عَلَيْكُمْ أَهْلَ الدِّيَارِ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُسْلِمِينَ، وَإِنَّا، إِنْ شَاءَ اللهُ لَلَاحِقُونَ، أَسْأَلُ اللهَ لَنَا وَلَكُمُ الْعَافِيَةَ «
’’اےمومنوں اور مسلمین کے گھر والوں پر سلامتی ہو ۔ اورہم بھی ان شاء الله تم سے ملنے والے ہیں ۔ ہم اللہ سے اپنے اور تمہارے لئے عافیت کا سوال کرتے ہیں۔
اب یہاں مردوں کو خطاب کرکے انکو سنانا ہرگز نہیں ہے جیسا کہ لوگوں نے سمجھا ہے، کیونکہ الله کی کتاب تو مردے کے سننے کی مطلق نفی اور تردید کرتی ہے ۔ اس دعا کا مقصد مردوں کو سنانا یا سلام پہچانا نہیں بلکہ یہ اللہ کے سامنے ان کے لیے دعا ہے۔
ہر زبان کا یہ قائدہ ہے کہ بعض اوقات «غائب» کو «حاضر» بنا لیتے ہیں جیسے،، کسی کا باپ فوت ہو جاتا ہے،،، اسکی دی ہوئی نیکی کی تربیت بیٹے کے کام آئے تو وہ کہتا ہے «اے میرے باپ اللہ تم پر کروڑ ہا رحمتیں کرے،، کیسی اچھی تعلیم دے گئے تھے کہ آج وہ میرے کام آئی ہے» حالانکہ باپ وہاں موجود نہیں ہوتا، اور نہ ہی باپ کو سنانا مقصود ہوتا ہے ۔البتہ یہ اولاد نے باپ کو یاد کیا اور اسکے لیے دعا کی ۔ اس سے قبل حدیث بھی پیش کردی گئی ہے کہ جب ہم تشہد میں کہتے ہیں «السلام علیک ایھا النبی» اے نبی آپ پر سلامتی ہو، اور السلام علینا و علی عباداللہ
الصالحین تو ہر نیک بندے کو پہنچ جاتی ہے چاہے وہ زمین پر ہو یا آسمانوں میں۔
سماع موتی کے قائلین قلیب بدر والی حدیث بیان کرکے نہ صرف مُردوں کا سماع ثابت کرتے ہیں بلکہ صحابہؓ کرام پر التزام تراشی کرتے ہیں کہ سماع موتی کا مسئلہ صحابہؓ کرام کا اختلافی مسئلہ تھا ۔
:واقعہ قلیب بدر
عَنْ أَبِي طَلْحَةَ، أَنَّ نَبِيَّ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَمَرَ يَوْمَ بَدْرٍ بِأَرْبَعَةٍ وَعِشْرِينَ رَجُلًا مِنْ صَنَادِيدِ قُرَيْشٍ، فَقُذِفُوا فِي طَوِيٍّ مِنْ أَطْوَاءِ بَدْرٍ خَبِيثٍ مُخْبِثٍ، وَكَانَ إِذَا ظَهَرَ عَلَى قَوْمٍ أَقَامَ بِالعَرْصَةِ ثَلاَثَ لَيَالٍ، فَلَمَّا كَانَ بِبَدْرٍ اليَوْمَ الثَّالِثَ أَمَرَ بِرَاحِلَتِهِ فَشُدَّ عَلَيْهَا رَحْلُهَا، ثُمَّ مَشَى وَاتَّبَعَهُ أَصْحَابُهُ، وَقَالُوا: مَا نُرَى يَنْطَلِقُ إِلَّا لِبَعْضِ حَاجَتِهِ، حَتَّى قَامَ عَلَى شَفَةِ الرَّكِيِّ، فَجَعَلَ يُنَادِيهِمْ بِأَسْمَائِهِمْ وَأَسْمَاءِ آبَائِهِمْ: «يَا فُلاَنُ بْنَ فُلاَنٍ، وَيَا فُلاَنُ بْنَ فُلاَنٍ، أَيَسُرُّكُمْ أَنَّكُمْ أَطَعْتُمُ اللَّهَ وَرَسُولَهُ، فَإِنَّا قَدْ وَجَدْنَا مَا وَعَدَنَا رَبُّنَا حَقًّا، فَهَلْ وَجَدْتُمْ مَا وَعَدَ رَبُّكُمْ حَقًّا؟» قَالَ: فَقَالَ عُمَرُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَا تُكَلِّمُ مِنْ أَجْسَادٍ لاَ أَرْوَاحَ لَهَا؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ، مَا أَنْتُمْ بِأَسْمَعَ لِمَا أَقُولُ مِنْهُمْ»، قَالَ قَتَادَةُ:
أَحْيَاهُمُ اللَّهُ حَتَّى أَسْمَعَهُمْ، قَوْلَهُ تَوْبِيخًا وَتَصْغِيرًا وَنَقِيمَةً وَحَسْرَةً وَنَدَمًا ( عن ابی طلحہ ؓ ، بخاری، کتاب المغازی ،باب : قتل ابی جھل )
