بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

إِنَّ الْحَمْدَ لِلَّهِ، نَحْمَدُهُ وَنَسْتَعِينُهُ، مَنْ يَهْدِهِ اللهُ فَلَا مُضِلَّ لَهُ، وَمَنْ يُضْلِلْ فَلَا هَادِيَ لَهُ، وَأَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ، وَأَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ، أَمَّا بَعْدُ

قُلْ اِنَّ صَلَاتِيْ وَ نُسُكِيْ وَ مَحْيَايَ وَ مَمَاتِيْ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَۙ )

[الأنعام: 162]

’’ کہدو کہ   بے شک میری صلواۃ ، میری قربانی ، میرا جینا اور مرنا ( سب ) اللہ رب العالمین ہی کے لئے ہے‘‘۔

          شرک کی ایک قسم اللہ تعالیٰ کے حقوق و اختیار  میں شرک کرنا ہے۔ یعنی جو حق اور اختیار اللہ تعالیٰ کا ہے وہ کسی اور کو دے دیا جائے۔کائنات میں موجود ہر مخلوق کو صرف اللہ تعالیٰ نے بنایا ہے  اور وہی ان سے کا رب یعنی پالنے والا ہے ۔ زندگی کا سارا ساماں صرف اسی نے ہی عطا کیا۔ مصیبت پریشانی ، بھوک افلاس، بیماری اور آزمائشوں سے وہی نکالتا ہے لیکن انسان دوسروں  کی شکرگزاری کرتے ہوئے اس کیساتھ شرک کرتا ہے ۔ اس آیت میں یہی بتایا گیا کہ  ایک انسان کی زندگی بھر کا  ہر ہرعمل صرف اللہ کے لئے ہے۔جو کچھ بھی وہ عبادات کرتا ہے وہ صرف اللہ تعالیٰ کے لئے ہوتی ہیں، جیسا کہ نبی ﷺ نے ہمیں تشہد میں بیٹھ کر پڑھنا سکھایا :

التَّحِيَّاتُ لِلَّهِ وَالصَّلَوَاتُ وَالطَّيِّبَاتُ

( بخاری، کتاب الاذان ، بَابُ التَّشَهُّدِ فِي الآخِرَةِ )

’’ اللہ ہی کے لئے ہیں میری قولی عبادتیں،میری جسمانی  و میری مالی عبادات ‘‘۔

           اس طرح ہم اپنے رب سے عہد کرتے ہیں کہ اے میرے  مالک پکاروں گا تو صرف تجھے، دعائیں  صرف تجھ سے ہوں گی۔زکواۃ ہو یا  صدقات ، قربانی ہو  یا دوسری مالی عبادتیں صرف ایک اللہ کے لئے ہوں گی کسی اور  کے نام کی  نذور ونیاز نہیں ہوگی۔میری صلاۃ، میرا  صوم، حج و عمرہ صرف تیرے لئے ہوگا۔

اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَ اِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُؕ (4)

 [الفاتحة: 4]

’’ ( اے اللہ )   ہم صرف تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ ہی سے مدد چاہتے ہیں ‘‘۔

بندگی بمعنیٰ غلامی ،کہ  ہم اللہ کے غلام ہیں۔ اپنی مرضی چلانے کا ہمیں کوئی حق نہیں بلکہ جو کام جس طرح بیان کیا گیا ہے اسی طرح  کیا جائے گا۔

اِنِ الْحُكْمُ اِلَّا لِلّٰهِ….. (57)

 [الأنعام: 57]

’’ بے شک حکم تو صرف اللہ ہی کا ہے ‘‘۔

یعنی قوانین زندگی جو اللہ  تعالیٰ نے مرتب فرما دئیے ہیں  لازم ہے کہ ان معاملات میں صرف اللہ کا حکم مانا جائے۔ اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی کا بنایا ہوا  دین ( طریقہ زندگی ) اپنا لینا شرک قرار دیا گیا ہے۔الغرض اللہ تعالیٰ کا یہ حق ہے کہ اب اس کے علاوہ  نہ کسی کو پکارا جائے،  نہ کسی سے دعا کی جائے، قربانی ہو یا نذر ونیاز صرف اللہ کے نام کی ہو۔طریقہ زندگی صرف وہی اپنایا جائے جو اللہ کی طرف سے نازل کردہ ہے۔ اب جب کسی نے اللہ کا حق اس کے کسی بندے کو دیا تو اس نے اسے اللہ کے اس حق و اختیار میں شریک کردیا۔اب ہم ان موضوعات کو تفصیلی بیان کرتے ہیں ۔

دعا اور پکار کا شرک :

نبی ﷺ نے فرمایا :

«إِنَّ الدُّعَاءَ هُوَ الْعِبَادَةُ» ثُمَّ قَرَأَ: {وَقَالَ رَبُّكُمُ ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ}

( سنن ابن ماجہ ،  کتاب الدعاء ، بَابُ فَضْلِ الدُّعَاءِ )

دعا ہی تو عبادت ہے، پھر یہ آیت پڑھی وَقَالَ رَبُّكُمُ ادْعُوْنِيْ اَسْتَجِبْ لَكُمْ اِنَّ الَّذِيْنَ يَسْتَكْبِرُوْنَ عَنْ عِبَادَتِيْ سَيَدْخُلُوْنَ جَهَنَّمَ دٰخِرِيْنَ  ۔( مومن : 60 )۔ اور تمہارے رب نے فرمایا مجھے پکارو، میں تمہاری دعا قبول کروں گا، بیشک جو لوگ میری عبادت سے سرکشی کرتے ہیں عنقریب وہ ذلیل ہو کر جہنم  میں داخل ہوں گے ۔

اس حدیث سے واضح ہوا کہ دعا ہی اصل عبادت ہے، جب یہ عبادت اللہ کے بجائے کسی دوسرےکے  لئے کی جائے گی تو شرک ہوگا۔ یعنی دعا اور پکار اللہ کا حق ہے کہ اسے غائبانہ پکارا جائے ،اس ہی سے مدد طلب کی جائے ، زندگی کی دوسری ضروریات  کے لئے بھی صرف اس ہی سو سوال کیا جائے۔

جیسا کہ اس حدیث میں ہے :

عن ابن عباس، قال: كنت خلف رسول الله صلى الله عليه وسلم يوما، فقال: «يا غلام إني أعلمك كلمات، احفظ الله يحفظك، احفظ الله تجده تجاهك، إذا سألت فاسأل الله، وإذا استعنت فاستعن بالله، واعلم أن الأمة لو اجتمعت على أن ينفعوك بشيء لم ينفعوك إلا بشيء قد كتبه الله لك، ولو اجتمعوا على أن يضروك بشيء لم يضروك إلا بشيء قد كتبه الله عليك، رفعت الأقلام وجفت الصحف»

( ترمذی،  أبواب صفة القيامة والرقائق والورع عن ﷺ)

’’ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں ایک دن رسول اللہ ﷺ کے ساتھ سواری پر پیچھے تھا، آپ نے فرمایا:’’اے لڑکے! میں تمہیں چنداہم باتیں بتلارہاہوں: تم اللہ کے احکام کی حفاظت کر و،وہ تمہاری حفاظت فرمائے گا، تو تم اللہ کے حقوق کا خیال رکھو اسے تم اپنے سامنے پاؤ گے، جب تم کوئی چیز مانگو توصرف اللہ سے مانگو، جب تو مدد چاہو توصرف اللہ سے مدد طلب کرو، اور یہ بات جان لو کہ اگر ساری امت بھی جمع ہوکرتمہیں کچھ نفع پہنچانا چاہے تو وہ تمہیں اس سے زیادہ کچھ بھی نفع نہیں پہنچا سکتی جو اللہ نے تمہارے لیے لکھ دیا ہے، اور اگر وہ تمہیں کچھ نقصان پہنچانے کے لئے جمع ہوجائے تو اس سے زیادہ کچھ نقصان نہیں پہنچاسکتی جو اللہ نے تمہارے لئے لکھ دیا ہے، قلم اٹھالیے گئے اور (تقدیر کے)صحیفے خشک ہوگئے ہیں ‘‘۔

لیکن آج یہ امت قبروں پر جھکی پڑی ہے ، قبروں میں  مدفون فوت شدہ شخصیات کو پکارا جارہا ہے، ان سے دعائیں کی جا رہی ہیں، سوال ان سے کیا جا رہا ہے۔سورہ احقاف میں   اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :

وَ مَنْ اَضَلُّ مِمَّنْ يَّدْعُوْا مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ مَنْ لَّا يَسْتَجِيْبُ لَهٗۤ اِلٰى يَوْمِ الْقِيٰمَةِ وَ هُمْ عَنْ دُعَآىِٕهِمْ غٰفِلُوْنَ (5) وَ اِذَا حُشِرَ النَّاسُ كَانُوْا لَهُمْ اَعْدَآءً وَّ كَانُوْا بِعِبَادَتِهِمْ كٰفِرِيْنَ (6)

[الأحقاف: 5-6]

’’ اور اس سے بڑھ کر گمراہ کون ہوگا جو اللہ کے علاوہ ایسوں کو پکارے جو قیامت تک اس کی پکار نہیں سن سکتے، اور وہ ان کی دعاؤں سے بے خبر ہیں اور جب ( قیامت کے دن ) انسانوں کو جمع کیا جائے گا تو وہ  ان کی عبادت کا انکار کردیں گے۔‘‘

 اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں اللہ کے علاوہ  دوسروں کو پکارنے یا ان سے دعا کرنے کو ان کی عبادت قرار دیا اور بتایا کہ قیامت کے دن یہ افراد جنہیں آج یہ لوگ پکار رہے ہیں وہ اس کا انکار کر دیں گے  کیونکہ وہ ان کی ان پکار و دعاؤں سے بے خبر ہیں۔

سورہ فاطر میں فرمایا:

اِنْ تَدْعُوْهُمْ لَا يَسْمَعُوْا دُعَآءَكُمْ١ۚ وَ لَوْ سَمِعُوْا مَا اسْتَجَابُوْا لَكُمْ١ؕ وَ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ يَكْفُرُوْنَ بِشِرْكِكُمْ١ؕ وَ لَا يُنَبِّئُكَ مِثْلُ خَبِيْرٍؒ (14)

[فاطر: 14]

’’اگر تم  انہیں پکارو (تو) وہ تمہاری پکار نہیں سن سکتے اور اگر (بالفرض) وہ سُن بھی لیں (تو) وہ تمہیں  جواب نہیں دے سکتے اور قیامت کے دن وہ انکار کردیں گے تمہارے اس شرک کا اور نہیں (کوئی) خبر دے  سکتا تمہیں ایک پوری طرح  خبر رکھنے والے (اللہ) کی مانند ‘‘۔

واضح ہوا کہ اللہ  تعالیٰ کے علاوہ کسی اور کو پکارنا اور دعائیں کرنا اس کی عبادت اور اللہ کے حقوق میں شرک ہے۔ سورہ یونس میں فرمایا :

وَ لَا تَدْعُ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ مَا لَا يَنْفَعُكَ وَ لَا يَضُرُّكَ١ۚ فَاِنْ فَعَلْتَ فَاِنَّكَ اِذًا مِّنَ الظّٰلِمِيْنَ (106)

[يونس: 106]

’’ اورمت پکارو اللہ کے علاوہ ایسوں کو جو نہ تمہیں فائدہ دے سکتے ہوں اور نہ ہی کوئی نقصان ، اگر تم نے ایسا کیا تو تم ظالموں ( مشرکوں ) میں سے ہو جاؤ گے ‘‘۔

قُلْ اِنَّمَاۤ اَدْعُوْا رَبِّيْ وَ لَاۤ اُشْرِكُ بِهٖۤ اَحَدًا (20)

[الجن: 20]

’’ کہدو کہ میں تو اپنے رب ہی کو پکارتا ہوں ، اس کیساتھ کسی کو شریک نہیں کرتا ‘‘۔

 واضح ہوا کہ اللہ کے علاوہ کسی اور کو پکارنا ، اس سے دعائیں کرنا  اللہ کے حق میں شرک ہے، نبی ﷺ نے فرمایا:

مَنْ مَاتَ وَهْوَ يَدْعُو مِنْ دُونِ اللَّهِ نِدًّا دَخَلَ النَّارَ

( بخاری ،  کتاب التفسیر ا؛قرآن ، بَابُ قَوْلِهِ: {وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَتَّخِذُ مِنْ دُونِ اللَّهِ أَنْدَادًا يُحِبُّونَهُمْ كَحُبِّ اللَّهِ} )

 ‘‘ جو مرا اس حال میں کہ وہ پکارتا تھا اللہ کے علاوہ اس کےمدمقابل  کو، جہنم میں داخل ہوگا ‘‘۔

اولادیں دینے والا صرف اللہ :

اللہ تعالیٰ کے علاوہ اس کائنات میں اور کوئی اختیار نہیں رکھتا کہ وہ کسی کو ضروریات زندگی میں سے کچھ دے سکے، یا اسے کسی بھی قسم کا نفع یا نقصان ہی پہنچا سکے۔ جبکہ لوگ کہیں محمد ﷺ  کو پکارتےہوئے کہتے ہیں :

’’ بھر دو جھولی میری یا محمدؐ، لوٹ کے میں نہ جاؤں گا خالی ‘‘

 اور کہیں نعرہ لگاتے ہیں :

’’ بابا شاہ جمال، پتر دے رتہ لال ‘‘

یہ سب کس کا بتایا ہوا طریقہ ہے ۔ کائنات میں اللہ تعالیٰ نے کس کو یہ اختیار دیا ہے کہ وہ کسی کو اولاد سے نواز سکے ؟ مالک فرماتا ہے:

لِلّٰهِ مُلْكُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ١ؕ يَخْلُقُ مَا يَشَآءُ١ؕ يَهَبُ لِمَنْ يَّشَآءُ اِنَاثًا وَّ يَهَبُ لِمَنْ يَّشَآءُ الذُّكُوْرَۙ(49) اَوْ يُزَوِّجُهُمْ ذُكْرَانًا وَّ اِنَاثًا١ۚ وَ يَجْعَلُ مَنْ يَّشَآءُ عَقِيْمًا١ؕ اِنَّهٗ عَلِيْمٌ قَدِيْرٌ (50)

[الشورى: 49-50]

’’ اللہ ہی کے لئے ہے آسمانوں اور زمین کی بادشاہی، جو چاہے پیدا کرتا ہے، جسے چاہے بیٹیاں دیتا اور جسے چاہے بیٹے دیتا ہے۔ اور جسے چاہے ملا جلا کر دیتا ہے اور جسے چاہے بانجھ کردیتا ہے ، بے شک وہ ہے  جاننے اور قدرت والا ‘‘۔

قسمتیں کھری کرنے والا صرف ایک اللہ :

قسمت  ( تقدیر ) اللہ تعالیٰ نے بنائی اور نبی ﷺ نے  ایک صحابی ؓ کے سوال پر فرمایا :

لَا بَلْ فِيمَا جَفَّتْ بِهِ الْأَقْلَامُ وَجَرَتْ بِهِ الْمَقَادِيرُ

( مسلم ، کتاب القدر ،  بَابُ كَيْفِيَّةِ خَلْقِ الْآدَمِيِّ فِي بَطْنِ أُمِّهِ وَكِتَابَةِ رِزْقِهِ وَأَجَلِهِ وَعَمَلِهِ وَشَقَاوَتِهِ وَسَعَادَتِهِ )

’’ نہیں بلکہ ان سے متعلق ہیں جنہیں لکھ کر قلم خشک ہوچکے ہیں اور تقدیر جاری ہوچکی ہے‘‘۔

نبی ﷺ نے فرمایا :

إِنَّ أَحَدَكُمْ يُجْمَعُ خَلْقُهُ فِي بَطْنِ أُمِّهِ أَرْبَعِينَ يَوْمًا، ثُمَّ يَكُونُ عَلَقَةً مِثْلَ ذَلِكَ، ثُمَّ يَكُونُ مُضْغَةً مِثْلَ ذَلِكَ، ثُمَّ يَبْعَثُ اللَّهُ مَلَكًا فَيُؤْمَرُ بِأَرْبَعِ كَلِمَاتٍ، وَيُقَالُ لَهُ: اكْتُبْ عَمَلَهُ، وَرِزْقَهُ، وَأَجَلَهُ، وَشَقِيٌّ أَوْ سَعِيدٌ، ثُمَّ يُنْفَخُ فِيهِ الرُّوحُ، فَإِنَّ الرَّجُلَ مِنْكُمْ لَيَعْمَلُ حَتَّى مَا يَكُونُ بَيْنَهُ وَبَيْنَ الجَنَّةِ إِلَّا ذِرَاعٌ، فَيَسْبِقُ عَلَيْهِ كِتَابُهُ، فَيَعْمَلُ بِعَمَلِ أَهْلِ النَّارِ، وَيَعْمَلُ حَتَّى مَا يَكُونُ بَيْنَهُ وَبَيْنَ النَّارِ إِلَّا ذِرَاعٌ، فَيَسْبِقُ عَلَيْهِ الكِتَابُ، فَيَعْمَلُ بِعَمَلِ أَهْلِ الجَنَّةِ “

( بخاری، بداء الخلق، بَابُ ذِكْرِ المَلاَئِكَةِ )

’’ کہ تم میں سے ہر ایک کی پیدائش ماں کے پیٹ میں پوری کی جاتی ہے چالیس دن تک (نطفہ رہتا ہے) پھر اتنے ہی دنوں تک مضغہ گوشت رہتا ہے پھر اللہ تعالیٰ ایک فرشتہ کو چار باتوں کا حکم دے کر بھیجتا ہے اور اس سے کہا جاتا ہے کہ اس کا عمل اس کا رزق اور اس کی عمر لکھ دے اور یہ (بھی لکھ دے) کہ وہ بد بخت (جہنمی) ہے یا نیک بخت (جنتی) پھر اس میں روح پھونک دی جاتی ہے بیشک تم میں سے ایک آدمی ایسے عمل کرتا ہے کہ اس کے اور جنت کے درمیان (صرف) ایک گز کا فاصلہ رہ جاتا ہے کہ اس کا نوشتہ (تقدیر) غالب آجاتا ہے اور وہ دوزخیوں کے عمل کرنے لگتا ہے اور (ایک آدمی) ایسے عمل کرتا ہے کہ اس کے اور دوزخ کے درمیان (صرف) ایک گز کا فاصلہ رہ جاتا ہے کہ اتنے میں تقدیر (الٰہی) اس پر غالب آجاتی ہے اور وہ اہل جنت کے کام کرنے لگتا ہے‘‘۔

 بتایا گیا کہ تقدیر لکھنے والا قلم خشک ہوگیا ہے  یعنی اب تقدیر میں ردوبدل نہیں ہوگا،  اس کا عمل بھی لکھ دیا جاتا ہے اور ساری زندگی میں اسے کیا کیا ملے گا وہ بھی لکھ دیا جاتا ہے، یہاں تک مرنے کے بعد جنت میں جائے گا یا جہنم میں یہ سب لکھ دیا جاتا ہے  لیکن یہ قرآن و حدیث سے  دور رہنے والا یہ  کلمہ گو نعرہ لگاتے ہیں :

’’ امام بری ، امام بری میری قسمت کرو کھری ‘‘۔

سوچیں کہ اس کا سب کچھ تو اللہ نے لکھ ہی دیا تو پھر  کس نے امام بری کو یہ اختیار دیا ہے کہ وہ لوگوں کی قسمتیں کھری کرے؟ مومن  تو ہر حالت میں اللہ تعالیٰ پر توکل کرنے والا ہوتا ہے اور اس کا یقین ہوتا ہے کہ جو کچھ میرے رب نے میرے لئے لکھ دیا ہے وہی مجھے ملے گا :

قُلْ لَّنْ يُّصِيْبَنَاۤ اِلَّا مَا كَتَبَ اللّٰهُ لَنَا١ۚ هُوَ مَوْلٰىنَا١ۚ وَ عَلَى اللّٰهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُوْنَ (51)

 [التو]بة: 51]

‘‘ کہدو کہ نہیں پہنچے گا ہمیں کوئی نقصان  مگر جو لکھ دیا ہے اللہ نے ہمارے لئے اور مومن تو اللہ ہی پر توکل کرتے ہیں ‘‘۔

اس کائنات میں کوئی ایسا نہیں کہ اللہ تعالیٰ کے لکھے کو رد کرسکے اور  نہ ہی کوئی کسی کو اللہ کے لکھے سے بچا سکتا ہے۔

قُلْ مَنْ ذَا الَّذِيْ يَعْصِمُكُمْ مِّنَ اللّٰهِ اِنْ اَرَادَ بِكُمْ سُوْٓءًا اَوْ اَرَادَ بِكُمْ رَحْمَةً١ؕ وَ لَا يَجِدُوْنَ لَهُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ وَلِيًّا وَّ لَا نَصِيْرًا (17)