’’ انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ابوطلحہ سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بدر کے دن چوبیس سردار ان مکہ کی لاشوں کو بدر کے ایک گندے کنویں میں پھینکنے کا حکم دیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی عادت تھی کہ جب وہ کسی قوم پر غالب آتے تھے تو تین راتیں اسی جگہ قیام فرماتے تھے لہذا بدر میں بھی تین دن قیام فرمایا تیسرے دن آپ کے حکم سے اونٹنی پر زین کسی گئی پھر آپ چلے صحابہ کرام نے خیال کیا کہ آپ کسی حاجت کے لئے جا رہے ہیں اصحاب ساتھ ہو لئے آپ چلتے چلتے اس کوئیں کی منڈیر پر تشریف لے گئے اور کھڑے ہو کر مقتولین قریش کو نام بنام آواز دینے لگے اور اس طرح فرمانے لگے اے فلاں بن فلاں اور اے فلاں بن فلاں اب تم کو یہ اچھا معلوم ہوتا ہے کہ تم اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کا حکم مان لیتے ہم سے تو ہمارے رب نے جو وعدہ کیا تھا وہ ہم نے پا لیا کیا تم نے اس وعدے کو پورا پا لیا جو تم سے تمہارے رب نے کیا تھا ؟ طلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ یہ سن کر عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا یا رسول اللہ! آپ ایسی لاشوں سے خطاب فرما رہے ہیں جن میں روح نہیں ہے آپ نے فرمایا قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں محمد کی جان ہے میں جو باتیں کر رہا ہوں تم ان کو ان سے زیادہ نہیں سن سکتےقتادہ نے کہا کہ اللہ نے اس وقت ان کو زندہ فرمادیا تھا تاکہ وہ اس بات کو سن لیں تاکہ ان کو اپنی ذلت و رسوائی اور اس سزا سے شرمندگی حاصل ہو‘‘۔
أَنَّ ابْنَ عُمَرَ رَفَعَ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنَّ المَيِّتَ يُعَذَّبُ فِي قَبْرِهِ بِبُكَاءِ أَهْلِهِ» فَقَالَتْ: وَهَلَ؟ إِنَّمَا قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنَّهُ لَيُعَذَّبُ بِخَطِيئَتِهِ وَذَنْبِهِ، وَإِنَّ أَهْلَهُ لَيَبْكُونَ عَلَيْهِ الآنَ»، قَالَتْ: وَذَاكَ مِثْلُ قَوْلِهِ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَامَ عَلَى القَلِيبِ وَفِيهِ قَتْلَى بَدْرٍ مِنَ المُشْرِكِينَ، فَقَالَ لَهُمْ مَا قَالَ: «إِنَّهُمْ لَيَسْمَعُونَ مَا أَقُولُ» إِنَّمَا قَالَ: «إِنَّهُمُ الآنَ لَيَعْلَمُونَ أَنَّ مَا كُنْتُ أَقُولُ لَهُمْ حَقٌّ»، ثُمَّ قَرَأَتْ {إِنَّكَ لاَ تُسْمِعُ المَوْتَى} [النمل: 80]، {وَمَا أَنْتَ بِمُسْمِعٍ مَنْ فِي القُبُورِ} [فاطر: 22] يَقُولُ حِينَ تَبَوَّءُوا مَقَاعِدَهُمْ مِنَ النَّارِ
( عن ابی طلحہ ؓ ، بخاری، کتاب المغازی ،باب : قتل ابی جھل )
’’ ۔ ۔ ۔ ۔ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس حدیث کو رسول ﷺتک پہنچی ہوئی بتاتے ہیں عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنا نے فرمایا کہ رسول ﷺ نے تو یہ فرمایا ہے کہ مردے پر اپنی خطاؤں اور گناہوں کی وجہ سے عذاب ہوتا ہے اور اس کے عزیز روتے ہی رہتے ہیں یہ بالکل ایسا ہی مضمون ہے جیسے ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ یہ کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم مشرکین بدر کے لاشوں کے گڑھے پر کھڑے ہوئے اور آپ نے فرمایا کہ وہ میرا کہنا سن رہے ہیں حالانکہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا تھا کہ ان کو اب معلوم ہوگیا کہ میں جو کچھ ان سے کہتاتھا وہ سچ اور حق تھا اس کے بعد عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے سورہ نمل اور سورہ فاطرکی یه آیت تلاوت فرمائی ترجمه (اے نبی، تم مردوں کو اپنی بات نہیں سنا سکتے اور اے نبی، تم قبروں والوںکو اپنی بات نہیں سنا سکتے) عروه کهتے ہیں که عائشه کی مراد اس آیت کے پڑھنے سے یہ تھی که جب ان کو جہنم میں اپنا ٹھکانه مل گیا ہوگا‘‘۔
نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے جب ان مردوں کو مخاطب کیا تو عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: ما تکلم من أجساد لا أرواح لها’’ آپ ایسی لاشوں سے خطاب فرما رہے ہیں جن میں روح نہیں ہے ‘‘ ۔ اس جملے نے صحابہ رضی اللہ عنہم کے عقیدے کی وضاحت کردی کہ صحابہ کو جو تعلیم دی گئی تھی وہ یہی تھی کہ مرنے کے بعد روح لوٹ کر نہیں آتی اور جس جسم میں روح نہ ہواس کا ناممکن ہے۔ جب اللہ کے بیان کردہ قانون سے ہٹ کر کوئی بات رونما ہو اور کسی نبی کی موجودگی میں ہو تو وہ معجزہ کہلاتا ہے۔ اللہ تعالی کا بیان کردہ قانون یہ ہے:ثُمَّ اِنَّكُمْ بَعْدَ ذٰلِكَ لَمَيِّتُوْنَ 15ۙثُمَّ اِنَّكُمْ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ تُبْعَثُوْنَ16’’ پھر اس ( زندگی )کے بعد تمہیں موت آ جائے گی پھر تم قیامت کے دن زندہ کر کے اٹھائے جاوگے ‘‘۔ اسی لئے جب عائشہ رضی اللہ عنہاکےسامنے یہ معاملہ پیش ہوا تو انہوں نے قر آن کی آیات پڑھیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم مردوں کو نہیں سنا سکتے تھے یعنی قرآن کا فیصلہ لاریب ہے۔
انہوں نے فرمایا کہ اس سے مراد یہ تھا کہ انہیں اب علم ہو گیا ہوگا۔ کس بات کا علم ہو گیا ہوگا ؟ فهل وجدتم ما وعد ربکم حقا ’’ کیا تم نے اس وعدے کو پورا پا لیا جو تم سے تمہارے رب نے کیا تھا ؟ یعنی اللہ کا وعدہ انہیں جہنم میں داخل کرکے پورا ہوگیا، تو انہیں اس کا علم ہوگیا کہ جو بات نبی صلی اللہ علیہ و سلم فرمایا کرتے تھے وہ سچ تھی۔
یہ فرقہ پرست کہتے ہیں کہ اس بارے میں صحابہ ؓ میں بھی اختلاف تھا۔ نعوذوباللہ صحابہ ؓ ان لوگوں کی طرح ضد میں لڑنے والے نہ تھے ۔ کسی ایک صحابی ؓ کا بھی یہ عقیدہ نہ تھا کہ مردہ سنتا ہے اسی لئے عمر ؓ نے عرض کی کہ ایسے جسموں سے کلام کر رہے ہیں جس میں روح نہیں، قتادہ نے یہ سمجھا کہ شاید انہیں دوبارہ زندہ کرکے یہ سنوایا گیا ہے اور ابن عمر ؓ کے سامنے جب عائشہ ؓ نے قرآن کی آیات پیش کرکے اس تشریح فرمائی تو وہ بھی خاموش رہے۔
قرآن و حدیث کے ان سارے دلائل کا مدعا یہی ہے کہ مردہ نہیں سنتا۔