[الأحزاب: 17]

’’  کہدو کہ کون ہے جو بچائے گا تمہیں  اللہ سے اگر وہ ارادہ کرے  تمہارے ساتھ برائی کا  یا وہ ارادہ کرے تمہارے ساتھ اچھائی کا ، یہ لوگ نہیں پا سکتے اللہ کے علاوہ کوئی مددگار ‘‘۔

افسوس کے گمراہی کا شکار یہ کلمہ گو نعرہ لگاتا ہے :

اللہ پکڑے تو چھڑائے محمد ؐ ، محمد ؐ کی پکڑ سے کوئی چھڑا نہ سکے۔

مشکل کشا اور غوث الاعظم کون ؟

پوری کائنات کی مخلوق کو اللہ تعالیٰ نے بنایا، وہ صبح شام اس ہی کی تسبیح بیان کرتے ہیں، جب کسی کو کوئی تکلیف ہوتی ہے تو وہ اللہ ہی کو پکارتا ہے اور اللہ ہی اس کی پکار کو سنتا اور اس کی مشکل دور کرتا ہے۔ لیکن یہ کلمہ گواللہ  کے ایک وفات شدہ  ولی  یعنی علیؓ                    کو ’’مشکل کشا‘‘ ( مشکلات کو دور کرنے والا ) اور دوسرے وفات شدہ بندے عبد القادر جیلانی کو ’’ غوث الاعظم ‘‘ ( کائنات کا سب سے بڑا پکاریں سننے والا، مدد کرنے والا ) سمجھتی ہے۔

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :

وَ اِنْ يَّمْسَسْكَ اللّٰهُ بِضُرٍّ فَلَا كَاشِفَ لَهٗۤ اِلَّا هُوَ١ۚ وَ اِنْ يُّرِدْكَ بِخَيْرٍ فَلَا رَآدَّ لِفَضْلِهٖ١ؕ يُصِيْبُ بِهٖ مَنْ يَّشَآءُ مِنْ عِبَادِهٖ١ؕ وَ هُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِيْمُ (107)

[يونس: 107]

’’ اور اگر اللہ تمہیں کسی مصیبت میں ڈالے تو کوئی  اسے دور کرنے والا نہیں سوائے اس( اللہ ) کے، اور اگر  وہ ارادہ کرے تمہارے ساتھ بھلائی کا تو کوئی اس کے فضل سے روکنے والا نہیں ، اپنے بندوں میں سے جس چاہے  نوازتا ہے  اور وہ بخشنے اور رحم فرمانے والا ہے‘‘۔

اَمَّنْ يُّجِيْبُ الْمُضْطَرَّ اِذَا دَعَاهُ وَ يَكْشِفُ السُّوْٓءَ وَ يَجْعَلُكُمْ خُلَفَآءَ الْاَرْضِ١ؕ ءَاِلٰهٌ مَّعَ اللّٰهِ١ؕ قَلِيْلًا مَّا تَذَكَّرُوْنَؕ (62)

[النمل: 62]

’’بھلا کون بے قرار کی التجا قبول کرتا ہے۔ جب وہ اس سے دعا کرتا ہے اور (کون اس کی) تکلیف کو دور کرتا ہے اور (کون) تم کو زمین میں (اگلوں کا) جانشین بناتا ہے (یہ سب کچھ اللہ کرتا ہے) تو کیا اللہ کے ساتھ کوئی اور معبود بھی ہے؟ (ہرگز نہیں مگر) تم بہت کم غور کرتے ہو‘‘۔

سوچیں اللہ کے علاوہ کوئی ایسا ہے جو  کسی مظلوم، محتاج ، بیمار، مفلوج یا گونگے کی سن سکتا ہو۔ وہ رب تو انسان کی شہ رگ سے زیادہ قریب اور دلوں کا حال جاننے والا ہے۔ اس کے بعد ان  فوت شدہ بندوں کو اللہ کا یہ حق اور اختیار دے دیا جائے ، کیا یہ بدترین شرک نہیں؟

داتا اور گنج بخش :

الوہاب ( دینے والا ) ، یہ اللہ کی صفت ہے۔ یاد رہے کہ کائنات کی  ہر ہر مخلوق کو اس کے علاوہ کوئی کچھ نہیں دیتا، لیکن افسوس لاہور میں مدفون اللہ کے ایک فوت شدہ بندے کو ’’ داتا ‘‘ ( دینے والا ) کہا اور سمجھا جاتا ہے اور ان کے متعلق یہ بھی گمان ہے کہ یہ ’’ گنج بخش ‘‘( خزانے بخشنے والا ) ہیں۔

اَمَّنْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ وَ اَنْزَلَ لَكُمْ مِّنَ السَّمَآءِ مَآءً١ۚ فَاَنْۢبَتْنَا بِهٖ حَدَآىِٕقَ ذَاتَ بَهْجَةٍ١ۚ مَا كَانَ لَكُمْ اَنْ تُنْۢبِتُوْا شَجَرَهَا١ؕ ءَاِلٰهٌ مَّعَ اللّٰهِ١ؕ بَلْ هُمْ قَوْمٌ يَّعْدِلُوْنَؕ (60)

[النمل: 60]

’’بھلا کس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا اور (کس نے) تمہارے لئے آسمان سے پانی برسایا۔ (ہم نے) پھر ہم ہی نے اس سے سرسبز باغ اگائے۔ تمہارا کام تو نہ تھا کہ تم ان کے درختوں کو اگاتے۔ تو کیا اللہ کے ساتھ کوئی اور بھی الٰہ ہے‘‘۔

اَمَّنْ جَعَلَ الْاَرْضَ قَرَارًا وَّ جَعَلَ خِلٰلَهَاۤ اَنْهٰرًا وَّ جَعَلَ لَهَا رَوَاسِيَ وَ جَعَلَ بَيْنَ الْبَحْرَيْنِ حَاجِزًا١ؕ ءَاِلٰهٌ مَّعَ اللّٰهِ١ؕ بَلْ اَكْثَرُهُمْ لَا يَعْلَمُوْنَؕ (61)

 [النمل: 61]

’’بھلا کس نے زمین کو قرار گاہ بنایا اور اس کے بیچ نہریں بنائیں اور اس کے لئے پہاڑ بنائے اور (کس نے) دو دریاؤں کے بیچ اوٹ بنائی (یہ سب کچھ اللہ نے بنایا) تو کیا اللہ کے ساتھ کوئی اورالٰہ بھی ہے؟ (ہرگز نہیں) بلکہ ان میں اکثرلوگ جانتے ہی نہیں‘‘۔

يٰۤاَيُّهَا النَّاسُ اذْكُرُوْا نِعْمَتَ اللّٰهِ عَلَيْكُمْ١ؕ هَلْ مِنْ خَالِقٍ غَيْرُ اللّٰهِ يَرْزُقُكُمْ مِّنَ السَّمَآءِ وَ الْاَرْضِ١ؕ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ١ۖٞ فَاَنّٰى تُؤْفَكُوْنَ (3)

[فاطر: 3]

 ’’ اے انسانو ! یاد کرو اللہ کی نعمتوں کو جو اللہ نے  تم پر کی ہیں، کیا اللہ کے علاوہ کوئی ایسا خالق بھی ہے جو تمہیں آسمانوں اور زمین سے رزق دیتا ہو، کوئی نہیں ہے الٰہ سوائے اس کے، پھر کہاں سے دھوکہ کھاتے ہو ‘‘۔

وَ اٰتٰىكُمْ مِّنْ كُلِّ مَا سَاَلْتُمُوْهُ١ؕ وَ اِنْ تَعُدُّوْا نِعْمَتَ اللّٰهِ لَا تُحْصُوْهَا١ؕ اِنَّ الْاِنْسَانَ لَظَلُوْمٌ كَفَّارٌؒ(34)

 [إبراهيم: 34]

 ’’ اور اس نے عطا فرمائی ہر وہ چیز جو تم نے  اس سے مانگی اور اگر تم اللہ کی نعمتوں کوگنناچاہو تو کبھی شمار نہیں کرسکو گے، بے شک انسان  بڑا ظالم نا شکرا ہے ‘‘۔

 یہ آیات پڑھ لیں ، کیا اللہ کے علاوہ اور بھی کوئی دینے والا ہے ؟ پھر علی ہجویری کو داتا کیسے مان لیا گیا۔  صرف داتا ہی نہیں بلکہ انہیں گنج بخش بھی کہا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :

ؕ وَ لِلّٰهِ خَزَآىِٕنُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ لٰكِنَّ الْمُنٰفِقِيْنَ لَا يَفْقَهُوْنَ (7)

[المنافقون: 7]

’’اور  اللہ ہی مالک ہے زمین اور آسمانوں کے خزانوں کا لیکن یہ منافق نہیں سمجھتے۔ ‘‘

لَهٗ مَقَالِيْدُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ١ۚ يَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ يَّشَآءُ وَ يَقْدِرُ١ؕ اِنَّهٗ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيْمٌ (12)

 [الشورى: 12]

’’اسی کے پاس ہیں کنجیاں آسمانوں اور زمین (کے خزانوں) کی کھول دیتا ہے وہ رزق جس کے لیے چاہے اور نپا تلا دیتا ہے (جسے چاہے) ۔ بلاشبہ وہ ہر چیز کا علم رکھتا ہے۔ ‘‘

وَ اِنْ مِّنْ شَيْءٍ اِلَّا عِنْدَنَا خَزَآىِٕنُهٗ١ٞ وَ مَا نُنَزِّلُهٗۤ اِلَّا بِقَدَرٍ مَّعْلُوْمٍ (21)

[الحجر: 21]

’’اور نہیں کوئی چیز (کائنات میں) مگر ہیں ہمارے پاس اس کے خزانے  ہیں اور نہیں نازل کرتے ہم اسے مگر ایک مقرر مقدار میں‘‘۔

قُلْ لَّوْ اَنْتُمْ تَمْلِكُوْنَ خَزَآىِٕنَ رَحْمَةِ رَبِّيْۤ اِذًا لَّاَمْسَكْتُمْ خَشْيَةَ الْاِنْفَاقِ١ؕ وَ كَانَ الْاِنْسَانُ قَتُوْرًاؒ (100)

 [الإسراء: 100]

’’ان سے کہہ دیجیے اگر تم مالک ہوتے میرے رب کی رحمت کے خزانوں کے تو پھر ضرور روک لیتے تم انھیں خرچ ہونے کے ڈر سے۔ اور انسان تو بڑا ہی بخیل ہے ‘‘۔

اَمْ عِنْدَهُمْ خَزَآىِٕنُ رَحْمَةِ رَبِّكَ الْعَزِيْزِ الْوَهَّابِۚ (9)

 [ص: 9]

’’کیا ہیں ان کے پاس خزانے تیرے رب کی رحمت کے ،جو ہے زبردست اور بہت زیادہ عطا کرنے والا ؟‘‘

اللہ تعالیٰ نے  واضح کردیا کہ اس  نے کسی کو  خزانوں کا مالک نہیں بنایا بلکہ یہ اس کا اپنا اختیار  ہے کہ جتنا چاہے نازل فرمائے اور یہ بھی اس کا اپنا اختیار ہے کہ جس کو جتنا چاہے زیادہ  دے اورجس کو چاہے تو  کم دے اور جسے چاہے نہ دے۔لہذا وہ  ہی خزانوں کا مالک اور وہی خزانے بخشنے والا ہے اس کے علاوہ اس پوری کائنات میں کسی اور متعلق یہ عقیدہ رکھنا کہ وہ خزانے بخشنے والا ہے  یقیناً شرک ہے۔

          ان سارے دلائل سے ثابت ہوا کہ ’’ داتا ‘‘ ( دینے والا ) ، ’’ گنج بخش ‘‘ ( خزانے بخشنےوالا) ، ’’ مشکل کشا ‘‘ ( مشکلات دور کرنے والا )، ‘‘ غوث الاعظم ‘‘ ( کائنات کا سب سے بڑا پکاریں سننے والا، مدد کرنے والا )،’’ غریب نواز ‘‘ غریبوں کو نوازنے والا، صرف ایک اللہ تعالیٰ کی ذات ہے۔ اسی طرح اولادیں دینے والا، قسمتیں کھری کرنے والا،’’لجپال‘‘ ( عزت دینے والا ) بھی صرف ایک اللہ تعالیٰ کی ذات ہے۔

          یاد رہے کہ یہ سا رے القابات انسانوں کے اپنے گھڑے ہوئے ہیں اللہ تعالیٰ نے قرآن و حدیث میں کسی  کو ایسے اختیارات کا حامل نہیں بیان فرمایا :

قُلْ اَرَءَيْتُمْ شُرَكَآءَكُمُ الَّذِيْنَ تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ١ؕ اَرُوْنِيْ مَا ذَا خَلَقُوْا مِنَ الْاَرْضِ اَمْ لَهُمْ شِرْكٌ فِي السَّمٰوٰتِ١ۚ اَمْ اٰتَيْنٰهُمْ كِتٰبًا فَهُمْ عَلٰى بَيِّنَتٍ مِّنْهُ١ۚ بَلْ اِنْ يَّعِدُ الظّٰلِمُوْنَ بَعْضُهُمْ بَعْضًا اِلَّا غُرُوْرًا (40)

[فاطر: 40] 

’’ ( ان سے ) کہو، کیا تم نے دیکھا ہےاپنے ان شریکوں کو جنہیں تم پکارتے ہو اللہ کے علاوہ، مجھے دکھاؤ انہوں نے زمین میں  کیا پیدا کیا ہے،یا ان کی آسمانوں میں کوئی شراکت داری ہے، کیا ہم نے انہیں کوئی تحریر دے دی ہے کہ جس پر یہ قائم ہیں، بلکہ  یہ ظالم ایک دوسرے کوجھوٹ کے علاوہ کوئی  وعدہ نہیں  دیتے ‘‘۔

بتایا کہ کیا اللہ تعالیٰ نے قرآن و حدیث کے ذریعے انہیں بتادیا ہے کہ فلاں داتا ہے اور فلاں مشکل کشا۔پھر وہ کونسی بنیاد ہے کہ جس کی وجہ سے یہ ان فوت شدہ شخصیات کو ان القابات سے پکارتے ہیں۔ سورہ یوسف میں اللہ تعالیٰ نے فرما یا:

مَا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِهٖۤ اِلَّاۤ اَسْمَآءً سَمَّيْتُمُوْهَاۤ اَنْتُمْ وَ اٰبَآؤُكُمْ مَّاۤ اَنْزَلَ اللّٰهُ بِهَا مِنْ سُلْطٰنٍ١ؕ اِنِ الْحُكْمُ اِلَّا لِلّٰهِ١ؕ اَمَرَ اَلَّا تَعْبُدُوْۤا اِلَّاۤ اِيَّاهُ١ؕ ذٰلِكَ الدِّيْنُ الْقَيِّمُ وَ لٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُوْنَ (40)

 [يوسف: 40]

’’ جنہیں تم پکارتے ہو اس ( اللہ ) علاوہ، وہ کچھ نہیں ہیں مگر کچھ نام جو تم اور تمہارے باپ دادا نے گھڑ لئے ہیں، اللہ نے ان کے بارے میں کوئی دلیل نہیں نازل کی،( سن لو )  حکم ( اختیار ) صرف اللہ کا ہے اور  اس نے حکم دیا ہے کہ بندگی کسی کی نہ کرو سوائے اس ( اللہ ) کے، یہی  سیدھا دین ہے لیکن انسانوں کی اکثریت نہیں جانتی‘‘۔

یعنی اللہ تعالیٰ نے تو اس بارے میں کوئی دلیل نازل نہیں فرمائی کہ فلاں ’’ غریب نواز ‘‘ ہے یا فلاں ’’ غوث الاعظم ‘‘، یہ تو تم نے خود اور تمہارے باپ دادا کے بنائے ہوئے خود ساختہ نام ہیں۔ اس آیت میں اس بات کو بھی واضح کردیا کہ اللہ کے علاوہ بندگی ( عبادت ) کسی کی نہیں ہوگی یعنی کوئی بھی اللہ کی صفات کا حامل نہیں سمجھا جائے گا، دعائیں اور پکاریں، نذر ونیاز، الغرض کسی بھی قسم کی  زبانی، بدنی اور مالی عبادات کسی اور کے لئے نہیں ہوں گی۔

شکرگزاری میں شرک :

جیسا کہ ہر انسان جانتا ہے کہ تمام تر نعمتیں دینے والی صرف ایک اللہ کی ذات ہے۔ کسی مسلم سے یہ بات کہی جائے کہ ہندو بت کے سامنے کھڑے ہو کر بیٹے کا سوال کرتا ہے اور اسے بیٹا مل بھی جاتا ہے تو بتائیں یہ بیٹا اللہ نے دیا یا اس بت نے دیا ؟ سب ایک ہی جواب دیتے ہیں کہ ’’ اللہ نے دیا ‘‘، لیکن وہ ہندو یہ عقیدہ رکھتا ہے کہ بت کیوجہ سے ملا اس لئےوہ جاکر اس بت کا شکرادا کرتا ہے۔ یہی حال اس کلمہ گو قوم کا ہے قبر پر جاکر یا پیر صاحب سے دعائیں کرا کر بیٹا طلب کرتے ہیں، اور جب بیٹا مل جاتا ہے تو جاکر اس کا شکریہ ادا کرتے ہیں، قبروں پر چادر چڑھاتے ہیں اور پھر اس کا نام’’ پیران دتہ ‘‘،’’ غوث دتہ ‘‘ رسول دتہ ‘‘ رکھ دیتے ہیں۔ یہ مشرکین کا طریقہ کار ہے، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :

هُوَ الَّذِيْ خَلَقَكُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَةٍ وَّ جَعَلَ مِنْهَا زَوْجَهَا لِيَسْكُنَ اِلَيْهَا١ۚ فَلَمَّا تَغَشّٰىهَا حَمَلَتْ حَمْلًا خَفِيْفًا فَمَرَّتْ بِهٖ١ۚ فَلَمَّاۤ اَثْقَلَتْ دَّعَوَا اللّٰهَ رَبَّهُمَا لَىِٕنْ اٰتَيْتَنَا صَالِحًا لَّنَكُوْنَنَّ مِنَ الشّٰكِرِيْنَ (189) فَلَمَّاۤ اٰتٰىهُمَا صَالِحًا جَعَلَا لَهٗ شُرَكَآءَ فِيْمَاۤ اٰتٰىهُمَا١ۚ فَتَعٰلَى اللّٰهُ عَمَّا يُشْرِكُوْنَ (190)

 [الأعراف: 189-190]

’’وہی تو ہے جس نے پیدا کیا تم کو ایک جان سے اور بنایا اسی میں سے اس کا جوڑا تاکہ سکون حاصل کرے وہ اس کے پاس۔ پھر جب ڈھانک لیا مرد نے عورت کو تو اٹھا لیا اس نے ہلکا سا بوجھ پھر وہ لیے پھری اسے پھر جب وہ بوجھل ہوگئی تو دونوں نے دعا کی اللہ سے جو ان کا رب ہے کہ اگر عطا فرمائے تو ہمیں اچھّا اور سالم بچّہ تو ضرور ہوں گے ہم تیرے شکر گزار۔ پھر جب دیا اللہ نے ان دونوں کو صحیح وسالم بچّہ تو ٹھہرانے لگے وہ اللہ کے شریک (دوسروں کو) اس نعمت میں جو عطا کی تھی ان کو اللہ نے پس بلندو برتر ہے اللہ کی ذات ان سے جن کو یہ اس کا شریک ٹھہراتے ہیں‘‘۔

قُلْ مَنْ يُّنَجِّيْكُمْ مِّنْ ظُلُمٰتِ الْبَرِّ وَ الْبَحْرِ تَدْعُوْنَهٗ تَضَرُّعًا وَّ خُفْيَةً١ۚ لَىِٕنْ اَنْجٰىنَا مِنْ هٰذِهٖ لَنَكُوْنَنَّ مِنَ الشّٰكِرِيْنَ (63) قُلِ اللّٰهُ يُنَجِّيْكُمْ مِّنْهَا وَ مِنْ كُلِّ كَرْبٍ ثُمَّ اَنْتُمْ تُشْرِكُوْنَ (64)

[الأنعام: 63-64]

پوچھو (ان سے) ! کون بچاتا ہے تم کو صحرا اور سمندر کی تاریکیوں  سے جب تم پکارتے ہو اس کو گڑ گڑا کر اور چپکے چپکے کہ اگر بچالے وہ ہم کو، اس بلا سے تو ہم ضرور ہوں گے شکر گزار۔ کہہ دو ! اللہ ہی نجات دیتا ہے تم کو اس سے اور ہر تکلیف سے پھر بھی تم شرک کرتے ہو۔

وَ مَا بِكُمْ مِّنْ نِّعْمَةٍ فَمِنَ اللّٰهِ ثُمَّ اِذَا مَسَّكُمُ الضُّرُّ فَاِلَيْهِ تَجْـَٔرُوْنَۚ (53) ثُمَّ اِذَا كَشَفَ الضُّرَّ عَنْكُمْ اِذَا فَرِيْقٌ مِّنْكُمْ بِرَبِّهِمْ يُشْرِكُوْنَۙ (54)

 [النحل: 53-54]

’’اور جو تمہیں حاصل ہےہر  قسم کی نعمت سو وہ اللہ ہی کی عطا کردہ ہے پھر جب پہنچتی ہے تمہیں تکلیف تو اسی کے آگے فریاد کرتے ہو۔ پھر جب دور کرتا ہے وہ تکلیف تم سے تو یکایک ایک گروہ تم میں سے اپنے رب کے ساتھ شرک کرنے لگتا ہے‘‘۔

یاد رکھیں سب کچھ اسی ایک رب نے دیا ہے اس لئے کسی اور کی شکر گزاری ہر گز نہیں ہونا چاہئیے، سورہ بقرہ میں مالک فرماتا ہے:

يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا كُلُوْا مِنْ طَيِّبٰتِ مَا رَزَقْنٰكُمْ وَ اشْكُرُوْا لِلّٰهِ اِنْ كُنْتُمْ اِيَّاهُ تَعْبُدُوْنَ (172)

 [البقرة: 172]

’’اے ایمان والو، ہم نے جو پاکیزہ اشیاء تمہیں دی ہیں انہیں کھاؤ اور اللہ کا شکر کرو اگر تم صرف اسی کی عبادت کرتے ہو‘‘۔

بتایا کہ اگر تم اللہ ہی کی عبادت کرتے ہو تو تمام نعمتوں کے ملنے پر شکر بھی صرف اللہ کا ادا کرو، گویا جو کسی دوسرے کا شکر ادا کرتا ہے تو وہ اس کی عبادت کر رہا ہوتا ہے۔ اللہ کے علاوہ کس اور کے نام پر دی جانے والی کوئی بھی چیز اللہ تعالیٰ کو اس قدر ناپسند ہے کہ اس نے مومنوں پر اسے حرام کردیا  اور قرآن مجید میں چار جگہ اس کا ذکر فرمایا۔

اِنَّمَا حَرَّمَ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةَ وَ الدَّمَ وَ لَحْمَ الْخِنْزِيْرِ وَ مَاۤ اُهِلَّ بِهٖ لِغَيْرِ اللّٰهِ١ۚ فَمَنِ اضْطُرَّ غَيْرَ بَاغٍ وَّ لَا عَادٍ فَلَاۤ اِثْمَ عَلَيْهِ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ (173)

 [البقرة: 173]

’’ اس نے حرام کیا تم پر مردار، ( بہتا ہوا ) خون، سور کا گوشت اور ہر وہ چیز جو غیر اللہ سے منسوب کردی گئی ہو، البتہ جو شخص محض مجبوری میں ، بغاوت و نافرمانی میں نہیں، اس میں سے کھا لے تو اس پر کوئی گناہ نہیں، یقینا ً اللہ تعالیٰ بہت ہی معاف کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے‘‘۔

 غیر اللہ سے مراد ، اللہ تعالیٰ کے علاوہ۔ یعنی اللہ کے علاوہ کوئی بھی انسان، جن  یا فرشتہ۔ جیسا کہ آجکل یہ کلمہ گو 12 ربیع الاول کو  نبی ﷺ  کا یوم پیدائش مناتے اور ان کے نام کی نذر و نیاز کرتے ہیں۔ حسین ؓ کے نام کی سبیلیں لگائی جاتی ہیں اور علیٰ ؓ کے نام کا کھچڑا بنایا جاتا ہے۔ کہیں ہر ماہ کی گیارہ تاریخ کو عبد القادر جیلانی کے نام کی نیازیں دی جاتی ہیں اور کہیں 22 رجب کو  امام جعفر کے نام کے کونڈے بھر جاتے ہیں۔

یہاں ایک بات اور بھی قابل غور ہے کہ کیا جن سے یہ لوگ دعائیں کر رہے، سوال کر رہے ہوتے ہیں کیا وہ بھی اس بات پر قادر ہیں کہ ان کی بات پوری کرسکیں ۔ قرآن مجید  میں اللہ تعالیٰ اپنے انبیاء کے بارے میں بھی واضح اعلان  کر رہا ہے کہ وہ اپنے یا کسی اور کے نفع و نقصان کا اختیار نہیں رکھتے :

قُلْ لَّاۤ اَمْلِكُ لِنَفْسِيْ نَفْعًا وَّ لَا ضَرًّا اِلَّا مَا شَآءَ اللّٰهُ١ؕ وَ لَوْ كُنْتُ اَعْلَمُ الْغَيْبَ لَا سْتَكْثَرْتُ مِنَ الْخَيْرِ١ۛۖۚ وَ مَا مَسَّنِيَ السُّوْٓءُ١ۛۚ اِنْ اَنَا اِلَّا نَذِيْرٌ وَّ بَشِيْرٌ لِّقَوْمٍ يُّؤْمِنُوْنَؒ (188)

 [الأعراف: 188]

’’( اے نبی ؐ ) کہہ دیجیے نہیں میں اختیار رکھتا اپنی جان کے لیے کسی نفع کا اور نہ کسی نقصان کا مگر جو اللہ چاہے اور اگر میں جانتا  ہوتا غیب کو یقینا میں بہت حاصل کرلیتا بھلائی سے اور نہ پہنچتی مجھے کبھی کوئی تکلیف ،نہیں ہوں میں مگر ایک ڈرانے والا اور خوشخبری دینے والا ، اس قوم کے لیے جو ایمان رکھتے ہیں‘‘۔

قُلْ اِنِّيْ لَاۤ اَمْلِكُ لَكُمْ ضَرًّا وَّ لَا رَشَدًا (21)

 [الجن: 21]

’’( اے نبی ؐ )کہدا کہ میں تمہارے لئے کسی قسم کے نقصان یا بھلائی کا اختیار نہیں رکھتا‘‘۔

دیکھیں کس وضاحت کیساتھ بیان کردیا گیا کہ نبی ﷺ نہ اپنی ذات کے لئے کسی بھی قسم کے نفع و نقصان کا اختیار رکھتے ہیں اور نہ دوسرے انسانوں کے لئے۔مزید فرمایا گیا :

اِنَّ الَّذِيْنَ تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ عِبَادٌ اَمْثَالُكُمْ فَادْعُوْهُمْ فَلْيَسْتَجِيْبُوْا لَكُمْ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِيْنَ (194)

[الأعراف: 194]

بیشک وہ لوگ جنہیں تم پکارتے ہو اللہ کے علاوہ ،وہ تو بندے ہیں تمہاری طرح، سو تم پکارو انہیں پھر چاہیے کہ وہ جواب دیں تمہیں اگر تمسچے ہو

 یعنی اگر تمہارا یہ کہنا کہ بالکل صحیح ہے کہ یہ مردے تمہاری سنتے ہیں تو بتاؤ تمہیں جواب کیوں نہیں ملتا۔

 اگلی ہی آیت میں بتا دیا کہ یہ جواب کیوں نہیں دے سکتے :

اَلَهُمْ اَرْجُلٌ يَّمْشُوْنَ بِهَاۤ١ٞ اَمْ لَهُمْ اَيْدٍ يَّبْطِشُوْنَ بِهَاۤ١ٞ اَمْ لَهُمْ اَعْيُنٌ يُّبْصِرُوْنَ بِهَاۤ١ٞ اَمْ لَهُمْ اٰذَانٌ يَّسْمَعُوْنَ بِهَا١ؕ قُلِ ادْعُوْا شُرَكَآءَكُمْ ثُمَّ كِيْدُوْنِ فَلَا تُنْظِرُوْنِ (195)

 [الأعراف: 195]

’’کیا ان کے پاؤں ہیں، جن سے وہ چلتے ہوں یا ان کے ہاتھ ہیں جن سے پکڑتے ہوں، یا ان کی آنکھیں ہیں جن سے دیکھتے ہوں یا ان کے کان ہیں  جن سے سنتے ہوں ؟ آپ ان سے کہئے کہ اپنے سارے شریکوں کو بلاؤ اور میرا جو کچھ بگاڑ سکتے ہو بگاڑو اور مجھے مہلت بھی نہ دو ‘‘۔

وَ الَّذِيْنَ يَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ لَا يَخْلُقُوْنَ شَيْـًٔا وَّ هُمْ يُخْلَقُوْنَؕ( 20) اَمْوَاتٌ غَيْرُ اَحْيَآءٍ١ۚ وَ مَا يَشْعُرُوْنَ١ۙ اَيَّانَ يُبْعَثُوْنَؒ (21)

[النحل: 20-21]

’’ اور لوگ جنہیں پکارتے ہیں اللہ کے علاوہ ( انہوں نے ) کوئی چیز نہیں پیدا کی بلکہ وہ خود پیدا کے گئے ہیں، مردہ ہیں، زندگی کی رمق بھی نہیں، اور انہیں تو یہ شعور بھی نہیں کہ کب زندہ کرکے اٹھائے جائیں گے‘‘۔

يُوْلِجُ الَّيْلَ فِي النَّهَارِ وَ يُوْلِجُ النَّهَارَ فِي الَّيْلِ١ۙ وَ سَخَّرَ الشَّمْسَ وَ الْقَمَرَ١ۖٞ كُلٌّ يَّجْرِيْ لِاَجَلٍ مُّسَمًّى١ؕ ذٰلِكُمُ اللّٰهُ رَبُّكُمْ لَهُ الْمُلْكُ١ؕ وَ الَّذِيْنَ تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِهٖ مَا يَمْلِكُوْنَ مِنْ قِطْمِيْرٍؕ (13)

 [فاطر: 13]

’’  ( وہ رب ) داخل کرتا ہے رات کو دن میں اور داخل کرتا ہے دن کو رات میں،  اور مسخر کر رکھا ہے  سورج اور چاند، چلے جارہے ہیں سب ایک طے شدہ وقت تک کے لئے ،یہی ہے تمہارا رب اسی کی باشاہی ہے اور لوگ جنہیں پکارتے ہیں اس ( اللہ ) کے علاوہ، وہ قطمیر کے بھی مالک نہیں‘‘۔

بتایا کہ وہ رب جو تمہیں ایک ایک نعمت سےنواز رہا ہے وہ ہر ہر چیز کا خالق ہے اور دوسرےکسی بھی چیز کے خالق نہیں بلکہ مخلوق ہیں۔ یعنی وہ مختار کیسے بن گئے وہ تو خود ہر ہر بات میں اللہ کے محتاج ہیں۔ اور تمہارا رب تو وہ ہے جو کائنات کا سارا نظام چلا رہا ہے، ہر چیز پر اس کی بادشاہی ہے ، یہ سارا نظام شمسی اسی نے قائم کیا ہے اور اس رب کو چھوڑ کر جنہیں تم اپنی فریادوں کے لئے پکار رہے ہیں وہ تو قطمیر ( کھجور کی گھٹلی پر چڑھا ہوا غلاف ) کے بھی مالک نہیں۔

اَفَمَنْ يَّخْلُقُ كَمَنْ لَّا يَخْلُقُ١ؕ اَفَلَا تَذَكَّرُوْنَ (17)

[النحل: 17]

’’ کیا جو پیدا کرتا ہے اس طرح ہو  سکتا ہے جو کچھ نہیں پیدا کرتے،کیا تم غور و فکر نہیں کرتے ‘‘۔

 یعنی انہوں نے خالق و مخلوق کا فرق ہی ختم کردیا ۔اللہ سے بھی دعائیں جو اس کائنات کا تنہا خالق ، اس کائنات کا پورا نظام چلانے والا، ہر قسم کا رزق پیدا  کرنے والا اور ان سے بھی دعائیں ان سے بھی خوف جو کچھ نہیں پیدا کرتے۔ سوچیں انسانوں میں سے کیا کسی نے اناج کا ایک دانہ بھی پیدا کیا ؟   کیا کسی نے سمندر، یہ ہوائیں بنائیں کہ  اس کا ان پر کنٹرول ہو اور وہ تمہیں اس سے بچا سکے۔غور و فکر کرو اور خالق و مخلوق کے فرق کو پہچانو۔ یہ سب کچھ اللہ نے دیا ہے اس لئے اس ہی کا حق ہے کہ شکر گزاری اسی کی جائے۔ دوسروں کی حیثیت بھی سامنے آ چکی ہے کہ وہ ان تمام کاموں میں سے ایک کام بھی  کرنے کا اختیار نہیں رکھتے ۔اب  انہیں اللہ کی اس صفت میں برابر کردینا  اور سمجھنا کہ ان کاموں میں وہ بھی اختیار رکھتے ہیں شرک فی اختیار ہے۔

          کتنا عجیب معاملہ ہے کہ کوئی ٹیم جیت کر آتی ہے تو علی ہجویری کی قبر  پر حاضری دیتی ہے، سوچیں عزت اور کامیابی دینے والا کون ہے؟ کسی کو اقتدار ملتا ہے تو وہ آکر قبر پر پھول کی چادر چڑھاتا ہے جیسے اقتدر دینے والی اللہ کی ذات نہیں یہ دفن شدہ  شخصیت ہے ۔ مذہب کے نام پر جمہوریت اپنانے والی جماعتیں اپنی الیکشن مہم کا آغاز مردہ افراد کی قبروں کی زیارت سے شروع کرتی ہیں۔یہ سب مشرکانہ اعمال ہیں، اللہ ان سے بچا کر رکھے۔